ٹاپک 7: درس گاہ اورباطل


ہنٹ 1: کمزور بنیاد
ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکی اولاد اعلی درجے کی تعلیم اور تربیت حاصل کرے۔ سکول ہو یا مدرسہ، دونوں میں تدریس کا مقصد ہمیں تربیت کے ذریعے ایک بہترین فرد اور متوازن شخصیت کا حامل انسان بنانا ہے۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ مدارس میں ایسے بچوں کو ہی داخل کروانا مناسب سمجھا جاتا ہے جو نہ تو سکول کی پڑھائی کا بوجھ اٹھا سکیں نہ ہی کوئی ہنر سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں اور جب وہ کہیں کے بھی نہ رہیں تو ان کو مدارس میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔ اس لئے یہی بچے جب جیسے تیسے کر کے یہاں سے تعلیم مکمل کرتے ہیں تو استاد بھی تو انہی میں سے بنتے ہیں۔
جب مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے ہی کمزور ہوں گے تو استاد کیسے اس شخصیت کے حامل ہو سکتے ہیں جو طلبا کی تعلیم و تربیت کا حق ادا کر سکیں۔
باطل یہاں سے دینی تعلیم کی بنیاد کمزور کرتا ہے۔

💥ہنٹ 2: بچے کی پسند و ناپسند
ہر بچہ اپنی جگہ ایک انفرادی شخصیت رکھتا ہے۔ ہر بچہ اپنی جگہ اہم ہے۔ اس کی اپنی پسندو نا پسند اور مرضی ہوتی ہے۔ مدرسے میں پڑھائی کےلئے صرف اس وجہ سے بھیجا جانا کہ وہاں بھیجنے کی وجہ سے معا شی بوجھ کم ہو جائے گا،بچے کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ اگر ہم بچے کی خواہش کے باوجود اس کو کسی اچھے سکول میں داخل کر وانے سے گریز کریںگے تو اس وجہ سے ہی وہ باغی ہوسکتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ نہ تو وہ مدرسے میں پڑھائی میں دلچسپی لے اور نہ ہی وہاں سے ویسا انسان بن کر نکلے جیسا کہ ہم نے والدین کے طور پر سوچ رکھا ہوتا ہے۔ اس طرح اس بچے کی طرف سے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی سرزد ہونا اس کی زندگی میں بہت سے مسائل پیدا کر دیتا ہے اور خود ہماری زندگی میں بھی نتیجتاً بہت سی پریشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
والدین باطل کے وار میں پھنس کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے کے بجائے اپنی من مانی کرنے کو صحیح مانتے ہیں۔ یہیں سے بہت بڑا معاشرتی بگاڑ شروع ہوتا ہے۔
اس طرح باطل ہماری نسلوں میں دینی تعلیم سے بے رغبتی پیدا کر رہا ہے۔

💥ہنٹ 3: ماڈرن تعلیم اور مذہبی تعلیم کا امتزاج
سکو ل ہوں یا مدارس دونوں ہی سے روشن خیال، جدید سوچ ، زمانے سے ہم آہنگ زاویہ نظر اور زندہ احساس والے طالبعلم جب تربیت اور تعلیم پا کر نکلیں تو انفرادی طور پر بھی کامیابی کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور معاشرے میں بھی مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں جوانہیں ترقی دلا سکے۔ ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب درسگاہوں کا ماحول گھٹا ہوا نہ ہو۔ وہاں ہر طر ح کی نصابی و ہم نصا بی سر گرمیوں کا اہتمام بھی ہو۔ ماڈرن تعلیم اور مذہبی تعلیم کا امتزاج موجود ہو۔ تا کہ حصول تعلیم کے بعد رخصت ہونے والا طالبعلم نہ صرف اچھا انسان ، ذمہ دار پروفیشنل، زمانے کے ساتھ قدم بڑھانے والا ہو بلکہ اس کے اندر اپنے دین سے محبت کے احساس بھی ہوں اور وہ دنیا میں رہنے سہنے کے انداز و اطوار بھی خوب اچھی طرح جانتا ہو۔
لیکن یہاں بھی باطل نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہوئی ہیں۔ مدارس کا ماحول سخت اور تنگ بنا کر دنیاوی تعلیم اور جدید زمانہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کو غلط نظریہ بنا کر پیش کیا ہوا ہے۔
اس وجہ سے مدارس میں طلبا کو دینی و دنیاوی تعلیم صحیح امتزاج کے ساتھ نہیں دی جاتی۔
باطل کی یہ چال اسلیئے ہے کہ اگر کوئی دینی تعلیم حاصل کر بھی لے تو اسکی شخصیت میں اس قدر نمایاں کمی ہو کہ وہ معاشرے کے باقی افراد سے بہت پیچھے رہ جائے۔
جبکہ دین اسلام ہرگز بھی تنگ نظری کو پسند نہیں کرتا۔ بلکہ یہ تو ایسا و سعت والا دین ہے جو دنیا کے ہر معاملے کو بہترین انداز میں نبھانے کی راہ دکھاتا ہے۔ جدید دور کے ہر معاملے کیلئے جیسی رہنمائی دین اسلام سے ملتی ہے ایسی کہیں سے نہیں ملتی۔ اسکی تعلیمات کو اگر صحیح انداز میں سمجھایا اور سکھایا جائے تو دین دنیا کے کسی معاملے میں سبقت کے جانا مشکل بات نہیں۔
لیکن باطل مدارس کے تنگ ماحول کے ذریعے ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کا رجہان روز بروز کم کر رہا ہے۔

💥ہنٹ 4: احساسِ ذمہ داری
ایک ادارہ چاہے وہ سکول ہو یا مدرسہ خود پر یہ ذمہ داری لیتا ہے کہ جب کوئی طالب علم یہاں علم کے حصول کے لئے آجائے تو اس کی ذہنی ، جسمانی ،روحانی نشوونما کا خاطر خواہ انتظام بھی کرے اور جن اساتذہ کرام کے ذریعے تدریس کا عمل جاری ہے ان کو بھی اس بات کی ٹریننگ دے کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے اور وہ کیسے اس کو بہترین طرح سے اللہ کی پسند کے مطابق پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ چاہے تعلیم کا میدان ہو یا کوئی بھی اور پیشہ ، فرض کی ادائیگی تبھی بہترین ہو سکتی ہے جب ذمہ دار شخص کو یہ احساس ہو کہ اسے اپنا یہ فرض اور ذمہ داری اس لئے اچھے طریقے سے نبھانی ہے کہ اللہ نے یہ ذمہ داری اس وقت اس پر عائد کی جب اس نے ایک پیشہ کو اپنا کر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے کا آغاز کیا۔ ہر پیشہ کے ساتھ ہی ذمہ داریاں جڑی ہوتی ہے۔ فرض شناسی ہی ہمیں ایک بہترین پیشہ ور بناتی ہے۔
باطل نے ہمیں فرض شناسی سے غافل کر کے یہاں ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں اس طرح مضبوط کی ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے اعلی تعلیم کے بعد بھی بہت جگہ پر طلبا کی شخصیت میں کردار و اخلاق کی کمی نظر آ رہی ہے


💥ہنٹ 5: آزادی اور کامیابی
ہم استاد ہوں یا والدین ہوں یا صرف ایک شہری ، یہ ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے کہ آنکھیں کھلی رکھیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ درسگاہ جہاں سے بچے نے تعلیم حاصل کر کے اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا درس لینا اور پھر عملی زندگی میں قدم رکھنا تھا، کہیں وہاں سے وہ ایک مسخ شدہ شخصیت اور ناپسندیدہ کردار بن کر نہ نکلے۔ کہیں درس گاہ میں اس کےلئے ان راہوں پر چلنے کی آزادی تو میسر نہیں آرہی جس کی منزل اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ناکامی ہی ہو۔ درس گاہ میں کردار سازی کا عمل انجام پاتاہے۔ اگر اس کی بجائے وہاں دوسرے عوامل پر توجہ دی جائے تو یہ فکر انگیز لمحہ ہے۔ کسی بھی ایسی جگہ جہاں سے دینی یا دنیاوی تعلیم کے حصول کےلئے رجوع کیا جائے ، کو بہت سے پہلوﺅں سے جانچ کر ہی اس کا انتخاب کیا جانا ضروری ہے۔
باطل ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ ہم بچے کو آزاد ماحول دے کر اپنی محبت کا اظہار تو کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ بچے کیلئے جو درسگاہ منتجب کی وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار و اخلاق کی تربیت کیا اس طرح کی جا رہی ہے کہ ہمارا بچہ دینی و دنیاوی طور پر کامیاب شخصیت بن کر وہاں سے نکلے۔
اس طرح باطل آزادی کے نام پر ہم پے اپنی غلامی کی زنجیریں تنگ کرتا جاتا ہے۔

💥ہنٹ 6: نفس کی قید
اور آپ انہیں اس شخص کا قصہ (بھی) سنا دیں جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں پھر وہ ان (کے علم و نصیحت) سے نکل گیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا(الاعراف:۵۷۱)
بعض درسگاہوں میں طلباء پر اس طرح سے سختی روا رکھی جاتی ہے کہ وہ نفسیاتی اور جذباتی دباﺅ کا شکار ہو کر ایسی حرکات و سکنات میں ملوث ہو جاتے ہیں جو کہ اس عمر کے بچوں سے متوقع نہیں ہوتیں۔ انہیں اس طرح سے بھی ہراساں کیاجاتا ہے کہ وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ حصول تعلیم کے عمل کے دوران میسر آنے والا ماحول اور فضا انہیں وقت سے پہلے ہی ایسی معلومات اور باتوں سے آگاہ کر دیتی ہے جو انہیں اپنی عمر کے تقاضے کے مطابق اپنے اندر موجود توانائی اور قوت کو غلط سمت میں لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ باطل نے ذمہ داران کو بھی اپنے جال میں پھنسا رکھا ہوتا ہے۔ سوچ کے زاویے ایسے منفی رخ پر ہوتے ہیں کہ عمل کی درستگی کے امکان کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہاں تربیت پانے والے بھی نقصان اٹھانے سے بچ نہیں پاتے۔ ایک طرف تو باطل نے احساس کوہی مردہ کر دیا ہوتا ہے کہ اپنی اندر کی جذباتی کمیوں کو پورا کرنے کےلئے غلط راستے کا انتخاب کرتے اور ناسمجھ و مجبور معصوموں کی مجبوری و ناسمجھی سے فائدہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں۔ اور دوسری طرف نہ تو فرض کی ادائیگی کا دھیان رہتا ہے نہ پیشے کی حرمت پیش نظر رہتی ہے۔
نفس کی قید میں پھنسا کر باطل ہمارے معاشرے کو گمراہی کے اندھیرے کی طرف کے کرجارہا ہے۔

💥ہنٹ 7: دہرا نقصان
باطل نے ہر طرح سے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود کا احساس تو ایک طرف رہا اپنی ہی بنائی ہوئی حدود و قیود کو بھی مسترد کر کے باطل کی جانب لپکے چلے جاتے ہیں۔ ایک بار جب اس کی پکار پر لبیک کہہ دیا تو پھر ہر اگلی بار ضمیر کی آواز بھی دبتی چلی جائے گی اور احساس بھی مردہ ہوتا چلا جائے گا۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ اپنی وقتی تسکین کےلئے ان معصوم اور ناسمجھ بچوں کو بھی ایسی راہ پر لگا دیا جائے کہ وہ بھی وقتی سکون کے لئے ایسی ہی سرگرمیوں میں مبتلا ہونے لگیں۔ اس میں بھی شر سارا باطل کا ہی پھیلایا ہوا ہوتا ہے جس نے سمجھ دار اور اچھے بھلے انسان کو پھنسا رکھا ہوتا ہے جو بظاہر ہر طرح کی معلومات بھی رکھتا ہے ، اسے اچھے برے کی پہچان بھی ہو، وہ صرف اور صرف چند لمحوں کی کیفیت کے سامنے خود بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے ساتھ ساتھ ان پھول سے معصوموں کو بھی بھڑکتی ہوئی آگ میں دھکیل دیتا ہے۔ ایسی آگ جو دنیا میں ہی ہماری زندگیوں کو تو ہماری خطاﺅں کے سبب جہنم کا نمونہ بنا ہی دیتی ہے مگر ہمارے ساتھ ساتھ بے قصور و بے گناہوں کی زندگی بھی بے چینی اور بے سکونی کی دلدل میں اترتی چلی جاتی ہے۔
اپنے ساتھ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنا کر باطل دہرے نقصان میں دھکیلتا ہے۔

💥ہنٹ 8: حقیقی عزت
اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان (آیتوں کے علم و عمل) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہوگیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا، تو (اب) اس کی مثال اس کتے کی مثال جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے (تب بھی) زبان نکالے رہے۔ یہ ایسے لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سو آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں(الاعراف:۶۷۱)
ہم ظاہری عزت تو خوب بنائے پھرتے ہیں مگر حقیقی عزت تو وہ ہے جو اللہ کی نظر میں ہو اور ہم نے اس کےلئے باعمل زندگی اللہ کی پسند کے مطابق گزارنے کی کوشش کی ہو۔ ہم کسی بھی مرتبہ پر فائز ہو جائیں اور لوگوں میں کیسی ہی ظاہری عزت پا جائیں ہمارا دل خوب جانتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کے سبب اللہ کی نظر میں عزت پانے والوں میں سے ہیں یا نہیں؟
باطل نے ہمیں دنیا کی نظر میں تو عزت کما لینے پر مطمئن کر ہی رکھا ہوتا ہے وہ ہمیں یہ جائزہ بھی نہیں لینے دیتا کہ کیا ہم نے اپنی ذمہ داری اورمرتبہ کے مطابق کام کیا یا صرف نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کے اسی کی خواہشوں کی تکمیل کی کوشش کی ۔
اس وار کے ذریعے باطل آخرت کی رسوائی کی طرف لے کر جاتا ہے۔

💥ہنٹ 9: جسم و جان اللہ کی امانت ہیں
ہر پیشے کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے اسے برقرار رکھنا ایک پیشہ ور کا ہی کام ہے۔ ہمارا کسی مرتبے اور مقام پر جائز ہونا ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنی مرضی و منشاءکے مطابق کسی بھی اللہ کے بندے کے ذہنی ، جسمانی ، جذباتی یا نفسیاتی استحصال کا سبب بنیں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اللہ نے ہمارے جسم و جان کو اللہ کی امانت قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے مرضی سے استعمال نہ کیا جائے تو کسی کے جسم و جاں پر ہمارا کوئی بھی حق کیسے ہوسکتا ہے؟ ہم کیسے ان پر اپنی کسی بھی طرح کی مرضی لاگو کر سکتے ہیں؟ جب خود پر اپنا اختیار بھی نہیں دیا گیا تو کسی دوسرے پر زبردستی کسی اختیار کا استعمال یا کسی بھی عمل کا سرزد ہونا سراسر نفس اور شیطان کی کھلم کھلا پیروی کا ہی نتیجہ ہے۔ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ زندگی پر اختیار صرف اور صرف اللہ کا ہے۔ ہم چاہے جس اختیار کو بھی اللہ کی پسند کے خلاف استعمال کریں گے وہ ہمیں اللہ سے دور ہی لے کر جائے۔
اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔(بنی اسرائیل:۶۳)
باطل اس بازپرس کے احساس سے غافل کر کے نفسانی خواہشات کے حصول کی جانب ہمارے قدم بڑھائی رکھتا ہے۔


💥ہنٹ 10: دنیا اور آخرت کی تباہی بربادی
اگر صرف اتنا ہی سوچ لیا جائے کہ اپنے کیے گئے چھوٹے بڑے اعمال کا رتی رتی حساب دینا بےحد دشوار ہو گا۔ اوراس کے ساتھ اگر اللہ کی عدالت میں اللہ کے بندوں کے ساتھ ایسی روا رکھی ہوئی زیادتیوں کا بھی کھاتہ کھل گیا تو وہاں ایک لمحہ کا بھی حساب کئی کئی سالوں کے برابر ہو جائے گا۔ آج باطل نے ناگ کی طرح نفسانی خواہشوں کا زہر رگ رگ میں اتار رکھا ہے۔ ان کا نشہ خون میں دوڑتا ہے تو کسی فاتر العقل انسان کی طرح سارا شعور اور تعلیم ایک جانب رکھ کر نفس کے بے دام غلام بن جاتے ہیں۔ ہم اپنے عمل کو دنیا کی کسوٹی پر رکھ کر جانچنے لگیں تو اپنی لگائی ہوئی عینک اس عمل کو درست دکھاتی ہے کیونکہ شیطان نے آنکھوں پر پٹی ہی اتنی سخت باندھ رکھی ہوتی ہے کہ سوچتے سمجھتے ہوئے بھی ہم سمجھنا نہیں چاہتے کہ ہم جو کر رہے ہیں اس کی کسی طرح بھی چھوٹ ہمیں اللہ کی طرف سے حاصل نہیں۔
باطل ہمیں اپنے ہاتھ کا کھکونا بنا کر دنیا آخرت میں ہمیں ناکامی کی منزل پر دیکھنا چاہتا ہے۔

💥ہنٹ 11: اللہ سے نفس سے لڑنے اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی قوت مانگنا
اگر آج ہم نے کسی کے ساتھ ایسا کیا تو ہوسکتاہے کہ کل شیطان اپنے کسی چیلے کے ذریعے ہمارے ہی بچوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے اور تب ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ ہمیں دنیا میں ہی اپنے عمل کا حساب چکتا کر کے یہاں سے جانا پڑے گا۔ اس لیے پہلے ہی ہم اپنے عمل پر نادم اور شرمندہ ہو کر اللہ کی طرف پلٹ جائیں۔
باطل نے یہاں بہت خوبصورتی سے ہمیں اپنے جال میں الجھا رکھا ہوتا ہے۔ ہمارا علم ہمیں روکتا ہے، ہمارا شعور بھی ہمیں یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہم آج ذرا سی لذت کے لئے کسی اور کو تختہ مشق نہ بنائیں۔ یہ اللہ کی پسند کے منافی ہے مگر سر چڑھ کر نا چتی نفسانی خواہشیں یوں اندھا کر دیتی ہیں کہ خود پر بھی بس نہیں چلتا کیونکہ یہاں ہم خود ہی باطل کے سامنے ہتھیار ڈال بیٹھتے ہیں ہم خود ہی اس کی قید سے رہائی نہیں چاہتے۔ ہم خود ہی اسکے سامنے جھکے ہوئے رہتے ہیں اگراللہ سے ا س لمحے مدد طلب کی جائے تو اللہ فوراً ہمیں نفس سے لڑنے اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی قوت عطا کرتا ہے۔
باطل ہمیں اللہ سے مدد ما نگنے کی طرف بڑھنے ہی نہیں دیتا۔
اس طرح باطل مکمل طور پر ہم پے حکمرانی کرتا ہے۔