محمدی حسینی نصابِ تعلیم
⚔ شعور باطل۔۔۔ لیول 9⚔
🗡محفلِ ذکر اور باطل🗡
🚩⚔ٹاپک 10⚔🚩
⚔🚩⚔🚩⚔🚩⚔🚩⚔

ٹاپک 10 :محفلِ ذکر اور باطل

💥ہنٹ 1: محافلِ ذکر ایمان کی تازگی اور رسالت مصطفیﷺکی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا ایک بہترین ذریعہ
ایمان کے احیاء اور رسالت مصطفیﷺ کی یاد کو ہمیشہ زندہ اور تازہ رکھنے کا ایک بہترین ذریعہ ذکر کی محافل ہیں۔
جب جب ہم مل بیٹھ کر ذکر کی محافل کا اہتمام کرتے ہیں روح کی تشنہ کامی مٹنے کا سامان ہوتا ہے۔ ان محافل میں ایمان افروز بیان دل میں ایک بار پھر سے ایمان کی شمع از سر نو روشن کر دیتے ہیں۔ کہیں آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام کے شمائل کا ذکر ہوتا ہے... کہیں آپﷺ کے لب و گیسو کی بات چلتی ہے ...کہیں ولادت با سعادت کا ذکر ہوتا ہے... آپﷺکے بچپن ، جوانی کے قصے ، محبت کے ترانے دل میں خوابیدہ محبت کو جگا دیتے ہیں ...یہ پر نور ذکر ہی قلوب و روح کو منور کرتا ہے ...کہیں حیات طیبہ کے گوشے سامعین کے سامنے لائے جاتے ہیں کہ اس ذکر سے قلب میں جان پڑ جائے ...اور بھولے ہوئے بھٹکے ہوئے، دنیا میں مگن ہم امتیوں کو... اپنے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ سے اپنارشتہ استوار کرنے ، مضبوط کرنے... اور ہمیشہ قائم رکھنے کی چاہت نصیب ہو جائے۔ان محافل میں سید المرسلینﷺکے اسوئہ حسنہ اور سیرت پاک کے بیان ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینے کی طرف راغب کرتے اور خود کو اپنے آقائے دو جہاںﷺ کی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کی لگن عطا کرتے ہیں۔ اور تمنا جاگتی ہے کہ کاش !ہم بھی اپنے اللہ اور اس کے حبیبﷺ کے چاہنے والوں میں سے ہو جائیں اور آخرت و دنیا سنور جائے۔
باطل ہمیں اس سب سے محروم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے ہمیںان ذکر کی محفلوں کی اہمیت جاننے نہیں دیتا۔

💥ہنٹ 2: اجتماعیت
باطل دل میں یہ خیال ڈالے گا کہ ذکر تو اکیلے بھی ہوسکتا ہے۔ ہم کیوں نہ خود یہ کام کر لیں۔ جبکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے دین میں بے شمار جگہوں پر اجتماعیت کو فروغ دینے کےلئے ہی معاملات اور عبادات کو مشترکہ طور پر انجام دینے کا حکم فرمایا ہے۔
اللہ نے خود ہر جگہ اپنے ذکر کے ساتھ ہی اپنے حبیبﷺ کا ذکر رکھ کر آپﷺ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔ ان محافل میں اصل میں ہم اسی ذکر کو بلند کر رہے ہوتے ہیں جس کا تذکرہ اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔
اور ہم نے آپﷺ کی خاطر آپﷺ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔ (الانشراح)
ہمیں اس بات کی توفیق نصیب ہو جانا اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہم ان محفلوں میں اس ذکر کو بلند کر پائیں۔ کیونکہ محافل ایمان کی تجدید کا ذریعہ ہیں جب کہ باطل ایمان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کو قطعاً یہ گوارا نہیں کہ ہم اللہ اور اپنے آقائے دو جہاںﷺ کی یاد میں ذکر و اذکار کی محفلیں سجائیں۔ ان محافل میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں اور سنیں اور دل میں اللہ کی محبت کے احساس جاگیں۔ اسی لیئے وہ طرح طرح کی بودی اور گھٹیا دلیلیں دے کر ہمیں مجبور کرتا ہے کہ نہ تو ہم ان محافل میں شرکت کریں اور نہ ہی ان کا اہتمام کریں۔
باطل کی یہی کوشش ہے کہ ہمارے دل میں اپنے آقاﷺ کی محبت کے احساس نہ پنپ سکیں بلکہ یہ دل غلاظت کا ڈھیر ہی بنا رہے۔ اس میں دنیا کی محبتیں ہی جنم لیں پلیں ، بڑھیں اور اس کے علاوہ اسمیں کچھ نہ ہو۔


💥ہنٹ 3: محفل سجانا ہمارے پیارے آقائے دو جہاںﷺ سے خاص تعلق کو ظاہر کرتا ہے
محفل سجانا اور یاد منانا در اصل ہمارے اپنے پیارے نبیﷺ سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ ہم اپنے پیاروں کو ہی مختلف طریقوں ، نرالے رنگ اور انداز میں یاد کرتے ہیں۔ اور ان کے ذکر کی محفلوں کو ترتیب دیتے ہیں۔ جب ہم اپنے پیارے اور محبوب آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام کی یاد میں انﷺ کے ذکر کی محفل سجاتے ہیں تو اصل میں اپنا نرالا، منفرد اورخصوصی تعلق آپﷺ سے ظاہر کرتے ہیں تاکہ آپ خوش ہوں۔ آپﷺ کو یہ اہتمام پسند آجائے۔ نیت محض آپﷺ ہی کی خوشی ہو تو ذکر کی ہر محفل ہمارے اپنے پیارے آقائے دو جہاںﷺ سے تعلق کو نئی نہج اور منفرد درجے پر لے جاتی ہے۔
شیطان کب بھلا یہ چاہے گا کہ اس طرح سے ہمیں قربت کا تعلق نصیب ہو جائے۔ وہ طرح طرح سے ہمیں ان محفلوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ نہ ہم ان محفلوں میں شامل ہوں نہ معلومات حاصل ہوں ، نہ احساس بیدار ہوں۔ نہ جذبات پر چھائی مردنی ختم ہو اور نہ ہی ہم اپنے اللہ اور آقائے دو جہاںﷺ کی جانب جاتی راہ پر اپنے قدم آگے بڑھا سکیں۔
باطل ہمارے ہر قدم کو دنیا ہی کی راہ پر اٹھوانا چاہتا ہے تاکہ دنیا کی دلدل میں پھنس کر آخرت کی کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔

💥ہنٹ 4: اپنے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کا امتی ہونے کا شکر
ہم پر اللہ کا یہ خاص کرم کہ امت میں شامل ہو گئے۔ اسی شکر کی ادائیگی کے لئے بھی تو ہم یہ محافل سجاتے ہیں۔ اور اپنے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی نظر التفات پاتے ہیں جس کے صدقے دنیا میں اور آخرت میں بیڑہ پار ہو جاتاہے۔ اس مردود شیطان کا بیڑہ غرق ہو کہ ہمیں ان محفلوں سے دور رکھتا ہے کہ کہیں ہمیں دنیا و آخرت کی نجات نصیب نہ ہو جائے۔ اللہ نے یہ کائنات آپﷺ کے لیئے سجا دی اور خود آپﷺ پر درود سلام بھیجتا ہے۔ ہمارا اپنے پیارے آقاﷺ سے قلبی اور عشق کا تعلق دل کو مجبور کرتا ہے کہ آپﷺ کی شان میں آپﷺ کے ذکر کی محافل کو سجانے کی کوشش کی جائے جس میں آپﷺ کے زلف و ابرو کی بات ہو ...تو کہیں گنبد حضراء کا بیان ہو ...ایسے ذکر سے روح مہک اٹھتی ہے... روضہ اقدس کی سنہری جالیوں... مدینے کے گلی کوچوں ...شہر دلدار کی روشنی اور رونق ...غرضیکہ ہر شے کا ذکر دل کی دھڑکن دھڑکن کو سماعت میں بدل دیتا ہے... اور محبانِ مصطفیﷺ ہمہ تن گوش وقت کے اس دور میں پہنچ جاتے ہیں کہ جس دور آپﷺ موجود تھے... اسی ذکر کی بدولت عاشق کا دل، قدموں میں نثار ہونے کو مچلتا ہے... تڑپتا ہے... اور حضور ی کی کیفییت میں جھک کر قربت کے مدارج طے کرتا چلا جاتاہے۔
یہ محفل کے فیوض وبرکات ہی تو ہیں مگر شیطان ہمیں ان سے محروم رکھتا ہے۔


💥ہنٹ 5: ذکر کی ہر محفل دراصل نعمت خداوندی کے شکر کا اظہار ہے
محافل میں شمولیت کے حوالے سے کہیں تو باطل کے کہنے میں آ کر سوچ اس طرح بہک جاتی ہے کہ آخر میلاد کیوں منایا جاتا ہے۔
اللہ اس بارے میں یوں فرماتا ہے:
فرما دیجیئے یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) بس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں ،یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ (القرآن، یونس ۰۱:۸۵)
یعنی اللہ خود چاہتا ہے کہ ہم اپنے آقائے دو جہاںﷺ کی آمد کی خوشی کو منائیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں سے انہی میں عظمت والا رسول بھیجا۔ (آل عمران)
اللہ نے اپنے اس احسا ن عظیم کا بطور خاص اس سورة میں تذکرہ فرمایا ہے کہ اس نے ہم میں عظمت والا رسول بھیجا۔ اب اس نعمت اور احسانِ عظیم کے ہو جانے کے بعد کیا ہم پر واجب نہیں کہ ہم بھی شکر ادا کریں۔ اللہ کے سامنے جھک کر اس احسان کے لئے مشکور ہونے کی خاطر محفل کے فیض کی پاور سے زندگیوں کو بدلنے کی سعی جاری رکھیں۔ نعمت اور احسان پر خوشی کا اظہار مل کر کریں تو جس کےلئے یہ اہتمام کیا جائے اس کو بھی یہ مل کر کیا ہوا اہتمام پسند آتا ہے اورعشاق کے دل و نظر کو بھی بھاتا ہے۔ اب اگر ہم یہ شکر ادا کریں اور خود پر ہوئے اس احسان کا شکر بجا لاتے ہوئے نیت یہ رکھیں کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو یہ شکر کا انداز پسند آ جا ئے تو ہمیں اور نوازا جاتا ہے کیونکہ بے شک اللہ کو اپنی دی ہوئی نعمتوں کا تذکرہ پسند ہے۔
باطل کی یہی چال ہے کہ نہ تو ہمیں خود پر ہونے والے اس احسان عظیم کا احساس اور شعور بیدار ہو اور نہ ہی ہم اللہ کا شکر کر سکیں۔وہ ہمیں اس شکر پر ہونے والی مزید بھلائیوں سے ہمیں محروم رکھنا چاہتا ہے۔


💥ہنٹ 6: پیارے آقا ئے دو جہاںﷺ کا یوم ولادت اور یوم وصال
پیارے آقا ئے دو جہاںﷺ کی ولادت کے موقع پر محافل خوب ذوق و شوق سے منائی جاتی ہیں۔ باطل اس معاملہ میں اس طرح بھی سوچ ڈالتا ہے کہ آقائے دو جہاں ﷺ کا یوم ولادت اور یوم وصال ایک ہی ہے تو اس لیئے اس دن خوشی نہیں منانی چاہیئے۔
امام سیوطی اصول شریعت بیان کرتے ہیں۔
بے شک آپ کی ولادت با سعادت ہمارے لیے سب سے بڑی نعمت ہے اور آپﷺ کی وفات ہمارے لیئے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اظہار شکر کا حکم دیا اور مصیبت پر صبرو سکون کرنے اور اسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اسی لیئے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حکم دیا ہے اور یہ بچے کے پیدا ہونے پر اللہ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اظہار کی ایک صورت ہے، لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا۔بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کر دیا ہے۔ لہٰذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں آپﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔
اردو زبان میں سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی پہلی کتاب کے مصنف مفتی محمد عنایت احمد کا کوروی کا قول ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ کے میلاد پر منعقد ہونے والی محفل اظہار مسرت کےلئے ہوتی ہے۔ اس میں غم کا اظہار مناسب نہیں۔ آپ لکھتے ہیں :
مسلمانوں کو چاہئے کہ بہ متقضائے محبتِ آنحضر ت ﷺ محفل شریف کریں اور اسمیں شریک ہوا کریں مگر شرط یہ ہے کہ بہ نیت خالص کیا کریں۔ ریا اور نمائش کو دخل نہ دیں۔ (کاکوری، توریخ حبیب اِلہٰ، یعنی سیرت سید المرسلین ﷺ)

مفتی محمد مظہر اللہ دہلوی لکھتے ہیں : میلاد خوانی بشرطیکہ صحیح روایات کے ساتھ ہو اور بارہویں شریف میں جلوس نکالنا بشرطیکہ اس میں کسی فعل ممنوع کا ارتکاب نہ ہو ، یہ دونوں جائز ہیں۔ ان کو ناجائز کہنے کےلئے دلیل شرعی چاہئے۔ اس کی مخالفت کی کیا دلیل ہے؟ یہ کہنا کہ صحابہ کرامؓ نے کبھی نہ اس طور سے میلاد خوانی کی نہ جلوس نکالا، ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی کہ کسی جائز امر کو کسی کا نہ کرنا اس کو ناجائز نہیں کر سکتا۔ (مظہر اللہ دہلوی، فتاویٰ مظہری)
یہاں اس سوال کا جواب مل گیا کہ جو شیطان دماغ میں ڈالتا ہے کہ اگر اس دور میں یہ کام نہ ہوا تو آج کیوں کیا جائے۔ اس بات کو ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنے خاندان میں ہی جب کسی بھی غمناک واقعہ کا ماحول ہو تو اس وقت خوشی نہیں منائی جا سکتی۔ البتہ کچھ ہی عرصہ گذرنے کے بعد اسی ماہ ، اسی تاریخ کو بھی خوشی منا لی جاتی ہے۔ تب تک غم بھی کم ہو چکا ہوتا ہے۔ صحابہ کرام کے سامنے وہ غمناک واقعہ پیش آیا اس لیئے وہ اس کے بعد آنے والے یوم ولادت و وصال پر وصال کا غم ہی مناتے۔ پھر وقت کے ساتھ آنے والوں پر آقائے دو جہاں ﷺ کی اس دنیا میں آمد کی خوشی اور امت پر ہونے والی اس رحمت پر مسرت کے احساس غالب آتے گئے۔ اسی لئے اس دن کو خوشی کے موقع کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اب بھی اگر ہم باطل کی مان کر شک و شبے میں پڑے رہیں تو اپنا نقصان خود کرنے والوں میں شامل رہیں گے۔

💥ہنٹ 7:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
میری حیات تمہارے لیئے باعث خیر ہے کہ تم دین میں نئی نئی چیزوں کو پاتے ہو اور ہم تمھارے لیئے نئی نئی چیزوں کو پیدا کرتے ہیں۔ اور میری وفات بھی تمھارے لیئے خیر ہے، مجھے تمھارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ پس جب میں تمھاری طرف سے کسی اچھے عمل کو دیکھتا ہوں تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں اور جب کوئی بری چیز دیکھتا ہوں تو تمھارے لیئے اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں۔(المسند)
اس حدیث سے واضح ہے کہ نہ صرف آپﷺ کی ظاہری حیات بلکہ آپﷺ کاوصال مبارک بھی امت کے حق میں رحمت ہے۔ ہمارے پیارے آقائے دو جہاںﷺ ہی شفیع المذنبینﷺ ہیں۔ آپﷺ ہی کی کملی کی سائے میں ہم عاصیوں کو دنیا اور آخرت میں پناہ مل سکتی ہے۔ اسی لیئے ہم اس انعام کا شکر خوشی سے مناتے ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ خوشی منانے کے دیگر بھی طریقے ہیں تو بات یہ ہے کہ خوشی جب قلب پر طاری ہو تو اس کا اظہار طرح طرح سے ہوتا ہے دل جھومتا بھی ہے روح سیراب ہو کر وجد میں بھی آتی ہے۔ اور آدمی مسرور ہو کے آپﷺ کاذکر ادا کرتا ہے۔ شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کی صدائیں اور ان کی پکار فضا میں بلند ہو تو فضائیں بھی ذکر سے معطر سی محسوس ہوتی ہیں۔ اذہان سے بار ہٹ جاتا ہے۔ قلب سے بوجھ دور ہو جاتا ہے اور روح اپنے محبوب آقاﷺ کے ذکر میں ہی شادمانی محسوس کرتی ہے۔ ایسی کیفیات کا ظہور انہی محفلوں میں ہی تو ہوتا ہے ورنہ وقت اتنی مہلت نہیں دیتا کہ اپنے آقاﷺ کی تعظیم و توقیر اور محبت کے احساس میں چند گھڑیاں وقف کر کے بیٹھ جائیں۔ جب یہ لمحات محفل میں میسر آتے ہیں تو بے پناہ محبت کے جذبے امڈ امڈ کے آتے ہیں اور مدح سرائی کرتے ہوئے دل ٹوٹ کر اپنے آقاﷺ کے قدموں میں بکھر بکھر جاتا ہے۔ اور یہی ٹوٹ کر اپنے آقاﷺ کے در پر بکھر جانا، دنیا کی چوکھٹ سے اٹھوا دیتا ہے۔
باطل نے ہی تو ہمیں دنیا کے پاؤں میں ماتھا ٹیکنے پر مجبور کر رکھا ہوتا ہے وہ کہاں چاہتا ہے کہ ہم اس قید سے رہا ہوں۔ اسی لئے ہمارے لئے ہر وہ راہ بند کرنا چاہتا ہے جو ہمیں دنیا سے نکال کر اللہ اور اسکے حبیبﷺ کی قربت کی طرف لے کر جاتی ہے۔

💥ہنٹ 8: یومِ ولادت کی تعظیم ہماری نجات کا وسیلہ
حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔ (صحیح مسلم)
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کے حوا لہ سے ایک واقعہ احادیث کی کتب میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثوبیہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہؓ کی خدمت کےلئے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت ہوئی تو ثو بیہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابو لہب اتنا خوش ہوا کہ اس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ثوبیہ! جا میں نے تجھے نومولودﷺ کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا۔
ابو لہب حالت کفر میں دنیا سے گیا تو پیارے آقائے دو جہاںﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے اسے خواب میں دیکھا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے۔ اس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن (محمدﷺ) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثوبیہ کو ان ہی انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت ابی سلمہؓ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعداد نے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی اس روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
یہ روایت موقع میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کےلئے دلیل اور سند ہے۔ ابو لہب جس کے حوالے سے پوری ایک سورة قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہو گا جو اپنے دل میں موجزن عشق رسولﷺ کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔
(عبدالحق،مدارج النبوة)
اگر ابولہب پر اس قدر کرم ہوسکتا ہے تو اگر ہم مسلمان اور آپﷺ کے امتی آپﷺ کی یاد ، آپﷺ کے ذکر میں خوشی کی محافل سجائیں تو ہم پر اس باعث کس قدر رحمتیں نازل ہو ں گی۔جب ہم ماہ ربیع الاول یا اس کے علاوہ دنوں میں میلاد مناتے ہیں تو برکتوں کا خصوصی نزول ہوتا ہے۔ ماہِ ربیع الاول کے علاوہ بھی آپﷺ کے ذکر کی محافل منانے اور سجانے والوں پر خاص نظر کرم ہوتی ہے اور وہی نظر کایا پلٹ کے رکھ دیتی ہے۔
باطل ہمیں دنیا آخرت میں ناکام دیکھنا چاہتا ہے اسی لئے ہمیں اس جود و کرم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہےجس کی اگر ایک بوند بھی ہم پے پڑ گئی تو دو جہاں سنوارنے کیلئے کافی ہو گی۔



💥ہنٹ 9: اللہ کی رضا پانے اور آقائے دو جہاںﷺ کی اطاعت کا جذبہ
اگر دیکھا جائے تو آخر ہمارے پاس ہے ہی کیا کہ جس کے بل پر ہم آخرت کی نجات پر مطمئن ہو چکے ہیں۔
بخشش ، جہنم سے آزادی اور نجات تو آپ ﷺ سے محبت کے صدقے ہی نصیب ہونی ہے اور اس محبت کو ابھارنے میں یہ محفلیں ہی تو کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہیں سے فرائض کی ادائیگی کا شوق ملتا ہے۔ اللہ کی رضاکے حصول کی کوشش بھی کرنے لگتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ کے احکامات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنوارنے کا موقع ملاتا چلا جاتاہے۔ ان پاک محفلوں میں قرآنی تعلیمات ، تربیتی، اخلاقی اور روحانی پہلوﺅں کا ذکر بھی حلاوت بخش ہوتا ہے۔ دل دنیا سے بے زاری محسوس کرتا ہے تو اب اس میں اللہ کی محبت کا سمندر لہر یں لینے لگتا ہے۔ ساتھ ہی رسول اکرم ﷺ کی سنت کے اتباع اور اطاعتِ رسول ﷺ کی تڑپ بھی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ان محافل کا حاصل ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی دل کو محبت ِ مصطفی ﷺ میں ایسی اطاعت کی توفیق نصیب ہو جائے جس کا حکم خود اللہ نے بھی دیا ہے۔ ان محفلوں کی برکت سے با عمل زندگی گذارنے کی کوشش کرنے سے نہ دنیا میں ناکام ہو ں گے اور نہ ہی آخرت میں رسوا ہوں گے۔
باطل اللہ کے بندوں کی رسوائی ہی تو چاہتا ہے اسی لیئے طرح طرح سے ہر اس وسیلے کو اپنانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت کی کا میابی دے سکے۔

💥ہنٹ 10: محفل میں پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام پر درود وسلام کی بے شمار فضیلتیں
ہر ذکر کی محفل میں پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام پر درودو سلام لازمی بھیجا جاتاہے۔
بےشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی مکرمﷺ پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی)انﷺ پر درود بھیجا کرو اور خوب سلا م بھیجا کرو۔ (سورةالاحزاب) (۳۳:۲۵)
یہ درود و سلام بھیجنا خود اللہ کی سنت ہے اورسنت الٰہیہ ادا کرنا عین سعادت عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
حضرت علی بن حسینؓ اپنے دادا حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؓ نے فرمایا:
اور تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود و سلام بھیجتے رہا کرو، تمہارے درود و سلام مجھ تک (خود) پہنچتے ہیں۔
(احمد بن حنبل، ابن کثیر)
یہ کس قدر کرم ہے کہ ہم جہاں سے بھی درود بھیجیں وہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہے۔ محافل میں کثرت سے درود و سلام پڑھا جاتاہے اور یہ اسی قدر ہی فیض و برکت عطا کرتاہے۔
حضرت ابو داﺅدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو بے شک جمعہ کا دن یومِ مشہود ہے (کیونکہ) اسمیں ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ جو آدمی مجھ پر درود پڑھے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے خواہ وہ کسی بھی جگہ پڑھے۔
صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ کیا آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی یہ عمل جاری رکھیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
(ہاں) میری وفات کے بعد بھی ، (تم یہ عمل جاری رکھو) بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاءکے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔
ابن قیم نے کہا کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ جو آپ ﷺ پر نزدیک سے درود بھیجتے ہیں ، دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے ، کیا یہ سب درود آپ ﷺ پر پیش کیے جاتے ہیں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
میں اہل محبت کا درود خود سنتا ہوں اور انہیں پہچانتا (بھی) ہوں۔ (جزولی)
یعنی زمانے یا وقت کی قید نہیں قرب و جوار معنی نہیں رکھتے۔ جب بھی جس لمحے کوئی جہاں سے بھی محبت کے ساتھ درود بھیجے آپﷺ سماعت فرماتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح واپس لوٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ (ابوداﺅد)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
مشرق و مغرب میں جو مسلمان بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے میں اور میرے رب کے فرشتے اس کے (بھیجے ہوئے) سلام کا جواب دیتے ہیں۔ (ابو نعیم، حلیة الاولیاءو طبقات الاصفیائ)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص مجھ پر جمعہ کے روز اور جمعہ کی رات درود پاک پڑھے اللہ اس کی سو حاجتیں پوری کرتا ہے، ستر آخرت کی اور تیس دنیا کی ، پھر اللہ تعالیٰ اس کےلئے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو (اس کی طرف سے) میری قبر میں اس طرح درود پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں ہدیے پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ مجھے اس آدمی کے نام و نسب کی اس کے خاندان سمیت خبر دیتا ہے پس میں اسے اپنے پاس سفید صحیفے میں ثبت (ریکارڈ) کر لیتا ہوں"۔
(بیہقی، سیوطی، زرقانی)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
اللہ کے بہت سے فرشتے ایسے ہیں جو زمین پر پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کی طرف سے جو سلام بھیجا جاتاہے وہ مجھے پہنچاتے ہیں۔(نسائی ، دارمی، احمد بن حنبل)
کس قدر خوش قسمتی ہے کہ ہم ان محفلوں کا انعقاد خود بھی کریں اور جہاں کہیں یہ محفلیں منعقد ہوں وہاں شامل ہ کر رحم و کرم کے خزانے اپنی جھولیوں میں بھر لیں۔
باطل ہم سے دشمنی نبھاتے ہوئے ہمارے قدم ہر اس راہ سے موڑ لینا چاہتا ہے جہاں سے ہمیں اس قدر بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔

💥ہنٹ 11: محفل نعت
پس حضرت کعب بن مالکؓ دشمنانِ رسول کو جنگ سے ڈراتے اور حضرت حسانؓ ان کے نسب پر طعنِ زنی کرتے اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ انہیں کفر کا (طعنہ دے کر) شرم دلاتے تھے۔ (ابن اثیر)
علامہ ابن جوزی نے بھی شاعر صحابہ کرام میں سے چند کا ذکر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں : بہت سے لوگوں نے حضور ﷺ کو (نعتیہ) اشعار سنائے ، جن میں حضرت عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ ، حضرت حسانؓ ، حضرت اسد بن زنیمؓ ، سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور بہت سے دیگر صحابہ کرام شامل ہیں جو شاعری کے دیوان میں مذکور ہیں۔ (ابن جوزی ، ابو فابا حوال المصطفیٰ ﷺ)
ایسے جلیل القدر صحابہ کرامؓ نے اپنے نبی ﷺ کی شان میں اشعار لکھے اور نعت گوئی اور نعت خوانی فرمائی۔
اس سے بڑھ کر ہمارے لیئے کیا سعادت ہو گی کہ ایک امتی اپنے آقائے دو جہاں ﷺ کی عظمتوں کو اپنے الفاظ میں ، اپنی صدا میں آپ ﷺ کی مدح بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کرے کہ آپ ﷺ متوجہ ہو جائیں۔ عجب نہیں کہ آپ ﷺ کو خبر ہو جائے اور آپ ﷺ جان لیں کہ کوئی بسمل تڑپتا ہے اور خود سے قریب کرلیں۔
ہم نے باطل کی بُنی ہر زنجیر کو توڑ کر اپنے پیارے آقائے دو عالم ﷺ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہے۔ اور اسمیں پہلا قدم آپﷺ کی مدح بیان کرنے سے محبت کرنے سے لیا جا سکتا ہے۔


💥ہنٹ 12: اللہ کے ذکر کی محفل کی برکت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آسمان والے اہل ذکر کے گھروں کو ایسے روشن دیکھتے ہیں جیسے زمین والے ستاروں کو روشن دیکھتے ہیں۔ (اخرجہ ابن ابی شیبہ فی المصنف)
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کی باقاعدہ ذمہ داری یہی ہے کہ وہ صرف مجالس ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں اور مجالس ذکر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پس جب وہ کسی مجلس ذکر کے پاس سے گزرتے ہیں تو (اس مجلس میں اتنی کثرت سے شرکت کرتے ہیں کہ)تہہ در تہہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو دردائؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمؓ نے فرمایا: جن لوگوں کی زبانیں ہمیشہ ذکرِ الٰہی سے تر رہتی ہیں وہ مسکراتے ہوئے جنت میں داخل ہو ں گے۔ (اخرجہ ابن ابی شیبہ فی ا لمصنف)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم جنت کی کیاریوں سے گزرو تو (ان میں سے) خوب کھایا کرو، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : (یارسول اللہ ﷺ!) جنت کی کیاریاں کون سی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ذکر الٰہی کے حلقہ جات۔ (ترمذی)
حضرت سہیل بن حنظلہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب لوگ مجلسِ ذکر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر (کرنے کے بعد اس مجلس سے) اٹھتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے : کھڑے ہو جاﺅ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں اور تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔" (الطبر انی فی المعجم الکبیر)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کے خوف سے اس کی آنکھیں اس قدر اشک بار ہوئیں کہ زمین تک اس کے آنسو پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عذاب نہیں دے گا۔ (الحاکم فی المستدرک)
حضرت ابو ہریرہؓ اورابو سعید خدریؓ دونوں نے گواہی دی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کےلئے بیٹھتے ہیں فرشتے انہیں ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمتِ الٰہی انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کا نزول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنی بارگاہ کے حاضرین میں کرتاہے۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو موسیؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ اپنے رب کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ (دلوں) کی سی ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابو دردائؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن کے چہرے پر نور ہوں گے، وہ موتیوں کے منبروں پر (بیٹھے) ہوں گے، لوگ انہیں دیکھ کے رشک کریں گے ، نہ تو وہ انبیاءہوں گے اور نہ ہی شہدائ۔حضرت ابو دردائؓ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی اپنے گھٹنے کے بل بیٹھ کر کہنے لگا : یا رسول اللہ! آپ ہمارے سامنے ان کا حلیہ بیان فرمائیں تا کہ ہم انہیں جان لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف قبیلوں اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں ، اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا : یا رسول اللہ! مجالس ذکر کی غنیمت (یعنی نفع) کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: مجالس ذکر کی غنیمت جنت ہے۔(احمدبن حنبل)
ان سب روایات سے یہ ثابت ہوا کہ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو ذکر کی محفلیں سجاتے یا انمیں شامل ہوتے ہیں۔ چند لمحے اللہ کے اور اللہ کے حبیب ﷺ کے ذکر کی محفل میں گزار لینا ہی کس قدر کرم و فضل کا سبب ہے۔
باطل نہیں چاہتا کہ ذکر کی محفلوں سے ہم اس قدر مستفید ہوں کہ ہم بھی ان محفلوں کے ذریعے دو جہان کی کامیابی پا لیں اسی لئے اس محفلوں سے محروم رکھتا ہے۔


💥ہنٹ 13: اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بھلائی
ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ:
اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاﺅ، اپنے نبی ﷺ کی محبت، نبی ﷺ کی اہل بیتؑ کی محبت اور (کثرت کے ساتھ) تلاوتِ قرآن پاک۔ (سیوطی، کنز العمال)
باطل ہمیشہ اس کرم سے ہمیں محروم رکھنا چاہے گا جوکسی محفل میں ہم پر ہوتا ہے۔ وہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ہم اسی کی بانہوں میں جھولتے رہیں۔ اس نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ طرح طرح کے سوال ذہن میں اٹھاکر خوب مزے لیتا ہے۔
جب ہم ان سوالوں میں الجھ کر ان تمام فیوض وبرکات سے محروم رہ جاتے ہیں تو باطل خوشی مناتا ہے۔ محافل ایک ذریعہ ہیں جو صرف اور صرف اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کی قربت کی راہ کو ہموار کرتی ہیں۔ اس راہ کی ہمواری ہی منزل کو قریب لاتی چلی جائے گی۔ وہ منزل جس کے خواب ہم ضرور دیکھتے ہیں مگر ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ منزل یعنی جنت کا حصول بھی تبھی ممکن ہے جب دل میں ایمان کی شمع روشن رہے گی۔ اور ایمان اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور اہل بیتؑ کی محبت کے بنا مکمل ہو ہی نہیں سکتا اور اس محبت کے احساس کوئی محبت بھرا دل رکھنے والا ہی بیدار کر سکتا ہے۔
حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ دیتا اللہ ہے۔ (صحیح بخاری)
اللہ ہمیں دین کی جو سمجھ عطا کرتا ہے باطل اس میں شک و شبہات پیدا کر کے ہمیں اس پر عمل سے محروم کرتاچلا جاتا ہے۔ تا کہ نہ تو ہم خود کامیابی حاصل کر سکیں نہ ہی ہماری نسلیں۔