ٹاپک 5 :صحبت اور باطل


💥 ہنٹ 1: صحبت کا اثر
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس ہر ایک دیکھ لے کہ کس سے دوستی کرتا ہے۔(سنن ابو داﺅد)
آدمی اپنی صحبت سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ جیسی محفل میں اٹھنا بیٹھنا ہو ، ویسی ہی عادات وا طور اپنائی جاتی ہیں۔ صُحبت کا اثر آدمی کی شخصیت پر ، اس کے ظاہر و باطن پر نمایاں نظر آتا ہے۔ اپنے دوست احباب اور ہمنوا ہی یا تو ہمیں اپنے ساتھ لے ڈوبتے ہیں اور یا پھر زندگی کو ہموار راستہ پر آگے بڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔
بری صحبت کے ذریعے باطل ہمیں اور ہمارے بچوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے۔ یہ ہمیں اس بات پر خاص توجہ دینے نہیں دیتا کہ ہم اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ ان کی دوستی کن کے ساتھ ہے؟ وہ کیسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کا زیادہ وقت کہاں اور کیسے گزرتا ہے؟ یہ سب جاننا بے حد ضروری ہے کیونکہ بہت حد تک ا سی پر بچے کی شخصیت کے سنورنے یا بگڑنے کا انحصار ہے۔ ایسی عمر میں جبکہ اسے اپنے اچھے بُرے کی پہچان اور دوست دشمن کی تمیز نہیں ہوتی اس وقت باطل اپنا کھیل کھیلتا ہے۔ والدین کو مطمئن کر کے رکھتا ہے کہ بچہ تو ابھی چھوٹا ہے، ابھی اس طرح کی دیکھ بھال کی کیا ضرورت۔
اس طرح باطل اپنے شکار کی برائی کے رستے پر چلانے کی بنیاد مضبوط کرتا ہے۔

💥 ہنٹ 2: مشاغل
والدین یہ بھی نظر رکھیں کہ بچوں کے مشاغل کیا کیا ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کھلا پیسہ دینا بھی غیرصحتمندانہ سرگرمیوں کا حصہ بننے میں مدد کرتا ہے۔ باطل پیسے کو ہتھیار بنا کر بہت چالاکی سے استعمال کرتا ہے۔
بعض دفعہ بچوں کی دوستی اپنی عمر سے بڑے افراد سے ہو جاتی ہے۔ ایسے میں وہ ان تمام باتوں سے وقت سے پہلے ہی آگاہ ہو جاتے ہیں جن کا جاننا ابھی ضروری نہیں ہوتا۔ اس طرح باطل معصوم بچوں کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔ اب وہ چاہے ان کے معصوم ذہنوں میں شیطانی خیالات بھر کر ایسا کرے یا انہیں عملاََ غلط راہ پر لگا کر اپنے عزائم پورا کرے۔
گھرمیں نوکروں کی فوج کی موجودگی میں بھی بچہ کو ایسا ماحول اور حالات میسر آنے کے چانس ہوتے ہیں کہ ان کا بچپن وقت سے پہلے رخصت ہو جائے۔اور ان سے بچپنے کی حرکات کی بجائے کچھ ایسا سر زد ہونے لگے جس کی اس عمر میں بچوں سے امید نہ ہو۔
بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ انکو جو راہ دکھائی جائے وہ اس راہ پر چل پڑتے ہیں۔ عمر کے ہر حصے میں بچے کو والدین کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
والدین کو دنیا داری میں الجھا کر انکو اپنی اولاد پر توجہ دینے کی ذمہ داری سے بے پرواہ کر دینا باطل کا ہی وار ہے۔
باطل اس طرح والدین اور بچوں میں دوری پیدا کر کے انکو تباہی کے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔

💥 ہنٹ 3: والدین کا طرز زندگی
والدین کا طرز زندگی بچوں کے کردار پر گہرائی سے اثر انداز ہوتا ہے۔
اچھی محفل کا چناﺅ اور درست صُحبت کا انتخاب کرنا بڑوں کےلئے بھی اسی قدر اہم ہے جتنا کہ ان کے معصوم بچوں کےلئے ہوتا ہے۔ بچے والدین کو جس طرح کے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا دیکھتے ہیں اسی طرح کے لوگوں کی عادات اپنانا صحیح سمجھتے ہیں۔
بعض اوقات والدین کی روٹین ایسی ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔ اسی لیے کبھی موبائل، انٹرنیٹ، کبھی ٹی وی، گیمز وغیرہ دے کے وقت گزارنے کے مواقع اور ذرائع مہیا کرتے ہیں۔ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں۔ اچھا ہے کہ ان کے دل میں اللہ کا احساس آشنائی اتنا بیدار کردیں کہ وہ ان تمام ذرائع کا استعمال اللہ کے راستے پر آگے بڑھنے کےلئے کر سکیں۔یا پھر انہیں ان سب ذرائع سے تب تک دور رکھیں جب تک ان کے دل میں احساس آشنائی نہ اتر جائیں تاکہ وہ غلط راہ اپنانے سے بچ سکیں۔
باطل والدین کے طرز زندگی کے ذریعے بچوں کے اندر داخل ہوتا ہے۔ انکے دل و دماغ کو اپنی چاہ کے مطابق ڈھال کر اپنا کام پورا کرتا ہے۔

ٹاپک 5 :صحبت اور باطل

💥 ہنٹ 4: فراغت کے لمحات
اور اپنے رب کی طرف راغب ہو جایا کریں۔(الانشراح:۸)
فارغ ہونے سے مراد اپنے مشاغل سے فارغ ہونا ہے۔ حکم کا منشا یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو اپنا فارغ وقت عبادت کی ریاضت و مشقت میں صرف کرو اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاو۔
زندگی کے حالات و واقعات سے فارغ ہو کر یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم کوئی ایسا کونہ ڈھونڈتے ہیں جہاں اپنے پسندیدہ افراد کے ساتھ ، بنا کسی روک ٹوک یا ٹینشن کے چند گھڑیاں اپنے تئیں سکون سے گزار سکیں۔
اب باطل اس کوشش میں ہوتا ہے کہ جہاں چند لوگ مل بیٹھے ، جلد ہی بات چیت کا رخ کسی ایک فرد، گروپ یا خاندان کی طرف موڑ کر اس فراغت کے وقت کو گناہوں کا بوجھ اکٹھا کرنے میں لگا دیتا ہے۔
باطل کی زد میں آ کر ہم غیبت اور چغلی کودل کا بوجھ ہلکا کرنے کا نام دے لیتے ہیں۔ جن پر ہم اعتماد کرتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے اپنے ہیں اور ان کے سامنے اپنے دل کا حال کہہ کے بوجھ ہلکا کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔
اس وقت دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جاتا ہے مگر ہمیں باطل یہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ اعمال کا بوجھ تو بڑھتا چلا جا رہا ہوتا ہے۔
چند دنوں کی زندگی کا وقتی لطف و مزہ اٹھانے کےلئے ہم کسی کی کردار کشی سے بھی باز نہیں آتے۔
گڑھے مردے اکھیڑتے، بخیئے ادھیڑتے اور اس کی بے عزتی کی ٹھان کر ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جانے کو نہ تو غلطی سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس پر شرمندہ و نادم ہوتے ہیں۔
وہ تمام راز جو بھلے وقتوں میں کسی نے ہم سے کہے ہوتے ہیں وہ بھی ایسے غیبت چغلی سیشن کے دوران افشا کر دیے جاتے ہیں۔
اس وقت شیطان کی گرفت ہمارے دماغ پر اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ وہ ہماری لگامیں جس طرف کھینچے ہمیں اسی طرف مڑتے جاتے ہیں۔ اس کے حکم کو ایک غلام کی طرح مانتے ہوئے اپنے چند اچھے عملوں کی جمع پونجی بھی لٹاتے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت شیطان یہ بھی سمجھنے کی مہلت نہیں دیتا کہ یہ جمع پونجی پہلے ہی بہت زیادہ نہیں کہ اب اس کو لٹانے چلے ہیں۔
باطل اس طرح ہماری فراغت کو ہتھیار بنا کر ہماری آخرت کی تباہی کی راہ ہموار کرتا ہے۔

💥 ہنٹ 5: دوستی اور محبت کے پردے میں شیطان کی کھلی دشمنی
بظاہر جو لوگ ہمیں ہمدرد ساتھی نظر آتے ہیں ان کے ساتھ ہماری دوستی کے پردے میں شیطان کی کھلی دشمنی ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے اکسانے پر ہم دل میں اللہ کے بندوں کےلئے نفرتیں پالتے ہیں اور کینہ رکھتے ہیں۔
برسوں پرانے تعلقات میں جن وجوہات کی بنا پر دراڑ آئی ہوتی ہے وہ وجوہات بھی اسی قسم کی بیٹھک میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے بھلا ئے نہیں بھولتی ہیں۔
شیطان ہمارے سوئے ہوئے جذبات اور بھڑکاتا ہے۔ ہمیں طیش دلاتا ہے کہ ہم کسی کو نہ تو معاف کر سکیں اور نہ ہی پھر روز حشر خود اپنے لیئے اللہ سے معافی کے طلبگار بن سکیں۔
بار بار ہمیں ایسی محفل میں کر ید کرید کرزندگی کے گزشتہ واقعات کے بارے میں پوچھاجاتا اور پھر ان پر ہمدردی کا اظہار کر کے ہمیں مظلومیت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ہم خود ساختہ خول میں جکڑے اور غلط فریبی کا شکار ہوتے ہیں کہ جیسے ہم نے جو کچھ زندگی میں سہا اور برداشت کیا وہ ظلم کی آخری حد تھی۔ شیطان اپنی باتوں کے ذریعے ہمارے اندر مظلومیت کا ایک زہر بھرتا جارہا ہوتا ہے۔ اور محفل کے اختتام پر کسی فرد، خاندان یا دوست احباب کے لئے ایسے منفی جذبات ابھر چکے ہوتے ہیں کہ شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں رہتا۔ اس طرح بظاہر ہمارے پیارےہماری دلجوئی کر رہے ہوتے ہیں لیکن در حقیقت باطل انہیں اپنا ہتھیار بنا کر ہمیں گناہوں کے بوجھ تلے دبانے کی تیاری مکمل کر رہا ہوتا ہے۔

💥 ہنٹ 6:
ہم اپنے ہی اعمال کے سبب تکالیف اور پریشانیاں اٹھاتے ہیں اور یہی بات ایسی صحبتوں میں بیٹھ کر ہم سمجھ نہیں پاتے۔
ہم جن لوگوں کو اپنے حالات کا موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اگر ان کی بجائے خود پر نظر کر یں تو حالات سنور سکتے ہیں مگر شیطان ہمیں ایسا کرنے نہیں دیتا۔ ہم نہیں سمجھ پاتے کہ ہم جن سے ہمدردیاں سمیٹنے کے لیئے یہ محفلیں سجاتے ہیں اور باقاعدہ ٹائم مقرر کر کے ایسی صحبتوں کے مزے لیتے ہیں ، نہ تو ان کی ہمدردیاں ہمیں روز محشر کسی کام آئیں گی اور نہ یہ صحبتیں ہمارے لیئے کسی طرح سے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گی۔
ایسی محفلوں سے اجتناب ہی اچھا ہے جس کی وجہ سے ہم اللہ کے احساس سے غافل ہوجائیں اور یوں نہ دنیا کی بھلائی پاسکیں نہ ہی دین کی۔
اگر ہماری صحبت ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو ہمارے ہر معاملے کو ہماری آخرت کی کامیابی کے حوالے سے دیکھ کر ہمیں مشورہ دیتے ہیں تو یہی مخلص دوستی اور رشتہ ہے۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اپنی صحبت کے بارے میں محتاط ہونا ضروری ہے۔ لیکن باطل یہیں اپنی چال چلتا ہے۔ ہم سچائی سے دیکھیں تو ہم انہی کی صحبت پسند کرتے ہیں جو ہماری ذات کی تسکین کا سبب بنیں۔ جو ہمیں ہماری غلطی دکھانے کی بجائے باقی سب کو برا کہیں۔
اس طرح باطل ہمیں غلطی جان کر اصلاح کی جانب بڑھنے سے روک دیتا ہے اور ہمیں مزید خسارے میں دھنسانے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔

💥 ہنٹ 7: زندگی کااصل مزہ
زندگی کا مزہ صرف ایسی ہی سر گرمیوں میں نہیں جو ہم ان محفلوں میں دیکھتے ہیں۔ اس کا اصل مزہ اللہ سے اپنا سب سے انوکھا ،الگ اور منفرد رشتہ بنانے کی کوشش میں ہے۔ اس کوشش کو آخری سانس تک جاری رکھنے میں ہے۔ خود کو اللہ کی نظر میں محسوس کرتے ہوئے اس کی خوشی کےلئے کچھ اچھاکرنا اور کچھ برا چھوڑنے میں جو مزہ ہے وہ کسی اور شے میں نہیں ہے۔ زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کا پیار محسوس کرنا، اس کے ہر فیصلے کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش اور دل سے اس کو قبول کرنا بھی مزہ دیتا ہے۔ اس کی قدرت کے کمال دیکھنا، اس کی طاقت پر یقین رکھنا اور زندگی کے ہر محاذپر اسی کے سہارے شیطان سے لڑ جانا بھی مزہ دیتا ہے۔ اور اسی سب کا مزہ اٹھانے سے محروم رکھنے کےلئے باطل ہماری توجہ ایسی محفلوں پر مبذول رکھتا ہے جہاں صرف اور صرف اللہ کے ناپسندیدہ کام سر انجام دیے جائیں۔ وہ ہمیں کسی ایسی محفل کا حصہ بننے نہیں دیتا جہاں سے ہم کچھ سیکھ سکیں جو ہمارا دین و دنیا سنوارنے کے کام آسکے۔ کوئی بھی موقع ہو شیطان ہمیں گھیر گھار کے ایسی باتوں میں الجھا ہی دیتا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ان باتوں کا ایک ایک لفظ اور حرف ہمارے اعمال نامہ میں درج ہو رہا ہے۔ اور اگر اللہ کے ہاں اس کا حساب کتاب ہونے لگا تو رائی کے برابر عمل پر بھی پکڑ ہو سکتی ہے۔
باطل ہمیں اللہ کے احساس سے غافل کر کے بے خوف و خطر کر دیتا ہے کہ جو چاہے بولتے، جوچاہے کرتے پھریں۔ اللہ نے ہمیں سمجھ بوجھ عطا کی ہے کہ اپنے لیئے اچھی محفل اور صحبت کا چناﺅ کر سکیں مگر اس کے باوجود ہم نادانی سے کام لیتے ہیں جس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
باطل اس سمجھ بوجھ کو استعمال نہیں کرنے دیتا تاکہ ہم زندگی کے اصل مزے کو محسوس ہی نہ کر سکیں اور اسکے اشاروں پر ناچتے ہوئے ناکامی کے کنارے پر جا پہنچیں۔



💥 ہنٹ 8:
دوستی کے نام پر جوشی کے موقع پر بھی باطل اپنی غلامی کروانا نہیں بھولتا۔
شادی بیاہ ہو کہ کوئی اور خوشی کا موقع ، ہلڑ بازی ، غل غپاڑہ ، موج مستی وغیرہ ان مواقع کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ جو ان سب سے بچنے کی کوشش کرے اسے گھسیٹ کر میدان میں اتار ا جاتاہے۔ بزدلی اور کم ہمتی کے طعنے بھی دیے جاتے ہیں۔
کوئی یہ نہیں سوچتا کہ خوشی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے ری ایکٹ کریں جیسے کہ دنیا میں ہمارے علاوہ کوئی نہیں بستا۔ نہ کسی کے آرام کا خیال رہے نہ سکون کی فکر ہو۔
کسی خوشی کے اظہار کے مہذب طریقے اپنانے میں کوئی حرج نہیں مگر اس خوشی کے موقع سے لطف اندوز ہونے کےلئے شیطان کا حکم مان کر اللہ کے حکم سے پیٹھ پھیرلینا درست نہیں۔ ہر خوشی ، حدود میں رہ کر منانا ہی بہترین ہے۔ اللہ نے اس سے کہیں منع نہیں فرمایا۔ اور اوقات کے مطابق خوشی منانا اپنے پیاروں کو اس خوشی میں شامل کرنا تو اللہ کو بھی پسند ہے مگر ایسے میں اللہ کے احساس سے عاری ہو کر بس دنیا کے کھیل تماشے میں مگن ہو جانا ہی ٹھیک نہیں ہوتا۔ ہماری محفلوں میں ایسا رنگ شیطان ہی بھرتا ہے۔ یہ رنگ و بو کی محفلیں ہمیں بھلا دیتی ہیں کہ ہمیں اپنے حصے کے عمل کا خود ہی جوابدہ ہونا ہے۔وہاں نہ تو یہ دوستیاں کام آئیں گی نہ ایسی محفلیں۔ باطل یہ خیال نہیں ہونے دیتا کہ دوستیوں کے نام پر کی جانے والی نافرمانیوں کا حساب دوست نہیں دیں گے۔
اس طرح باطل ہمیں اپنے ہی ہاتھوں پشیمانی اٹھانے کی جانب دھکیل دیتا ہے۔

💥 ہنٹ 9: صحبت کا اثر
دنیا میں جس سے محبت رکھتے ہو ں گے جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو گا انہی کے ساتھ ہی ہمیں آخرت میں اٹھایا بھی جائے گا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم نے دنیا میں ایسے اللہ کے بندوں سے دوستی اور محبت رکھی جو خود بھی اللہ کے راستے پر ہوں اور ان کی زندگی کا کوئی مقصد بھی ہو جو انہیں زندگی اللہ کے احساس آشنائی کے تحت گزارنے میں مدد دیتا ہو تو قرینِ قیاس ہے کہ ان کی صحبت کے اثرات ہماری زندگی پر بھی نمایاں ہوں گے۔ اور اس صحبت کی برکت سے ہماری زندگی میں اچھی تبدیلیاں آئیں گی جو زندگی کو بہتری کی جانب گامزن کریں گی اور آخرت میں بھی ہماری بھلائی کا سبب ہوں گی۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا :
انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔ (صحیح بخاری)
باطل اسی لئے سر توڑ کوشش کرتا ہے کہ ہمیں اچھی صحبت کی بجائے ایسی صحبت کا عادی بنائے جو دنیا و آخرت میں ہمارےلئے اللہ کی ناراضگی کا سبب بنے۔

💥 ہنٹ 10: آخرت کا امتحان
زندگی امتحان کی جگہ ہے۔ اس امتحان میں کامیاب ہونے میں وہی لوگ مدد کر سکتے ہیں جو اس امتحان کی اہمیت کو خو د بھی سمجھتے ہوں اور ہمیں بھی یہ احساس دلا سکیں کہ اس امتحان میں کامیابی کس قدر ضروری ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ہم نے سکول یا کالج کا کوئی امتحان پاس کرنا ہو تو یہ ترجیح دیتے ہیں کہ ایسے دوستوں کی صحبت اپنائیں جو اس امتحان کی اہمیت اور اس کی تیار ی کا بہترین طریقہ جانتے ہوں۔
ہم اپنی دنیاوی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں مگر افسوس شیطان ہمیں اپنے اصل امتحان کو پاس کرنے کی بہترین کوشش اور آخرت میں اس کے نتائج کی فکر کے قابل بھی نہیں چھوڑتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ہم دنیا پرستی میں مصروف بندوں کی محفل میں بیٹھے رہے تو کبھی اس امتحان کی تیاری نہ کر پائیں گے اور نہ ہی پر چے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں گے۔ اور نہ ہی پھر آخرت میں کامیابی ہمارا مقدر بن سکے گی۔ اسلئے صحبت کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی آخرت کی فکر کو سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے۔
کیونکہ یہی باطل کی خواہش ہے کہ ہم غلط صحبت میں پڑ کر گمراہ ہو جایئں اورآخرت کے امتحان میں ناکام ہو جائیں۔