ٹاپک 9 : توہم پرستی اور باطل


💥 ہنٹ 1: مسلمان ہونے کے باوجود ہماری ضعیف العتقادی
ہمارے معاشرے میں ایسے جاہلانہ رسم و رواج بھی موجود ہیں جن کا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔
تو ہم پرستی کی کئی مثالیں ہیں ، مثلا کسی پرندے کو منحوس سمجھنا جیسے کہ الو کا بولنا۔ یہ سمجھا جانا کہ اگر کوئی شخص الو دیکھ لے تو اس پر تباہیاں اور مصیبتیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب اگر اتفاقا ایسا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو اس کو الو کے دیکھنے سے منسوب کر دینا ہماری جہالت ہے۔
ایسے ہی کالی بلی کو بھی منحو س سمجھا جاتاہے۔ جبکہ اس کا بھی حقیقت سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم اپنے اکثر کام اس وجہ سے ملتوی کر دیتے ہیں کہ کالی بلی نے راستہ کاٹ دیا اور اگر کسی کام کے آغاز میں ہی ایسا واقعہ پیش آگیا تو اب یہ سمجھا جاتاہے کہ اس کام کا انجام ہرگز اچھا نہ ہوگا۔
کوئی بھی فرد یا خاندان یا قوم اپنی اپنی کوتاہیوں کے سبب ہی تباہی کے کنارے پہنچتی ہے۔ کسی جانور یا پرندے کے وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔
بیشک جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ہے، جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے (تو وہ اللہ کے امر و نہی اور شیطان کے دجل و عداوت کو) یاد کرنے لگتے ہیں سو اسی وقت ان کی (بصیرت کی) آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
(سورة الاعراف: آیت۱۰۲)
مسلمان ہونے کے باوجود ضعیف العتقادی کے باعث اگر ہم ان ذرا ذرا سی چیزوں سے گھبرا اٹھے اور اللہ پر یقین ہی نہ رہا کہ اس کی ذات ہمیں ہر لمحہ ہر مصیبت میں بچانے والی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اپنی اس کم ایمانی کے باعث ہم زندگی کے مختلف مواقع پر نقصان اٹھاتے ہوں گے۔
باطل دونوں جہانوں میں ہمارا نقزان چاہتا ہے اسی لئے یہ ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔

💥 ہنٹ 2: ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے
ہم مسلمان ہیں اور ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے کرنے سے اس کام میں اللہ کے نام کی برکت پڑ جاتی ہے۔ اب ہمارا یقین تو یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی کام کا آغاز اللہ کے نام سے ہو گیا تو اس میں اللہ خود ہی برکت ڈالے گا۔ اس کو بہترین انجام تک بھی پہنچائے گا لیکن ہم اللہ کے نام پر یقین رکھنے کی بجائے من گھڑت کہانیوں اور توہمات کو بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ایسے واقعہ کے پیش آنے پر کام کو ملتوی کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
اور (اے بندئہ مومن!) اگر شیطان کی وسوسہ اندازی سے تمہیں کوئی وسوسہ آجائے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کر، بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
(سورة حم السجدہ :آیت۶۳)
اللہ کا نام تو ڈوبتے کو سہارا دینے والا ہے۔ یہاں ہمیں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اللہ سے مدد مانگ لی جائے تو وہ ہر بگڑے کام کو سنوار دیتا ہے۔ اس کی بجائے ہم ایک ذرا سی صورتحال سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کونے میں دبک جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہمیں اللہ سے مدد مانگنا اور اس عطا ہوئی مدد پر یقین رکھ کر کسی کام کو اس کے بھروسے سر انجام دینا نہیں آتا۔ اگر ہم غور کریں تو یہ سب تو ہمات صرف اور صرف ہمارے اللہ پر یقین کی ہی کمی کے باعث ہیں۔
اس لیئے شیطان ہمارے یقین کی کمزور ی کو بھانپ کر ہمیں ان توہمات کا شکار کر دیتا ہے۔


💥 ہنٹ 3: منگل کا دن
کچھ لوگ ہفتہ کے دنوں کو بھی بے برکت سمجھتے ہیں جیسے کہ منگل کا دن۔ اس روز نہ تو سفرکرتے ہیں اور نہ ہی کسی نیک کام کا آغاز اس دن کرنا بہتر سمجھا جاتاہے۔
ہر دن اللہ ہی کا پیدا کردہ ہوتا ہے اور اس نے ہر دن کے بارے میں فرمایا کہ وہ ہر روز ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتاہے۔ غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم اس شان کی جلوہ گری کو ہر روز تلاش کریں نہ کہ کسی ایک دن کی نحوست کا باطل خیال دماغ میں سمانے کی وجہ سے اس دن کی تمام سرگرمیاں ترک کر دیں۔ اللہ نے تو سات دن میں ہی زمین و آسمان بھی تخلیق فرمائے۔ اس نے کہیں نہ فرمایا کہ ان سات دنوں میں سے یہ ایک دن منحوس ہے اس لیئے اس دن کائنات کا نظام روک دیا جائے۔ اللہ نے ہردن محنت کرنے اور روزی کمانے کےلئے عطا کیا۔ کہیں کسی دن کے بارے تخصیص نہ رکھی کہ فلاں دن منحوس یا کم اچھا ہے لہٰذا اس دن کسی اچھے کام کی شروعات نہ کی جائیں۔ کوئی ایک دن جیسے کہ جمعة المبارک ، دوسرے دنوں پر فضیلت تو رکھ سکتاہے مگر باقی کے ایام بے برکت یا منحوس ہر گز نہیں۔
ہم ہر دن کا اللہ کے نام سے آغاز کر کے اس دن کی خیرو برکت اپنے اللہ کے سامنے جھک کر طلب کریں تو کوئی بھی دن ہو ہمارے لیئے عافیت کا ہی پیغام لے کر آئے گا۔
باطل ہمیں اللہ سے رجوع کر کے اللہ کا فضل مانگنے کیلئے جھکنے نہیں دیتا۔ بلکہ بے یقینی میں الجھا کر ہماری دنیا و آخرت مشکل کرتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 4: فال نکالنا ، حساب کتاب لگوانا، نجومی یا قیافہ شناس کے پاس جانا
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ پیارے آقائے دو جہاںﷺ نے فرمایا :
جو شخص کسی پنڈت نجومی یا قیافہ شناس کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔
بعض لوگوں کی ضعیف الاعتقادی کا یہ عالم ہوتاہے کہ بات بات پر فال نکلواتے ، حساب کتاب لگواتے، نجومی یا قیافہ شناسوں سے رجوع کرتے ہیں اور جو بات انہوں نے کہہ دی اسی پر ہی تکیہ کیے رہتے ہیں۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ حتمی اور غیب کا علم صرف اور صرف اللہ کی ذات کے پاس ہی ہے۔ اگر ان علوم کی وجہ سے ہم عمل سے ہی محروم ہو رہے ہیں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے قسمت کی دیوی کے مہربان ہونے یا کسی معجزے کے رونما ہونے کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو ہم ضرور احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں اور باطل نے ہمیں اپنے ہی جیسے کم عقل انسانوں کے ہاتھوں بیوقوف بننے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا۔
آنحضرتﷺ نے ان سے فرمایا کہ ان کی (پیشین گوئیوں کی) کوئی حیثیت نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! لیکن وہ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ وہ بات سچی بات ہوتی ہے جسے جن فرشتوں سے سن کر اڑا لیتا ہے اور پھر اسے اپنے ولی (کاہن) کے کان میں مرغ کی آواز کی طرح ڈالتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس (ایک سچی بات میں) سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتے ہیں۔
(صحیح بخاری)
اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر انسان کےلئے اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی یعنی جس نے جتنی کوشش کی اس کو اتنی برکت نصیب ہوئی۔
اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔
(سورة النجم:۹۳)
کوئی اندازہ ، نہ فال نہ قیافہ ہمارے حق میں اچھا یا برا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کا کہا ہمیں لگ سکتا ہے۔ ہم وہ ہی پاتے ہیں جس کی ہم نے کوشش کی۔
مسند احمد اور ابوداﺅ دکی حدیث میں ہے کہ حضرت محمدﷺ نے تین اشخاص کے بارے میں فرمایا کہ محمدﷺ پر نازل شدہ دین سے بری ہیں اوران میں سے ایک وہ ہے جو کسی کا ہن کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے۔
باطل ہمیں ان احکامات پر عمل کرنے کے بجائے اسکے بچھائے جال پر یقین رکھ کر اسکے اشاروں پر نچانا چاہتا ہے۔ تا کہ دنیا بھی اسی کے اشاروں پےناچتے گزاریں اور آخرت بھی اسی کی وجہ سے تباہ ہو جائے۔

💥 ہنٹ 5: ہماری مشکلیں ہمارے عمل کیوجہ سے
اسی حوالے سے ایک دوسرا روپ باطل کا یہ ہے کہ جب ہماری زندگی میں کچھ برا ہو جائے تو انہی کاہنوں کو اسکا سبب سمجھنے پر اکساتا ہے۔
اللہ نے جس کسی کےلئے جو اچھی تقدیر لکھی وہ اس کے کرم کا نتیجہ ہے یعنی ہمارے ساتھ جو اچھا ہو وہ اللہ کے فضل کا صدقہ اور ہر برائی یا مصیبت ہمارے اپنے عمل کا شاخسانہ ہے۔ اس میں کسی کے کہے کا کوئی دوش نہیں۔ کسی کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانے سے بہتر ہے اپنے گریبان میں جھانک لیا جائے۔ کیا ہم سے کچھ ایسا عمل تو سرزد نہیں ہو رہاجس کی اللہ کے ہاں منظوری یا پسندیدگی نہ ہو۔
لیکن یہاں بھی شیطان کی چال میں پھنس کر ہم سارے کا سارا ملبہ فال، قیافہ، نجومیوں کے اندازے پر ڈال دیتے ہیں کہ اسی کی وجہ سے زندگی میں ناکامی، غم یا مصیبت کا منہ دیکھنا پڑا۔ اپنے عمال کو نہیں دیکھتے کہ جب اللہ نے فرما دیا کہ ہر تکلیف اپنے عمل کا نتیجہ ہے تو کسی بھی نقصان پر دوسروں پے انگلی اٹھانے کے بجائے اپنے عمل کی طرف دیکھ کر اسکی اصلاح کریں۔
مصائب کسی کی وجہ ہم پر نازل نہیں ہوتے ہمارے اعمال انہیں ہماری طرف بلاتے ہیں مگر شیطان اس جانب دھیان ہی کب جانے دیتاہے۔ و ہ فضولیات میں الجھائے رکھتا ہے تاکہ نہ ہم اللہ کو پکاریں ، نہ مدد طلب کرنے کےلئے اس کے سامنے جھکیں بلکہ بزدلوں کی طرح خوف کا شکار ہو جائیں اور عمل کی جانچ کی بجائے الزام ادھر ادھر کی چیزوں پر ڈال دیں۔

💥 ہنٹ 6: آنکھ پھڑ کنا
توہم پرستی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اگر آنکھ پھڑکے تو بھی کسی مصیبت کا پیش خیمہ ہے۔ یہ بھی جہالت پر مبنی ایک مفروضہ ہے۔ اس کا بھی کسی قسم کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ نے انسانی جسم نظام کو بے انتہا باریک بینی سے اپنے دستِ قدرت سے تخلیق کیا ہے۔ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ جیسے ایک مشین کے استعمال کے بعد اس کی کارکردگی میں کمی بیشی واقع ہوتی ہے۔ انسان کے جسم کے تمام اعضاءکی مثال بھی ایسی ہے۔ آنکھ کا پھڑکنا ہمارے لیئے کسی مصیبت کا پیش خیمہ نہیں بلکہ یہ اعصابی کمزوری کی علامت ہو سکتی ہے۔
اگر ہم ذرا غور کریں تو یہاں اپنے جسم کے نظام اور بینائی کی نعمت پر شکر گزار ہونے کی کوشش کرنا بہتر ہے۔ بجائے اس کے کہ اس وقت بے جا پریشانی میں مبتلا ہو کر بیٹھ جائیں کہ اب نہ جانے کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
باطل اس طرح ہمیں قیاس آرایئوں میں الجھا کر بے یقینی اور اللہ سے دوری کی جانب لے چلتا ہے۔ ہمارے دل میں اللہ پر یقین کے بجائے ان جھوٹی باتوں پر یقین مضبوط کر کے نادانی اور بد گمانی کی راہ پر لے چلتا ہے۔

💥 ہنٹ 7: اللہ سے بہترین گمان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ میرے ساتھ گمان کرتا ہے۔
(صحیح مسلم)
اللہ نے کہا ہے کہ مجھ سے جیسا گمان رکھو گے میں تمہارے ساتھ ویسا ہی ہوں گا۔ اگر ہم مثبت گمان رکھیں تو زندگی میں ایسی توہمات کی اہمیت ہی نہ رہے۔ اپنے اللہ پر یقین اور ایمان کی مضبوطی ہی ہمیں ہر مشکل سے بچا سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ ہم نے اس سہارے کو تھام بھی تو رکھا ہو۔ یہاں تو شیطانی چرخہ گھومتا ہے اور آنکھ کا پھڑکنا، بلی کا رستے سے گزر جانا، الو پر نظر پڑ جانا دل دہلا جاتاہے۔ اللہ کو پکارنے کی بجائے، مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا جاتے ہیں اور ہم کسی انہونی کے ہونے کو خود دعوت دیتے ہیں۔ اگر اچھا گمان رکھیں اور اللہ کو ہر لمحہ یاد کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلب گار رہیں تو اس کے کرم کی بارش برستی ہے۔
شیطان کی سب سے بڑی شیطانی کا رستانی ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس کرنا ہے۔ اس لیئے یہ ایسی سوچوں میں پھنسا کر ہمیں اللہ کی رحمت سے مایو س کر کے ہماری زندگی کو مشکل بنانا چاہتا ہے۔



💥 ہنٹ 8: نوزائیدہ بچے کے دانت نکلنے کا معاملہ
نوزائیدہ بچے کے دانت الٹے نکلنے کے معاملے کو بھی ننھیال یا ددھیال پر بھاری پڑنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر ہم ذرا سی عقلمندی کا مظاہرہ کریں تو کم از کم یہ سمجھ سکیں گے کہ ایک بچے کے دانتوں کا کسی خاص ترتیب سے اُگنا کس طرح اتنے لمبے چوڑے خاندان کےلئے برا ثابت ہوسکتاہے۔ ہر ایک اپنی قسمت ، اپنی تقدیر الگ لکھوا کر لایا ہے۔ اس نے جیسے عمل کیے اس کو ویسے ہی جزا سزا ملے گی۔ اس کو اس کی کوشش کے عوض بھلائی ،خوشی نصیب ہو گی۔ کسی کی بد اعمالیاں ہی اس کی تباہی کو آواز دے سکتی ہے۔ کسی دوسرے ذی روح کے دانت الٹے اُگنا اس کا سبب ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہونے لگے تو ہر خاندان ہی خدا نخواستہ منہ کے بل گرا ہو۔
باطل ہمیں اللہ سے اچھے کی امید مہیں رکھنے دیتا۔ بلکہ اپنا غلام بنا کر اپنی مرضی کی ڈگر پر چلاتا ہے۔ اور ہم دنیا جہان کے عقلمند اس کے غلام بن کر خوشی خوشیزندگی گزارتے جاتے ہیں۔

💥 ہنٹ 9: توہم پرستی کی مزید مثالیں
آئینہ ٹوٹنا ، غروب آفتاب پر بتی جلانا، جمعہ اور منگل کو کپڑے نہ دھونا، عصرو مغرب کے درمیان کھانا نہ کھانا کہ اس ٹائم مردے کھاتے ہیں، کوا بولنے پر مہمان کے آنے کا وہم ، کنگھی کے بالوں کی نحوست، وغیرہ سب توہم پرستی کی مثالیں ہیں۔ چاند گرہن ،سورج گرہن جو ایک سائنسی اصطلاح اور حقیقت ہے اس سے بھی بد شگونی کو منسوب کیا جانا حماقت ہی تو ہے۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار اور مثالیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں اللہ نے جو فرمایا ،انسان اس فرمان کے مطابق بے شک جاہل واقع ہو ا ہے۔ چاند پر قدم رکھ لیئے، زمین کا سینہ چیر ڈالا مگر آج بھی ایمان کی انتہائی کمزوری کا ثبوت آنکھ کے پھڑکنے ، بلی کے راستہ کاٹ جانے پر دیتا نظر آتا ہے۔
اور جو شخص (خدائے) رحمان کی یاد سے صرف نظر کر لے تو ہم اس کے لئے ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
(سورةالزحرف آیت۶۳)
باطل ہمیں جہالت کے ان اندھیروں میں گم رکھ کر ہمیں خسارے میں رکھنا چاہتا ہے، تب ہی ایسے جال بن رکھے ہیں جن میں نسلیں الجھی پڑی ہیں۔


💥 ہنٹ 10: انسان کو منحوس قرار دینا
اس سے بڑھ کر جہالت کا ثبوت کیا ہے کہ ہم اللہ کی مخلوق جو’احسن تقویم‘ ہے اسے باعث نحوست قرار دے دیں۔ کسی انسان کو سبز قدم اورکہیں اسے منحوس سمجھیں۔ خاندان میں کسی نئے فرد کے اضافے کے بعد اگر کوئی ناپسندیدہ واقعہ یا حادثہ پیش آجائے تو اب اس فرد کی شامت ہی آجاتی ہے۔ اس کو منحوس، کرم جلی کہہ کہہ کر اس کی عزت نفس کا جنازہ بھی نکالتے ہیں اور آئندہ کےلئے اس پر زندگی کے دروازے بھی تنگ کردیتے ہیں۔ ایک ایک لمحہ اس کو اسی وجہ سے سولی پر ٹانگ کر رکھتے ہیں کہ اس کی نحوست کی وجہ سے خاندان کے باقی افراد پر آفت ٹوٹ پڑی، انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا یا کسی خوشی نے گھر کا رخ نہ کیا وغیرہ وغیرہ۔
آپﷺ فرماتے تھے۔ نحوست کچھ شئے نہیں اور کبھی تین چیزیں مبارک ہوتی ہیں۔ عورت ،گھوڑا ،گھر۔ (یعنی جب یہ منحوس نہیں تو باقی اشیاءبدرجہ اولیٰ مستثنیٰ ہوگئیں)۔ (ابن ماجہ)
جب ہم خود اپنا اچھا برا چن سکتے ہیں تو اب اللہ کی بنائی مخلوق کو منحوس کہہ کر اپنے برے حالات و واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہوئی۔
ہمیں اس وقت ذرہ بھر احساس نہیں ہوتاکہ اللہ کو اپنے بندے بے حد عزیز ہیں۔ ایک ماں کے بچے کتنے ہی بد صورت ہوں وہ اس کےلئے دنیا کی حسین ترین نعمت ہوتے ہیں۔ ان کو کوئی منحوس کہہ کر تو دیکھے، ماں تو جھپٹ پڑے گی کہ کسی کی جرات کیسے ہوئی۔ تو اللہ کا معاملہ تو سوِاہے وہ اپنے بندوں کو ستر ماﺅں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی مخلوق کو تخلیق کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور پیشانی میں اپنا نور رکھا۔ اب کیا ایسی مخلوق کو نحوست زدہ قرار دینا ہمارا حق بنتا ہے۔ ہر شخص کے عمل کا جواب دہ وہ خود ہے۔ اور ہر شخص کے حساب کتاب کا حق بھی صرف اللہ کے پاس ہی ہے۔ ہم کسی کے بارے میں فیصلہ یا حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
اللہ کو اپنی مخلوق عزیزہے۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر اس کو ایسے القابات سے نوازنے کا مطلب اللہ کے غضب کو خود آواز دینے کے مترادف ہے۔ سمجھ لیجئے وہ کسی کی نحوست نہیں ہماری اپنی گستاخی ہے کہ جو مصیبت کو جنم دیتی ہے اور معاملات کو بگاڑ دیتی ہے۔ اللہ کی مخلوق کو عزت دینا ضروری ہے۔
اللہ اس بارے میں پوچھ گچھ کرنے والا ہے۔ اسی لئے باطل ہم سے اللہ کے بندوں سے زیادتی کروا کر اللہ کے نا پسندیدہ بندوں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ تا کہ ہماری دنیا آخرت میں کوئی بھلائی شامل نہ رہ سکے۔

💥 ہنٹ11: ہر امر اللہ کی جانب سے ہے
(اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابی نفس کی طرف منسوب کر)، اور (اے محبوبﷺ!) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور (آپ کی رسالت پر) اللہ گواہی میں کافی ہے۔(النسائ۔۹۷)
ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہر لمحہ، ہر آن اللہ پر بہترین یقین رکھ کر ہر اچھے برے معاملے میں سے گزر جاتا ہے۔ وہ نہ تو ..توہم پرست ہوتا ہے اور نہ ہی کم ایمان ہوتاہے۔ وہ ہر امر کو اللہ کی جانب سے سمجھتا ہے۔ اپنے عمل کے نتائج کو توہم پرستی کا شکار ہو کر دوسرے کے سرنہیں تھوپتا۔ اپنے فعل کی ذمہ داری خود اٹھاتا ہے۔ بھلائی اللہ کی جانب سے سمجھتا ہے اور برائی کا سبب اپنے عمل کو ہی جانتاہے۔ وہ کمزور لمحوں کا فائدہ شیطان کو اٹھا نے نہیں دیتابلکہ ہر کمزور لمحے میں اللہ کو اپنا حامی و ناصر محسوس کرتا ہے اور اسی سے مدد طلب کرتا ہے۔ ہر آزمائش میں اللہ کی رسی مضبوطی تھامے رکھنا ہی ایمان کی مضبوطی کا ضامن ہے۔ مسلمان ضعیف الاعتقاد ہر گز نہیں ہوسکتا۔ جس کو اپنے اللہ پر یقین ہے وہ کبھی شیطان کے بہکاوے میں نہ آئے گا نہ ہی اس کے قدم لڑکھڑائیں گے۔
اسی لئے تو باطل اللہ پر یقین مضبوط نہیں ہونے دیتا اور اپنے شاطر کھیل کے ذریعے نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔

💥 ہنٹ 12: اللہ تواللہ اکبرہے
اچھی بری تقدیر پر ایما ن ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ ہم زبانی کلامی ہی ایمان مفصل پڑھ کرایمان کی مضبوطی کا اعلان کرتے ہیں مگر جب ذراسی پریشانی کا سامنا ہوا تو شیطان ہزار ہا وسوسوں اور توہمات کا شکار کر دیتاہے۔ اللہ تو اللہ اکبرہے اور اگر ہمیں ان کلمات پر دل سے یقین ہو تو اس کی کبریائی پر یقین ہی ہمیں ہر پریشانی ، مصیبت میں اس کے سامنے جھکاتاہے۔ اس کو یہ جھکنا ہی پسند آتا ہے اور جب وہ نظر کرم فرمادے تو ہر مشکل آسانی میں بدل جاتی ہے۔ اللہ سے اسی یقین پر مانگیں کہ وہی دینے والا ہے اور یہ بے جا اور فضول باتیں جن پر ہم یقین رکھتے ہیں،ہمیں بہکانے، بھٹکانے کےلئے شیطان کے تراشیدہ بہانے ہیں۔ اس جال میں ہمارا پھنسنا ہمیں اللہ سے دور اور شیطان کی پیروی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اللہ پر یقین ،فرائض کی ادائیگی اور دعا کی قوت ہمارے ایمان کی مضبوطی میں اضافہ کرتی ہے اسی لئے باطل ہمیں ان سب سے دور رکھتا ہے تاکہ ہم سکون کی زندگی نہ گزار سکیں۔