ٹاپک 15 :مجازی پیار/ محبت/ عشق اور باطل

💥ہنٹ 1: جدت پسندی
کہتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ جس نے زمانے کی ہوا کا رخ نہ سمجھا اس کے رنگ ڈھنگ نہ اپنائے ، وہ صدیوں پیچھے رہ گیا۔ قدامت پسند کہلایا۔ جس نے ہر قدم زمانے کے وضع کیے ہوئے اصول و ضوابط کی پیروی میں اٹھایا وہی کامیاب کہلایا۔ زمانے نے اس کے گلے میں ہی شہرت وعزت کے ہار ڈالے۔ جدت پسندی، انداز و اطوار میں ہو یا خیال و افکار میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں رہی۔ ہر آتا لمحہ پچھلے کو قدیم کرتا جاتا ہے۔ پچھلی سوچ روایتی قرار پا کر مسترد ہو جاتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ، میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن ہیں۔
(صحیح بخاری)
زمانے کے ساتھ چلنے، اس کے رنگ ڈھنگ اپنانے میں قطعی حرج نہیں۔ البتہ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے کبھی نہ بڑھنا ہی سوچ کو بھی درست نہج پر رکھتا ہے اور عمل میں بھی کسی قسم کا بگاڑ نہیں آنے پاتا۔ باطل جدت پسندی کی آڑھ میں ہمیں اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے پر ابھارتا ہے۔
اسکا یہ وار اسلئے ہے کہ ہم دنیا میں گم ہو کر اللہ کے نافرمان بندوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔


💥 ہنٹ 2: آزادانہ میل ملاپ
زمانے کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے ہی آج آزادانہ میل ملاپ میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ نوجوان بچے بچیاں مخلوط نظام تعلیم کے تحت ایک ہی جگہ تعلیم حاصل کرتے اور اس کے بعد ملازمت کی جگہوں پر بھی آپس میں میل جول رہتا ہے۔ یہ آج کے دور کی ضرورت بھی ہے اور حدود میں رہ کر اپنی ضرورت کے تحت تعلیم حاصل کرنے ، ملازمت اختیار کرنے میں حرج نہیں۔ مگر مسئلہ وہاں در پیش آتا ہے جب باطل کی زد میں آ کر توجہ تعلیم و نوکری سے ہٹ کر دوسرے عوامل پر مرکوز ہو جائے۔ یہاں میسر آنے والے باہمی رابطہ کے مواقع کے مثبت اور بہترین استعمال کرنے کی بجائے اسے محبت کا کھیل کھیلنے اور عشق کا ناٹک رچانے کے لئے پلیٹ فارم سمجھ لیا جائے اور پھر اس کو جدیدیت، ماڈرن ازم کا نام دے کر ہر طرح سے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا جائے۔ باطل ہیاں یہ کھیل بھی کھیلتا ہے کہ اگر کوئی حق بات کہے اور سیدھی راہ دکھانے کی کوشش کرے تو اسے مکھن میں سے بال کی طرح نکال پھینکنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔
باطل کا یہ کھیل کتنے ہی لوگوں کو جذبات کی بھینٹ چڑھا جاتا ہے۔ اور ہم نادان ماڈرن ازم کے خمار میں گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔
باطل اس نفس کی سکین کے ذدیعے ہماری دنیا کے ساتج ساتھ آخرت بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔

💥ہنٹ 3: آزاد محبت
آج کل مادر پدر آزاد محبت اصل میں مخالف جنس کی کشش ہے۔ دماغ کا خلل ہے جو کچھ عرصے بعد اپنی تسکین کے سامان کے لیے کچھ تلاش کر لیتا ہے۔ باطل کے وار میں پھنس کر اس دماغ کے خلل کو عشق کا نام دینا عشق کی توہین ہے۔مجازی عشق میں عاشق ہر حال میں اپنی من مانی کرتے ہوئے حدود سے تجاوز کر جا تے ہیں جبکہ عشق تو دل کا بندھن اور روح کا ملن ہے۔ یہاں جسم کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اہمیت ہے۔ یہ ظاہر کی قیدسے آزاد ماورائی رشتہ ہے جو عاشق اور معشوق کے مابین ازل سے موجود ہوتا ہے۔ یہ چند گھڑیوں کی لذت کا نام نہیں۔ اور نہ ہی لمحاتی ظاہری تسکین کا تصور عشق سے وابستہ ہے۔ یہ لافانی اور دائمی سنجوگ ہے۔
باطل وقتی لذت کو عشق کا نام دے کر اسمیں جکڑے رکھتا ہے۔ اور ہم جو اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتے ہیں اسکے اس جال میں ہنسی خوشی پھنس کر جود کو تباہ کرنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے۔
باطل اس طرح مکمل طور پر ہمیں اپنی مٹھی میں لے کر گمراہی کی راہ چلاتا ہے۔

💥 ہنٹ 4: گمراہی کی راہ
دماغ شیطان کا گھر ہے۔ دماغ سے سوچ سمجھ کر کی جانے والی نام نہاد محبت غلط رستے پر لے جاتی ہے اور کمزور بنا دیتی ہے۔ اس میں کسی پل سکون میسر نہیں آتاہے۔ بلکہ صرف نفسانی و جسمانی خواہشات کی تسکین بن جاتی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ یے کہ ہم سب جانتے ہوئے بھی اس جھوٹی محبت کے دھوکے میں پھنس جاتے ہیں۔ اپنی تباہی و بربادی کی وجہ کو اپنے سکھ سکون کی کنجی سمجھ لیتے ہیں۔ اس دھوکے میں پھنسنے کی ایک وجہ ہمارے معاشرے کا یہ علمیہ ہے کہ ہم دوسرے کی اولاد کو گمراہ کہہ کر سارا الزام دوسروں پر ڈال کے جود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ یا اگر اولاد کی غلطی مان بھی لیں تو انکو اپنی زندگی سے بے دخل کر کے راہ فرار پا لیتے ہیں۔
یہ باطل کے وہ وار ہیں جن کے ذریعے یہ گمراہی کی جڑوں کو ہمارے معاشرے میں مضبوط سے مضبوط تر کرتا جا رہا ہے۔ تا کہ ہم اس سے نجات پانے کی راہ سمجھ ہی نہ پایئں۔

💥 ہنٹ 5:
اولاد کو والدین کی طرف سے ہر طرح کا لاڈ پیار محبت ملنا ضروری ہے کیونکہ کہ ہر انسان کے اندر محبت کاایک خانہ گراونڈ ہوتاہے جس کا بھرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ خالی رہ جائے اور والدین ایسا کرنے میں ناکام ہو جائیں تو پھر وہ اس خالی خانے کو جہاں سے مرضی بھرتا پھرے گا۔ باطل اسی کمی کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔
ساتھ ساتھ والدین کو بھی اپنے چنگل میں پھنسا کر گھر کا ماحول ایسا بنا دیتا ہے کہ اسکے لیئے اپنی ہر چال چلنا آسان ہوتا جائے۔ سمجھداری سے کام لینے کے بجائے والدین کو شدت پسندی میں الجھاتا ہے۔ سخت رویہ ،کہیں بے جا پابندی ، کہیں حد سے بڑھی ہوئی سختی ، کہیں شکوک و شبہات ، کہیں ذرا سی غلطی پر انتہا کی سزا اور کہیں ایک کے جرم کی پاداش میں سب کو چاردیواری میں قید کر دینا، وغیرہ وغیرہ۔یہ سب اقدام والدین کرتے تو اس لیئے ہیں کہ اولاد کسی غلط راستہ پر نہ جا نکلے مگر ہر پابندی آزادی کی امنگ بڑھاتی ہے، چار دیواری کی قید سے فرار پر مجبور کر دیتی ہے۔
باطل یہ نہیں سمجھنے دیتا کہ محبت اور نرمی سے جس طرح معاملات اور حالات کو سنبھالا جا سکتا ہے اس طرح سخی و تنگ نظری سے نہیں کیا جا سکتا۔
باطل اپنی زنجیریں تنگ کرتا جاتا ہے۔ تا کہ ہمارے حالات سدھرنے کے بجائے بگڑتے جایئں۔

💥 ہنٹ 6: کھلاﺅ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی آنکھ سے
کہتے ہیں کہ کھلاﺅ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی آنکھ سے۔ اولاد کی بہتری کےلئے دانشمندی سے کام لینا ضروری ہے۔ ان کے ساتھ ایسی دوستی ہو کہ راز ونیاز بھی نہ چھپائیں اور اظہار رائے بھی کرنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔ والدین کا کام یہی ہے کہ وہ اولاد کو اپنے اعتماد کا یقین دلائیں۔ ان کی تربیت ایسی کریں کہ وہ حدود کا دھیان رکھیں۔ انہیں دینی اور اخلاقی اقدار سے روشناس کروائیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں ان کی پاسداری کرنے کی کوشش کرسکیں۔ جب وہ آشنا ہوں گے تو ہی عمل کی کوشش کر سکیں گے۔ بچوں کو نہ تو حد سے زیادہ گھٹن زدہ ماحول فراہم کریں کہ پھر وہ سانس لینے کےلئے دیواریں پھلانگنے کی کوشش کریں اور نہ ہی اعتماد دینے کے بعد سکون کی نیند سو جائیں۔ کچے ذہن، نئی نئی چاہتیں ، دلوں میں جاگتے جذبات، اپنے اچھے بُرے سے ناواقفیت ان کے قدم کہیں بھی لڑکھڑا سکتی ہے اور انہیں باطل کے چنگل میں پھنسا سکتی ہے۔ ان کے سر پر مسلط بھی نہ رہیں مگر آنکھیں بھی کھلی رکھیں۔
باطل والدین کو انکی ذمہداری سے غافل کر کے اپنی چال انتہائی چالاکیوں کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور ہمیں نا قابل تلافی مقصان سے بہرہ ور کراتا ہے۔

💥ہنٹ 7: بد نظری
حدیث شریف ہے کہ نگاہ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔
باطل کے اسی شکنجے میں جب پھنستے ہیں تو گمراہی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
نظر سے نظر مِلا کر لگتا ہے کہ کوئی اپنا ہونے کو ہے۔ دل کے دروازے تو پہلے سے کھول رکھے ہوتے ہیں کہ جو چاہے آئے، براجمان ہو جائے۔ باطل اسے بد نظری سمجھنے نہیں دیتا۔ آنکھوں کے اشارے کنائے ہی ساری کہانی کی ابتدا اور انتہا طے ہو جاتی ہے۔ رابطے بڑھتے اور سارے جہاں کی نظروں سے اوجھل دودلوں کا بندھن بندھنے لگتا ہے۔ یہ نظروں سے دل تک طے ہوئے فاصلے مٹانے میں شیطان لمحہ لمحہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
حضرت بریدہؓسے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا پہلی نظر تو جائز ہے مگر دوسری نگاہ جائز نہیں۔
(سنن ابو داﺅد)
کیکن باطل کہاں یہ سب سوچنے سمجھنے دیتا ہے۔ ہر اٹھتی نظر کے ساتھ اپنی غلامی کی زنجیر مزید تنگ کرتے ہوئے مزید گمراہی میں دھکیلتا جاتا ہے۔ اور ہم اسکے غلام آنکھوں پر پٹی باندھے جی حضوری کرتے ہوئے اس راہ پر نکل پڑتے ہیں جہاں دھوکہ اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اگر باطل کو وار کو سمجھتے ہوئے نگاہ کی حفاظت کی جائے تو باطل کے ہاتھوں کھلونہ بننے سے بچ سکتے ہیں۔

💥 ہنٹ 8: اللہ کی بنائی حدود
شیطان ہی ہے جو صنفِ مخالف کو اپنی جانب مائل کرنے کے ڈھب سکھاتا ہے۔ بتاتا ہے کہ کیسے ناز و ادا پر کوئی مر مٹے گا۔ یہ شیطان ہی ہے... جو پس پردہ رہ کر محبت کی جھوٹی کہانیوں میں ہدایت کاری کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوتا ہے... ان کہانیوں میں شامل کرداروں کو اللہ کی عائد کردہ حدود کو توڑ کر بد کرداری پر مجبور کر دیتاہے ...یہ کہہ کر کہ محبت و جنگ میں سب جائز ہے۔ یہ دلیل بھی تو شیطان کی ہی ہے کہ محبت دو دلوں کا بندھن ہے... اس میں کسی تیسرے کی گنجائش کیسی... ! جب دو دل ہوں راضی... تو باقیوں کو تو ہری جھنڈی دکھا دی جاتی ہے۔ عہد و پیمان باندھے جاتے ہیں کیونکہ تب یہ یقین ہوتا ہے کہ دنیا اس کے دم سے آباد ہے جس نے اپناکہا ہے۔پیار کے میٹھے مگر جھوٹے بول سننے کی دیر ہوتی ہے کہ دل قدموں میں رکھ دیا جاتا ہے کہ لے اب اس سے کھیل... ! بات صرف دل تک ہی کب محدود رہتی ہے خود اپنی ذات کا... جیسے اور جہاں چاہے استعمال کیا جانا ...بھی منظور کر لیا جاتا ہے کہ نام نہاد محبوب کی ناراضگی سے ڈر جاتے ہیں۔
اللہ کی بتائی گئی حدود در اصل ہماری اپنی سلامتی اور خیر و عافیت کیلئے ہیں۔ جب انکو توڑتے ہیں تو امن و سکون کی چاردواری گر جاتی ہے۔ یہی باطل کی کوشش ہوتی ہے۔
اس طرح باطل ہمیں تباہی و بربادی کی راہ پر لے چلتا ہے۔

💥 ہنٹ 9:
باطل جھوٹا یقین دل میں اتار دیتا ہے کہ اس ایک کے سوا نہ تو تجھے کسی نے اپنا سمجھا۔ نہ کسی نے توجہ کا مرکز بنایا۔ نہ کسی کی زندگی میں تُو یوں خاص ہوا جیسے اُس نے کر لیا۔ بس اسی ادا پر سب نثار کرتے چلے جاتے ہیں۔ جب اس طرح یقین دماغ کی نس نس میں سما جائے تو ساری دنیاہی جھوٹی اوروہایک سچا لگتاہے۔ آنکھوں پر یہ پڑا ہوا پردہ باطل ہی کا تو ہوتا ہے۔ یہ پردہ فاش تب ہوتا ہے جب ہر طرح کا ذہنی ،نفسیاتی ، جسمانی استحصال ہو چکے۔ وہ ایک کہ دنیا جس کے دم سے آباد ہوتی ہے اب وہ ہمیں برباد اور کہیں کا نہ چھوڑ کے، رفو چکر ہو جاتاہے۔جذبات کا جنازہ نکل جاتاہے۔اور احساسات اس جھوٹی محبت کی سولی چڑھ جاتے ہیں۔ وہ تمام حقوق جو امانت ہوتے ہیں ان میں خیانت ہو جاتی ہے۔ اور یہ بھی سب کا سب شیطان کا ہی قصور تو نہیں۔ ہم خود بھی تو اس کے پیچھے بھاگے چلے جاتے ہیں۔ خود یہ چاہتے ہیں کہ آزاد پرندے کی طرح کھلا آسمان میں اڑتے پھریں۔ چاہے اس کی قیمت اپنا آپ لٹا کر ادا کرنی پڑے۔
باطل کا یہ رچا ہوا کھیل ہم سمجھتے بھی ہیں پھر بھی ہنسی خوشی اسکا شکار بننا پسند کرتے ہیں۔
اس طرح باطل ہمیں ایسے لوٹتا ہے کہ ہم کسی سے شکوہ کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔

💥 ہنٹ 10: شیطان کا چیلا
باطل نے جس شخص کی خاطر اپنا آپ داﺅ پر لگا دینے کو بہادری اور جرات کا نام دیا ہوتا ہے وہی تو شیطان کا چیلا بن کر زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ شیطان اسی کے ذریعے تو رگ رگ میں جھوٹی محبت کا زہر اتار کر جیتے جی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جس نے عزت کا دامن تار تار کرنے میں کوئی کسر نہ رہنے دی وہ کیسے خوابوں کی تعبیر دینے والا ہوسکتا ہے۔ جھوٹی کہانیاں گھڑ کے طلسماتی دنیا کی سیر پر لے جانے والے ایسے ڈھونگی کو محبوب کا درجہ کیونکر دیا جاسکتا ہے جو اپنی فسوں خیز شخصیت کے جال میں پھنسا کر اپنا ’مطلب ‘پورا کر لے اور جب خوابوں کی تعبیر دینے کی باری آئے تو نت نئے بہانے گھڑلے۔ کہیں مجبوری کا رونا، کہیں ذمہ داری کا ڈرامہ رچا کر اور اسی طرح کے ہزاروں حیلے کر کے جان چھڑا لے۔ جو عزت کا خریدار بن کر سرِبازار آن کھڑ ا ہو اور ہمیں بکاﺅ مال سمجھ کر مول لگا ئے ،اس سے عزت بھری زندگی دینے کا وعدہ نبھانے کی امید باطل کا جھانسہ ہے۔ جومشکل کی گھڑی میں حالات کے رحم و کرم پر تنہا چھوڑ کر رفو چکر ہو جائے اس کاتمام عمر رستہ دیکھنا اور اس کے لیئے آنسو بہانا خود کو ارزاں اور بے مول کر لینے کے برابر ہے۔
باطل ہمارے ارد گرد ایسا سنہری جال بنتا ہے کہ اسمیں پھنس کر یہ سب سمجھ نہیں آتا۔

💥 ہنٹ 11: اپنی بچت، اپنا تحفظ اپنے ہاتھ میں
ہاں واقعی جس نے برائی اختیار کی اور اس کے گناہوں نے اس کو ہر طرف سے گھیر لیا تو وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔(البقرة:۱۸)

اصل میں ہم خود ہی بیوقوف بننا چاہتے ہیں۔ بس اپنی ہی بنائی اور سجائی ہوئی دنیا میں آنکھیں موندے خواب دیکھتے رہیں۔ کسی کے دل پر راج کرنے کی غلط فہمی کا ازالہ بھی تب ہونا ممکن نہیں رہتا جب آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ کسی کی زندگی پر حکومت کرلینے کی خوش فہمی بھی سارا فریب ہی ثابت ہوتی ہے یہاں کون ایسا سچا ، ایسا مخلص ہے جو اس مکرو فریب سے آراستہ دنیا میں کسی کو عزت سے اپنا بنالینے کے وعدہ نبھائے۔ یہ سب باطل کے مہرے ہیں جو وقت گزارتے دل بہلاتے اور چلتے بنتے ہیں۔ اپنی بچت، اپنا تحفظ اپنے ہاتھ میں ہے۔ چاہو تو جھوٹی محبتوں کو سچ جان کر اندھا یقین کر کے سر تاپا لُٹ جاﺅ۔اور چاہو تو ایمان کے مضبوط قلعے میں خود کو محفوظ کر کے ، اللہ کی حدود کی پاسداری کرنے کی کوشش کرو تاکہ نہ دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہو اور نہ حشر کے میدان میں رسوائی ہومگر تب حشر کس کو یاد آتا ہے کہ جب باطل کے ہاتھ لگ کر زمانے سے ٹکر لے کر کھڑے ہوں۔
اس طرح باطل آنکھوں دیکھی حقیقت کو بھی سمجھنے نہ دے کر ہمیں خسارے کی دلدل میں دھنساتا چلا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 12: عقلاب بھی ٹھکانے نہیں آتی
زمانے بھر کی ٹھوکریں کھانے کےلئے جب تنہاو شکست خوردہ رہ جاتے ہیں۔ عقل تب بھی ٹھکانے نہیں آتی۔ شیطان سو ثبوت دے کر ایک کو دوسرے کے سامنے معصوم و بے گناہ قرار دے دیتا ہے اور دلوں میں نرم گوشہ باقی چھوڑ جاتا ہے۔ اسی نرم گوشہ میں پھر سے جذبوں کی پنیری بنتی ہے۔ رابطے بحال ہو کے معافی تلافی بھی ہو جاتی ہے۔ باہمی رضا مندی سے پھر ایک نئی دلدل میں گرنے کا سفر شروع ہوتا ہے۔
تعلقات دوبارہ استوار ہو جاتے ہیں۔ سہانے خواب تو دکھائے ہی جاتے ہیں اب ان کی تعبیر کی صورت یہ نکالتے ہیں کہ وہ تمام’ حقوق و فرائض‘ جو کہ شادی شدہ زندگی سے متعلق ہوں ...ہر ممکن طریقے سے جائز و نا جائز کی حدود بھلا کر نبھائے جانے لگتے ہیں اس من گھڑت دلیل کی آڑ میں کہ... اللہ تو ہمیں ملانا چاہتاہے... وہ تو جانتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں... مگر زمانے کی ہوا جو مخالف ہے... تو اسی طرح سے نفس کی تسکین کا سامان کرنا مناسب ہے۔ اب جب شیطان یوں سوچوں اور حواسوں پر سوارہو تو حکمِ خداوندی پر عمل کا کس کے پاس وقت ہوتا ہے کہ ان پر عمل کی ٹھانے۔
بس شیطان ڈگڈگی بجاتا ہے اور ہم بندر کی طرح ناچتے چلے جاتے ہیں۔

💥 ہنٹ 13: تلافی اور باطل
یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی کا احساس بیدار ہوا یا ضمیر جاگا تواس نے اپنی حرکات و سکنا ت پر نادم ہو کر تلافی کی کوشش کی۔ اور عزت بنا کر گھر تو لے گیا مگر جلد ہی پھر سے شیطان کے بہکاوے میں آ کر شریک حیات کو ماضی کے طعنے دے دے کر جینا حرام کر دیا۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ اب کسی ایک پر نشتر زنی کرنے کے بجائے اصلاح کی جانب قدم بڑھایئں کہ اگر خطاﺅں کی پردہ پوشی کی کوشش میں یہ قدم اٹھا ہی لیا تو صدقِ دل سے شرمندہ رہ کر آگے کی زندگی اللہ کی پسند ، اس کی حدود میں رہتے ہوئے گزارنے کی کوشش کی جائے نہ کہ پرانے کھاتے ہی کھولے رہیں۔
اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں۔(البقرة:۶۸۱)
اللہ غفور الرحیم ہے۔ اس سے اپنے کئے کی معافی مانگ کر درست سمت متعین کرلی جائے۔ اب تو شیطان کے چنگل سے خود کو رہا کرالیا جائے جو اب بھی مکاری و ہشیاری سے ہمارے بیچ لڑائی جھگڑے کرانے کو آن دمکتا ہے۔ شیطان یہ نہیں سوچنے دیتا اس کو اب کامیاب نہ ہونے دیں اور جسے اپنا مان دے کر زندگی میں شامل کیا اب اسے ہی اپنا جان کر اس کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کرنا ہی اچھا ہے۔
اس طرح ایک کے بعد ایک جال میں پھنسا کر باطل ہماری زندگی کو ہر طرح سے بے سکون کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔

💥 ہنٹ 14: مایوسی
ایسی جھوٹی محبتوں کا خمیازہ کوئی تو ڈپریشن کوئی فرسٹریشن اور کوئی زندگی کی بازی ہار کر یا اپنی جان خود لے کر بھگتتا ہے۔ گزرے لمحوں کی شہوت ، ہوس و حرص کا شکار بننے پر کب تک ضمیر کی آواز کو دبایا جاسکتا ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے لئے سو رحمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک رحمت کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتی ہے اور ننانوے رحمتیں قیامت کے دن کے لئے ہیں۔
(صحیح مسلم)
جب ضمیر ملامت کرے تو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتے ہیں جہاں سے اللہ کی رحمت ہی پلٹا سکتی ہے اس کے سوا کوئی چارہ کام نہیں آتا۔ لاکھ حربے استعمال کر لیں جب تک اللہ کے سامنے پیش ہو کر پشیمانی کے آنسو نہ بہائے جائیں ، اس کے قدموں میں گِر کر معافی کا طلبگار نہ ہوا جائے ، سکون میسر نہیں آتا۔ یہی ایک در ہے جو بندوں کے لئے آخری سانس تک کھلا ہے مگر شیطان اس طرف بھی تو لوٹنے نہیں دیتا۔ پہلے تو بد کاری میں لگائے رکھتا ہے اور اگر کبھی ضمیر بیدار ہو جائے تو حرام موت مر کر بخشش کے راستے کو بند کرنے کی کوشش کرتاہے۔ زندگی تو اللہ کے حکم کے منافی عمل میں بسر ہوئی ہوتی ہے اور اب چاہتا ہے کہ موت بھی حرام کی ہو۔
اس طرح باطل زندگی اور موت دونوں کو اپنے اشاروں پر چلاتے ہوئے اللہ کی نافرمانی میں پھنسا دیتا ہے۔

💥 ہنٹ 15: اللہ سے رجوع
اللہ غفور الرحیم ہے اس نے توبہ کے دروازے ہم پر زندگی کے آخری دم تک کھول رکھے ہیں۔ باطل ان دروازوں پر دستک دینے سے روکتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس نے جتنی محنت سے اس ہوس و حرص کے جال میں پھنسایا تھا اب ہم اس سے آزاد ہو جائیں۔ اللہ کی رحمت اس کی ہر صفت پر بھاری ہے۔ہم تو اسے بھول جاتے ہیں مگر وہ ہماری توبہ کا بے حد انتظار کرتا ہے۔ہم کیسے ہی خطا کار ہوں ،وہ ہماری ربو بیت سے ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ ہم جہاں بھر کے داغ دامن میں سمیٹے اس کے پاس چلے جائیں وہ ہمیں اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے کیونکہ وہ ہمیں ستر ماﺅں سے بڑھ کر چاہتا ہے۔ دنیا کی مائیں بھی تو تمام عیب ڈھانپ کر اولاد کو اپنی چادر میں چھپا لیتی ہیں۔ وہ تو پھر اللہ ہے... اللہ اکبر...!ہمارا پیار ا اللہ ...! اس کا پیار تو کہیں بڑھ کر ہے۔ اس نے ہمارے لیئے آخری لمحہ تک کی مہلت رکھی ہے۔ زندگی تو حکم عدولیوں میں بسر کرلی ، مگر اب جب ضمیر آواز اٹھائے تو اسے دبانے کی بجائے ، اسے سننے کی کوشش کریں اور اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو جائیں تاکہ آگے کی زندگی میں اللہ کی عدالت میں سر خرو رہ سکیں۔
لیکن باطل ہمیں کہاں سرخرو ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔یہ ہمیں اللہ کی طرف پلٹنے ہی نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ جانتا ہے کہ جیسے ہی بندہ اللہ سے رجوع کرتا ہے شیطان کے چنگل سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ اللہ کی طرف بڑھنے ہی نہیں دیتا۔
اس طرح ہماری دنیا اور آخرت مزید مشکل کرتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 16: ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے
باطل یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا ملن اصل میں تو اللہ کی مرضی ہی سے ممکن ہوا کیونکہ دنیا کا ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ یہ سراسر باطل کی چال ہے۔ اللہ نے عقل دی ہے اور اسی کو استعمال کرکے اچھا یا برا راستہ اپنانا ہوتا ہے۔ ہم اپنی مرضیاں کر کے کہہ دیتے ہیںکہ اس نے قسمت میں ایسا لکھا تھا۔ اس طرح کی کوئی بھی سوچ باطل ہی دماغ میں ڈالتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ سب کچھ صرف قسمت کے لکھے کے مطابق ہوتا تو اللہ نے ہمیں عمل کا جو اختیار دیا ہے اس کا کوئی استعمال ہی نہ ہوتا اور وہ بے معنی ہو کر رہ جاتا۔ اس لئے اپنے عمل کا ذمہ داراللہ کو یا قسمت کو ٹھہرانا اور اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا بھی باطل کی چال ہے۔ اس میں پھنس کر ہم نہ اپنے عمل پر نادم ہوتے ہیں اور نہ ہی پھر معافی مانگتے ہیں۔ ایسے عمل کا ذمہ دار ہر کوئی خود ہے اور اس کو خود اپنے عمل کی معافی بھی مانگ کر سر خرو ہونا ہے۔ اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے عمل کا اقرار کیے بنا معافی ممکن نہیں۔ اس لیئے باطل اسی جال میں پھنسائے رکھتا ہے کہ جو ہوا اللہ کی مرضی سے ہوا تا کہ ہم جھک کر نہ ہی معافی مانگیں نہ اپنی اصلاح کریں۔
یوں باطل اپنے جھوٹے بہلاووں سے مطمئن کئے رکھ کر گمراہی میں پھنسائے رکھتا ہے۔

💥 ہنٹ 17: کفارہ
ہم جب اس کے بندے کا دل دُکھاتے ہیں ، اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان کا کفارہ یہی ہے کہ سچائی سے شرمندہ ہو کر بندوں سے بھی معافی مانگی جائے اللہ سے بھی معافی مل جائے گی۔ وہ کہتا ہے میرے بندوں کو زبان سے ہاتھ سے ایذاء نہ پہنچاﺅ مگر ہم باطل کے ہاتھ لگ کر یہ سب تو کیا اس سے کہیں بڑھ کے کر گزرتے ہیں۔ اب دیدہ دانستہ، کردہ ناکردہ ہر خطا کی معافی مانگنا اور تائب ہو جانا بہترین ہے۔ اللہ سے مدد طلب کیجئے کہ وہ اپنی راہوں کا مسافر بنائے۔ وہ راہیں جو منزل تک لے جائیں۔ اپنی ایسی محبت کی نظر سے نواز دے کہ باقی ہر نقش ہی دل سے مٹ جائے۔ اسی سے دل کا مکین ہو جانے کی التجا کیجئے کہ دل کا یہ مکان اس کے سوا کسی کا ہو نہیں سکتا۔ و ہ اس سلطنت و تخت دل کا بے تاج بادشاہ ہے اسی کو یہ سونپ کر شانت ہو جائیں۔ دل اللہ کا گھر ہے۔ اور محبت جیسا پاکیزہ جذبہ اسی میں پنپتا ہے۔ اور دل سے محبت صرف اللہ اور اللہ والوں سے ہو تی ہے تو انسان کو طاقتور اور مضبوط بناتی ہے۔ ایسی محبت عطائے اعلیٰ ہے جو نصیب والوں کو ملتی ہے۔ اسی محبت میں دل کا رشتہ اپنے محبوب سے اتنا مضبوط جڑجاتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی۔ اس طرح اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا ہمیں بھلائی کی جانب موڑ سکتا ہے۔

💥 ہنٹ 18: فرسودہ اقدار
باطل ہمیں اپنی مذہبی اقدار کو اپنانے سے روکتا ہے کہ یہ فرسودہ ہیں۔ ان کو اپنانے سے ہم ترقی کی دوڑ میں زمانے سے پیچھے رہ جائیںگے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ ہمارا دین اور اس کی اقدار کی ایک وقت،زمانے یا دور کےلئے ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی ہر صدی کےلئے ان کا بہترین مکمل اور درست ہونا طے ہے۔ یہ کسی انسان کے بنائے اصول و ضوابط پر مبنی نہیں۔ جو اخلاقی حدود اللہ نے اپنے بندے کے لیئے طے فرمادی ہیں انہی کے اندر رہنا اور ان سے تجاوز نہ کرنا ہماری دو جہاں میں بھلائی کا ضامن ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم خود ان مذہبی اقدار کو اپنے لیئے اور اپنی اولاد کے لئے ایک مضبوط ڈھال سمجھیں اور یقین رکھیں کہ اپنی اقدار کی تکریم ہی دنیا و آخرت میں ہماری نجات کی راہ آسان کرتی چلے جائے گی۔
باطل ہمارے دماغ میں فرسودگی ڈالنا چاہتا ہے۔
نام نہاد جدیدیت کی آڑھ میں باطل ہمیں اللہ کی حدود سے تجاوز کر کے ناقابل تلافی نقزان پہنچانا چاہتا ہے۔

💥 ہنٹ 19: ذمہ داری سے غفلت
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کو ایمان کی دولت سے مستغنی کریں۔ انکو اچھے برے کی پہچان کروا کر بھلائی کی راہ پر چلنا بھی سکھائیں۔ برائی سے بچنے کیلئے قوت ایمانی کی طاقت کا استعمال کرنا اور آخرت کی فکر کرتے ہوئے اپنے آپکو اس آخرت کے امتحان کیلئے تیار رکھنا کس طرح ممکن ہے یہ سب رہنمائی والدین وقتا فوقتا اولاد کو دیتے رہیں تو اللہ کے یہ پیارے بندے باطل کا نوالہ بننے سے بچ سکتے ہیں۔
لیکن بہت شاطر ہے۔ وہ والدین کے دل میں ہی یہ سب احساس پیدا نہیں ہونے دیتا۔ جب والدین کے دل میں ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا تو ہی یہ سب بگاڑ شروع ہوتا ہے اور باطل کی جیت ہوتی ہے۔
باطل۔والدین کو اپنی ذمہ داری سے غافل رکھ کر نسل در نسل گمراہی کی راہ ہموار کرتا جاتا ہے۔