ٹاپک 4 :سنتِ نکاح اور باطل


💥ہنٹ 1: نکاح ایک سنت ہے
شادی بیاہ صرف ایک رسم نہیں بلکہ نکاح ایک سنت ہے۔ اس سنت کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے ان تمام شرائط اور پابندیوں کو لاگو نہیں کیا جن کی وجہ سے عام طور پر شادی بیاہ کا معاملہ آج کل دیر سے طے پاتا ہے۔
بے تحاشا اخراجات، بے شمار رسمیں اور لاتعداد رواجوں کی وجہ سے ماں باپ لڑکی کی شادی وقت پر کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ دوسری جانب کیرئیر بنانے کی دھن، معاشی بوجھ، گھریلو ذمہ داریاں وغیرہ بھی اس سنت کو وقت پر ادا کرنے کے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں۔ لمبی چوڑی شاپنگ ،مطالبات ، فرمائشیں سب ہی تھوڑا تھوڑا کر کے اس مسئلے کو زیادہ بڑا بنا دیتی ہیں۔ نہ چاہنے کے باوجود معاملہ طول پکڑ تا جاتاہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺنے ارشاد فرمایا تین آدمیوں کی امداد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ واجب کر لیا ہے
(1) وہ مکاتب جو بدل کتابت ادا کرنا چاہتا ہو
(2) وہ نکاح کرنے والا شخص جو کہ اس مقصد سے نکاح کرے کہ وہ گناہ سے بچا رہے
(3) اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا شخص۔ (سنن نسائی)
لڑکا یا لڑکی دونوں کی شادی کا معاملہ وقت پر طے ہونے سے بہت سی قباحتوں کو جڑ سے بھی ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سنت پر صحیح وقت پر عمل کرنا تمام معاشرے کیلئے خیر و بھلائی کا بائث ہے۔
باطل کا کام ہی ہماری زندگیوں میں بگاڑ پیدا کرنا ہے اسی لئے نکاح کے حوالے سے بھی رکاوٹیں ڈال کر اپنا کام بخوبی کرتا جاتا ہے۔

💥ہنٹ 2: بے تحاشا اخراجات، بے شمار رسمیں
حضرت ابو العجفاء سلمیؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ہمارے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا خبردار عورتوں کے بھاری بھرکم مہر مت ٹھہراو کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں بزرگی اور اللہ کے نزدیک پرہیز گاری کا سبب ہوتی تو رسول اللہﷺ اس کے زیادہ حقدار تھے مگر آپﷺ نے بارہ اوقیہ سے زائد مہر نہ اپنی کسی بیوی کا باندھا اور نہ کسی بیٹی کا۔ (سنن ابو داﺅد)
جب حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی توحضورﷺ نے فرمایا مہر میں دینے کے لیے تمہارے پاس کچھ ہے؟
آپؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ کچھ نہیں ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا میں نے تم کو جو زرہ بطور اسلحہ کے دی تھی اس کا کیا ہوا؟ وہ زرہ قبیلہ حطمہ بن محارب کی بنائی ہوئی تھی اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں علی کی جان ہے اس کی قیمت چار درہم نہ تھی۔ آپؓ نے کہا وہ میرے پاس ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا میں نے فاطمہؓ سے تمہاری شادی کر دی ہے۔ تم وہ زرہ فاطمہؓ کو بھیج دو اور اسی کو فاطمہؓ کا مہر سمجھو۔ بس یہ تھا رسول اللہﷺ کی بیٹی فاطمہؓ کا مہر۔ (البدایہ والنہایہ)
اسلام نے نکاح کی سنت کو بہت ہی سادہ اور آسان بنایا تھا.
باطل ہمارے دل میں دنیا کی چاہتیں بھر کر ہمیں دنیا کا غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے اسی لئے نکاح کو اس قدر مشکل بنا دیا ہے کہ جب تک ہماری خواہشات پوری نہ ہوں تب تک یہ سنت ادا نہ کر سکیں۔

💥ہنٹ 3: امانت میں خیانت
حضور اکرمﷺنے فرمایا : نوجوانوں کی جماعت ! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لئے مالی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔ (صحیح بخاری)

اس حوالے سے اگر جائزہ لیں تو جن مشکلات یا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں ایک تو یہ ہے کہ جب فطری اور بشری تقاضے وقت پر پورے نہ ہوں تو کوئی نہ کوئی ایسی راہ نکل آتی ہے جسے اپنا کر ہم اصل میں نقصان کی طرف پیش قدمی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اللہ نے ہمیں اپنی زندگی اور جسم و جان ایک امانت کے طور پرسونپے ہیں مگر اب ہم باطل کی دکھائی ہوئی اسی طرح کی غلط راہوں کو اختیار کر کے اپنی اس امانت میں خیانت کرنے لگتے ہیں۔ جسم کے اعضاءقیامت کے روز گواہی دیں گے اور ایک ایک عمل آج بھی اللہ کی نظر میں ہے اور روزِقیامت اس کا حساب بھی دینا ہو گا۔
باطل ہمیں اپنے شکنجے میں پھنسا کر اس حقیقت کو بھلا دیتا ہے اور ہم سے اپنی مرضیاں کراتا ہے۔



ٹاپک 4 :سنتِ نکاح اور باطل

💥ہنٹ 4: شادی کے معاملہ کو وقت پر نمٹانے کی بات
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جائز طریقے سے اپنے شادی کے معاملہ کو وقت پر نمٹانے کی بات کرے تو اس کو بے شرمی پر محمول کیا جاتاہے۔
اب جب اس طرح سے القابات سے نواز کر معاملہ ٹھپ کر دیا جائے تو باطل کی طرف سے چور دروازے خود بخود کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! کیا عورتوں سے ان کے نکاح کے سلسلہ میں اجازت لی جائے گی؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا لیکن کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی تو وہ شرم کی وجہ سے چپ سادھ لے گی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔ (صحیح بخاری)
ہم جائز طریقے سے اس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے خود ہی بچوں کو مجبور کرتے ہیں کہ غلط راستہ اختیار کریں اور پھر سر پکڑ کر روتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس میں تمام قصور بچوں کا ہی نہیں ، والدین کا بھی ہوتا ہے جو اس طرح کے معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے معاملہ کو دبا کر سمجھتے ہیں کہ معاملہ کا حل نکل آیا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاملہ کا دب جانا اتنی ہی شدت سے جذبات کو ابھارے گا اس کے باوجود کج فہمی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں۔ اگر ہم اس وقت فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی درمیانی راہ نکالیں جس پر چل کر نہ تو گھریلوذمہ داریاں نظر انداز ہوں ،تعلیم کے عمل میں بھی خلل نہ آئے بلکہ وقت پر تمام ا مور انجام پائیں تو یہ ہر ایک کے حق میں بہتر ثابت ہوسکتاہے۔
باطل مردانگی کے مظاہرے پر اکساتا اور ایسے عمل کرنے پر مجبور کرتا ہے جس میں کسی صورت ہماری بھلائی نہ ہو۔

💥ہنٹ 5: والدین سے پوچھ ہو گی
آج کل جب کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیت کے ذرائع ہر طرح کے مواد فراہم کر رہے ہیں۔اور ایسے میں ہر لمحہ نظر رکھنا بھی ممکن نہیں رہا ، اچھا یہی ہے کہ بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچانے کےلئے اگر جائز طریقے سے خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش ممکن ہو تو اس میں دیر نہ کی جائے۔
والدین کی اپنے بچوں کے حوالے جو بھی چاہتیں ہوتی ہیں وہ ان کے مطابق بر ڈھونڈتے ڈھونڈتے مواقع گنواتے ہیں اور اس کا بوجھ بھی ظاہر ہے انہی پر آئے گا کیونکہ وہ اپنی خواہشات کے نتیجے میں اپنے فرض سے غفلت برتتے چلے جاتے ہیں۔ والدین کی ذاتی خواہشات کئی طرح سے بربادی کا سبب بنتی ہیں۔ ایک طرف اولاد کے غلط راستے پر جانکلنے کا امکان ہوتا ہے اور دوسری طرف ایک بار غلط راہ اپنا لینے کے بعد جب کہیں مناسب رشتہ تعلق قائم ہو بھی جائے تو اب وہ اپنے اس رشتے کی ذمہ داریاں بہترین طریقے سے ادا نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے فریقین کی زندگی جہنم کا نمونہ بن کر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا یہاں والدین بھی اپنا جائزہ لیں اور فیصلہ کرنے میں دیر فقط اپنی خواہشات کی وجہ سے نہ کریں تاکہ اس دیر کی وجہ سے نقصان نہ دنیا میں اٹھانا پڑے اور نہ آخرت کی پوچھ گچھ جھیلنی پڑے۔
باطل چور دروازوں سے ہماری زندگیوں میں داخل ہونے کی پوری کوشش میں ہے۔ اس سے محتاط رہ کر اللہ کی عائد کردہ ذمہ داریاں وقت پر ادا کرنا ضروری ہے۔


💥ہنٹ 6: ذاتی پسند نا پسند
سنت نکاح پر عمل میں دیر کا سبب بہت سے کیسز میں والدین یا خود بچوں کی ذاتی پسند، سٹینڈرڈ بھی ہوتا ہے۔ جو رشتہ بھی کسی کے گھر آئے وہ اصل میں اللہ کا انعام اور رحمت ہوتی ہے مگر ہم ظاہری دنیا کی دولت، سٹیٹس وغیرہ کو دیکھتے رہتے ہیں اوراسی کو معیاربنالیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دینی حالت تمہیں پسند ہو تو اس کا نکاح کر دو اور اگر نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا بگاڑ ہو گا(ابن ماجہ)
بعض اوقات والدین ذاتی پسند نا پسند کی دیوار کھڑی کر دیتے ہیں۔
اور کبھی بچوں کی بے جا ضد کی وجہ سے بھی وقت پر رشتے طے نہیں ہو پاتے۔ پرفیکٹ میچ کی تلاش میں پڑ کر وقت ضائع کر دیتے ہیں۔
باطل یہ نہیں سمجھنے دیتا کہ اصل مقصد نکاح کی سنت کو ادا کرنا ہے۔ یوں کبھی اولاد نادانی کرتی ہے اورکبھی ہم اولاد کے ارمانوں کا بھی گلا گھونٹ دیتے ہیں۔
باطل یہ نہیں سمجھنے دیتا کہ عقل مندی تو یہی ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرکے مناسب رشتہ ملنے پر یہ فرض ادا کر دیا جائے تا کہ باطل کے حلق کا نوالہ بننے سے بچ سکیں۔


💥ہنٹ 7: دین کو ترجیح
لڑکی اور لڑکے کے ماں باپ کی اپنی سوچ اور زاویہ نظر ہوتا ہے۔عام طور پر بیٹے کی شادی کا معاملہ ہو توپہلا خیال دماغ میں چاند سی دلہن کا ہی آتا ہے جب کہ ہمیں یہ دعا کرنی چاہےے کہ لڑکی وہ ملے جو ہمارے لیئے ،ہمارے گھر اور آنے والی نسلوں کے لےے مبارک ثابت ہو۔ صرف یہ دعا نہ کی جائے کہ خوبصورت لڑکی ہی مل جائے۔ بے شک صورت بھی دیکھو مگرزیادہ ترجیح سیرت کو دو۔لڑکی کے ماں باپ بھی اچھے گھر باراور ہر طرح سے مستحکم پوزیشن والے داماد کی تلاش کرتے ہیں۔اگر ایسا بر ملے تو شکر کریںمگر اس انتظارمیں ہی لڑکی کو بٹھائے رکھنا ٹھیک نہیں ہوتا۔یہاں اپنا زاویہ نظر بدل کر باطل کو شکست دیں اور یہاں اس معاملے کو بھی اللہ سے جوڑ لیںکہ وہ جو اور جب کرے گا وہی ہمارے لیئے بہترین ہوگا۔اس طرح ایک اچھا فیصلہ اللہ پر توکل کر کے کر پائیں گے۔ا ن شاءاللہ۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا عام طور سے نکاح چار وجوہ سے کیا جاتا ہے مال کی وجہ سے حسب کی وجہ سے حسن کی وجہ سے اور دینداری کی وجہ سے پس تو دیندار عورت کو ترجیح دے (اگر تو نے دین کو ترجیح نہ دی تو) تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں(سنن ابو داﺅد)
باطل دین کو ترجیح دینے کے بجائے دنیاوی طلب پوری ہونے پر ہمیں مطمئن رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 8: مسبب الاسباب سے مدد نہیں مانگتے
ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہی حکم نہیں ہوا اسی لیئے یہ معاملہ طے نہیں پایا۔ سچ یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں عقل دی ہے جسے استعمال کر کے ہم نے خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم خود ہی راستہ نظر آنے اور سبب بننے کے باوجود اس کو نہیں اپنائیں گے تو یہ ہماری اپنی غلطی ہی ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم یہاں مسبب الاسباب سے مدد نہیں مانگتے بلکہ سبب پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں خصوصاً نظر ظاہری اسباب پر ٹکی رہتی بہترین ہے۔ جبکہ اگر ہم کسی بھی معاملے میں مسبب الاسباب سے دل کا رابطہ بنا کر اسی سے مدد ہوتے ہیں اور ہمارے لئے آسانی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم ظاہری تعلقات، میل جول، رکھ رکھاﺅ کو ہی اس معاملے کے نمٹنے کےلئے ضروری جانتے ہیں۔ ا پنی ہی کوششیں کر کے بر ملانے کی چاہت بھی ہوتی ہے مگر کہیں اللہ سے سچائی سے مدد نہیں مانگتے۔ اسی لیئے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ بہترین یہ ہے کہ اللہ سے مدد مانگ کر جو بھی اسباب میسر آئیں اور جو راستہ کھلے اسے اپنا کر فیصلہ کیا جائے۔
باطل ہمیں اپنی کوشش پر یقین رکھ کر اللہ سے مدد مانگنے سے دور رکھتا ہے۔


💥ہنٹ 9: دنیا والوں کی نظر میں اپنا امیج
بعض اوقات لوگوں کی رائے اور ان کی نظر میں قائم ہمارا بھرم بھی ہمیں دیر پر مجبور کرتا ہے۔ ہم لوگوں سے ہمیشہ واہ واہ اور تعریف وصول کرنا چاہتے ہیں اور پھر اسی کی خاطر اس فرض کو ان کی رائے کے مطابق ہی پورا کرنے کی کوشش میں تباہی کا سامان کر لیتے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ ہمارے لئے تعریف کی بجائے اپنے بچوں کی زندگی زیادہ اہم ہے تو امید ہے کہ فیصلہ بروقت اور بہترین کر پائیں گے۔
باطل ہی دنیا والوں کی نظر میں اپنا امیج قائم کرتے کرتے ہمیں غلطیاں کرنے پر مجبور کرتا ہے جس کا خمیازہ کبھی کبھی نا قابل تلافی نقصان کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے جب وہ غلط کاریوں میں پڑ جائیں۔ ایسے مسائل سے بچنے کے لیئے بہتر ہے کہ وقت پر شادی کا فیصلہ کر لیا جائے۔ یوں سنت بھی پوری ہو جائے گی اور ہمارے بچے بھی نقصان سے بچ جائیں گے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺجب کسی کو شادی کی مبارک باد دیتے تو یوں دعا دیتے اللہ تجھ کو برکت دے اور تجھ پر برکت نازل کرے اور تم دونوں کو بھلائی کی توفیق دے۔ (سنن ابو داﺅد)
دنیا میں تعریف کرانے کے پردے میں باطل ہماری آخرت تباہ کرنے کا کھیل کھیل رہا ہوتا ہے۔