ٹاپک 8 :نیکی اور باطل

💥 ہنٹ 1: عمل کا دارومدار نیت پر ہے
ہر عمل کا دارومدار اس کی نیت پر ہے۔ اگر نیت اچھی ہو تو عمل کابہترین ہونا طے شدہ بات ہے۔ عمل کی اگر نیت خالص نہ ہو تو بظاہر وہ عمل کیسا ہی اچھا اور خوبصورت ہو ، وہ پسندیدہ نہیں ٹھہرتا۔ ہر اچھا عمل جس کو کرتے ہوئے ہم اس کی نیت اللہ کی رضا کاحصول رکھیں تو اللہ ہمیں جذبہ عطا کرتا ہے کہ ہم اسے بہترین طریقے سے انجام دیں۔
اگر ہم نیت کو صاف رکھیں اور اپنے اچھے عمل کی مثال کسی دوسرے کو اس وجہ سے دیں کہ اس کے اندر بھی اس عمل کی مثال سے شعور بیدار ہو اور اسے بھی لگے کہ اس عمل کی راہ میں پیش آنے والی دشوار ی سے نمٹ کر اسے اللہ کےلئے سرانجام دیا جاسکتا ہے تو اس طرح سے عمل کے بیان میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ اچھا ہے۔ شیطان نیکی کے کام کو مشکل بنا کر دکھاتا ہے تا کہ کسی کی ہمت ہی نہ ہو قدم آگے بڑھانے کی۔
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔
(آل عمران:۴۰۱)
لہٰذا اگر اللہ کے کرم اور فضل سے ہمیں نیکی کی توفیق ہو جائے تو ریاکاری سے پاک ہو کر نیک عمل کی چاہت دوسروں کے دل میں بھی بیدار کرنے کےلئے اس کا اظہار دوسروں کے سامنے کرنا جائز ہے۔ اور یہی سنت رسولﷺ بھی ہے۔
باطل شر کو خیر کی صورت میں بھیجتا ہے کہ نیکی کی تشہیر نہ کروکہ یہ منافقت ہے اور اس سوچ کے ذریعے وہ اپنا یہ مقصد پورا کرتا ہے کہ نہ تو نیکی کی تشہیر ہو اور نہ ہی اس کی چاہت ایک کے بعد کسی دوسرے کے دل میں بھی پیدا ہو جائے۔

💥 ہنٹ 2: خیر کی شکل میں شر
بعض اوقات ہم بڑھا چڑھا کر ذرا سی نیکی مبالغہ آرائی سے بیان کرتے ہیں اور اس وقت نیت اپنی پرہیز گاری کی شہرت چار دانگ عالم پھیلانا ہوتی ہے۔ اب چونکہ نیت خالص نہیں ہوتی بلکہ ہم لوگوں میں اپنا شہرہ چاہتے ہیں اس لیئے عمل میں بھی منافقت شامل ہو گئی اور عبادت بھی خالصتاً اللہ کےلئے نہ رہی۔
یہ بھی باطل کا وار ہے جسمیں وہ ہمیں اس قدر چالاکی سے پھنساتا ہے کہ ہم اپنی تمام نیکیاں نمود و نمائش میں ضائع کر چکے ہوتے ہیں اور ہمیں اسکا احساس تک نہیں ہوتا۔
باطل بظاہر ہمارے دل مطمئن کرتا ہے کہ تم تو لوگوں کو نیکی کی ترغیب دینے کیلئے اپنی نیکیاں بیان کر رہے ہو۔ جبکہ در پردہ نیت اچھی شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب نیت خالص نہ ہو تو کسی ترغیب کا کسی کے دل پر اثر بھی نہیں ہوتا۔
اس طرح خیر کی شکل میں شر ہوتا ہے۔
اس طرح باطل کے جال میں پھنس کر ہم اپنے ہاتھوں اپنی نیکیاں ضائع کر دیتے ہیں۔


💥ہنٹ 3: اجتماعی عبادت کا تصور
بعض دفعہ باطل ہمیں یوں بھی گھیر لیتا ہے کہ نیکیوں کی نمود و نمائش سے منع کیا گیا ہے کیونکہ نیک عمل تو اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ اسے دوسروں کے سامنے بیان کیوں کیاجائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں اپنا معاملہ اللہ سے ہی درست رکھنا ہوتا ہے اور ہرعبادت صرف اور صرف اللہ اور بندے کا معاملہ ہے مگر اللہ نے ہی کئی مواقع پر اجتماعی عبادت کے تصور کو قائم رکھا ہے۔ جیسے کہ مساجد میں پانچ وقت کی نماز کی با جماعت ادائیگی کرنا بھی اسی مقصد کے تحت ہے کہ کسی ایک کے عمل سے دوسرے کو بھی عمل کا شوق بیدار ہوجائے اور ہوسکتا ہے کہ اس کےلئے بھی اسی سبب نجات کی راہ آسان ہو تی چلی جائے۔ اگر ایسا ہوتا کہ ہر نیک عمل اور عبادت کو چھپا کر ہی کرنا ہوتا تو گھروں میں بیٹھ کر ہی عبادت کا حکم دیا جاتا۔
باطل اس روپ میں آ کر ہمیں اجتماعی عبادت کی برکات سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

💥ہنٹ 4: امر بالمعروف کا حکم
(یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوں سے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قربِ الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجئے۔
(سورة التوبة:۲۱۱)
امر بالمعروف کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ ہم کسی کو نیکی کی دعوت تب ہی دے سکتے ہیں جب ہم نے خود اس عمل کو سرانجام دیا ہوگا۔ جب ہم کسی کو نیکی کی دعوت دیں گے تو وہ صرف اس دعوت پر ہی راضی ہو کر نیک عمل اپنانے پر مائل نہ ہو جائے گا بلکہ اسے ہمارے ہی عمل سے اس عمل کی مثال بھی درکار ہو گی۔ اب ایسی صورت میں بھی اگر ہم کہیں کہ ہم کس طرح اپنی نیکیوں کو سرعام بیان کریں تو امربالمعروف کا کام نہیں ہو سکے گا۔ اللہ کے بندوں کو اس کے پسندیدہ کام کی طرف لانے کےلئے اپنے ہی عمل سے کچھ نہ کچھ ایسا ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا جس سے دعوتِ حق وصول کرنے والے کی تسلی ہو جائے۔ اگر ہم عاجزی اور سچائی سے اپنے عمل سے آگاہ کر کے راہِ حق پر چلنے کی دعوت دیں تو عمل کی قوت گفتگو سے کہیں زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اس عمل کی مثال کی و جہ سے ہی لفظوں کی تاثیر میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ سننے والے کی توجہ بھی پہلے سے بڑھ جائے گی جب اس کو یہ علم ہو گا کہ ہم جس نیکی کی دعوت دے رہے ہیں اس پر ہی عمل پیرا ہونے کی کوشش خود بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیئے ہی کسی دوسرے کے لیئے بھی کوشش کا آغاز کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
باطل امر بالمعروف سے روکنے کیلئے ہمارے دل میں وسوسے ڈال کر ہمیں بھلائی کا وسیلہ بننے اور اسکا بہترین صلہ پانے سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔

💥 ہنٹ 5: نیت پر شک
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔(التوبة:۱۷)
ؑبعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم نیک نیتی سے ہی اپنے اچھے عمل کو کسی کے سامنے بیان کرتے ہیں مگر شیطان دوسرے کے دماغ میں فتور بھرتا ہے اور ہمارے لئے یہ سوچ ڈالتا ہے کہ جیسے ہم اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیئے ایسا کر رہے ہیں۔ ہمیں طنز و تشیع کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ مذاق مذاق میں دل آزاری بھی کر دی جاتی ہے۔ یہاں بھی ہم نے اللہ سے مدد مانگ کر گھبرائے بنا اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ ہم نے کسی بھی ذاتی وجہ کی بنا پر حق بات کہنا یا نیکی کی دعوت دینا ترک نہیں کرنا ہوتا۔ اللہ کے بندوں کے لیئے دل میں کسی طرح کا میل لائے بغیر ان کے لیئے ہدایت کی دعا کرتے ہوئے کوشش جاری رکھنی ہوتی ہے۔ لوگوں کا ہماری نیت پر شک کرنا ہمارے نیکی کے کام کو روکنے کا سبب نہیں بننا چاہئے۔
باطل اسی لیئے ہی تو قدم قدم پر پتھر راہ میں بچھاتا ہے کہ ہم نہ تو خود آگے بڑھ سکیں اور نہ ہی کسی اور کو اپنے عمل کی مثال دے کے اس پر یہ ثابت کر سکیں کہ زمانہ کو ئی بھی ہو ہدایت کی راہ ہمیشہ کھلی ہے اور آج بھی نیک عمل کرنا ممکن ہے۔

💥 ہنٹ 6: عمل پر استقامت
نبی کریمﷺ نے فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اگر کوئی چیز کسی کو (صدقہ کے لیے) جو میسر نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا پھر اپنے ہاتھ سے کام کرے اور اس سے خود کو بھی فائدہ پہنچائے اورصدقہ بھی کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو یا کہا کہ نہ کر سکے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند پریشان حال کی مدد کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے۔ فرمایا کہ پھر بھلائی کی طرف لوگوں کو رغبت دلائے یا امر بالمعروف کا کرنا۔ عرض کیا اور اگر یہ بھی نہ کر سکے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ پھر برائی سے رکا رہے کہ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ (صحیح بخاری)
ہم نیکی کی تشہیر امر بالمعروف کی نیت سے کرتے ہیں تو اس کا فائدہ خود ہمیں بھی ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہمیں اللہ اس عمل پر استقامت عطا کرتا چلا جاتا ہے۔ جب ہم کسی دوسرے کو اچھے عمل کی دعوت دیں گے تو اب کوشش کرنے لگیں گے کہ خود بھی اس پر کاربند رہیں ورنہ بات کی تاثیر جاتی رہے گی اور عمل کاراستہ دوسروں کےلئے بھی نہ کھل پائے گا۔ ہم خود اپنے عمل میں بہتری لانے کی کوشش استقامت سے جاری رکھیں تو ہی دیکھنے اور سننے والے کے دل میں بھی اس جیسا عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔ اس لیئے ہمیں بھی دہرا فائدہ ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ ہم اپنے عمل کو استقامت سے سرانجام دے کر اللہ کو راضی کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عمل جب خالص سے خالص تر ہوتا چلا جاتا ہے تو اللہ کی قربت کی منزل بھی قریب سے قریب تر آتی چلی جاتی ہے۔
ہمارا بھلا باطل کو گوارہ نہیں اسی لئے ہمیں نیکی کی ترغیب دینے کو اہم نہیں سمجھنے دیتا۔

💥 ہنٹ 7: جھوٹی عاجزی کے پردے
اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
(سورة لقمان، آیت۷۱)
کبھی کبھی باطل اس طرح بھی اپنا کام دکھاتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو جھوٹی عاجزی کے پردے کے پیچھے چھپا جاتے ہیں۔اس طرح انکساری کا مظاہرہ کرنے میں بھی ہمارا بھرم رہ جاتا ہے۔ چاہے ہم عبادت گزار ہوں یا نہ ، بس صم بکم بنے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم جیسے نیکو کاروں کو نیکیوں کو ظاہر کرنا پسند نہیں۔ حقیقت میں نہ تو نیکو کار ہوتے ہیں ، اور نہ ہی دامن میں کوئی عمل کی سوغات ہوتی ہے۔ بس ایک بھرم ہوتا ہے اور ہم اس جھوٹی عاجزی و انکساری کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اس سے اچھا ہے کہ ہم سچے ہو جائیں اور یہاں باطل کا پردہ فاش کریں اور جھوٹے بھرم قائم کرنے کی بجائے جس قدر اچھے ہوں بس اتنا ہی ظاہر کریں۔ اور پھر اتنا ہی کسی اور کو بھی بتا کر عمل کی دعوت دیں تو اس میں اپنی اصلاح ہونے کی امید ہے اور دوسری طرف ریا کاری سے بھی نجات مل جائے گی۔
باطل ہمیں عجزی کے جھوٹے پردے میں سکون محسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور ہمیں اسی پر مطمئن رکھ کر ہماری اصلاح کی راہ میم رکاوٹ ڈالتا ہے۔

💥 ہنٹ 8: کسی رہبرو رہنما کے سامنے اپنی پردہ پوشی
جب ہم جھوٹی انا کی خاطر اپنے عمل کو عاجزی کے خول میں چھپا کر ظاہر کرنے سے رک جاتے ہیں تو تب بھی اصل میں شیطان ہماری اصلاح کی راہ ہی روک رہا ہوتا ہے۔ اس لیئے بہتر ہے کہ جتنا بھی عمل سرزد ہو رہا ہے اس کو بیان کر کے کسی رہبرو رہنما سے اصلاح کروا لی جائے۔ ان کے سامنے اپنا عمل بیان کرناہمیں اپنے عمل کو بہتر سے بہترین اور خالص سے خالص تر کرتے رہنے میں مدددیتا ہے۔ عمل میں خالص پن کسی کتاب سے پڑھ کر سیکھنے سے زیادہ ایسے ہی کسی رہبر و رہنما کی رہنمائی کی مدد سے لایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود اس ہدایت کی راہ پر چلنے والا ہوتا ہے او راپنے عمل پر نظررکھ کر خالص پن کے سفر کو جاری رکھے ہوتا ہے۔ باطل یہاں بھی ہمیں ان کے سامنے اپنا کوئی عمل بیان کر کے اصلاح لینے سے روکتا ہے۔جب ہم کسی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کرنے والے کے سامنے اپنے عمل کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔
باطل ہمیں اپنی جھوٹی انا میں پھنسا کر در حقیقت ہمیں بھلائی حاصل کر کے کامیاب ہونے سے روکنا چاہ رہا ہوتا ہے۔

💥 ہنٹ 9: رہبر و رہنما پر نظر
جب کوئی اللہ کا بندہ یا رہبر و رہنما ہمیں سمجھانے کے لیئے ہی اپنی نیکی بیان کرے تو ہم ناک منہ چڑھا کر اس کے بارے میں منفی گمان رکھ لیتے ہیں کہ یہ کیسے اللہ والے ہیں جو بڑھ چڑھ کر اپنے ہی عمل کی مثالیں دیے جارہے ہیں۔ ہم وہاں یہ نہیں سمجھ پاتے کہ اس اللہ کے پیارے بندے کا منصب ہی اللہ کے کرم سے ایسا ہے کہ اس کو اپنی نوکری نبھانے کےلئے اپنے عمل کی مثال سے بھی یہ واضح کرنا ہے کہ نیکی کی راہ کو اپنا کر کس طرح اللہ کی قربت کی منزل کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔ اگر وہ اپنے عمل کو بیان نہ کرے تو کوئی کیسے جان سکے گا کہ اللہ کس کس طرح سے مہربان ہو کر عمل کی توفیق دیتا ہے اور اپنے پیارے بندوں میں شامل کر لیتا ہے۔
اس طرح باطل منفی گمان ڈالتا ہے اور پھر اپنے پر نظر کرنے کی بجائے دوسروں پر کروا کر ہماری نجات کی راہ مشکل بنانے کی کوشش کرتا ہے۔


ہنٹ 10: ثواب اور صدقہ جاریہ

جس بندے کو ہم نے اللہ کی مدد سے کوئی اچھی بات بتائی اور اس نے اسے سمجھ کر اس پرعمل شروع کر دیا تو اب اس کو اپنے عمل کا ثواب تو ملتا ہی رہے گا مگر اس کے ساتھ اللہ ہمیں بھی اس کا ثواب عطا کرتا رہے گا۔ اگر اللہ کے بندے کو ہم نے اللہ کی راہ دکھانے کی کوشش کی ، تو یہ ہمارے لیئے بھی صدقہ جاریہ بن جائے گا اور اللہ کے بندوں کی بھی بھلائی ہوگی۔
باطل ہمیں اس سے محروم رکھنا چاہتا ہے اسی لئے ہمیں اپنی نیت کو صاف رکھتے ہوئے لوگوں کی بھلائی کا وسیلہ نہیں بننے دیتا۔

ہنٹ 11: اللہ کے بندوں کی بھلائی کی اجتماعی کوشش

اپنے نیک عمل کو دوسروں پر ظاہر کرنے سے بہت سے اللہ کے بندوں کا بھلا ہونے لگتا ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ہم بہت سے اللہ کے بندوں کے ساتھ ایک بندھن میں بندھے ہوتے ہیں۔ اور آئیڈیل اسلامی معاشرہ تو ویسے ہی اخوت کی مثال ہوتا ہے۔ اس اخوت و بھائی چارہ کے فروغ کےلئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپس میں دکھ درد بانٹا جائے۔ اگر ایک اس کوشش کا آغاز کرے گا اور دوسرے بھی دیکھا دیکھی اس کار خیر میں حصہ لینے لگیں گے تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہو جائے گا۔ جیسے اخوت اور باہمی تعلقات کی بنیاد پر صدقہ خیرات ، کوئی فلاحی کام یا ایسا ہی کوئی نیک کام مل جل کر کرنا اسی وجہ سے ہی تو ممکن ہو پاتاہے کہ بہت سے مسلمان مل جل کر کسی ایک اچھے مقصد کی تکمیل کےلئے مشترکہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہم کسی کی بھلائی یا مدد کی اس کوشش کو خفیہ رکھیں تو شاید اس قدر بھلائی ممک ن نہ ہو سکے جو ایک باہمی اتحاد کی صورت میں کی ہوئی کوشش کی بنیا دپر ممکن ہے۔
جیسے اتحاد میں برکت ہے ایسے ہی اجتماعی عمل میں بھی برکت پڑ جاتی ہے۔ اس اجتماعی عمل کا آغاز بھی گو انفرادی کوشش سے ہی ہوتا ہے مگر جب اس انفرادی عمل کی کوشش کو ہم نیک نیتی سے مشتہر کرتے ہیں کہ اور لوگ بھی بڑھ کر بھلائی کے عمل میں حصہ لیں تو نیکی کی راحت بھی دوبالا ہو جاتی ہے اور اللہ کا جو دو کرم بھی سایہ بن کر ہماری زندگیوں پر چھا جاتا ہے۔
باطل ہماری کامیابی کی راہ ہموار ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اسی لئے ہمیں ہر ایسے قدم سے روکے رکھتا ہے جو ہمارے دو جہاں کی کامیابی کا سبب بنتے ہیں۔