ٹاپک 11 :اللہ والے اور باطل


💥 ہنٹ 1: اپنی مخصوص سوچ کے مطابق بنایاسانچہ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کچھ لوگ اللہ والے ہیں۔ صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! وہ کون ہیں؟ فرمایا وہ قرآن والے ہیں اہل اللہ اور اللہ (عز وجل) کے خاص تعلق والے۔
(ابن ماجہ)
اللہ کی راہ پر چلنا اور استقامت سے قدم آگے بڑھانا تبھی ممکن ہوتا ہے جب ہم نے کسی اللہ والے کا ہاتھ تھا م رکھا ہو۔ جو خود ان منزلوں کا مسافر ہوگا وہی تو ہمیں آگے لے جا سکے گا۔ باطل ہمیں ایسے کسی بھی استاد یا رہنما سے ملنے اسکا ہاتھ پکڑ کر اس کے پیچھے چلنے اور اس کو استاد ماننے سے روکتا ہے تاکہ ہم اپنے اصلاح اور درستگی نہ کر سکیں اور وہ ہمیں اپنے دام میں پھنسائے رکھے۔ہم اپنی مخصوص سوچ کے مطابق اپنے بنائے سانچے میں ڈھلے ہوئے کسی شخص کو ہی اللہ والا کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی اس سانچے سے ذرا ہٹ کے ہو تو نہ تو اسے اللہ والا تسلیم کرتے ہیں نہ اس سے رہنمائی لینا ہی گوارا ہوتا ہے۔ اور استاد سمجھنا تو کُجا اسی کے کردار کے حوالے سے ہی باطل شک و شبہ میں مبتلا کر دیتاہے۔
اللہ نے اپنے راستہ پر آنے کےلئے کہیں نہ تو عمر کی کوئی تخصیص رکھی اور نہ ہی پھر یہ ضروری ہے کہ کوئی عمر میں چھوٹا کسی بڑے کا رہبر نہیں ہوسکتا۔ باطل عمر کے حوالے سے بھی ہمارے دل میں رہبر و رہنما کے حوالے سے سوالات اٹھا کر ہمیں ہدایت کی راہ نہیں اپنانے دیتا۔
اس طرح ظاہری سانچے کے جال میں پھنسا کر باطل ہمیں صراط مستقیم سے دور رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
اس طرح باطل ہماری کامیابی کی راہ ہمارے لئے بند کر کے گمراہی کی ڈگر پر چلائے رکھنا چایتا ہے۔

💥 ہنٹ2 : اصل اور نقل کا فرق
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آج کل ہر کوئی ہی خود کو اللہ والا کہتا ہے تو ایسے میں کس کے پیچھے چلا جائے اور کس طرح سے اندازہ ہو کہ کس کی پیروی ہمیں بھلائی کی راہ پر آگے لے جائے گی۔
عمل سے محروم جعلی عامل یا ڈ بہ پیر کبھی ہمارے دل میں اللہ کااحساس بیدار نہیں کر سکتا۔ وہ ہمیں تعویز دھاگہ، جاد و ٹونہ ، لاٹری نمبر ، ریس کے گھوڑے کا نمبر ،فال وغیرہ کے چکر میںالجھا ئے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہی وہ ہمیں اپنی ذات پر یقین رکھنے کی تلقین کرنے والا ہو گا۔ وہ کبھی ہمارا یقین اللہ کی ذات پر مضبوط نہیں کرا سکتا کیونکہ وہ خود ذات کا پجاری ہوتا ہے۔ چاہے کیسا ہی مسئلہ ہو و ہ اللہ سے رجوع کرنے کی طرف راغب نہیں کرتا ہے بلکہ بندوں کو گھمن گھیر یوں کے ذریعے اپنی طرف بار بار پلٹ آنے اور اسی جال میں پھنسے رہنے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے۔ کہیں گوشت بکرے، کہیں نذرانے وغیرہ کی صورت میں اپنے فائدے اٹھاتا اور لالچ کا ظہار کرتا ہے۔ جلد ہی ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے کوئی ذاتی مقاصد اسے ایسا ڈھونگ رچانے پر مجبور کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھ آجاتی ہے کہ وہ حق کی راہ پر چل رہا ہے یا کسی ہوس و حرص کا شکار ہو کے باطل کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ وہ حق کی پاور سے باطل کے اصل چہرے سے واقف کرا کے اس کوشکست دینے کے گُر سکھا رہا ہے یا خود ہی اس کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا ہے۔
یہ بھی باطل کا ہی وار ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کھلونا بنائے ہوئے چند افراد کے ذریعے حق کی راہ پر چلنے والوں کا تاثر خراب کر کے ہماری ہدایت کی راہ مشکل بنا دیتا ہے۔


💥 ہنٹ 3: خالص اللہ والے
کسی بھی خالص اللہ والے سے رہنمائی لے کرحق کی راہ پر چلنا آسان اسی لیئے ہوتا ہے کہ وہ ہر موڑ ، ہر گلی ، ہر راستے سے خود گزرا ہوا ہوتا ہے اور اب آگے بھی کسی کو گزار سکتا ہے۔ اس نے نفس اور ذات پر کام کیا ہوتا ہے۔ وہ اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کی محبت سے سرشار ہوتا ہے ۔ اور اسی محبت کا بیج ہمارے دل میں بھی بوتا ہے۔
ایک خالص اللہ والا اپنی ذات پربھروسہ کی بجائے ہمارے دل میں اللہ پر یقین کے احساس بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ہماری مشکلات کا حل اس کے اختیار میں ہے بلکہ یہ کھول کر بتاتا ہے کہ دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہی ہے۔ خود بھی اسی سے مانگتا اور ہمیں بھی اسی سے مانگنا سکھاتا ہے۔
باطل یہ جانتا ہے کہ جوخود اللہ کی محبت میں قدم اٹھا کر زندگی اللہ کی قربت پانے کی خاطر گزار رہا ہے وہ باقی سب کو بھی کامیابی کی اس راہ پر چلنےمیں مدد دے سکتا ہے۔ اسلئے باطل ہمیں کسی سچے اللہ والے تک پہنچنے ہی نہیں دیتا اور اگر ہم اللہ کے کرم سے وہاں تک پہنچبھی جائیں تو دل میں شک و شبہات پیدا کر کے ہمیں ہدایت کے اس وسیلے سے دور کر دیتا ہے۔
اس کا یہ وار اسلئے ہوتا ہے کہ ہم خالص اللہ والوں کی صحبت سے فائدہ اٹھا کر دو جہان کی کامیابی نہ حاصل کر لیں۔

💥 ہنٹ 4:
آج ہر جانب معلومات کا سمندر امڈا پڑا ہے کوئی بھی کہیں سے بھی معلومات اکٹھی کر کے ان کو تقریر کی شکل دے کر مجمع اپنے گرد اکٹھا کر سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اللہ کے خاص کرم ، اسی کی عطا کی ہوئی مدد اورحق کی پاور سے بندوں کی بھلائی اور ہدایت کی راہ آسان کرنے والا ہی رہبر و رہنما ہوسکتا ہے۔ پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نظرِرحمت سے دلوں کو بدلنے والاہی کو ئی پیر کامل کہلا سکتا ہے۔ اگر کسی ایک کے دل کی حالت میں بھی تبدیلی آنے لگی اور اس کو ہدایت نصیب ہو گئی تو اس شخص کی نیت اور عمل پر شک کا کوئی سوال ہی نہ رہا۔ ضروری نہیں کہ ہزاروں لاکھوں کے مجمع کو سامنے بٹھانا ہی اس بات کی ضمانت ہو کہ اللہ کے احساس بھی ان کے دلوں میں راسخ ہو گئے۔
باطل اس حوالے سے ہمارے یقین کو کمزور کرتا ہے۔ اگر کہیں زیادہ مجمع نظر آیا تو ہی ہم یہ مانتے ہیں کہ یہاں حق کی بات بتائی جا رہی ہے، بڑا جمع اکٹھا کرنے والے کو ہی رہنما مانتے ہیں۔ جہاں ہماری امید کے مطابق لوگوں کا ہجوم نہ ہو وہاں ہم اسی بات پر اڑ جاتے ہیں کہ یہاں تو سچی رہنمائی نہیں مل رہی اسی لئے لوگوں کا رجہان نہیں ہے۔
باطل اس طرح ہمیں اپنی پسند اور امید کے مطابق رہنما کی تلاش میں الجھا کر ہمیں عملی تبدیلی سے روکے رکھتا ہے تا کہ ہم بہتری کی راہ پر نہ چل سکیں۔

💥 ہنٹ 5: اللہ کو اور اللہ کی ماننا
اصل میں جھوٹ اور سچ آج کل اتنے مدغم ہو چکے ہیں کہ جھوٹ کو سچ سے الگ کر نا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ جو اصل ہیں وہ بھی نقل کی وجہ سے پہچانے نہیں جاتے اور جو نقل ہیں وہ اصل ہونے کا دعویٰ اصل سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں۔ اسی لیئے تو ایک عام بندے کےلئے انتخاب کرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کس کی مانے اور کس کی نہ مانے۔ تو اب اگر ایسی مشکل کا سامنا ہوتو وہ یہ دیکھے کہ دعویٰ کرنے والا خود کس کو اور کس کی مان رہا ہے۔ سچا اللہ والااللہ کو اور اسی کی مان کر ہم سے بھی اللہ کو اور اللہ کی منواتا ہے۔ اس لیئے اس اللہ والے کی رہنمائی میں اس کی مان کر آگے بڑھنا اللہ کو اور اللہ کی منواتا ہے۔ ان کی کہی ہوئی بات میں اپنی مرضی شامل نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کے ہی کسی حکم کو منواتے اور اللہ کی پسند اورمرضی کو ہی مدِ نظر رکھ کر عمل کی سمت متعین کرتے ہیں۔ حق کی راہ پر ایک ایک قدم پر اللہ کی مان کے ہی آگے جا سکتے ہیں۔
جس نے خود اللہ کی مانی وہی کسی سے اللہ کو منوا سکے گا ہم اسی کو مان کر اللہ کی مان سکتے ہیں۔


💥 ہنٹ 6: جعلی کرامات اورکرشمات
یہ سچ ہے کہ اللہ اپنے پیاروں کو ظاہری کرامات اور تصرفات سے بھی نوازتا ہے مگر خالص اللہ والے ہر ممکن حد تک کوشش کرتے ہیں کہ ان کا اظہار نہ ہو ۔ اور اگر اللہ کے حکم سے ہو بھی تو اس کا مقصد اپنی بڑائی اور واہ واہ نہیں بلکہ اللہ کے بندوں کی بھلائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خالص اللہ والے کا کرشمہ اپنے در پر آنے والے کو مئے توحید پلا کراس کے دل کے احساس، اس کی سوچ اور عمل کو اللہ کی مدد سے بدلنا ہے۔ اللہ کے بندوں کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں تھمانااور ان کے دلوں میں پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کی شمع روشن کرنا ہے۔ اگر کوئی اپنے کرامات کو ظاہر کر کے اپنا آپ سچا ثابت کرنے کی کوشش کرے تو الرٹ ہو جائیں۔ ظاہری جھوٹی کرامت والا کوئی بھی نہ تو اللہ کی بات کرتا ہے نہ وہ حق کی منزل تک لے جانے والے راستہ سے باخبر ہوتا ہے۔
باطل کی قید میں جکڑا ہوا اس طرح کا شخص کرشمے کرامات تو دکھا سکتا ہے مگر اس کے پیچھے چل کر حق کی منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔

💥 ہنٹ 7: دنیا ، نفس، شیطان کی غلامی سے آزادی تک کا سفر
باطل کی ہمہ وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہمیں الجھائے اور ہمارا وقت ضائع کروائے۔ وہ نہ تو یہ چاہتاہے کہ ہم اس کے چنگل سے آزاد ہوں اور نہ ہی چاہتاہے کہ ہم اس کی چالیں سمجھیں۔ اب اس کی قید سے رہائی تو وہی دلائے گا جو خود رہا ہو چکا ہو۔ ہم تو اس کی زنجیروں کا اپنے گرد ہونا ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ یہ زنجیریں ہمیں ریشمی جال کی مانند لگتی ہیں۔ دنیا ، نفس، شیطان ہمیں اپنا بے دام غلام بنائے پھرتے ہیں اور باطل اس غلامی سے نجات کی چاہت ہی اندر نہیں اٹھنے دیتا۔ کوئی بھی اللہ والا اس دنیا ، نفس، شیطان کی غلامی سے نجات پاچکا ہو گا۔ ایسے ہی کسی دنیا کے پھندوں ،نفس کی غلامی اور شیطان کی قید سے آزاد اللہ والے کی رہبری میں ہی ہم اس غلامی کا طوق اپنی گردنوں سے بھی اتار پھینکنے کی کوشش میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن جو خود دنیا و نفس کا پیروکار ہے وہ ہمیں بھی اسی میں الجھائے گا۔
اسلئے الرٹ رہ کر جائزہ لیں کہ جسکو رہبر و رہنما مان کر چل رہے ہیں اسکا ساتھ نفس ،دنیا اور شیطان کی قید سے رہا ہونے کی راہ دکھا بھی رہا ہے کہ نہیں۔

💥 ہنٹ 8: راہِ ہدایت پر استقامت سے آگے بڑھنے میں مدد دینے والا
راہِ ہدایت پر استقامت سے آگے بڑھنے میں مدد دینے کے لئے قدم قدم پر رہنمائی دینے والا ہی خالص اللہ والا اور ہمارا سچا خیر خواہ ہوسکتا ہے۔ اس کی رہنمائی میں ہم اپنی زندگی کی ہر آزمائش سے اللہ کے یقین کے سہارے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں سے اللہ کے احساس دل میں بیدار ہوں اور اس پر یقین پختہ ہوتا چلا جائے وہیں جڑے رہنے سے حق کے راستہ پر چلنے کا موقع میسر آسکتاہے۔ اس موقع سے فائد اٹھانا ہی باطل کے منہ پر راکھ ملنا ہے۔
باطل طرح طرح کے نکتے نکال کر ہمارے یقین متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارے قدم ہی ڈگمگا جائیں۔


💥 ہنٹ 9: دین و دنیا کے معاملات
سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو۔ (الانفال:۱)
اللہ والوں کےلئے ایک خاص تصور ہم نے ذہن میں بنا رکھا ہوتا ہے اور اس سے ہٹ کر کسی کو ہم اللہ والا سمجھنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ ہمارے خود ساختہ معیار پر اگر کوئی پورا نہ اترے تو خواہ کوئی کتنا ہی اللہ والا ہو ہم اس کے مقام کو قبول کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے۔ مثلاً اگر کوئی عام زندگی کے روٹین کے معاملات بھی چلا رہا ہے اور اللہ کی راہ پر بھی چل رہا ہے تو ہم اس کو آئیڈیلائز بھی نہیں کرتے۔ حالانکہ آئیڈلائز تو انہی کو کرنا چاہئے جو بیک وقت دین و دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہا ہو۔ ہم انہیں عام انسان سمجھنے لگ جاتے ہیں اور باطل ان کے طور طریقے ،معاملات ، معمولات کو نہیں سمجھتے دیتا کہ وہ یہ سب کس طرح سے بہترین انداز میں نبھا رہے ہیں۔ یوں یہ سبق بھی نہیں سیکھ پاتے کہ ہر دور میں اللہ کی راہ پر چلنے والے اللہ کے پیارے بندے موجود ہوتے ہیں اور انہی کے ذریعے ہمارے لیے بھی اللہ اپنی راہ کھولتا ہے۔ باطل نہ تو ایسے لوگوں کو آئیڈلائز کرنے دیتا ہے اور نہ ہی ہم ہدایت کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔

💥 ہنٹ 10: اللہ والوں سے کاملیت کی امید
اور بے شک آپ ﷺ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔(القلم:۴)
اللہ والوں سے کاملیت کی امید رکھنا بھی باطل کا وار ہی ہے۔ اور اگر کوئی بھی شخص کاملیت کا دعویٰ کرے اور یہ بھی کہے کہ وہ اللہ والا ہے تو یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ ایک خالص اللہ والا کبھی کامل ہونے کا دعویٰ ہرگز نہ کرے گا۔ اس کے نزدیک کامل و اکمل ذات صرف اور صرف پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ہی ہے اور وہ آپ ﷺ کی پیروی اور اطاعت کی بہترین کوشش میں زندگی گزارتا ہے۔
باطل یوں بھی پھنساتا ہے کہ ہم کسی بھی اللہ والے کو اس قدر گہری اور کڑی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ انہیں ایک عام انسان کی کیٹیگری سے بھی نکال دیتے ہیں۔
اگر کوئی شخص عمل کی راہ پر گامزن ہو تو کسی خطا کے سرزد ہونے کا امکان سرے سے ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے خطائیں ہوتی ہیں اور وہ ہر خطا پر نادم ہو کے ہی وہ آگے بڑھتا چلا جاتاہے۔ ہم اتنی سی گنجائش بھی اسے دینے پر تیار نہیں ہوتے بلکہ اس پر فتویٰ لگادینے میں بھی مضائقہ نہیں جانتے۔ جو راہ خدا دکھائے اور عاقبت یاد دلا کر غمِ دنیا سے نجات دلانے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کرنے پر باطل ہی مجبور کرتا ہے۔
باطل یہ وار اسلئے کرتا ہے تا کہ ہم ایسے رہنما سے فائدہ لینے کے بجائے تنقید میں پھنسے رہ کر اپن زندگی گمراہی میں ہی گزارتے جائیں۔

💥 ہنٹ 11: رہنما پر یقین
ایک بار کسی کو رہبر مان لینے کے بعد ان پر یہ یقین رکھنا کہ وہ منزل تک لے جائیں گے،بے حد ضروری ہے مگر باطل ادھر بھی شک کا شکار کر دیتا ہے۔ ہم دنیا میں کسی منزل تک پہنچنا چاہیں تو گاڑ ی کے ڈرائیور پر اندھا اعتماد کر لیتے ہیں۔ اسی لیئے بس پر سوار ہونے سے پہلے کبھی نہیں پوچھتے کہ کیا وہ منزل تک کا راستہ جانتا ہے یا نہیں؟ بلکہ ہم بن کہے اس پر مکمل یقین کر لیتے ہیں کہ اس نے منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھائی تو اب یقینا وہ منزل کا پتا بھی جانتا ہو گا ۔ اسی طرح جب کسی اللہ والے کاہاتھ تھام لیں تو کم ازکم اتنا یقین تو اس پر بھی رکھا جائے کہ وہ منزل کا پتا جانتا ہے اور ہمیں اس منزل تک پہنچا کر ہی دم لے گا۔
حق کے راہی کی منزل اللہ کا قرب اور اس کی بنائی ہوئی جنتوں کا حصول اس کی اولین چاہ ہے اور اس چاہ کی تکمیل کےلئے کسی راہنما کا ہونا ضروری ہے۔ وہی ہمیں اچھے طریقے سے اور کم مدت میں منزل تک لے جاسکتا ہے۔
باطل اسی حق کی منزل سے دور رکھنے کےلئے ہی تو اس اللہ والے کا ہاتھ پکڑنے سے روکتا اور اس پر یقین بھی قائم نہیں ہونے دیتا کہ کہیں اس یقین کی پاور سے ہم منزل تک نہ پہنچ جایئں۔

💥 ہنٹ 12: شوق سفر
اگر ہم ذرا سا شوق رکھنے والے ہوں تو اللہ خود ہمیں اپنے پیارے بندوں سے ملوادیتاہے جن کی رہبری میں ہم اللہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم شوق سفر کا ثبوت دیتے ہوئے عملی کوشش شروع کریں۔ صرف باتوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ جہاں سے رہنمائی ملے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدلنے میں لگ جایئں۔ اور اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ ہدایت پانے کا جتنا شوق ہے کیا عمل بھی اتنی تیزی سے ہو رہا ہے کہ نہیں۔ کیونکہ باطل کی ایک چال یہ بھی ہے کہ وہ ہمارا شوق بس زبان کی حد تک ہی رکھتا ہے۔ عمل سے شوق نظر نہیں آنے دیتا۔ اسلئے اپنے شوق سفر کے جزبے کے ساتھ ساتھ عمل میں تبدیلی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
باطل یہ چال اسلئے چلتا ہے کہ ہم اپنے شوق اعر جزبے سے مطمئن ہو کر عمل کی طرف قدم اٹھا کر کامیابی حاصل نہ کر لیں۔

💥 ہنٹ 13: اللہ کی پسند کا رنگ
اگر ہم کسی کو رہبر و رہنما ماننے لگیں تو باطل کسی نہ کسی طور ہمیں ان کی طرف قدم بڑھانے سے روکتاہے، کبھی یہ کہہ کر کہ اگر ان کا ظاہری حلیہ ایسا ہے تو کیا یہ اللہ والے کہلا سکتے ہیں؟ یہ کیا کسی کو سیدھی راہ دکھا سکیں گے؟ ان کے ماضی پر نظر کرواتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اللہ نے قران میں اپنے پسندیدہ بندوں کی کچھ صفات بیان کی ہیں ان میں تو دل کی حالت اور عمل کی سچائی کا ذکر کیا ہے۔ کہیں بھی اللہ نے کسی ظاہری حالت کو اختیار کرنے والے کو اپنا مقرب یا پسندیدہ بندہ نہیں کہا۔ قران میں جن صفات کو بیان کیا گیا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔
نیک عمل کرنے والے۔
خود کو اللہ کے سپرد کرنے والے۔
آزمائش میں صبر کرنے والے۔
ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے والے۔
دل میں ذکر کرنے والے۔
اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جلی کیفیت) سے پکارنے والے۔
اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت اورتقوٰی اختیار کرنے والے۔
استقامت اختیار کرنے والے۔
نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے۔
آزمائش اور فقرمیں راضی برضا رہنے والے۔
حیاتِ جاودانی کی ان نعمتوں پر فرحاں و شاداں رہنے والے۔
حسن خلق اختیار کرنے والے ہیں۔
اللہ کے یہ پسندیدہ اوصاف جو سچائی کے ساتھ اختیار کر لے یقینا" وہی ہمیں بھی اللہ کی پسند کے رنگ میں رنگنے میں مدد دے سکتا ہے۔
باطل ہمیں رہنمائی لینے کیلئے رہبر و رہنما کی ظاہری حالت میں پھنسا کر اللہ کا پسندیدہ رنگ اپنا کر فلاح حاصل نہیں کرنے دیتا۔