ٹاپک 6: مزارات اور باطل


💥 ہنٹ 1:
ایسی ہستیاں جو راہ حق پر قدم بڑھاتے ہوئے آخری دم تک حق پرکھڑے رہ کر باطل کو شکست دیتے ہوئے اس دنیا میں سے رخصت ہوں وہ کوئی عام اللہ کے بندے نہیں ہوتے بلکہ ان پر خاص کرم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی ازل سے عطا ہوئی آشنائی اور حق کی قوت کو یہاں اس دنیا میں سنبھال کر رکھا اور اسے ویسے ہی استعمال کیا جیسے کہ اللہ کو پسند ہو۔
جب ایسے اللہ کے بندے اس دنیا سے پردہ کر جائیں تو ان کے زندگی کے اس سفر کا ظاہری اختتام تو ہو جاتاہے مگر ان کا فیض جاری رہتا ہے۔ کوئی بھی بندہ جب ان کے مزار پر جاکے شوق اور ان سے محبت کے احساس میں اللہ سے یہ دعامانگتا ہے کہ جیسے تو نے اس پیار ی ہستی پر کرم کیا ، مجھ پر بھی فرما۔ اور جیسے انہیں اپنی راہ پر چلنے کی قوت اور طاقت عطا فرمائی ایسے ہی ان کے وسیلے سے انہی کی طرح مجھے بھی و ہ طاقت اورجذبہ عطا فرما کہ میں بھی تیری راہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزار سکوں۔ اس طرح سے دعا کرنا ہمیں ان کا فیض بھی عطا کرتا ہے اور اللہ کی طرف سے وہ قوت عطا ہوتی ہے کہ اب ہم اپنے اصلاح کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ فیض دراصل ایک پاور ہے۔ اس پاور سے کام لے کر ہم اپنے فرائض، معمولات اور معاملات کو سیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں زندگی آہستہ آہستہ سنورنے لگتی ہے۔
باطل ہمیں ہدایت کی راہ پر چلنے اور عملی زندگی کو اللہ کی پسند کا بنانے کیلئے اولیا کرام اور اعلی مرتبہ ہستیوں کے فیض کی پاور پر یقین اور اسکی اہمیت کا احساس نہیں ہونے دیتاتا کہ ہم اس سے فائدہ لے کر دو جہان میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

💥 ہنٹ 2: مزارات پر حاضری کا مقصد
امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
حضورﷺ ہر سال شہدائے احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور آپﷺ کے وصال مبارک کے بعد چاروں خلفائے راشدین علیہم الرضوان بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
(تفسیر کبیر)
حضرت عمربن خطابؓ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا :یارسول اللہﷺ! آپﷺ اپنی امت کےلئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہو گئی۔
(کتاب الفضائل)
اہلِ مزار کے حالات زندگی سے واقفیت حاصل کرنے کا شوق دل میں جاگے تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسے کیسے دشوار حالات کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے حق کا علم اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھا اور کس طرح سے اللہ کے حکم اور مرضی کے منافی کوئی عمل نہ خود کیا اور نہ ہی ہونے دیا۔ یوں ہمارے دل میں بھی یہ یقین بڑھتا ہے کہ اگر اللہ کی مدد و نصرت ساتھ ہو تو چاہے سارا زمانہ مخالف ہو جائے ، جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور شکست ازلی دشمن باطل کے حصے ہی آتی ہے۔ اسی لیئے مزارات پر حاضری دینا ہمارے دلوں میں اللہ کے راستے پر چلنے کی چاہت پیدا کرتا ہے۔ اہل مزار سے محبت عمل کے راستے پر گامزن ہونے میں مدد کرتی ہے۔
باطل اسی لئے اپنی چال چل کر ہمیں ان اعلی ہستیوں سے محبت و عقیدت ہی نہیں رکھنے دیتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ انکی محبت کا سچا احساس ہمیں اللہ کا پسندیدہ عمل کرنے کی جانب راہ دکھا کر ہماری کامیابی کا سبب بن جائے گا۔


💥 ہنٹ 3: نذر و نیاز اور لنگر
سورة الدھر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو۔ ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔ (الدھر :۹۔۸)
اسی طرح سے یہ حضورﷺ نے بھی اسکی تائید فرمائی۔
سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی بجا آوری سے میں جنت کا حق دار ٹھہر سکوں۔
اس پر آپﷺ نے فرمایا : ضرورتمند کو کھانا کھلاﺅ۔ سلام کو عام کرو اور صلہ رحمی کرو۔
(ابن حاکم ، مستدرک)

مزارات پر جاری لنگر چند دنوں ، مہینوں یا دہا ئیوں کی بات نہیں بلکہ صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ان لنگر خانوں کے ذریعے بے شمار غریب، نادار اور مفلوک الحال لوگ دو وقت کی روٹی کھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ اطعام الطعام کے فرمان پر عمل درآمد کی ہی ایک بہترین شکل ہے۔ اس سعادت سے اللہ کے پیارے بندے ہی نوازے جاتے ہیں۔
باطل ہمیں اس آشنائی سے محروم رکھتا ہے کہ یہ ہر انسان کے بس کی بات بھی نہیں کہ کوئی یہ سمجھے کہ ہر مالدار آدمی بھوکوں کو کھانا کھلانے والا بن جائے گا بلکہ صرف اللہ کی طرف سے ملی ہوئی توفیق اور اسی کی عنایت سے ہی ایسے وسائل میسر آتے ہیں کہ صدقہ جاریہ کا یہ بابرکت سلسلہ جاری رہ سکے۔
باطل ہمیں اس حوالے سے بھی الجھا کر قیاس آرایوں میں مصروف رکھ کر دل کو منفی احساسات سے گھیرے رکھتا ہے تاکہ کہیں کسی مثبت عمل کے ذریعے ہم بھلائی حاصل نہ کر لیں۔

💥 ہنٹ 4: باطل کا گھناﺅ نا کھیل
اگر ہم ان پیارے اللہ کے بندوں کے مزارات پر جا کر بتائے گئے طریقے اور شوق سے اللہ سے دعا مانگیں تو اللہ اپنے محبوب بندوں کے وسیلے سے ہمیں حق کی پاور عطا بھی کرتا ہے لیکن ان درباروں یا مزاروں پر جاری شیطانی کام اللہ کے بندوں کو ادھر کا رخ ہی نہیں کرنے دیتا کہ نہ کوئی طلب والا ادھر کارخ کرے اور نہ ہی پھر فیض پاکے خود کو اللہ کی پناہ میں دے سکے۔ یہاں جاری یہ شیطانی عمل طلب والوں کو بھی بد دل کر دیتے ہیں اور وہ ادھر کا راستہ ہی نہیں لیتے۔ یہی باطل کا گھناﺅنا کھیل ہے۔ وہ جاہلوں کی جاہلانہ سوچ اور عمل کافائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ اس کھیل میں شریک کر لیتا ہے۔ کہیں پیسہ کمانے کی چالیں چلتے ہیں ، کہیں آنے والوں کو لوٹنے کی کوشش ، کہیں جذباتی بلیک میلنگ کر کے جیبیں ہلکی کرانا، کہیں مکروہ دھندے ،کہیں نا پسندیدہ فعل انہی جگہوں میں پناہ لے کر جاری رکھنا وغیرہ وغیرہ ، یہ سب باطل ہی کے تو بچھائے ہوئے جال ہیں۔
باطل ان معمولی سے دنیاوی فوائد کے حصول کو حقیقی فلاح پر ترجیح دینے پر مجبور کرتاہے اور ہمیں ان مقامات سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھانے دیتا۔

💥 ہنٹ 5:توبہ اور غلطی کی اصلاح
اللہ کے پیارے بندے زندگیاں اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے میں لگاتے ہیں ۔ ان کے مزارات پر آنے والے اللہ کے بندوں کا وہاں جاری جاہلانہ کاموں کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو جانا اور وہاں سے فیض وصول نہ کر سکنا ، صاحبِ مزار کےلئے رنج کا باعث ہوتا ہے۔ جو لوگ باطل کی قید میں گرفتار ہو کر کسی ایسے فعل میں ملوث ہوتے ہیں جسے کسی صورت پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ وہ کس مقام اور کس پاک جگہ پر بیٹھ کر اپنے نفس کی تسکین کا سامان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی حرکات سے تائب ہو کر اسی بزرگ کے وسیلے سے اللہ سے اپنے لیئے توبہ کا طلبگار ہونا چاہئے تا کہ وہ باطل کے چنگل سے نکل آئیں اور ان کی آخرت برباد ہونے سے بچ جائے۔
باطل اپنی غلطی کا احساس نہیں ہونے دیتا اور نہ توبہ کے ذریعے اصلاح کی جانب بڑھنے دیتا ہے۔ اپنے چنگل میں پھنسا کر ہمیں فائدہ حاصل کرنے کے بجائے گناہ کا مرتکب بنا کر خسارے میں دھکیل دیتا ہے۔

💥 ہنٹ 6: مخلوقِ خدا کی بھلائی کا مشن
صوفیا ئے کرام اور بزرگان دین عشق حقیقی کی راہوں کے مسافر ہوتے ہیں۔ ان سے اپنی حیات میں جو کرامات ظاہر ہوتی ہیں ان کا تعلق بھی مخلوقِ خدا کی بھلائی کے مشن سے ہوتا ہے جس کے تحت وہ اللہ کے بندوں کی فلاح اور بہتری کے کام سر انجام دیتے ہیں۔ ان تک اللہ کا پیغام پہنچا کر ان کا اپنے رب سے کمزور یا ٹوٹا ہوا تعلق دوبارہ جوڑ دیتے ہیں۔ اس لیئے جب کوئی بھی اللہ کا بندہ اس حالت میں کہ جب اس کا اللہ سے تعلق کمزور ہو چکا ہو یا نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہو کسی مزار پر جاتا اور دلگیر ہو کر اللہ سے دعا مانگتا ہے، روتاہے، گڑگڑاتا ہے تو اللہ اس بندے پر رحم فرماتاہے۔ اسی لیئے ایسے بزرگان اور صوفیائے کرام کے مزارات پر حاضر ہونا ہمارے اللہ سے کمزور یا ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ سے جو ڑنے میں مدد کرتا ہے۔ بنا سوچے سمجھے ایسی پیاری اور اللہ کی مقرب ہستیوں کے بارے میں اناپ شناپ بولنے پر اکساتا ہے۔ اور افسوس صد افسوس... ! ہم ان ہستیوں کے لیئے اتنی سے بھی عزت دل میں محسوس نہیں کرتے جتنی کہ ہم اپنے گھر یا خاندان کے بزرگ کے لیئے کرتے ہیں۔
باطل کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ ہمارا اللہ سے تعلق مضبوط ہو اسی لیئے بے شمار تاویلیں دے کر ایسی جگہوں پر حاضری سے روکتا ہے۔

💥 ہنٹ 7: عقیدت کا اصل اظہار
عقیدت کا اصل اظہار تو یہ ہے کہ جس مزار پر حاضری دی جائے اس بزرگ کے حالاتِ زندگی سے آگہی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جس قدر معلومات حاصل ہوں ، اسی کے مطابق اپنی زندگی کو بھی اللہ کے پسندیدہ سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اور اگر دل میں چاہت بیدار ہو تو اس کے لیئے ان بزرگ کا فیض پانے کی عرضی کی جائے اور اللہ سے دعا مانگی جائے کہ جیسے اللہ نے اس پیارے بندے کو اپنی نظر کرم عطا کر کے اپنے راستے کے مسافر کے طور پر چن لیا اور پھر خاص فضل سے آخری دم تک اپنی راہوں کا مسافر بنائے رکھا ، اب ایسے ہی ان کے توسل سے ہمیں بھی راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ تاکہ ہم بھی یہ زندگی اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش میں گزارنے کی کوشش کریں اور اس دنیا سے کامیاب واپس اپنے اللہ کی طرف پلٹ سکیں۔
باطل اصل عقیدت کے احساس سے ہمیں محروم رکھ کر حقیقی بھلائی سے محسوس رکھتا ہے۔



💥 ہنٹ 8: و سیلے کی اہمیت
ایسانہیں ہے کہ اللہ ان درباروں پر جانے والوں کو بنا وسیلے کے نواز نہیں سکتا مگر وسیلے کی اہمیت اللہ کے نزدیک ازل سے ہی مستحکم ہے۔ اللہ نے حضرت آدمؑ کی توبہ کی دعا کو اپنے پیارے حبیبﷺ کے وسیلے سے قبول فرمایا تھا۔ وہ اب بھی اپنے حبیبﷺ اور اپنے حبیبﷺ کے پیاروں کے صدقے دعاﺅں کو مستجاب فرماتاہے۔ اور اللہ کے یہ پیارے بندے جنہیں صاحب مزار ہونا نصیب ہوتا ہے، دراصل اللہ کے حبیبﷺکے پیار ے ہوتے ہیں۔ اسی سبب ہی ان کے فیض کی پاور کسی اللہ کے بندے کے دل کی حالت کو تبدیل کرتی اور عمل میں مثبت تبدیلی لاتی چلی جاتی ہے۔
باطل یہی تو نہیں چاہتا کہ ہم ایسی جگہوں پر جا کے ان بزرگوں کی فیض کی پاور سے مستفید ہو سکیں اور ہمارے عمل میں اللہ کی پسند کے مطابق تبدیلی آئے۔

💥 ہنٹ 9: احساس ذمہ داری
مزارات ، دربار یا آستانے ، اللہ کے پیارے بندوں سے منسوب ہوتے ہیں۔ باطل ان جگہوں کی حرمت میں کمی کرنے کےلئے اپنے چیلوں کے ذریعے ایسے ایسے کام کرواتا ہے کہ لوگ بد دل بھی ہو جاتے ہیں۔ اور ان بزرگان سے محبت کے احساس بھی محسوس نہیں کرتے جنہوں نے ان خرافات کے خاتمے کےلئے ہی اپنی زندگی میں کوشش کی ہوتی ہے۔ ان جگہوں کے ذمہ داران اور وہاں موجود حقیقی عقیدت مندوں کو بھی چاہئے کہ ایسے کسی بھی فعل سے گریز کریں جس سے صاحبِ مزار کے نام پر کوئی آنچ آئے اور سادہ لوح بندوں کو جذباتی انداز میں اکسانے اور اپنا فائدہ اٹھانے کی بجائے ، ان کوصاحبِ مزار سے فیض حاصل کرنے میں مدد کریں اور انہیں دعا کا طریقہ بتائیں۔ ان کے حالاتِ زندگی سے واقفیت دلائیں تاکہ ہر آنے والا زائر وہ حقیقی فائدہ اٹھا سکے جس کےلئے اللہ نے اپنے ان پیارے بندوں کی آخری آرامگاہوں کو روشن کر رکھا ہے۔
باطل ہمیں اپنی ذمہ داری کے احساس سے غافل رکھ کر دوسروں کیلئے اور اپنے لئے بھلائی حاصل نہیں کرنے دیتا۔

💥 ہنٹ 10: شدت پسندوں کے منفی اور جاہلانہ عمل
چند شدت پسندوں کے منفی اور جاہلانہ عمل کی وجہ سے ہم مزار کی زیارت چھوڑ دیتے ہیں اور صاحبِ مزار سے محبت نہیں محسوس کرتے ہیں۔ اور اس طرح سے اس فیض سے محروم رہتے ہیں جو مزار کی زیارت اور صاحبِ مزار سے محبت کی وجہ سے حاصل ہوسکتاہے۔ یہاں بھی باطل اس روحانی قو ت اور پاور سے محروم رکھتا ہے تاکہ ہم اس پاور کے استعمال سے اپنی زندگی میں اللہ کی پسند کے مطابق تبدیلی نہ لاسکیں۔ جیسے صاحبِ مزار نے اپنی زندگی میں اللہ کی راہ پر چلنے کی کوشش کی ہم ویسی کوشش نہ کر سکیں۔ جب ہم کسی مزار پر جا ئیں تو دل میں صاحبِ مزار ہستی کے لیئے محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔ محبت عمل کی جانب راغب کرتی ہے۔ اپنے لیئے ہدایت کی دعا کرنا اور صاحبِ مزار کی زندگی سے سبق سیکھ کر خود بھی ہدایت کی راہ پر چلنے کی کوشش کرنا ہی اصل مقصد ہے مزارات کا۔
لیکن باطل شدت پسندی اور منفی سوچ میں الجھا کر ہمیں بزرگان دین سے ملی ہوئی پاور کے ذریعے دائمی نجات کی راہ پر قدم اٹھانے نہیں دیتا۔