ٹاپک 14: دین اسلام اور باطل


💥ہنٹ 1: کیا دین کے راستے پر چلتے ہوئے یہ دنیا اور اس کے عیش و عشرت کو چھوڑنا پڑے گا
اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اپنے بندوں کے لئے وہ ہدایت کی راہ دکھانے کا وسیلہ اپنے پیارے بندوں کو ہی بناتا ہے۔ جب کبھی ہمیں ایسے اللہ کے پیارے بندوں کاساتھ عطا ہو اور اللہ کی طرف سے ہدایت کی راہ کھلنے لگے تو شیطان ہمیں پھنساتا اور مختلف وسوسے ڈال کے بہکاتاہے۔ جب کبھی اللہ کی قربت کی طرف جاتے راستے پر قدم بڑھانے لگیں تو شیطان دماغ میں یہ سوچ ڈالے گا کہ اگر ہم اللہ کے دین کے راستے پر چلنے لگے تو کیا ہمیں یہ دنیا ، اس کے عیش و عشرت، اسکی ترقی ، اس میں آگے بڑھنا، آرام و سہولیات، تفریحات، آسائشات وغیرہ وغیرہ سب چھوڑنا پڑے گا۔ ہم خود ہی خود سے یہ سوال کرتے ہیں اور کسی اللہ کے بندے سے جواب لینے کی زحمت بھی نہیں کرتے جو دین و دنیا کے معاملات اللہ کی پسند کے مطابق نبھانے کے لیئے لمحہ لمحہ کوشاں ہو۔
اور جو چیز بھی تمہیں عطا کی گئی ہے سو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی رونق و زینت ہے۔ مگر جو چیز (بھی) اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ کیا تم (اس حقیقت کو) نہیں سمجھتے۔(سورة القصص:آیت۰۶)
باطل نے ہمیں صرف دنیا داری کے جال میں ہی پھنسا رکھا ہےاسی لئے یہ بات دنیا میں مگن دل پہ بہت کڑی گزرتی ہے اور یہ مشکل لگتا ہے کہ ہم دنیا چھوڑ کے اللہ کی راہ پر لگ جائیں۔

💥ہنٹ 2: ہم نے دنیا کو دل میں نہیں بسنے دینا ہوتا
جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی۔(سورة ہود:آیت ۵۱)
باطل ہمیں ایسی سوچوں میں پھنساتا ہے کہ اللہ کی راہ پر چلنا تو بالکل فارغ البال لوگوں کا کام ہے یا جنھیں کچھ اور کرنے کو نہ ملا وہ اللہ کی راہ پر لگ گئے۔ اسی لیئے جو بھی اللہ کی راہ اپنائے وہ دنیا کے ساتھ قدم مِلا کر نہیں چل سکتا۔ اگر ہم سچائی جان لیں تو احساس ہوگا کہ ایسا نہیں کہ دنیا چھوڑ دینی ہوتی ہے بلکہ ہم نے صرف دنیا کو دل میں نہیں بسنے دینا ہوتا بلکہ دنیا کے تمام معمولات / معاملات اللہ کی خوشی کے مطابق نبھانے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔
اور بیشک ہم نے ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اس کے لئے باعثِ زینت (و آرائش) بنایا تاکہ ہم ان لوگوں کو (جو زمین کے باسی ہیں) آزمائیں کہ ان میں سے بہ اِعتبارِ عمل کون بہتر ہے۔ (سورة الکہف:آیت ۷)
حق کی راہ پر چلتے ہوئے ہم اللہ کے عطا کردہ اس عیش و آرام اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے لگتے ہیں۔ شکر کے احساس کا دل میں بیدار رہنا ہر حال میں حالتِ شکر میں رہنا سکھاتا ہے اور حالتِ شکر میں رہنے کی وجہ سے ہی اللہ ہمیں مزید نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔ جتنا ہم شکر ادا کرتے ہیں اتنا ہی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اور نوازتا چلا جاتاہے۔
حق کی راہ پر چلنا در اصل ہماری دنا آخرت سنوار دیتا ہے جو کی باطل برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی لئے ہمیں اس راہ سے دور رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 3: نہ تو ہم اسلام کو جانیں اور نہ ہی پھر اس پر عمل کرنا پڑے
باطل ہی ہے جو ہمیں اللہ کے راستے سے اس لیئے بھی دور ہٹاتا ہے کہ اگر ہم نے دین میں بتائے گئے اللہ کے احکام جان لیے تو ان پر عمل بھی کرنا پڑے گا۔اور اس کے ساتھ ساتھ ہر معاملہ یا آزمائش میں صبرشکر کرتے ہوئے اللہ کے حکم پر سر جھکانا پڑے گا۔ ا س لیئے بہتر ہے کہ نہ تو ہم اسلام کو جانیں اور نہ ہی پھر اس پر عمل کرنا پڑے۔
پھر شیطان نے انہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اس (راحت کے) مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا، اور (بالآخر) ہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاو، تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب تمہارے لئے زمین میں ہی معیّنہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدّر کر دیا گیا ہے۔(البقرة:۶۳)
جس طرح یہ باطل اللہ کی نافرمانی کرنے پر جنت سے نکالا گیا اب اسکی یہی خوشش ہے کہ یہ اللہ کے بندوں کو بھی اس جنت سے محروم رکھے۔
اسی لئے باطل دانستہ طور پر ہمیں لاعلم رہنے پر مجبور کرتا ہے تا کہ ہم بے عمل ہی رہیں۔

💥ہنٹ 4: مصائب اور آزمائشیں
ٓباطل اس طرح بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر ہم نے دین کی راہ اپنا لی تو ہم پر آزمائشیں بھی آئیں گی اور ہم ان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیئے بھی اس راستے پر آنے سے کتراتے ہیں۔ جہاں تک مصائب اور آزمائشوں کا تعلق ہے تو زندگی تو ہر ایک کےلئے ہی امتحان ہے۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ہر ایک کسی نہ کسی طرح سے تنگی ، مصیبت یا پریشانی میں سے گزر رہا ہے یہ صرف اللہ کی راہ پر چلنے والوں کےلئے ہی خاص نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہمیں دین سے آشنائی نہیں ہوتی اور عمل کی راہ پر نہیں چلتے ہمارا ایمان بھی مضبوط نہیں ہوتا۔ عام بندے کےلئے کوئی مصیبت پریشانی اس لیئے مصیبت کہلاتی ہے کہ اگر اس کا اللہ کے ساتھ تعلق اور رشتہ مضبوط نہ ہو تو وہ اس پریشانی یا مصیبت کے نتیجے میں اندرونی و بیرونی طور پر ڈھے جاتاہے۔ اندر سے ایمان کی کمزوری اس کی باہری حالت کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس کڑے وقت میں یقین کی کمی کے باعث نہ تو اللہ کی طرف پلٹتا ہے ، نہ اس سے رجوع کر کے مدد مانگتا ہے۔ اسی لیئے مصیبت میں پڑ کر وہ اللہ سے قریب ہونے کی بجائے اس سے مزید دور ہو جاتاہے۔
جبکہ دوسری طرف اگر اللہ کی راہ پر چلنے والے پر کوئی مشکل وقت آجائے تو وہ اسے آزما ئش سے تعبیر کرتا ہے اور اسے اللہ کی مدد اور اسی کے سہارے گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ کا یقین ہی اسے اس آزمائش سے گزرنے کی طاقت اور ہمت دیتاہے اور ہر آزمائش اسے اللہ سے قریب تر کر دیتی ہے۔ یہی فرق ہے ایک عام اللہ کے بندے اور ایک اللہ والے میں ،جو اللہ کی راہ پر چل رہا ہو۔ اللہ والے کو اللہ پر ایمان کی مضبوطی گرنے نہیں دیتی بلکہ وہ باطل کو پچھاڑ کر آگے نکلتاچلا جاتاہے۔ یہی حق پر کھڑے ہونے والے کی پہچان ہے کہ مصیبت یا آزمائش میں خوف زدہ یا غم زدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ کے قریب سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔
باطل ہمیں اللہ کا قرب ہی تو حاصل ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اسی لئے ہر اس راہ سے ہمیں بھٹکاتا ہے جو اللہ کے قریب لے جا رہی ہو۔



💥ہنٹ 5: آج ہم خود اس دنیا کو ٹھوکر نہیں ماریں گے تو کل یہ ہمیں ٹھوکر مار جائے گی
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتاََ کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔(آل عمران:۵۸۱)
دین کافہم و شعور کے عطا ہونے کے بعدہی ہمیں دنیا اور اسکی حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ تب ہم ضرورت کی حد تک ہی دنیا اور اس کے معاملات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور ان کو اللہ کے احساس میں رہ کر اس کی رضا کے مطابق نبھاتے اور اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اسی ہمیشہ جاری رہنے والی کوشش کے نتیجے میں آہستہ آہستہ دنیا کے بھیانک و مکروہ چہرے سے نقاب اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ ہم اپنا دامن دنیا سے چھڑانے میں کامیابی حاصل کرنے لگتے ہیں اور یہ دنیا جس کی رنگینیوں سے بچ نکلنا ناممکن لگتا تھا اب اللہ کے کرم سے دین اسلام کی راہ پر استقامت سے قدم بڑھاتے ہوئے اس گندی دنیا کے جال سے بچ نکلتے ہیں۔
یہی اللہ کی راہ پر چلنے کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ اسی میں ہماری فلاح ہے ۔ کیونکہ سچ یہ ہے کہ آج ہم خود اس دنیا کو ٹھوکر نہیں ماریں گے تو کل یہ ہمیں ٹھوکر مار جائے گی اور تب اس خسارے کا سودا کرنے پر ندامت کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہے گا۔
باطل ہمیں خسارے میں دیکھ کر خوش ہوتا ہے اسی لئے ہماری زندگی میں دین سے دوری پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

💥ہنٹ 6: ہم قدامت پسند ، یاپینڈو وغیرہ کہلانے کے متحمل نہیں ہو سکتے
ایسی سوچوں کے ذریعے بھی باطل اللہ والوں اور اللہ کی راہ سے دور کرتا ہے کہ اصل میں پسماندہ ذہنیت اور کم ترقی یافتہ لوگ ہی دین اسلام کی راہ پر چلتے ہیں۔ ہمارا معاشرے میں سٹیٹس ، رکھ رکھاﺅ ،فیملی بیک گراﺅنڈ ، جاب ، بزنس کا ماحول وغیرہ وغیرہ ہمیں اس جانب قدم بڑھانے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم تضحیک کا نشانہ نہیں بننا چاہتے کہ اللہ کے راستے پر چلنے والوں کا عام طور پر یہی حشر کیا جاتاہے۔ ہم بیک ورڈ یا پینڈو کہلا کر بے عزتی کرانے کی جرات بھی نہیں کر سکتے۔ اس کی بجائے ہمیں دنیا میں کمائی ہوئی عزت کسی بھی ہتھکنڈے سے ہتھائی ہوئی دولت کی بناء پر اپنی عزت اور بڑائی عزیز ہوتی ہے۔ اصل میں ہم اسلام کی جدت پسندی سے اپنی جہالت کی بنا پر آگا ہ نہیں ہوتے۔
در حقیقت اسلام ایک عالمگیر دین ہے جو اصولِ فطرت کے منافی نہیں۔ اگر ہم ذرا سا گہرائی سا جائزہ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام آج ہر طرف پھیل رہا ہے۔ غیر مسلم بھی نہ صرف ہمارے دین کے معترف ہیں بلکہ تیزی سے اس کی جانب راغب ہو کر اس کی تعلیمات پر انتہائی شوق سے عمل کر رہے ہیں۔ یہ ایک جدت پسند مذہب ہے اور قیامت تک کے لئے جو حدود اور ضوابط اسلام نے وضع فرما دیے ہیں اصل میں انہی میں ہر ایک کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی ہے اور انہی میں عزت جان و مال کی حفاظت کی گارنٹی موجود ہے۔۔ اسی لیئے تو دوسری اقوام عالم اس کو سمجھ کر اس پر عمل میں فخر محسوس کر رہی ہیں ۔
باطل نے ہمیں اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے اور ہم اس دین کے پیرو کار ہونے کے باوجود اس کی تعلیمات کو اپنانے میں شرمساری محسوس کرتے ہیں۔


💥ہنٹ 9: حقوق و فرائض
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔ (سورة النساءآیت۶۳)
آج کے ترقی پسند معاشرے جن حقوق کو مرتب کرنے کےلئے پیش رفت اور تگ و دو کی جا رہی ہے اسلام نے وہ حقوق و فرائض صدیوں پہلے وضع کر کے اپنی عالمگیریت پر خود ہی مہر ثبت کی ہے۔ آج بھی جدید قوانین کو وضع کرنے کےلئے انہی قوانین سے استفادہ کرنا بھی اسلام کی جدیدیت کو ثابت کرتا ہے۔
باطل ہمیں بے وقوف بنا کر اپنے دین سے ہی لاعلم رکھتا ہے۔ تاکہ دنیا میں بھی در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رییں اور آخرت میں بھی دین اسلام کی پناہ نصیب نہ ہو سکے۔

💥ہنٹ 10: ضابطہ حیات
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰة دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(البقرة:۷۷۱)
دین اسلام نے اپنے پیروکاروں کےلئے ضابطہ حیات مقرر فرمایا ہے اور پیغمبر آخر الزماں ﷺ نے اپنے اسوئہ حسنہ کے ذریعے تعلیمات پر عمل کرنے کی راہ سکھائی ہے۔ اسی راہ پر چلنا اصل میں ترقی ہے۔ہمارے معاشرتی ،قانونی ،معاشی، عائلی معاملات اور مسائل کا حل بھی اسلام ہی سے مہیا ہے۔ اور اسی طرح دیگر تمام معاملات کا بہترین سلجھاﺅ بھی اسلام ہی کے دائرے میں رہ کر ممکن ہے۔
اگر ہم ہی شیطان کی پیروی کرتے رہیں تو اس ضابطہ حیات سے فائدہ بھی نہ اٹھا سکیں گے اور زندگی کے معاملات بھی الجھے رہیں گے۔



💥ہنٹ 11: حدود و قیود سے آزاد ہو کر زندگی گزارنا ماڈرن ازم نہیں
اسلام جدیدیت اور ترقی کی راہ میں ہر گز رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ اسلام تو خود ترقی کا سب سے بڑا داعی ہے مگر ہر طرح کی حدود و قیود سے آزاد ہو کر جانوروں کی سی زندگی گزارنا ماڈرن ازم نہیں۔ کائنات اللہ کی سلطنت اور انسان اس کا بندہ ہے۔ اس لیئے ہر زمانے میں انسان کے لیئے صحیح رویہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ خدا کی بندگی اور اطاعت کرے اور اس قانون کی پیروی کرے جو اس کائنات کے بنانے والے نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجاہے۔
فرما دیجئیے: اے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں ناحق حد سے تجاوز نہ کیا کرو اور نہ ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کیا کرو جو (بعثتِ محمدی ﷺ سے) پہلے ہی گمراہ ہو چکے تھے اور بہت سے (اور) لوگوں کو (بھی) گمراہ کرگئے اور (بعثتِ محمدی ﷺ کے بعد بھی) سیدھی راہ سے بھٹکے رہے۔ (سورة المائدہ:آیت۷۷)
عورت کا جو مقام و مرتبہ نام نہاد جدید معاشرے کے اندر متعین کیا گیا... اور اس کا جذباتی اور ذہنی استحصال جس طرح سے ماڈن ازم کے نام پر کیا جاتاہے... اس نے عورتوں کو بھی اخلاقی پستیوں میں گرا دیا اور مردوں کو بھی کہیں کا نہ چھوڑا۔
باطل ترقی کے نام پر بُری عادات و اطور اپنانا اور حدود کو توڑ کر اخلاق کی پستیوں میں گرنا ہماری نظر میں صحیح ثابت کر کے گمراہی کر اندھیروں میں گھسیٹتا چلا جا رہا یے۔

💥ہنٹ 12: اسلام تمام تعصبات کو جاہلیت قرار دیتا ہے
اسلام تمام تعصبات کو جاہلیت قرار دیتا ہے۔ تمام انسان حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں۔ اسی بارے میں حضرت محمد ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایاہے کہ :کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اگر ہے تو وہ تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ جو شخص خدا کی صحیح صحیح بندگی کرتا ہے اور خدا کے قانون کی صحیح پیروی کرتا ہے۔ خواہ وہ گورا ہو یا کالا، بہرحال وہ اس شخص سے افضل ہے جو خدا ترسی اور نیکی سے خالی ہو۔ ہمارا دین ہمیں ایسی تعلیمات دیتا ہے جن پر عمل کر کے ہم تقوی اپنا سکتے ہیں اور یہی تقوی ہمیں گناہوں سے بچاتاہے۔ یہی پرہیز گاری ہمیں شیطان کے جال میں پھنسنے سے بچاتی ہے۔
باطل ہی ہمیں اس تقوی کی راہ پر چلنے سے روکتا ہے تا کہ ہم گناہوں کی دلدل میں گر تے چلے جائیں۔

💥ہنٹ 13: اسلام میں علم اور عمل کی اہمیت مسلمہ ہے
ہمارے پیارے آقائے دوجہاں ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس کا پہلا لفظ تھا۔ اقرائ یعنی پڑھ۔ قرآن پاک کا پہلا پیغام علم سے متعلق ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ پڑھنا کتنا ضروری ہے۔
علم کی اہمیت عمل سے دوبالا ہے جیسے کہ قرآن پاک نے ہمیں نظریہ حیات دیا اور پیارے آقائے دوجہاں ﷺ نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔
علم والے عبادت والوں سے افضل ہوتے ہیں کیونکہ علم نہیں ہو گا تو اللہ کی آشنائی کیسے بانٹیں گے۔ اللہ کی آشنائی ہی نہیں ہو گی اور اگر ہمیں احساس ہی نہ ہو گا کہ ہم کس کے آگے جھکے ہوئے ہیں ...کس کی اطاعت و بندگی کر رہے ہیں تو اس کی عبادت کیا معنی رکھے گی۔
علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی بے حد ضروری ہے۔ عمل کے بغیر علم بے معنی ہے بالکل اسی طرح جیسے اگر ہمیں نماز پڑھنے کا علم ہے، اسے یاد کرایا اور سکھایا گیا ہے تو اگر اس علم پر عمل کر کے نماز ادا نہ کی تو ہمارا علم حاصل کرنا بے فائدہ ہو گا۔
جس علم پر عمل نہ ہو وہ بوجھ بن جا تا ہے۔ اور اس علم کے لیے بھی ہمیں جوابدہ ہونا پڑے گا کہ اس علم کا استعمال ٹھیک سے کیا یا نہیں۔ علم امانت ہے جس کو عمل میں لانا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کو عملی طو ر پر کر کے دوسروں میں اس پر عمل کی خواہش ابھاریں اور ان کے لیے مفید بنیں۔
جب ہم خود علم پر عمل کر کے دوسروں کے سامنے مثال پیش کرتے ہیں تو دوسروں کو دی جانے والی تر غیب بھی اثر رکھتی ہے جبکہ عالم بے عمل کا علم کوئی اثر نہیں چھوڑتا اور اگر علم کے ساتھ عمل بھی کرتے ہوں گے تو ہماری بات میں وزن ہو گا جو سننے والے کے ذہن پر ضرو ر اپنا تاثر چھوڑے گا۔
عمل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس دنیا کو عمل کی جگہ ’دارالعمل‘ کہا گیا ہے۔ یہاں ہمیں عمل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہاں اس دنیا میں ہمیں کچھ وقت کی آزمائش کے لیے بھیجاگیا ہے اور یہاں کئے گئے اعمال کی جزا آخرت میں دی جائے گی۔ اس لیئے یہاں عمل کرنا ضروری ہے۔
باطل اس امتحان میں ناکام کرنے کے لیئے ہی طرح طرح کے جتن کرتا ہے۔ کہ یا تو ہم دین کا علم حاصل ہی نہ کریں اور اگر حاصل کر بھی لیں تو اس پر عمل پیرا نہ ہو سکیں اور اس طرح آخرت کی نجات مشکل ہوتی جائے۔

💥ہنٹ 14: قرآن و حدیث اور سنت مبارکہ کا علم
قرآن و حدیث اور سنت مبارکہ کا علم ہمیں دیا گیا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے اپنے عمل کے لیے کچھ حدود کا تعین کر کے بتایا گیا ہے۔ اب اس پر اگر ہم عمل نہ کریں تو ہم نے اپنے عمل کو اس علم کے تابع نہ کر کے خود ہی اپنا نقصان کیا۔ اور اگر خدانخواستہ ہم نے اپنا نقصان کر لیا تو پھر اس علم نے تو ہمیں کوئی فائدہ نہ دیاکیونکہ ہم نے اس پر عمل نہ کیا جو کہ اس علم کے حصول کا اصل مقصد تھا۔ علم بلا شبہ انسان پر اللہ کا انعام ہے۔ یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے انسان کو علم سے نواز کر اشرف المخلوقات بنایا۔ علم ہی دراصل ایسی بنیاد ہے جس پر عمل کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔علم ہو گا تو ہی کوئی اس پر عمل کرنے کے لیے قدم بڑھائے گا۔ اللہ کے راستے پر بھی قدم علم کی بنیادپر بڑھا نا ممکن ہوتا ہے۔ ہمیں قرآن اور حدیث و سنت مبارکہ کا علم ہو گا تو ہی ہم اس کو عمل میں ڈھال سکیں گے۔اگر دنیا میں بھی دیکھا جائے تو لوگ پہلے سکول، کالج، یونیورسٹی میں علم حاصل کرتے ہیں اور پھر اسی کے مطابق اپنے اپنے شعبہ جات میں کام کرتے ہوئے اپنے علم کو عمل میں لا تے ہیں۔
باطل ہمارے اندر دنیاوی علم کو عمل میں لانے کی خوب فکر ڈالتا ہے لیکن قران و سنت مبارکہ کا علم عمل میں لانے کی طرف توجہ تک جانے نہیں دیتا کہ کہیں اس عمل کے ذریعے کامیاب نہ ہو جایئں۔

💥ہنٹ 15: اسلام مشکل دین نہیں ہے
فرما دیجئے: اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق آگیا ہے، سو جس نے راہِ ہدایت اختیار کی بس وہ اپنے ہی فائدے کے لئے ہدایت اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوگیا بس وہ اپنی ہی ہلاکت کے لئے گمراہ ہوتا ہے اور میں تمہارے اوپر داروغہ نہیں ہوں (کہ تمہیں سختی سے راہِ ہدایت پر لے آوں) (سورةیونس، آیت۸۰۱)
اسلام میں جبر نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی شے زبردستی مسلط کی جاتی ہے اور یہی سب سے بڑی آزادی اور جدت پسندی ہے کہ ہمارے سامنے دونوں راہیں (اچھائی/برائی) کھول دی گئی ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کس راہ کو اپناتے ہیں۔ دین اسلام ایسا دین ہے کہ جس میں مسکراہٹ کو بھی صدقہ جاریہ قرار دے دیا گیاہے۔ جس میں راہ سے پتھر ہٹانا بھی نیکیوں میں اضافے کا سبب ہے۔ اسی دین میں تو ہر انسان کو افضل المخلوقات قرار دے کر اس کی تعظیم اور مرتبہ کو مستحکم کر دیا گیاہے۔ اب خواہ وہ کسی قوم ، کسی نسل کسی قبیلے سے بھی تعلق ہو ، وہ افضل المخلوقات ہے تو کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس دین نے ہی اللہ کے بندوں کو ایک برادری ایک ملت بنا دیا ہے۔ اسی دین کی تعلیمات پر عمل انسانیت کا احساس ہمارے دلوں میں بیدار کرتا ہے۔
باطل کی چال ہے کہ یہ ہمیں اپنے دین سے دور کرنے کےلئے یہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا انتہائی مشکل کام ہو ، جبکہ ایسا ہر گز نہیں۔
🏵🚩