ٹاپک 13 : حقِ وراثت اور باطل

💥 ہنٹ 1: دنیا۔۔ عارضی ٹھکانہ

دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے۔ یہاں آنے والے ہر مسافر نے مختصر عرصے کے لئے یہاں ٹھہرنا اور پھر اپنے وقت پر یہاں سے کوچ کرنا ہوتا ہے۔ افسوس کہ باطل نے اسی عارضی قیام گاہ کو اپنے لیئے ایک دائمی ٹھکانا سمجھ رکھنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ عالیشان مکان ، بڑی بڑی کوٹھیاں ، بے شمار پلاٹ، ان گنت پلازے دکانیں ،لمبی چوڑی جائیدادیں بنانازندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ جو کو ئی ایسا کرنے میں کامیاب ہو اسے خوش قسمتوں کی فہرست میں اول نمبر پر سمجھا جاتاہے۔
ہم اس دوڑ میں شامل ہو کر یہ بھول گئے کہ جب یہ دنیا خود ایک سرائے یا عارضی قیام گاہ ہے تو اس قیام کو طویل کرنے کی ہر کوشش اور اسے آرام دہ بنانے کی چاہت کے پیچھے خوار ہونا در اصل باطل کی چال ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا عرصہ یہاں گزرانا ہے اس قیام کو اتنا پر لطف اور سکون بخش بنا لیا جائے کہ اس دنیا کی کوئی حسرت باقی نہ رہے۔
باطل ہمیں دنیا اکٹھی کرنے میں الجھا کر یہ فراموش کروا دیتا ہے کہ یہ دنیا تو در اصل آخرت کی کامیابی اکٹھی کرنے کیلئے ملی تھی۔ یہاں بنائی ہوئی جائدادیں آخرت میں کام نہیں آیئں گی بلکہ یہاں کی گئی اللہ کو راضی کرنے کی کوشش وہاں کام آئے گی۔
باطل ہمیں دنیا کے عارصی ٹھکانے کو پر آسائش بنانے میں مصروف کر کے آخرت کے دائمی گھر کو ہمارے ہاتھوں تباہ کروانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

💥 ہنٹ 2: دنیا کی لالچ
ضرورت کا گھر بنانا ، اسے اپنی مرضی کے مطابق سجانا سنوارنا تو درست ہے ،ایسے ہی کاروبار چلانا بھی ضروری ہے۔ مگر ایک کے بعد دوسرا گھر بنانا اور لالچ میں پڑ کر مزید بناتے چلے جانا ضرورت کا تقاضا قطعی نہیں۔ اسی طرح کا روبار ،دکانات، پلازے وغیرہ بنانا ، پلاٹ خریدنا او ر ان کی تعداد بڑھانے کی خواہش بھی دنیا میں اپنے سٹیٹس کو بڑھانے کےلئے دل میں اٹھتی اور گھر کرتی جاتی ہے۔ پھر ان خواہشات کی تکمیل کےلئے اندھا دھند بھاگتے ہوئے جائز و ناجائز طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ کہیں کسی یتیم کا مال ہڑپ کرنے میں بھی حرج نہیں سمجھتے ، اور کہیں کسی غریب کی جگہ پر قبضہ کر بیٹھتے ہیں۔ کبھی کسی لاوارث کو واجبی سی رقم ادا کر کے اس کی زمین ہتھیا لی تو کبھی کسی کو ڈرا دھمکا کر کے اس کی جائیداد پر حق جمالیا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لے لیا ، تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔ (صحیح بخاری)
باطل یہی تو چاہتا ہے کہ ہمارے اندر دنیا کی لالچ اس قدر بھر دے کہ آخرت کی فکر کبھی بھولے سے بھی نہ ہو سکے۔
باطل یہ سب اسلئے کرتا ہے کہ ہم دنیا کا مال اکٹھا کر کے آخرت میں خالی ہاتھ کھڑے ہوں۔

💥 ہنٹ 3: مال کی محبت
پہلے تو جائیدادیں بنانے ، مال بٹورنے کے عمل میں ، شیطان کی دی ہوئی ہر تجویز پر ہنسی خوشی عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر اسی مال کی محبت دل میں شیطان یوں بسا دیتا ہے کہ اسے نہ اپنے بھلے کے لئے استعمال کر پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد کو اس کا کوئی فائدہ اٹھانے کا موقع دیتے ہیں۔ لمبی جائیدادیں دنیا میں شہرت و عزت بنانے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہیں۔ انکو صرف اپنی ملکیئت سمجھ کر ان پر حکمرانی کرنے کا نشہ سا چڑھ جاتا ہے۔ جسمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ اس جائداد کا فائدہ خود بھی اٹھانا ہے اور باقی بھی جس جس کا اس پر حق ہے ان کا بھی حق دینا ہے۔
باطل مال کی محبت دل میں ڈال کر اسکو بچا کر رکھنے کی فکر میں الجھا دیتا ہے۔ اس طرح یہ یاد نہیں رہتا کہ قیامت کے دن حساب بھی دینا ہو گا کہ مال کس طرح اکٹھا کیا اور کہاں لگایا۔
باطل کا یہ گھناوئنا کھیل ہمیں خسارے تک پہنچانے کیلئے ہے۔

💥 ہنٹ 4: جائیدادکی تقسیم
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ میراث کے احکام سیکھو اور سکھاو اس لئے کہ یہ نصف علم ہے اور یہ بھلا دیا جائے گا اور سب سے پہلے میری امت سے یہی علم اٹھایا جائے گا۔
جائیدادکی تقسیم کا سوال اٹھے تو باطل ہزار ہا طریقے سے اپنے جال میں پھنسانے کو تیار ہوتا ہے۔ اول تو جس شخص نے وہ جائیداد بنائی ہو وہ خود اس قدرحریص ہوچکا ہوتا ہے کہ اس کا حوصلہ ہی نہیں پڑتا کہ اسے آگے تقسیم کر ے۔
اور خود کو نہایت عقلمند تصور کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے لگے گا تو اس جائیداد کی وراثت کا فیصلہ کر کے جائے گا۔
ان کا یہی گریز اولاد کو ان سے متنفربھی کر دیتا ہے اور آپس میں رنجش بھی بڑھا دیتاہے۔
ادھر والدین بھی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں کہ اگر ایک بار جائیداد اور بقیہ وراثت کا حق اولاد کو دے دیا تو اب ان کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہ رہے گی اس لیئے اپنی زندگی میں ایسا فیصلہ کرنا عقلمندی ہر گز نہیں۔ اس طرح مال کی محبت کی وجہ سے اولاد سے غیر محسوس طریقے سے فاصلہ بڑھنا شروع ہو جاتاہے۔
اب باطل دہرا کھیل کھیلتا ہے ایک طرف تو اولاد کو بدظن کر کے والدین سے دور کرتا ہے اور دوسری طرف والدین کے شکوک و شبہات کو مضبوط کرتا ہے۔ وہ مزید چوکنا ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چونکہ اولاد غیر ذمہ دار اور خود غرض ہے لہٰذا کسی صورت بھی وراثت کی تقسیم کا فیصلہ زندگی کے دوران نہ کیا جائے۔
اس طرح باطل مال کی محبت اور جود غرضی کی زنجیروں میں جکڑ کر اللہ کی اطاعت سے دور کر کے دنیا و آخرت میں ہمیں رسوا و ناکام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

💥 ہنٹ 5: عقلمندی کاتقاضا
عقلمندی کاتقاضا یہی ہے کہ اللہ کے یقین کے بھروسے اللہ کے ہی حکم کے مطابق اس ذمہ داری کو وقت پر ادا کرکے اپنے لئے زندگی اور آخرت آسان کر لی جائے۔ اس طرح باطل کو اس محاذ پر شکست کا سامنا ہوگا۔ وہ ہمارے اس مضبوط اور دنیاوی اعتبار سے سب سے محترم و مقدس رشتے میں دراڑ ڈال کر آپس میں نفاق پیدا کرتا ہے۔ اس کو اس مقصد میں ناکام کرنے کےلئے بروقت عملی اقدام ضروری ہے۔ اس سے اتفاق اور اعتماد میں اضافہ بھی ہوگا اور زندگی بھی سہل ہو جائے گی۔
بصورتِ دیگر حالات سنورنے کی بجائے بد سے بدترین ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نہ تو آپس میں اتفاق و سلوک باقی رہتاہے نہ ہی رشتوں کاتقدس بحال رکھا جاسکتاہے۔ والدین اپنی اولاد سے نالاں اور اولاد اپنے والدین سے شکوہ کناں رہنے لگتی ہے۔ یہ خوبصورت اور مضبوط رشتہ بھی مادیت کی بھینٹ چڑھ جاتاہے۔ اور محبت کی بجائے بیگانگی کامظاہر ہ حالات کی سنگینی کو دو چند کر دیتاہے۔
باطل اپنی اس چال میں کامیاب ہو کر ہمیں اپنا غلام بنائے رکھتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ اسکے اشاروں پر چل کے ناکامی کے دہانے پر پینچ جائیں۔

💥 ہنٹ 6: حق ِوراثت کی خاطر انتہائی اقدام اٹھانا
زندگی میں وراثت کے حق کے بارے میں فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے جائز حقدار باطل کی چال کا شکار اس طرح سے بھی ہوجاتے ہیں کہ باطل انہیں والدین یا دیگر متعلقہ افراد کےلئے انتہائی اقدام کرنے پر مجبور کرتا ہے وہ یا تو زبر دستی یہ حق وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یا پھر اس حق کے لیئے جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ باطل انہیں اپنے شکنجہ میں لے کر اس طرح کی حکمت عملی ترتیب دینے میں مدد کرتا ہے ایسی ایسی ترکیبیں دماغ میں ڈالتاہے کہ جن کے بل پر مقصد کاحصول ممکن ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ انسان چونکہ کمزور اور جاہل و اقع ہو ا ہے وہ باطل کے دکھائے ہوئے سبز باغ اور سنہری جال میں پھنس جاتاہے اور اس کےلئے جان پر کھیل جانے سے دریغ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو موت کے گھاٹ اتارنااس کےلئے مشکل امر رہتا ہے۔ اب ایک طرف والدین یا دیگر لوگ نقصان اٹھاتے ہیں تو دوسری طرف مجرم دنیا اور آخرت کےلئے خسارے کا سودا کر لیتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کےلئے کیا ہی اچھا ہو کہ معاملہ کو خوش اسلوبی سے طے کر لیا جائے تاکہ ممکنہ منفی نتائج خارج از مکان ٹھہریں۔ اور کوئی بھی فریق گھاٹے میں نہ رہے۔
باطل صورتحال کابہترین فائدہ اٹھاکر بھائی بھائی کو بھی لڑواتاہے، والدین اور اولاد میں بھی کشیدگی پیدا کردیتاہے اور بقیہ افراد کی زندگی بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہتی اور زندگی کے ایام میں ہی جہنم کا نظارہ ہو جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 7: وصیت
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جو وصیت کر کے مرا وہ راہ ہدایت اور سنت کے موافق اور پرہیزگاری وشہادت کے ساتھ مرا اور اس حالت میں مرا کہ اس کی بخشش ہوچکی تھی۔(ابن ماجہ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی مسلمان جس کے پاس وصیت کے لئے مال ہو تو اسے لازم ہے کہ دو راتیں بھی اس حالت میں نہ گزارے کہ اس کے پاس وصیت لکھی ہوئی نہ ہو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی شریف)
ہمارے مذہب نے جائیدادکی تقسیم کے بارے میں ہر پہلو کے حوالے سے اصول وضع کیے گئے ہیں۔ ان کی مدد سے یہ معاملہ انصاف سے نمٹایا جا سکتاہے۔
حضرت ابوہریرہؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کتنے ہی مرد اور عورتیں ساٹھ برس تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں عمل کرتے رہتے ہیں پھر ان کو موت آتی ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ (ترمذی شریف)
باطل جائداد کی وصیت کے وقت بھی نفس کی منمانی کرنے پر اکسا کر ہمیں اپنے ہاتھوں اپنی آخرت برباد کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

💥 ہنٹ 8: ناجائز طریقے سے بنائی گئی جائیداد
بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ جائز و ناجائز طریقے سے جائیداد بنا لیتے ہیں۔ اور اس کو جائز ثابت کر نے کےلئے اس کا کچھ حصہ کسی خیراتی یا فلاحی کام کےلئے مختص کر دیتے ہیں۔ یوں پارسائی کا بھرم بھی رہ جاتاہے اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے شہرت بھی ہاتھ آتی ہے مگر باطل یہ احساس بیدار ہی نہیں ہونے دیتا کہ ناجائز طریقے سے بنائی گئی اس جائیداد کو یوں استعمال کرنے یا مختص کرنے سے اسے جائز ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
بہترین عمل یہ ہے کہ ہم نے حقداروں سے جو جائیداد ہتھیا لی ہو انہی کو واپس کر کے دعائیں سمیٹیں۔ اپنے عمل پر نادم ہو کر توبہ کریں۔ شرمندہ ہو کر اللہ سے بھی معافی مانگیں اور ان بندوں سے بھی معافی مانگیں جن کا حق مار کر اپنے لیئے جائیداد کے ڈھیر لگاتے جا رہے ہوتے ہیں۔
اگر کسی نے ناجائز طریقے سے جائیداد اور مال دولت اکٹھا کیا اور پسماندگان نے بندر بانٹ کرتے ہوئے اس پہلو پر دھیان نہ دیا بلکہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے وہ بھی مال دولت و جائیداد اثاثہ وغیرہ ہڑپ کر گئے تو وہ بھی اس عمل میں برابر کے شریک ہوں گے۔ وراثت کا حق لیں مگر اس وراثت کےلئے جائز ذرائع کا یقینی ہونا ضروری ہے۔
باطل پوری کوشش کرتا ہے کہ اس جانب سے نظریں چرالی جائیں اور سارا ملبہ اسی شخص پر گرایا جائے جس نے جائزو ناجائز طریقے سے یہ اثاثے اور جائیداد اکٹھی کی، اس طرح نسل در نسل ناجائز رزق چلتا جاتا ہے اور کئی نسلوں کی آخرت تباہ ہوتی جاتی ہے۔

💥 ہنٹ 9: حقوق العبادمیں کوتاہی
جائیداد میں حصہ دینے کےلئے صرف بیٹوں کو ہی حقدار سمجھا جاتاہے۔ بیٹیوں کے حوالے سے یہ سوچ ہوتی ہے کہ انہیں جہیز بنا کر دیا جاتاہے اس لیئے اب جائیداد میں ان کا حصہ باقی نہ رہا جبکہ یہ ذاتی سوچ ہے۔ اللہ کے احکام کے مطابق بیٹوں اور بیٹیوں کا اپنا اپنا مقر ر کردہ حصہ ہے۔ جہیز ایک معاشرتی رسم ہے جسے ہم اپنی عزت اور غیرت کے نام پر ہر صورت نبھاتے ہیں۔ یہ ہماری اپنی مرضی ہے کہ ہم اس رواج کو نبھانا چاہیں یا ایسا نہ کریں۔ اسلام نے ایسے رسم و رواج کو نہ تو کبھی فروغ دیاا اور نہ ہی ایسے احکام موجود ہیں۔ تاریخ اٹھا کے دیکھیں تو ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی کہ جہیز کے نام پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہو۔یہ ہماری کم عقلی ہی تو ہے کہ ہم بیٹیوں کو اپنی عزت کی خاطر جہیز دیتے ہیں مگر جائیدا یا وراثت کا حق دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔
باطل اس طرح ہمیں اپنی مرضی کے مطابق معاملات نبھا کر مطمئن رکھتا ہے اور حقوق العباد میں کوتاہی کرواتا ہے۔ کیونکہ یہ جانتا ہے کہ حقوق العباد میں کسی قسم کی چھوٹ نہیں۔


💥 ہنٹ 10: خواتین کو حصہ نہ دینے کی مختلف تدابیر
ہماری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ خو اتین خود بخود اس حق سے دستبرداری کا اعلا ن کر دیں۔ یوں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہ ہمارا دوغلا رویہ اور منافقانہ پالیسی ہی تو ہے کہ بیٹوں کی محبت میں بیٹیوں یا دیگر رشتوں کا حق مار جاتے ہیں اور انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس حق سے دستبرداری کا اعلان کر دیں۔ اور اگر کوئی اپنا حق لینا چاہے تو اسے حریص قرار دے دیا جاتاہے۔
کئی جگہوں پر تو جائیداد کو تقسیم نہ کرنے کی غرض سے بیٹیوں ، بہنوں و غیرہ کی شادی ہی نہیں کی جاتی بلکہ انہیں کنواری ہی بڑھاپے کی عمر کو پہنچا کر ان پر ظلم ڈھایا جاتاہے۔
اس طرح ہم باطل کی چال کا شکار ہو کر کسی کی و کے جائز حق سے بھی اسے محروم کر دیتے ہیں اوراپنے فرائض سے بھی کوتاہی برت رہے ہوتے ہیں۔
وراثت کی تقسیم اپنے ہی خاندان میں کرنے کےلئے بے جوڑ رشتے بھی جوڑے جاتے ہیں۔ یا تو عمر سے بے حد چھوٹے اور یا عمر رسیدہ شوہر کے پلے باندھ کر اپنا فرض ادا کر کے اپنا مقصد بھی پورا کر لیتے ہیں۔ کسی بھی طرح سے اپنی جائیداد اور مال و دولت کو اپنے ہی خاندان تک محدود رکھنے کے لیے ایسے جاہلانہ فیصلے عام ہیں۔ مجبور سہتے چلے جاتے ہیں اور طاقتور اللہ کے احکام نظر انداز کر کے اپنی ہوس کا کنواں بھرتے جاتے ہیں مگر آخر کار خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
باطل فانی دنیا اور مال کی حقیقت کو سمجھنے ہی نہیں دیتا۔ اسکو تسکین کا ساماں بنا کر اس طرح غرق کر دیتا ہے کہ دامن میں بھرا خسارہ نظر ہی نہیں آ پاتا۔

💥 ہنٹ 11: زمین سےمحبت
ایک جذباتی سی بات جو اکثر سننے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین /دھرتی ماں ہوتی ہے۔ اسے نہ تو تقسیم کیا جاسکتاہے اور نہ ہی بیچا جا سکتاہے۔
زمین ، زر، جائیداد،مال وغیرہ کی یہ شدید ترین محبت ہی ہے جو ہم اسے سینے سے چمٹا ئے رکھتے ہیں اور اس کو اپنا فخر سمجھتے ہیں جبکہ اللہ نے تو اسے فتنہ قرار دیا ہے۔ یہ دنیا کا زر و مال تو ہماری آزمائش ہے اور باطل نے اسے جذبات کے خول میں بند کر کے مقدس شے بنا دینے پر مجبور کر رکھا ہے۔
سال ہا سال زمین پڑی رہتی ہے۔ انسان اپنی ضروریات کو ترستے ہیں مگر دھرتی ماں کی عزت کی خاطر انسان کو قربانی دینی پڑی ہے۔ یہ جذباتی وابستگی اپنی جگہ درست سہی مگر اگر انسان اشد ضرورت کے باوجود اس زمین سے جائدہ نہ اٹھا سکے تو یہ عجب ہے!
زمین کی محبت میں ہم سے ہمارے اپنے پیاروں میںنفرتیں بانٹنا باطل کا پسندیدہ کھیل ہے۔ اسکے ذریعے یہ ہماری دنیا آخرت کے سکون کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔

💥 ہنٹ 12: وراثتی قوانین سے لا علمی
کسی بھی حق دار کو وراثت میں سے حق نہ دینا گناہ ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے قیامت کے دن عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ بعض دفعہ والدین غصہ میں آ کر اولاد کو عاق کر دینے کا اعلان کردیتے ہیں جبکہ اولاد کو وراثت کے حق سے اس طرح محروم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ میراث کی اہمیت ہی ہے کہ رحمتِ دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺنے علم میراث سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل بتائے اور میراث میں ناانصافی کرنے والوں کےلئے وعید سنائی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
میراث (مقررہ حصہ) اس کے حقداروں تک پہنچا دو اور جو کچھ باقی بچے ، وہ سب سے زیادہ قریبی مرد عزیز کا ہے۔ (صحیح بخاری)
باطل ہماری نا واقفیت اور ان وراثتی قوانین سے لاعلمی کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسی لئے ہمارا دھیان اس طرف نہیں جانے دیتا کہ ہم اس بارے میں اللہ کے احکامات جان کر بہترین عمل کر کے دو جہان کی آسانی پا لیں۔

💥 ہنٹ 13:
ہر وارث کو بلا تفریق اس کا حق ملنا ضروری ہے ، چاہے وہ کمزور ہے یا طاقتور ، عورت ہے یا مرد ، بیٹی ہے یا بیٹا ، یہاں تک کہ اگر بچہ ماں کے پیٹ میں ہے، ابھی اسے دنیا میں آنے کےلئے کچھ مدت درکار ہوتو بھی ماں کے پیٹ میں موجود حمل کی وراثت کا بھی تعین کر دیا گیا۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں باطل یوں دندناتا پھر رہا ہے کہ ادھر کوئی جہان فانی سے رخصت ہوا ادھر جس کا داﺅ چلا وہ وارث بن کر قبضہ جما بیٹھا۔ جس کے پاس طاقت ہو گی وہ یتیموں اور بیواﺅں کے مال کو بھی ہڑپ کر جائے گا۔ اور نہیں اف کرنے کی بھی اجازت نہ دے گا۔
پھر جس شخص نے اس (وصیّت) کو سننے کے بعد اسے بدل دیا تو اس کا گناہ انہی بدلنے والوں پر ہے، بیشک اللہ بڑا سننے والا خوب جاننے والا ہے(سورةالبقرة ، آیت۱۸۱)
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر جانے والے نے کو ئی وصیت بھی چھوڑی ہو تو اسے بدل لیا یا چھپا لیا جاتاہے۔
اب ان معاملات میں کسی قسم کا سقم یا کمی بیشی ،ہدایات کے حوالے سے موجود نہیں مگر لالچ کے مارے ہوئے لوگ یہاں بھی اپنے لیئے گنجائش نکال لیتے ہیں۔
اس طرح باطل لالچ مزید بڑھاتا جاتا ہے اور دوزخ کے ایندھن کو بھڑکانے کا بھی سامان کرتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 14:
دنیا سے چلے جانے کے بعد یہاں کیے گئے ہر عمل کا حساب ہر فرد کو خود ہی دینا ہوتاہے۔ وہاں نہ مال کام آتا ہے نہ دھن دولت ، نہ زمین و زر، یہ سب کچھ بٹورنے کےلئے لاکھوں جتن کرتے اور پھر ان پر مغرور ہوتے نہیں تھکتے۔ کفن تو سب کا ایک سا اور قبر سب کی اپنی اپنی ہی اور ایک سی ہو گی۔ذرا سوچئے ! ہم پل بھر میں یہ دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ موت ہم سے سانس بھر کی دوری پر کھڑی ہوتی ہے ، اور ہم سالوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اپنے لیئے محل مینارے، جائیدادیں اکٹھی کرتے جاتے ہیں۔ ان کی تقسیم کا فیصلہ وقت پر نہ کر کے جانے کے باعث بے شمار پیچیدگیاں اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ زندگی اس لا حاصل جدو جہد میں صرف نہ کریں بلکہ ضرورت کے مطابق ہی جمع پونجی پاس ہو۔ اور اگر اللہ نے نواز رکھا ہو توتقسیم وراثت کی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کر کے اللہ اور اس کے بندوں کو بھی خوش کریں تاکہ ہمارے اپنے لیئے نجات کی راہ آسان ہوتی چلی جائے۔
باطل دنیا میں بھی ہمیں مال کی لالچ اور اسکو اکٹھا کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگائے رکھتا ہے اور ہماری آخرت بھی اسی مالکی وجہ سے تباہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔