ٹاپک 16 :خاندانی سیاست اور باطل


💥ہنٹ 1:رشتے اور اللہ کی رضا
انسان کا سب سے پرانا اور ازلی رشتہ اپنے اللہ سے ہے۔ اسی ایک رشتے کی وجہ ہم نے دنیا میں اپنے تمام رشتے اور ان کے ساتھ معاملات نبھانے ہوتے ہیں۔ یعنی اپنے ارد گرد موجود ہر رشتے کو اپنی ذاتی پسند نا پسند کے مطابق نہیں بلکہ صرف اللہ کی خوشی اور پسند کے مطابق نبھا کر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہوتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺاس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں ، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
(صحیح بخاری)
باطل ہمیں یہ بھلا دیتا ہے کہ ہر رشتہ اللہ کی وجہ سے ہے اور ہر رشتہ ایک وسیلہ ہے اللہ کی رضا و خوشی پانے کا۔ ہم باطل کے جال میں پھنس کر ہر رشتے کو اپنی ذاتی نظر کے مطابق دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس رشتے کا ساتھ عملی برتاو بھی اپنی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ باطل یہاں سے ہمارے اندر داخل ہو کر ہم سے اپنی مرضیاں کرواتا ہے۔
باطل اپنے وار میں الجھا کر ہمیں ان رشتوں کے ذریعے اللہ کی رضا و خوشی پانے سے محروم کر دیتا ہے۔

💥الرٹ 2: عمل کی جزا
ہم اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ یہ اچھا عمل ہے لیکن یہاں ہم غلط یہ کر جاتے ہیں کہ اپنے اچھے عمل کا صلہ لوگوں سے چاہنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب صلہ اپنی امید کے مطابق نہیں ملتا تو ہمارا اچھا عمل بھی برائی میں بدل جاتا ہے۔
جبکہ ہم نے اللہ کی خوشی کو بالاتر رکھتے ہوئے اس کے بندوں کے ساتھ معاملات کو اچھی طرح نبھانے کی مقدور بھر کوشش کرنی ہوتی ہے اور جزا کوروز جزا پر ہی چھوڑنا ہوتا ہے۔ تبھی ہم اللہ کی خوشی کے لئے اٹھائے گئے ہر قدم پر اندر سے مطمئن اور خوش ہوں گے۔
باطل ہمیں لوگوں کے جوابی اقدام اور ردِ عمل پر نظر رکھوا کر دنیا میں ہی اپنے اچھے عمل کا صلہ پانے کی چاہت پیدا کرتا ہے۔ اور پھر خلاف توقع صلہ ملنے پر مظلومیت، بد گمانی اور شکوے میں پھنساتا ہے۔
اس سازش کے ذریعے باطل ہمیں اچھے عمل پر قائم نہیں رہنے دیتا۔

💥ہنٹ 3: ٹرائی اینگل
دنیا داری کے ساتھ جو معاملات ہوتے ہیں ہم ان معاملات میں خود کو ہمیشہ دوسروں کے ساتھ
One to One
رکھتے ہیں۔ باطل ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ اصل میں ہمارا کوئی بھی معاملہ تم اور میں کا نہیں ہے۔ ہمارا ہر معاملہ اللہ کی وجہ سے ہے۔ ہمارا ذاتی یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔
ہم نے ہر معاملے کو
Triangle
میں سیٹ کر کے نبھانا ہے۔
اوراس ٹرائی اینگل میں.... اللہ ....بندہ..... معاملہ ہوتا ہے۔
دنیاوی رشتوں کو بھی ہم نے اسی انداز میں نبھانا ہوتا ہے۔
جب ہم ہرر شتے ہر احساس اور عمل میں اگر ٹرائی اینگل بنائے رکھیں تو ہمارا ہر احساس اورہر رشتہ بہترین رہے گا۔ اور و ہ معاملہ اللہ کا ہی رہے گا۔ جبکہ ہم اس میں نبھا اس دنیا کے رشتے کو ہی رہے ہوں گے۔
مثلاََ اگر ہم ماں، بہن، بیوی، بیٹی کے طورپر اس وجہ سے اپنے رشتوں میں پیار محبت رکھیں گے کہ یہ تمام رشتے اللہ کی عطا ہیں، اور خالصتا" اللہ کو خوش کرنے کیلئے ان کو خوش اصلوبی سے نبھانا ہے تو ہمارا ان رشتوں سے جڑا ہر عمل، سوچ اور احساس ہمیں اللہ سے قریب تر کرتا جائے گا۔
باطل ہمیں یہ
Traingle
سیٹ کر کے کوئی رشتہ اسکے مطابق نبھانے نہیں دیتا۔
باطل یہ وار اسلئے کرتا ہے تاکہ ہم رشتوں میں اللہ کے احساس سے غافل رہیں۔

💥ہنٹ 4: ہر بندہ صرف اللہ کا بندہ
اگر ہم ہر بندے کو اللہ کے بندے کی نظر سے ہی دیکھیں تو معاملات میں بگاڑ کا امکان کم ہوتا ہے۔ یہاں سب سے پہلے باطل ہماری نظر دوسروں کی برائیوں اورعیبوں پر کرا کے دل میں تنگی پیدا کرتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ہر بندے کو اللہ کے بندے کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اپنے رشتے کے تناظر میں دیکھنے لگتے ہیں۔ ساس/بہو،نند/بھاوج، میاں/ بیوی، بہن /بھائی، دیورانی/ جیٹھانی ، داماد/ سسروغیرہ وغیرہ ہمیں اب صرف یہ یاد رہتا ہے کہ ہمارا ان بندوں سے یہ رشتہ ہے۔
یہاں سے باطل ہمارے گھر میں داخل ہو کر رشتوں کی بنیاد کو کمزور کر دیتا ہے۔
وہ رشتے جو دراصل ہمارے دلی سکون اور بہترین گھریلو نظام قائم کرنے کیلئے عطا کیئے گئے تھے کہ ہم ان سے سکون پاتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے، باطل کی وجہ سے انہی کو ہم گھریلو نا چاقیوں اور دل کی بے سکونی کی وجہ بنا ڈالتے ہیں۔ جن رشتوں میں اللہ نے اپنائیت رکھی تھی ان میں منفی احساسات پیدا کر کے اللہ کی ناراضگی مول لینا شروع کر دیتے ہیں۔
باطل یہ اسلیئے کرتا ہے تاکہ ہم ان رشتوں کو اللہ کی عطا کے بجائے بوجھ سمجھ کر انکے ذریعے اللہ کا پیار حاصل نہ کر سکیں

💥ہنٹ 5: اپنی اہمیت اور عزت
ہم چاہتے ہیں کہ گھر میں ہر کسی سے بڑھ کر عزت ہمیں ملے۔
باطل کا یہ رچایا ہوا کھیل گھر گھر میں جاری ہے۔ سازشوں کا تانا بانا بننے میں مدد اپنی منفی سوچوں ، انتقام پسندی سے ہی ملتی ہے۔ ہر لمحہ اسی فکر میں مبتلا رہتے ہوئے کہ کس طرح ایسا کچھ کیا جائے کہ ہماری اہمیت کم نہ ہونے پائے ، ہم دوسرے کو کم سے کم عزت دینے لگتے ہیں۔ دوسرے کو نیچا دکھا کے اپنا سر فخر سے بلند کر نے پر بھی باطل ہی مجبور کرتا ہے۔
دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بڑا بنا کر معاملات بگاڑنا، دل میں تنگی پیدا کر کے دوسروں کو درگزر کرنے کا جزبہ نہ پیدا ہونے دینا، کسی کی زیادتی پر اس سے بدلہ لینے کی آگ بھڑکانا، اور اپنے ہر عمل کو بہترین سمجھ کر ہر کسی سے داد طلب کرنے کی طلب رکھنا، اپنی کسی غلطی کو نہ ماننا، یہ سب باطل کی سازشیں ہیں جن کےذریعے باطل ہمارے اندر دوسروں کی اہمیت کو کم کرنے کا منفی جزبہ بیدار کرتا ہے۔ یہیں سے آپس کے تعلقات میں خود غرضی اور تنائو پیدا ہوتا ہے۔
باطل کی غلامی میں پھنس کر ہم جھوٹی انا اور عزت نفس بچانے کے چکر میں دوسروں کی عزت کو قدموں تلے روندنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے۔
باطل ہمیں اس سب میں اسلیئے الجھاتا ہے تا کہ ہمارے گھروں میں بے برکتی رہے اور ہم اللہ کی رحمت سے محروم رہیں۔

💥ہنٹ 6: رشتوں میں دہرا معیار
ہم ایک ہی رشتے کے حوالے سے دہرے معیار اپناتے ہیں مثلاََ بیٹی اور بہو کے ساتھ رویے میں فرق بھی اسی دہرے معیار کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وہ جو ہم اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتے ہیں بہو کے لئے وہی اور ویسا پسند کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے تعلق میں بھی اسی وجہ سے بہتری نہیں آ پاتی۔ شیطان یہ نہیں سمجھنے دیتا کہ ہمیں اپنے اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔ اگر یہ احساس ہو جائے تو ہر کسی کے لیئے دل میں وسعت آجائے۔
اگر ہم ذرا سی سمجھ کا مظاہرہ کریں اور دل میں اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس بیدار ہو تو سب اپنی اپنی جگہ پر اپنے اپنے رشتوں کو اہمیت اور عزت دینے کی کوشش کریں گے۔ یہ کوشش ایک کے ساتھ حد سے بڑھی ہوئی محبت یا جھکاو اور دوسرے کے ساتھ بے رخی اور بے اعتنائی دکھانے سے بھی بچائے گی۔
لیکن باطل ہمیں رشتوں میں دہرا معیار اپنانے پر اکساتا ہے۔
اس طرح باطل ہمارے آخرت کے حساب کو مشکل بنا کے ہمیں نقصان پہنچاتا ہے

💥ہنٹ 7: عیب عیاں کرنا
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیانبی کریم ﷺ نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو ، آپس میں حسد نہ کرو ، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو ، بغض نہ رکھو ، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (صحیح بخاری)
اگر دیکھا جائے تو یہاں بھی شیطان ہمیں اپنی ہی پہنائی ہوئی عینک کے ذریعے دوسروں کی خامیاں چن چن کر منظر عام پر لانے کو بہادری کا درجہ دیتا ہے۔ ہم ذرا بھی شرمندگی محسوس کیے بنا یہ بظاہر بہادرانہ مگر اصل میں غیر اخلاقی فعل سر انجام دیے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ احساس تو چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ اللہ کو اپنے بندوں کے عیب ڈھانپنا پسند ہے نہ کہ انہیں سب کے سامنے عیاں کر دیا جائے۔
باطل ہمیں ابھارتا ہے کہ سب کے عیبوں سے پردہ اٹھا کر خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط ثابت کیا جائے۔
اس چال کے ذریعے باطل ہمیں اللہ کی نظر میں گرا دیتا ہے۔


💥ہنٹ 8: خاندان میں حیثیت یا مرتبہ اصل میں ایک ذمہ داری ہے

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہیں اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا برتاﺅ کرنے والا ہوں۔ (ابن ماجہ)
اگر ہمیں گھر یا خاندان میں برتری یا فیصلہ کا اختیار حاصل ہے تو اس بات کا خیال رہے کہ حیثیت یا مرتبہ اصل میں ایک ذمہ داری ہے۔ جیسے ایک حاکم سے اس کی رعایا کی پوچھ ہو گی اسی طرح خاندان کے بزرگ اور بڑے بھی اپنے خاندان کے افراد کو اپنی ذمہ داری سمجھیں کیونکہ وہ جتنے افراد پر حاکمیت رکھتے ہوں گے ان کے حوالے سے جواب دہی ہوگی۔ یہاں شیطان ہمیں اپنی ذمہ داری سے زیاد ہ اس بات پر توجہ کراتا ہے کہ ہم صاحبِ اختیار ہیں ، جو ، جیسے اور جب چاہیں کر سکتے اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کاحکم دے سکتے ہیں۔ یہاں ہم اپنے اختیار کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے لگتے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ صادر کرتے ہوئے اللہ کی پسند اور خوشی کو نظر میں نہیں رکھتے۔ شیطان ہمیں اپنی طاقت ، قوت اور حاکمیت کے نشے میں مبتلا کر کے احساس ذمہ داری سے غافل رکھتا ہے۔
باطل کی یہ چال اسلیئے ہوتی یے تاکہ ہم دنیا میں خوب ذات کی تسکین حاصل کریں اور آخرت میں نا قابل برداشت مشکل میں پڑ جائیں۔

💥ہنٹ 9: بزرگی اور برتری تو بڑے پن سے ہے
ہم یہ تو پسند کرتے ہیں کہ خاندان کے سب افراد ایک بزرگ کے طور پر ہمارا احترام کریں۔ ہمارا مقام و مرتبہ پہچان کر ہمارے فیصلوں پر عمل درآمد بھی بنا چوں چراں ہوتا رہے۔ مگر یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ بزرگی کا تعلق عمر سے نہیں یہ عمل سے متعلق ہے۔ اگر ہم دوسروں کیلئے اپنا دل بڑا کریں گے تو دوسرے بھی دل سے عزت کریں گے۔
اگر ہم ذرا سا غور کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ ہم دل میں دوسروں کیلئے وصعت نہیں رکھتے۔ ہم اپنی پسند کے مطابق اپنی مرضی کے حکم صادر کرتے ہوئے یہ خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ حکم کسی کی دل آزاری کا سبب تو نہیں بنے گا؟ کیا ہمارا حکم اللہ کے حکم کے منافی تو نہیں؟

حضور اکرم ﷺ فرماتے تھے کہ مہربانی اور رحم دلی سوائے بدبخت کے کسی سے نہیں چھینی جاسکتی۔(سنن ابو داﺅد)
ہم دل بڑا نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ ہمیں بڑا مانا جائے۔ جبکہ اگر ہم دل میں اللہ کے بندوں کیلئے رحم دلی اور وصعت پیدا کریں اور اپنے ہر فیصلے کو اللہ کے حکم کے دائرے میں رکھتے ہوئے انجام دیں تو اس طرح دنیا میں بھی ہر کسی کی طرف سے دلی عزت ملے گی اور اللہ کی نظر میں بھی سرخرو ہوں گے۔
باطل ہمیں دل تنگ دل بنا کر نہ لوگوں کی نظر میں باعزت رہنے دیتا یے نہ اللہ کی نظر میں۔

💥ہنٹ 10: اپنی محرومیوں اور ہر کمی کا بدلہ اپنے قریبی رشتوں سے لینا
باطل نے یوں بھی تباہی پھیلا رکھی ہوتی ہے کہ وہ ہمیں اپنی محرومیوں اور ہر کمی کا بدلہ اپنے قریبی رشتوں سے لینے پر مجبور کرتا ہے۔ اولاد کی محرومیوں کا بدلہ بھی ہم دوسروں سے لینے لگتے ہیں۔ جو ہمیں حاصل ہو دوسروں کو اس سے محروم رکھتے ہیں اور اس پر خوش ہوتے ہیں۔ اور جو ہمیں حاصل نہ ہو اس کو دوسروں کامقدر بھی نہ ہونے دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ماں باپ اپنی اولاد کےلئے کسی اور زاویہ سے سوچتے ہیں اور کسی دوسرے کی اولاد کےلئے تنگ نظری اور تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری ہر ایسی کوشش کہ... ہم دوسروں کو بھی خوشی سے محروم کر دیں کیونکہ ہم خود خوش نہیں ہیں... یا ہماری اولاد اور پیاروں کو پر سکون زندگی نصیب نہیں ہے... اس کوشش میں شیطان کی معاونت شامل ہوتی ہے۔ وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے ہم ، ہماری اولاد، ہمارے پیارے ہی ان خوشیوں اور سکون کے اصل حقدار ہیں جبکہ اس کے علاوہ ہر شخص ہماری انگلیوں پر ناچنے ولا ، آنکھ کے اشارے پر چلنے والاا اور حکم کا غلام ہو۔
باطل کے شکنجے میں پھنس کر ہم اپنی اور اپنے پیاروں کی خوشی کےلئے دوسروں کو ہر طرح کی قیمت چکانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ باطل اپنی خوشی کےلئے دوسروں پر مصیبت کے پہاڑ توڑنے سے بھی نہیں رکنے دیتا۔
ہمیں دوسروں کیلئے تکلیف کا سبب بنا کے در اصل باطل ہماری آخرت کو نہایت درد ناک بنا رہا ہوتا ہے

💥ہنٹ 11: دنیا مکافاتِ عمل ہے
یہاں بھی الرٹ رہیں اپنی خوشی کی خاطر کسی کی زندگی جہنم بنا دینا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں۔ اسمیں دنیا اور آخرت کے نقصان کا خدشہ ہے۔ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ یہاں جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ جو بوو گے وہی کاٹو گے۔ کسی کی زندگی کو جہنم سا بنا کر کل حشر میں جنت کے مزے لوٹنے کی امید باطل کی آنکھوں پر باندھی ہوئی پٹی کی وجہ سے ہے۔ یاد رکھیے باطل اسی جنت سے ہی محروم رکھنے کےلئے یہاں اس دنیا میں ہمیں یوں پھنسا لیتا ہے کہ ہم جائز ناجائز کوشش کے ذریعے اپنی دنیاوی زندگی کو جنت کا نمونہ اور اپنے پیاروں کےلئے سکون کی آماجگاہ بنانے میں دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج اگر ہم کسی کی تکلیف کا سبب بن رہے ہیں تو اصل میں یہ تکلیفیں اپنے ہی کل لئے جمع کر رہے ہیں۔ جو جلد یا بدیر ہم نے ہی سہنی ہیں۔
باطل اس طرح ہمارے اپنے ہاتھوں ہماری تباہی کا سامان کرتا ہے۔

💥ہنٹ 12: دنیا کراہت زدہ مختصر قیام کی جگہ ہے
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ بازار سے گزر تے ہوئے کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے اور صحابہ کر ام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ ﷺ کے دونوں طرف تھے آپ ﷺ نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا آپ ﷺنے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کے ہاں یہ دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے۔(مسلم شریف)
کامیابی اسی میں ہے کہ ہم ہر رشتے میں اللہ کا احساس شامل رکھ کے اپنی فلاح کی راہ آسان کرتے جایئں۔
لیکن شیطان نے ہمیں اللہ کی بنائی ہوئی جنت کو اپنی منزل بنانے کی بجائے اس دنیا اور اس کی عارضی زندگی کو ہی جنت بنانے کی کوشش میں مصروف کر رکھا ہے۔
اسی کوشش میں لگے ہوئے ہم ہر اس عمل سے محروم ہیں جو آخرت میں ہمیں جنت عطا ہونے کا سبب بن سکے۔ اسی وجہ سے رشتوں میں اللہ کا احساس رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔
اس چال کے ذریعے باطل ہمیں دنیا کو اپنی منزل بنا کر جینا سکھاتا ہے اور جنت سے دور کرتا جاتا ہے۔

💥ہنٹ 13: اصل سکون
ہم جس سکون کی تلاش میں مارے مارے پھر تے ہیں وہ دنیا اور اس کی چیزوں سے قطعاً وابستہ نہیں۔ اس سکون کے حصول کےلئے اللہ کو خوش کرنا ضروری ہے اور اللہ کو خوش کرنے لیئے اس کے بندوں کو خوش کرنا ضروری ہے۔ اللہ اس بات پر خوش نہیں ہوتا کہ اس کے بندوں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ خبر دار رہیں کہ کہیں ہم بھی تو ان میں سے نہیں جو اللہ کے بندوں کےلئے مشکلات پیدا کر کے اصل میں آخرت میں اپنے لئے مشکلات کھڑی کر رہے ہوں۔
باطل ہمیں اس سے روکتا ہے کہ اپنا ہر عمل اللہ کی خوشی کےلئے اس طرح انجام دیں کہ اس کی مخلوق کا بھی بھلا ہو جائے۔ کیونکہ اسی میں ہماری بھی دنیا و آخرت کی بھلائی اور سکون ہے۔
باطل ہمیں دوسروں کیلئے بے سکونی کا ذریعہ بنا کر ہمیں اصل سکون سے محروم رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 14: ہر معاملے میں مقابلہ بازی
گھروں میں مقابلہ بازی کی فضا، دوسرے کے معاملے کو بنتا دیکھ کر ٹانگ اڑانا اور معاملہ بگاڑ دینا... چھوٹے بڑے معاملات میں بے وجہ کھینچا تانی...رسم و رواج کی آڑ میں اپنے مفاد عزیز رکھنا... اپنے حقوق دوسرے کو یاد دلانا اور اگلے کے حقوق بھول جانا... دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش... کسی کے کام آنے پراس پر بار بار احسان جتلانا، دوسروں کو اپنے احسانوں کے بوجھ تلے دبے رہنے پر مجبور کرنا ...وغیرہ وغیرہ یہ سب خاندانی منظر نامہ کا حصہ ہے۔ اور اس منظر نامہ میں ہر رنگ شیطان اور باطل کا ہی بھرا ہوا ہوتا ہے۔
شیطان دوسروں کی خوشی میں خوش نہیں ہونے دیتا بلکہ ہمارے اندر دوسروں کی کامیابی پر رقابت اور حسد کا جذبہ بیدار کرتا ہے تاکہ ہم کچھ نہ کچھ ایسا کریں کہ دوسرے کا سنورتا ہوا معاملہ بگڑتا چلا جائے۔ معاملہ کے بگاڑ میں سب سے اہم کردار ہماری کسی شیطانی سوچ اور اس کے تحت سر زد ہوئے عمل کا ہوتا ہے۔ باقاعدہ حکمتِ عملی وضع کر کے کسی کونیچا دکھانے کی کوشش بھی اسی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
باطل دوسروں سے مقابلے کی فضا پیدا کر کے ہمیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں اور سے اور جکڑتا چلا جاتا ہے۔
اس طرح باطل ہمیں اللہ کا بندہ نہیں رہنے دیتا،بلکہ اپنا غلام بنائے رکھتا ہے

💥ہنٹ 15: تحمل اور برداشت
گھر میں روٹین کے چھوٹے بڑے معاملات میں کج فہمی کا مظاہرہ بھی گھر میں موجود افراد کی آپس میں رنجش کا باعث بن جاتا ہے۔ کھانا پکانے سے لے کر خریداری، لین دین تک کے معاملات جو ہنسی خوشی باہم مشاورت سے آسانی سے نمٹائے جاسکتے ہیں وہی گھمبیر بنا دیئے جاتے ہیں۔ انہی معاملات کو بنیاد بنا کر پھر سے سازشوں کی کھچڑی پکائی جاتی ہے اور اختلافات کی آگ بھڑکتی بھڑکتی گھر کے در و دیوار ہی نہیں اندر کونے کھدروں میں بھی پہنچنے لگتی ہے۔
یہاں اگر ذرا تحمل اور برداشت کا عملی مظاہرہ کیا جائے تو یہ معاملات خوش اسلوبی سے نمٹا کر باطل کو شکست دی جاسکتی ہے۔ اور ہم بھی ویسے تو خود کو دنیا جہاں کی عقل کا مالک سمجھتے ہیں مگر باطل کے ہاتھوں بیوقوف بنتے ہوئے عقل کو کسی طور استعمال نہیں کرتے۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ باطل ہے جو ہمیں یوں دور کر کے ہمارے خاندان ، برادری اور رشتوں کاشیرازہ بکھیر نا چاہتا ہے۔ یہ اسی باطل کا کیا دھرا ہے کہ ہم ا ن معاملات میں پھنس کر اللہ کے بندوں کو تکلیف پہچاتے ہیں اور اللہ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔ اگر ہم سمٹ کر ایک چھت کے نیچے پیار محبت سے رہنے کی کوشش کریں تو باطل کا یہ روپ اچھی طرح پہچان لیں اور اس کو خود کو بیوقوف بنانے کا موقع نہ دیں۔ لیکن باطل ہمارے دل و دماغ کو منفی سوچوں میں الجھا کر تحمل مزاجی سے معاملات نبھانے نہیں دیتا۔

💥ہنٹ 16: جھوٹی شان و شوکت
باطل ہمیں خاندان کی عزت اور جھوٹی شان و شوکت بنانے ، بڑھانے اور اس کےلئے ہر حد سے گزر جانے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔ ہم کبھی تو دولت کے انبار لگاتے ہیں کبھی جائیداد کے ڈھیر پر شان و شوکت کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ اسی ما ل و دولت کو فتنہ قرار دیا گیا ہے۔
کہیں تو باطل اس دولت کی خاطر قتل و غارت کرواتا ہے تو کہیں جائیداد کی بندر بانٹ کےلئے خونی رشتوں کو مقابل لے آتاہے۔ لحاظ، مروت، رواداری سب بالائے طاق رکھ کر صرف دولت کو ہی پانے کی خاطر ہر شے سے باغی ہونے پر مجبور بھی باطل ہی کرتا ہے۔ دولت کمانا، خرچ کرنا غلط نہیں مگر صرف دولت کمانا زندگی کا مقصد بنانا اور اس دولت کو عزت اور شان و شوکت کا موجب سمجھ لینا درست نہیں۔ ایسا کرنے سے ہی خاندان میں قباحتیں اور پھر معاشرے میں طرح طرح کے جرائم جنم لیتے ہیں۔ باطل نے ہمیں اس دولت کی ہوس و حرص میں بُری طرح مبتلا کر کے رشتوں کی دیوار میں دراڑیں ڈال رکھی ہوتی ہیں۔ اور ہمیں جھوٹی شان و شوکت پر مطمئن کیا ہوتا ہے۔
اسطرح باطل ہمیں اللہ کی نظر میں گرا کر ہماری دنیا آخرت تباہ کر دیتا ہے۔

💥ہنٹ 17: فضول خرچی اور کنجوسی
ہر جائز و ناجائز طرح سے ہتھیائی ہوئی دولت کو کسی ایک پر خرچ کرتے ہوئے ہاتھ کھلا ہو جاتا ہے تو کسی دوسرے پر خرچ کرتے ہوئے کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کہیں تو رسم و رواج کا تقاضا ہوتا ہے کہ پیسہ پانی کی طرح بہا دیا جائے کہ ایسا نہ کرنے سے عزت جاتی رہے گی۔ اور کہیں کسی ضرورت مند اور سائل کو چند روپے دینے بھی مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہم نہ تو دولت کا بہترین استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی اس دولت میں سے اللہ کے بندوں کا حصہ نکال کر ان تک پہنچا پاتے ہیں۔یوں یہ دولت کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے کرنا اللہ کی ناراضگی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی تو شیطان چاہتا ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو اس میں انسان کو اپنی مرضی کرنے پر مجبور رکھے تاکہ وہ اللہ کی مرضی کو خاطر میں ہی نہ لائے اور اس طر ح اللہ کی خوشی اور پسند کی اہمیت اس کے نزدیک کم سے کم تر ہو تی چلی جائے۔
اس طرح باطل ہم سے وہ سب کرواتا جاتا ہے جو اللہ کی ناراضگی اور ہماری ناکامی کا سبب ہے۔

💥ہنٹ 18: حقوق و فرائض
جہاں چند افراد مل جل کر زندگی بسر کریں وہاں ایک کے فرائض دوسرے کے حقوق اور ایک کے حقوق دوسرے کے فرائض ہوتے ہیں۔ ان کو نبھانے کی کوشش بھی اس لئے کرنی ہوتی ہے کہ اللہ کو یہ کوشش پسند آجائے اور اس کے بندے بھی ہم سے خوش رہیں۔ مگر یہاں بھی ہم اپنے فرائض سے زیادہ اپنے حقوق خود بھی یاد رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا احساس وقتاًفوقتاً دلاتے رہتے ہیں۔ اور اس یاد دہانی کی وجہ سے دوسروں کا جینا دوبھر ہوا جاتا ہے مگر ہماری ذات اور انا ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنے حقوق سے زیادہ اپنے فرائض نبھانے پر توجہ دیں۔
جیسے کہ جہاں ہم عمر اور مقام میں کسی سے بڑے ہوں وہاں ہم اپنے عمل اور لہجے سے بارہا اپنے بڑے پن کا اظہار کر کے اپنا حق جتانا نہیں بھولتے۔ لیکن وہیں ہمارے پر جو فرائض ہیں بڑا ہونے کی حیثیت…
: ان سب فرائض کی یادہانی خود کو بار بار کرانا ہم ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر سچائی سے اپنا جائزہ لیں تو اپنےگھریلو معاملات میں ہمیں اپنی یہ کمی بہت جگہ نظر آئے گی۔ لیکن باطل فرائض کی طرف سے بظر ہٹا کر ہمیں مطمئن رکھتا ہے۔
اس طرح باطل ہمیں راہ راست پر چلنے سے مکمل طور ہر دور کر دیتا ہے۔

💥ہنٹ 19: رشتوں پرحقِ ملکیت اور بدلے کی چاہ
ذات اور انا میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ہی ہم نہ صرف چیزوں پر اپنا حق جماتے ہیں بلکہ بندوں کو بھی اپنی ذاتی تصرف کی چیز ہی سمجھ کر ان پر اپنی ملکیت کا حق جمانے میں بھی حرج نہیں سمجھتے۔ والدین اولاد کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور انہیں پال پوس کر بڑا کرنے کا احسان بھی جتاتے رہتے ہیں۔ والدین کا احسان بلا شبہ اپنی اولاد پر ہوتا ہے مگر یہاں والدین بھی یوں احسان جتانے لگیں تو رشتوں میں دراڑ آنے کا خدشہ ہوتاہے۔ بہترین تو یہی ہے کہ اپنے فرائض نبھانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی جزا کی امیدصرف اللہ سے ہی رکھی جائے تاکہ نہ تو دل میں لوگوں سے بدلے کی توقع ہو اور نہ ہی بدلہ نہ ملنے پر مایوس ہوں جیسا کہ شیطان چاہتا ہے۔ باطل یہ نہیں چاہتا کہ ہم صرف اور صرف اللہ کی رحمت سے پر امید رہیں اور اپنے کیے کے بدلے کی چاہ صرف اللہ سے رکھیں۔
اس طرح باطل ہمیں اس بہترین اجر سے محروم کرنا چاہتا ہے جو ہماری امید اور حیثیت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہو گا۔






💥ہنٹ 20: برسوں پُرانی رنجشیں اور اختلافات
برسوں پُرانی رنجشوں اور اختلافات کو دل میں زندہ رکھنا بھی باطل کا ہی کام ہے۔ یہ باطل ہی ہے جو ان رنجشوں کو ہوا دے کر تازہ دم رکھتا ہے۔ اور ایک کے بعد اگلی نسل کے دلوں میں رنجش ، اختلاف اورنفرت کی آگ بھڑکاتا ہے۔ اگر کوئی ایک نسل باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جائے... اور پچھلے قصے اور ماضی کی کہانیاں اگلی نسل تک مبالغہ آرائی سمیت پہنچانے کی بجائے... ماضی میں ہی دفن کر کے حال میں جینے کی کوشش کرے تو یہاں بھی باطل کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اور ہماری زندگی اللہ کی پسند کے مطابق ہو جائے گی۔ مگر افسوس ایسا ہوتا نہیں۔ ہم تو دل میں نفرت بسائے ہوئے ماضی کے واقعات کو تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنے سے اگلی نسل تک یوں پہنچاتے ہیں جیسے وہ ایک امانت ہوں۔ یوں باطل کی زد میں آ کر ہم خود بھی اور ہماری اگلی نسل کے افراد بھی سچ جھوٹ کی ملاوٹ کے ساتھ سنائے گئے قصوں کے بارہا دہرائے جانے کی وجہ سے دل کو کینہ سے خالی کر کے رشتوں کو مان نہیں دے پاتے۔
اس طرح باطل ہمیں نسل در نسل اپنی غلامی میں جکڑ کر اللہ کی اطاعت سے روکے رکھتا ہے

💥ہنٹ 21: بغض و عناد اور شیطانی ہتھکنڈے
شیطان ایک اور حملہ بھی خوبصورتی سے کرتا ہے کہ جب کوئی مسئلہ ، پریشانی، کسی معاملے میں رکاوٹ یا آپس کی کوئی رنجش ہو تو ایک طرف انسان کو یوں پھنساتا ہے کہ کسی نے جادوٹونہ کر دیا ہے یعنی اپنے پیاروں کے حوالے سے شک و شبہ میں مبتلا کرتا ہے اور دوسری طرف انہی معاملات کے سلجھاو کے لیئے ہمیں انہی شیطانی طریقوں کو اپنانے پر ابھارتا ہے۔
حضرت موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: کیا تم (ایسی بات) حق سے متعلق کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آچکا ہے، (عقل و شعور کی آنکھیں کھول کر دیکھو) کیا یہ جادو ہے؟ اور جادوگر (کبھی) فلاح نہیں پاسکیں گے(یونس: ۷۷)
باطل کے اس وار کے نتیجے میں بندہ اللہ پر ایمان اور یقین کی بجائے جادو کرنے والے عامل اور اس کے عمل پر یقین کرنے لگ جاتا ہے اور اس کی ساری امیدیں اسی شخص سے وابستہ ہو جا تی ہیں۔ دل سے خوفِ خدا اور اللہ پر ایمان ختم ہونے لگتا ہے۔ انسان کے کانوں ، آنکھوں اور دل پر پر دے پڑ جا تے ہیں اور وہ اندھا گونگا اور بہرا بن کر بس شیطان کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا ہے۔ شیطان اللہ کے بندوں کی آپس کی محبتوں کو ختم کر کے دلوں میں نفرتوں اور دوریوں کے بیج بو کر انہیں کمزور کر دیتا ہے۔ ان کی زندگیوں کو خوشی ، امید اور اخوت و بھائی چارہ سے عاری کر کے نفرت و بغض کی اندھی غار میں دھکیل دیتا ہے۔
اس طرح باطل ہمیں اللہ سے رجوع کرنے روک کر ہماری دنیا آخرت کی مشکلوں کو اور سے اور بڑھاتا جاتا ہے۔

💥ہنٹ 22: بھائی چارہ اور اخوت پسندی
حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آپس میں بغض مت رکھو آپس میں حسد نہ کیا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے پشت پھیرا کرو۔آپس کی میل ملاقات ترک مت کرو۔ اور سب اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے۔(سنن ابو داﺅد)
اللہ نے خاندان صرف پہچان کے لئے بنائے۔ اللہ کو اپنے بندوں کا بھائی چارہ اور اخوت پسند ہے۔ خاندان کی صورت پیار محبت سے رہنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ اور خاندانوں کے معاملات اللہ کی پسند کے مطابق نبھانا اللہ کو خوش کرنے کاذریعہ ہے۔اگر ہم سمجھیں کہ انہی بندوں سے پیار محبت ان کے ساتھ حسن سلوک اللہ کو پسند آئے گا تو کبھی بھی نوبت لڑائی جھگڑے یاد نگا فساد تک نہ آئے اور نہ ہی دلوں میں کدورت،حسد، بغض اور نفرت آئے۔
نبی کریم ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا لوگو ! میں تم سے آگے جاوں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ خدا کی قسم میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتاکہ تم میرے بعد شرک کرو گے ، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑکر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگوگے۔(بخاری شریف)
باطل اسی تاک میں رہتا ہے کہ کسی طرح سے ہم میں بھائی چارہ اور اخوت پسندی ختم کر کے خاندانوں کی بنیاد کمزور کر دے تاکہ آنے والی نسلیں اور ان کے آپس کے رشتے مضبوط نہ رہیں