عمر کے تین حصے اور باطل

💥الرٹ 1: اللہ کی نافرمانی اور مطمئن دل
زندگی کے تین مختلف ادوار ہیں بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔
وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی پھر (حیاتیاتی ابتدائ) ایک نطفہ (یعنی ایک خلیہ) سے، پھر رحم مادر میں معلّق وجود سے، پھر (بالآخر) وہی تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر (تمہیں نشو و نما دیتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاو ۔ پھر (تمہیں عمر کی مہلت دیتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہو جاو ۔ اور تم میں سے کوئی (بڑھاپے سے) پہلے ہی وفات پا جاتا ہے اور (یہ سب کچھ اس لئے کیاجاتا ہے) تاکہ تم (اپنی اپنی) مقررّہ میعاد تک پہنچ جاو ۔ اور اِس لئے (بھی) کہ تم سمجھ سکو۔
(سورة المومن: آیت ۷۶)

عمر کے اعتبار سے یہ تقسیم اپنی جگہ درست سہی مگر ہم عمل کے اعتبار سے بھی ان کو اپنی پسند اور مرضی کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔ بچپن کھیل کود ، جوانی عیش و عشرت اور بڑھاپا اللہ اللہ کرنے کے لیئے مختص کر لینا عمومی رویہ ہے جبکہ ایسی کوئی تخصیص اللہ نے کہیں نہیں فرمائی بلکہ اس نے تو نیکی اور بدی کا الہام عطا کر دیا تا کہ دنیا میں جاتے ہی دونوں میں سے ایک راہ کا انتخاب اپنی پسند کے مطابق کرتے جائیں۔
باطل ہمیں اس طرح پھنساتا ہے کہ اللہ اللہ کرنے کےلئے عمر کے آخری حِصّے کا انتظار کیا جائے اور اس سے پہلے کے وقت کو مطمئن رہ کر اور اللہ کے احساس سے عاری ہو کر شیطان کی پیروی میں گزار دیا جائے۔
باطل اس چال کے ذریعے اللہ کی نافرمانی کرنے پر ہمیں مطمئن رکھتا ہے۔

💥الرٹ 2: اپنی مرضی کی زندگی
اللہ کی پسند کے تحت عمل کرنے کے لیئے عمر کے کسی خاص دور کا تعین کر لینا دراصل باطل کی ہی چال ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ بچپن کی زندگی کہ جس میں ایمان کی مضبوطی کی بنیاد رکھی جائے ...کو ضائع کردے اور جوانی جس میں اسی مضبوط بنیاد پر دین کی عمارت کی تعمیر ہونی ہوتی ہے... اس کو مسمار کر کے رکھ دے۔ باطل نہیں چاہتا کہ کوئی بھی اللہ کا بندہ بچپن سے اللہ کی راہ پر اپنے قدم رکھ کر جوانی میں استقامت سے حق کی راہ پر قدم اٹھاتا ہو ا بڑھاپے کے دور میں داخل ہو بلکہ اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ بچپن میں ہی اس سوچ میں پھنسا کر کہ ... ’ابھی تو بچہ ہے ، کھیل کود کے دن ہیں‘...ہمیں بچوں کو اللہ کی پسند و ناپسند سے آ گاہ کرنے اور اس کے مطابق عمل کی کوشش میں مدد سے روک سکے۔ باطل جوانی میں اس فاسد خیال کے ذریعے کہ... جوانی پھر نہیں آنی ...کسی بھی نوجوان کے جذبات کو ابھارتا ہے اور اس کو اللہ کے ناپسند یدہ اعمال سر انجام دینے پر اکساتا ہے۔ باطل ہی یوں بھی گھیراتنگ کرتا ہے کہ اللہ تو بڑا مہربان ہے اب جتنا عیش ہوسکتا ہے کر لیا جائے... بڑھاپے میں توبہ تائب ہو کر اللہ کے حضور پاک صاف ہونے کے لئے حج و عمرہ پر چل دیں گے۔ اور وہاں سے ماں کے سے پیٹ پیدا ہوئے بچے کی طرح معصوم ہو کر واپس آکے بقیہ بڑھاپے کی زندگی آرام و سکون سے اللہ اللہ کرتے بسر کریں گے۔
اس طرح ہم باطل کے وار میں پھنس کر اپنی زندگی اللہ کےحکم کے بجائے اپنی مرضی کے مطابق گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ جو کہ سراسر خصارے کا بائث ہے۔
باطل اس جال میں لپیٹ کر ہمیں بخوشی اپنا نقصان کرنے پر آمادہ کیئے رکھتا ہے۔

💥الرٹ 3: روح کی پاور
دنیا میں آنے والی ہر روح اپنی اصل کی متلاشی ہوتی ہے۔ اصل کی طرف لوٹ جانے یعنی اپنے اللہ کی طرف پلٹ کر جانے تک کا وقت یہاں آزمائش کا ہوتا ہے کہ بندہ کیسے ا پنی روح کی پاور سے کام لے کر اللہ کے راستے پر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔
باطل ہمیں دنیا کی روشنیوں سے اس قدر متاثر کردیتا ہے کہ ہم اس پاور کو استعمال کر کے دنیا کے جال سے نکلنے کی طلب ہی نہیں رکھتے کوشش کرنا تو بہت دور کی بات۔ ہمیں دنیا اور اسکی زیب و زینت اس قدر بھاتی ہے کہ اس کی لذت میں کھو کر ہمیں نہ تو خود اللہ کے راستے پر چلنے کی چاہ ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چاہ ہم اپنے بچوں کے دل میں پروان چڑھاتے ہیں۔
باطل اس ہتھکنڈے کے ذریعے روح پاور کو ضائع کروا دیتا ہے۔

💥الرٹ 4: دہرا معیار
باطل ہمیں دہرامعیار اپنانے پر مجبور رکھتا ہے کہ اگر بچہ اپنے دنیاوی معاملات کے ساتھ شوق اور جذبے سے اللہ کے راستے پر بیک وقت قدم بڑھانا چاہے تو ہم نہ تو سپورٹ کرتے ہیں اور نہ ہی ا س کے جذبے کی داد دیتے ہیں بلکہ الٹا اس کو طرح طرح کی طنز یہ باتیں سنا کر احساس کمتری کا شکار کر دیتے ہیں۔ ہم خود بھی نادانی میں یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ کی راہ پر چلنے کےلئے تو ابھی تمام عمرباقی ہے اور زندگی کا یہ اہم ترین حصہ جبکہ تمام تر جذبے اور توانائیاں اپنے عروج پر ہوں صرف اور صرف دنیا کی دولت سمیٹنے اور ترقی کی راہ پر دوڑے چلے جانے میں ہی صرف ہونی چاہئیں۔
یہاں باطل اس طرف ہمارا دھیان نہیں جانے دیتا کہ ہمیں دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کی ایسی تربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ دنیاوی طور پر بھی آگے بڑھیں اور دین کی راہ پر بھی استقامت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے حقیقی خوشی و کامیابی پا لیں۔
باطل کے وار میں پھنس کر ہی والدین بچوں کو دنیا اور اللہ کی راہ پر ایک سی کوشش کرنے سے روکتے ہیں
اس طرح باطل والدین کے ذریعے بچوں کی ہدایت کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔


💥الرٹ 5: جوانی اور باطل
مردانگی ...نفس سے مغلوب ہو کر ، دنیا کے پھندے گلے میں ڈال کر شیطان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہنا نہیں ہے۔ مردانگی یہ ہے کہ قوت ایمانی سے کام لے کر خود کو اللہ کے احکامات کے تابع کر نے کی کوشش کریں اور نفس کی لگامیں اپنے ہاتھ میں تھامے رکھیں۔ یوں اللہ کی بنائی ہوئی حدود کا احساس بھی رہے گا اور عمل بھی اللہ کی پسند و ناپسند کے تابع رہے گا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ انصاف کرنے والا حاکم ‘ وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں ‘ اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے ‘ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسووں سے بہنے لگ جائیں۔(صحیح بخاری)
جب اللہ کا احساس نہ ہو تو جوانی کے ایام اپنی جھوٹی انا کو بڑھاوا دینے ، اپنی طاقت اور قوت کی نمائش کرتے ہوئے اللہ کے ناپسندیدہ کاموں میں گزرتے چلے جاتے ہیں۔ شیطان نے آنکھوں پر غفلت کی پٹی باندھ رکھی ہوتی ہے اور ہم سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جوانی کے ہر لمحہ کو شیطان کے بے دام غلام بن کر گزارنا ہماری طاقت اور قوت کا مظاہرہ نہیں۔ نفس کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ کی بنائی ہوئی حدود کی پابندی کرنا ہی مردِ جری کا کام ہے۔
اپنی غلامی میں باندھ کر باطل ہماری جوانی کی تمام تر قوت و توانائی غلط راہ پر لگو کر اسکو ضایع کرتا ہے

💥الرٹ 6: اللہ کی راہ پے چلنے کا جذبہ
ہم اپنی صلاحیتوں ، قابلیتوں ، ہنر، فن کو اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی لگانے کی کوشش کرنی چاہئے جیسے کہ ہم دنیا کی راہ پر کرتے ہیں۔ جب ہم اللہ کی راہ پر قدم بڑھائیں تو ہمارے جذبے یکساں طور پر بھرپور ہوں۔ شیطان ہمیں انتہائی ڈاون اور معمولی سے جذبہ کے ساتھ اللہ کی راہ پر قدم بڑھانے پر اطمینان میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا کے کام دھندے چلاتے ہوئے زندگی کے آخری لمحے تک بھی ہمارے جذبے عروج پر ہوتے ہیں جب کہ ذرا سی کوشش جو اللہ کی راہ پر لگنی ہو اس کے لئے جذبہ یا تو بیدار ہی نہیں ہوتا یا اتنا کم اور سرسری ہوتا ہے کہ ایک قدم بھی مضبوطی سے اللہ کی راہ پر اٹھ نہیں پاتا۔ دنیا کےلئے کی جانے والی کوشش کی نسبت اللہ کی راہ پر کی جانے والی کوشش میں خالص پن کی بھی کمی ہوتی ہے۔
باطل ہماری ساری ہمت و طاقت دنیاوی منازل کے حصول میں صرف کیئے رکھتا ہے۔
اس طرح باطل اللہ کی راہ پر چلنے کیلئے ہمارا جذبہ کم کر دیتا ہے

💥الرٹ 7: بڑھاپا
جوانی میں ہم بڑھاپے کا انتظار کرتے ہیں اور بڑھاپا آجائے تو بوڑھی ہڈیوں کے جواب دے جانے کا شکوہ کرتے کرتے اس جہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس طرح نہ بچپن میں اللہ کا احساس دل میں بیدار ہوتا ہے نہ جوانی میں کوئی قدم اللہ کی راہ پر اٹھتا ہے اور نہ ہی پھر بڑھاپے میں اتنی ہمت ، طاقت، اور توفیق رہتی ہے کہ ہم اللہ کی خوشی اور رضا کے مطابق عمل کر سکیں۔
بلکہ بڑھاپے میں آ کر مختلف حوالوں سے مظلومیت اور نا شکری میں پھنس جاتے ہیں۔ صحت، اولاد، محدود وسائل، جسمانی کمزوری اور اس طرح کی بہت سی چیزیں بڑھاپے میں دل پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہوتی ہیں۔
اب چونکہ ہم نے زندگی کے پہلے ادوار میں اللہ کے احساس آشنائی کو پا کر اس کی پاور سے عمل کو جاری نہیں رکھا ہوتا اس لئے بڑھاپے میں بھی یہ عمل دشوار ہو جاتا ہے۔ اور ہم با آسانی منفی باطل کے وار کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس طرح باطل بڑھاپے کے انتظار میں مام عمر ہمیں نفس پرستی کا شکار بنائے رکھتا ہے۔

💥الرٹ 8: توبہ کے لیئے بڑھاپے کا انتظار
ہم نے توبہ تائب ہونے یعنی اللہ کی طرف پلٹ جانے کو بڑھاپے کیلئے رکھا ہوا ہوتا ہے جبکہ ہم بخوبی واقف ہیں کہ اللہ کو جس شے کا سب سے زیادہ شدت سے انتظار ہوتا ہے وہ اس کے بندے کی توبہ ہی ہے یعنی اس کا اپنے اللہ کی طرف پلٹ آنا۔ ہم اکثر اس بات کا پرچار خود کرنے کے باوجود اس پر عمل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
جب تک سانس جاری ہے اس وقت تک توبہ کی مہلت ہے مگر اس بات کی تو کوئی گارنٹی نہیں کہ کونسا سانس آخری ہو۔ اس حقیقت کو جھٹلاتے ہوئے ہم بڑھاپے کا انتظار کرتے ہیں کہ ایک بار زندگی کے سارے مزے لوٹ لیں پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ آخری عمر میں توبہ کرلیں گے۔ یہ تو سچ ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہے وہ سچائی سے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ اور یہ ا س کی غفورالرحیمی ہی ہے کہ وہ آخری سانس تک توبہ کے دروازے ہم پر کھلے رکھتا ہے مگر بندگی کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم پہلے تمام عمر توبہ کی امید پر گناہ کرتے چلے جائیں۔ کسے خبر ہے کہ آخری سانسوں پر ہمیں توبہ نصیب ہو یا نہ ہو۔
باطل توبہ کےلئے بڑھاپے کے انتظار میں الجھائے رکھتا ہے۔
باطل کی یہ چال ہماری نجات کی ہر راہ بند کرنے کیلئے ہوتی ہے۔

💥الرٹ 9: منزل
اللہ کے فضل سے اپنی بخشش کی امید رکھنا درست ہے مگر یہاں باطل ہمیں یہ بات بھلا دیتا ہے کہ ہمیں اپنے کیے گئے اعمال کا حساب کتاب تو دینا ہی ہوگا۔ بےشک کہ اللہ غفور الرحیم ہے مگر جنت جو ایک مسلمان کی منزلِ مقصود ہے اس میں داخلہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم اپنے کیے گئے ناپسندیدہ اعمال کی سزا بھگت لیں گے۔ اگر ہم نے بچپن ، جوانی کو بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر ہی گزارا ہو گا تو حشر کے روز حساب کتاب میں بھی آسانی ہو گی اور جنت میں داخلہ بھی جلد مل جائے گا۔ اس لیے یہ بہترین ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ کی مرضی کے تحت عمل کی کوشش جاری رکھیں تاکہ ہمیں یہ احساس رہے کہ زندگی کا ہر حصہ اور دور ہی اللہ کی پسند کے عمل کرنے کی کوشش میں گزرا جاسکتا ہے۔ اس میں بچپن ، جوانی اور بڑھاپے کے ادوار کی تخصیص نہیں ہے بلکہ زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی خوشی اور رضا کے حصول کےلئے لگاتے چلے جانا ہی بندگی کا تقاضا ہے۔ باطل اس احساس سے غافل رکھتا ہے کہ جنت حاصل کرنے کیلئے صرف بڑھاپے میں محنت نہیں کرنی، بلکہ تمام زندگی اس منزل کے حصول کیلئے لگانی ہے۔
باطل یہ وار منزل پانے کیلئے عملی کوشش سے روکنے کیلئے کرتا ہے۔

💥الرٹ 10: معاملات اور انکی جزا
زندگی کا کوئی بھی دور یا موڑ ہو ہم امورِ زندگی نبھانے کی بہترین کوشش کرتے ہیں مگر غلطی یہ ہوتی ہے کہ یہ سب صرف اور صرف اللہ کوخوش کرنے کے لیئے نہیں کر رہے ہوتے۔ بندوں کی خوشی کے لیئے کرتے ہیں اور توقع کے مطابق ان سے بدلہ نہ ملنے پر مایوس ہوتے ہیں۔
ہمارے عمل کی کمزوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کو چھوڑدیا ہے۔ اگر ہم کسی بھی معاملہ کو اس لیے بہترین طور پر کرتے ہیں کہ اس سے اللہ خوش ہو گا وہ مجھے اس کی جزا دے گا تو دنیا سے ہماری امید یں ختم ہو جا تی ہیں۔ جب وہ کام اللہ کے لیے ہو جاتا ہے تو وہ عبادت میں شامل ہو جا تا ہے۔ ہم معاملات کو عبادت اسی طرح سے بنا سکتے ہیں کیونکہ جس وقت ان میں اللہ کا احساس شامل ہو جاتا ہے یعنی ان معاملات کانبھانا صرف اللہ کے لیے ہو جاتا ہے تو وہ عبادت بن جاتے ہیں۔
اس طرح ہم اپنی زندگی کے تمام معاملات کے ذریعے اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
لیکن باطل ہمارے عمل کو خالص نہیں رہنے دیتا۔ اس میں کہیں نہ کہیں کسی دوسرے کو راضی کرنے کی چاہت کی آمیزش کر کے اسے بس دنیاوی عمل کی حد تک ہی رہنے دیتا ہے۔
باطل یہ اسلیئے کرتا ہے تاکہ ہمیں آخرت میں اپنے عمال کا بہترین صلہ نہ مل سکے۔

💥الرٹ 11: دین اور ظاہری حلیہ
باطل ہمارے اندر یہ منفی سوچ پیدا کرتا ہے کہ دین کی راہ پر چلنے کیلئے ایک مخصوص ظاہری حلیہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ جسکیلئے دنیا کے تمام معاملات مثلا" تعلیم، نوکری، معاشرتی نظام سب چھوڑ کر جائے نماز پر بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا ہو گا۔ یہ بالکل غلط ہے۔
اسلام ایک عالمگیر دین ہے۔ اس کی بنیاد ان اصولوں پر ہے جو ہر وقت اور ہر زمانے میں موثر اور کامیاب ہیں۔اگر غور کریں تو اسلامی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں اور اسلامی علوم آج کے جدید علوم کی بنیاد اور ایجادات کا منبع ہیں۔اس لیئے یہ ایک باطل سوچ اور زاویہ نظر ہے کہ علم دین کا حصول دنیاوی معاملات سے الگ ہے اور دین پر عمل کرنے کیلئے ہمیں اپنا ظاہری حلیہ باقی لوگوں سے مختلف کرنا پڑے گا۔
بلکہ زندگی کا مزہ اسی میں ہے کہ دنیاوی معاملات دین کے احکامات کے مطابق نبھا کر دنیا میں بھی منفرد اور بہترین مقام حاصل کریں اور آخرت میں بھی ان بندوں میں شامل ہوں جو اپنی دنیا دین کے مطابق گزار کر کامیاب ہوئے۔
ہوتا یہ ہے کہ اگر اوائل عمری میں ہی اللہ کے خاص کرم اور مہربانی سے اللہ کی راہ کی رغبت عطا ہوجائے تو شیطان سر پیٹنے لگتا ہے کہ اس نے جس بندے کو اپنا چیلا بنانے کے لیئے تاک رکھا تھا وہ تو اس کی پیروی کی بجائے ، اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے دین و دنیا کے معاملات ساتھ ساتھ چلانے کی کوشش میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیئے وہ ہمارے اندر یہ احساس مضبوط کیئے رکھتا ہے کہ دین کا علم دنیاوی معاملات سے الگ ہے۔
باطل یہ چال چل کر ہمیں دین اور دنیا دونوں میں کامیاب ہونے سے روکتا ہے۔

💥الرٹ 12: ظاہر و باطن کی درستگی
باطل ہمیں صرف ظاہری عمل کی درستگی اور اس بات پر ہی مطمئن رکھتا ہے کہ جیسے ایک مخصوص حلیہ اپنا لینا ہی اللہ والوں کی صف میں شامل ہوجانے کےلئے کافی ہو۔ یہاں وہ اسی پر اطمینان دلاکر ہمیں اصل میں اللہ کی پسند اور خوشی کے مطابق عمل کرنے سے غافل کرتا چلا جاتا ہے۔
باطل اس طرح پھنساتا ہے کہ ظاہری طور پر تو ہم اپنا آپ بدل لیتے ہیں لیکن دل کی حالت اللہ کی پسند کے بجائے اپنی مرضی کی رکھتے ہیں۔ تنگ دلی، معاف نہ کرنا، نا شکری، مظلومیت، غرض ہم دل میں وہ سب رکھ کے بیٹھے ہوتے ہیں جو ہماری تسکین کیلئے ضروری ہوتا ہے۔
یہاں باطل کے اس روپ کو پہچان کر اس نکتہ میں پھنسنے کی بجائے کہ ہم صرف ظاہری روپ ایسا بنالیں اور خود کو اللہ کی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش ہی نہ کریں ،ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہمارا ظاہر و باطن ایسا ہو کہ ہر لمحہ ہر عمل اللہ کی محبت پانے کی چاہ اورپسندیدہ عمل کرنے میں گذرے۔
کیونکہ وہی اللہ کا بندہ اللہ والا ہے جو روٹین کی زندگی کو اللہ کی پسند کے مطابق گذارنے کی کوشش میں لگا ہو۔
باطل ظاہری تبدیلی پر مطمئن کر کے دل

کی حالت بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہونے دیتا۔
اس طرح باطل ہمیں حقیقی اصلاح کی طرف قدم اٹھانے سے روکے رکھتا ہے۔

💥الرٹ 13: نمونہ حیات
تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ بہترین نمونہ ہے۔(مسلم شریف)
ہمارے پاس زندگی کے ہر دور میں پیروی کےلئے بہترین نمونہ حیات پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوٰةوالسلام کی صورت میں موجود ہے۔ آپ ﷺکا بچپن ، جوانی اورآخری ایام کیسے گزرے ان کی تفصیلات تمام تر جزئیات کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اللہ کی راہ پے چلتے یوئے آخرت کی کامیابی پانے کا سب سے آسان اور روشن رستہ آپ ﷺ کے عطا کیئے گئے نمونہ حیات پر عمل ہے۔ جب ہم زندگی کے ہر دور اور روٹین کے معاملات کو آپ ﷺ کی پیروی میں گزارتے ہیں تو سنت کی پیروی کی برکت سے دنیاوی معاملات کامیاب ہوتے جاتے ہیں اور سنت کے اجر کے ذریعے آخرت کی کامیابی بھی دامن میں بھرتی جاتی ہے۔
سنت پر عمل کرنے کی توفیق مل جانا بڑے شکر کا مقام ہے۔
باطل ہمیں آپ ﷺ کے نمومنہ حیات کی اہمیت کے احساس اور اس پر عمل سے محروم رکھتا ہے۔
اسکا یہ وار اسلیئے ہوتا ہے تاکہ ہم آپﷺ کی پیروی کی راہ پر چل کے آسانی سے دنیا آخرت کی کامیابی نہ پا لیں