ٹاپک 17 : پیروی و اطاعتِ آقائے دو جہاںﷺ اور باطل


💥ہنٹ 1: امت محمدیﷺ
امت محمدی ﷺکوتمام امتو ں پر افضلیت عطا کی گئی ہے۔ اللہ نے اپنے خاص کرم سے ہمیں امت محمدی ﷺمیں پیدا فرمایا۔ ایک امتی ہونے کے ناطے ہمارے دل میں یہ خواہش موجزن رہنی چاہیئے کہ ہم اپنے پیارے آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کی کوشش کر سکیں۔
آ پ ﷺ کی اطاعت کی عملی کوشش ہی ہمیں ایک بہترین امتی اور غلام بننے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر امتی کے دل میں پیارے آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کے جذبات کا سمندر موجود ہے مگرباطل یہیں ہمیں گھیرتا ہے۔ہم زبانی کلامی محبت کے دعوے زیادہ کرتے ہیں اور عمل کی جانب کم مائل ہوتے ہیں۔ ہم آپ ﷺ پر صدقے قربان ہونے کے بھی تمنائی ہوتے ہیں مگرعملی طور پر ہمیں ایک ایک خواہش کی قربانی دشوار لگتی ہے جس میں باطل نے ہمیں پھنسا رکھا ہوتا ہے۔ دنیا کے گو رکھ دھندے میں کھوکر احساس، سوچ اور عمل کا محور و مرکز دنیا کے حصول کی ہی چاہ بن جاتی ہے۔یہاں ہمارے آئیڈیل بھی بدل جاتے ہیں اور ہم دنیا ہی کے سٹینڈرڈ کے مطابق عمل کی لاحاصل کوشش کرنے لگتے ہیں۔
جبکہ آپ ﷺ کی اطاعت میں ہی ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے اور اسی میں اللہ کی رضا بھی ہے۔
یہاں باطل یہ سمجھنے نہیں دیتا کہ اگر ہم دنیا کے ناپائیدار سٹینڈرڈ کے مطابق عمل کی کوشش کرتے رہیں توایسے عمل سے بے بہرہ ہوتے چلے جائیں گے جس کے نتیجے میں ہم اطاعت گذاراور غلام امتی کہلا سکیں۔

💥ہنٹ 2: غلام یا اطاعت کرنے والاکون ہوتا ہے
غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا کے حکم اور جنبشں نگاہ پر سب کرنے کو تیار رہتا ہے۔ غلام کا غلامانہ طرز زندگی بتاتا ہے کہ وہ غلام ہے۔ اس کا غلامانہ طرز زندگی اس کے آقا کے حوالے سے غلامانہ سوچ کاآئینہ دار ہو تا ہے۔ وہ ہر وقت اطاعت گزاری کے لیے لبیک کرنے کا منتظر ہوتا ہے۔ یہاں اگر ہم اپنا جائزہ لیں تواحساس ہوگا کہ کیا ہماری سوچ اپنے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حوالے سے غلامانہ ہے؟ اسی سے ہم پرکھ سکیں گے کہ ہماراطرز زندگی عملی طور پر کس حد تک غلامانہ ہے اور ہمارے عمل میں کس حد تک بہتری کی گنجائش ہے؟
باطل نہ توہماری سوچ کو آپ ﷺ کی پسند کے تابع رہنے دیتا ہے اور نہ ہی پھر عمل اس غلامانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یوں خود کو غلام کہلانے کے دعویٰ کے باوجود عملی طور پراطاعت میں کمی رہ جاتی ہے۔ باطل مطمئن رکھتا ہے کہ ہمارے دل میں آپ ﷺ کی محبت کے جذبات ہونا ہی کافی ہے جبکہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ محبت عمل کے بنا ادھوری ہے۔ حقیقی محبت عمل کی راہ دکھلاتی ہے اور عملاََ اطاعت کی کوشش ہی ہمیں اپنے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کااطاعت گزار امتی اور حقیقی غلام بناتی ہے۔
باطل ہمیں عملی محبت کی بجائے لفظی محبت پر مطمئن رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 3: اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کا حکم
اللہ کا فرمان ہے:
کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو۔(سورة آل عمران:آیت32)
اسی طرح ایک اور آیت میں یوں ایمان والوں کو فرمانبرداری کی نصیحت فرمائی گئی ہے۔
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو (رسول اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔(سورة النِّسَآئ: آیت 59)
اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کواپنی فرمانبرداری قرار دیتے ہوئے سورة النِّساءکی آیت نمبر 80میں فرمایا:
اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔
اسی طرح سے مزید بھی کئی آیات اطاعت رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے موجود ہیں۔
تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو۔(سورة المائدہ:92)
۱ور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو۔(سورة الانفال:1)
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو۔(سورة الانفال:46)
اللہ نے قرآن پاک میں اپنے حبیب ﷺ کے احکام کی پیروی سے روگردانی کرنے کے حوالے سے بھی متنبہ کرتے ہوئے فرمایا۔
اے ایمان والو! اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اس (کا کہنا ماننے) سے روگردانی مت کرو سنتے جانتے ہوئے۔(سورة الانفال:20)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں۔(سورةا لنور:52)
کہہ دیجئے کہ اللہ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے۔ ہدایت تو تمہیں اس وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے۔(سورةا لنور:54)
خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی اطاعت کا حکم یوں فرمایا:
ٰٓقرآن پاک میں آتا ہے:پس تم اللہ کا خوف رکھو اور میری فرمانبرداری کرو۔ (سورة الشعرائ:110)
اسی سورة مبارکہ میں ایک اور آیت میں ایسے فرمان ہے:
پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو ۔(سورة الشعرائ:126)
پھر فرمایا گیا:تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور میری بات ماننی چاہیے۔(سورة الشعرائ:108)
اس سے واضح ہے کہ رسول امین ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دوسرے سب مطاعوں کی اطاعت چھوڑ کر صرف آپ ﷺ کی اطاعت کی جائے اور آپ ﷺ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔
باطل ہمیں یہ نہیں سمجھنے دیتا کہ آپ ﷺکی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور آپ ﷺ کی نافرمانی محض آپ ﷺ کی ہی نافرمانی نہیں بلکہ براہ راست خدا کی نافرمانی ہے۔

💥ہنٹ 4: کامل نمونہ
حضور نبی اکرم ﷺکی ذات و شخصیت ہر قسم کے جھول، نقص، عیب اور خامی سے یکسر پاک ہے اور آپ ﷺ کی جلوت و خلوت کی زندگی میں کسی تضاد کا شائبہ تک نہیں اس لیے آپ ﷺنے اپنی ازدواجِ مطہرات اور اہل خانہ سے کہہ رکھا تھا کہ جو کچھ مجھ میں دیکھو اسے من و عن دوسروں تک پہنچا دو۔ گویا ایک طرح کا اذن عام تھا کہ کسی بات پر پردہ نہ رکھا جائے۔
حضور نبی اکرم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے:مجھ سے سیکھ کر دوسروں تک پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو۔
یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو کچھ آپ ﷺکی زبان مبارک سے سنتے لفظ بہ لفظ دوسروں تک پہنچا دیتے اسی طرح ازواج مطہرات دن کے اجالے یا رات کی تاریکی میں جو کچھ سماعت فرماتیں یا مشاہدہ کرتیں اسے بلا کم و کاست بیان کر تیں۔
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا فرماں بردار بن جاوں :سورة الزمر:12
اس سے واضح ہے کہ آپ ﷺ کا کام صرف دوسروں سے کہنا ہی نہیں ہے ، خود کر کے دکھانا بھی ہے۔ جس راہ پر آپ ﷺ لوگوں کو بلاتے ہیں اس پر سب سے پہلے خود چلتے ہیں۔ اسی بنا پر آپ ﷺ کو کامل نمونہ کہا گیا کہ آپ ﷺ نے جو تعلیمات دی وہ خود عملی طور پر کر کے دکھایئں۔
ترجمہ: مومنو! بے شک تمہارے لیے رسول ﷺ (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے۔
باطل ہمارے دل میں آپﷺ کی اطاعت کا شوق بیدار ہی نہیں ہونے دیتا تاکہ ہم اس پر عمل کر کے کامیاب نہ ہو سکیں۔

💥ہنٹ 5: حضور اکرمﷺکی ازدواجی زندگی : بیوہ سے شادی
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جب شادی کی، تواس وقت وہ بیوگی کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ حضور اکرم ﷺکے نکاح میں آنے سے پہلے وہ دو بار شادی کر چکی تھیں۔ ایک شوہر کا نام عتیق اور دوسرے کا نام ابو ہالہ تھا۔ ان شوہروں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اولاد بھی تھی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 برس تھی جبکہ دوسری روایت میں 28 برس عمر کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ حضور اکرم ﷺکی عمر مبارک ابھی 25 برس تھی۔ اس زمانے کے جاہل عرب معاشرے میں جہاں بیوہ سے شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا ،آقائے دو جہاںحضرت محمد مصطفی ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر کے جو بیوگی کی زندگی بسر کر رہی تھیں، ایک روشن و قابل تقلید مثال قائم کی۔ آپ ﷺنے ان کی وفات تک دوسری شادی نہ کی۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد حضور اکرم ﷺ نے جتنی بھی شادیاں کیں ان میں سوائے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ (سیرت سیدہ خدیجتہ الکبریؓ)
آج کے ترقی یافتہ دور میں جب کہ ہر کوئی خود کو علم کی دولت سے مالا مال سمجھتا ہے ، ایک طرف تو بیوہ کی شادی کو خارج از امکان سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف باطل بیوہ سے شادی کا قدم اٹھانے والے کے حوصلے پست کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ اگر ہم آپ ﷺ کی مثال کوسامنے رکھیں تو بیوہ کی /سے شادی معیوب امر نہ سمجھا جائے۔

💥ہنٹ 6: حضور اکرمﷺکی ازدواجی زندگی کا ایک تابندہ و روشن پہلو
حضرت خدیجہ الکبریؓ سے نکاح کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انؓ کو اپنے چچا حضرت ابو طالبؓ کے گھر جہاں آپ ﷺ مقیم تھے، لے آئے۔ آپ ﷺ نے اپنی مبارک شادی کی پہلی رات اسی گھر میں بسر کی لیکن اپنے پیارے چچا کی مالی حالت کے پیش نظر ﷺنے مستقل یہاں رہنا پسند نہ فرمایا اور اگلے ہی دن حضرت خدیجہ الکبریؓ کے مشورے سے ایک علیحدہ گھر میں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺکے اپنے چچا کے ساتھ بہترین تعلقات کے باوجود آپ ﷺنے اپنی محبوب رفیقہ حیات کے ازدواجی حقوق کو مقدم رکھا اور شادی کے بعد ایک علیحدہ زندگی کا آغاز کیا۔(سیرت سیدہ خدیجتہ الکبریؓ)
حضور اکرم ﷺکی حیات طیبہ کے اس پہلو میں ان والدین کے لیے سبق ہے جو اپنے بیٹے کی شادی کے بعد اس سے یہ توقع وابستہ کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی ان کے ہاں گزار دے گا خواہ ان کی بہو کی مرضی اس میں شامل ہو یا نہ ہو۔ اس سلسلے میں ان کی بے جا ضد کے اثرات چنداں خوشگوار نہیں ہوتے اور پر سکون ازدواجی زندگی میں تلخیاں گھول دینے کا موجب بنتے ہیں۔
چنانچہ حضور اکرم ﷺکے اسوہ مبارکہ کا یہ تعلیماتی پہلو ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔ اگر عورت شادی کے بعد علیحدہ زندگی کا آغاز کرنے کی متمنی ہو تو والدین کو اپنی اولاد کی خوشیوں کی خاطر اسے انا اور جھوٹی عزت و وقار کامسئلہ نہیں بنا لینا چاہیے اور انہیں بعد از شادی زندگی کو خوش آئند بنانے کے لیے علیحدہ سکونت اختیار کرنے کی اجازت دے دینی چاہیے۔
باطل آپس میں پھوٹ ڈلوا کردلوں میں دوریاں اورخاندانوں میں فاصلے بڑھانے کیلئے والدین کو انا میں جکڑے رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 7: حضرت خدیجہ الکبریؓکی پہلی اولادوں سے محبت

پہلے شوہروں سے حضرت خدیجہؓ کی اولادیں اپنے متوفی والدوں کے خاندانوں میں پرورش پا رہی تھیں ۔ حضور اکرم ﷺ سے شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے انہیں اپنے ہاں منتقل نہ کیا بلکہ وہ بدستور اپنے آبائی خاندانوں میں سکونت پذیر رہے تاہم وہ کبھی کبھار ملنے کے لیے آتے تو حضور اکرم ﷺان سے انتہائی شفیق والد کی طرح پیار کرتے۔ اسی پیار اور محبت وانس کا نتیجہ تھا کہ وہ آپ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور دولت اسلام قبول کرنے کے بعد شرف صحابیت سے بھی سرفراز ہوئے۔ حضرت امام حسنؓ جب کوئی روایت کرتے تو یوں کہتے کہ میرے ماموں نے یہ فرمایاجو حضرت خدیجہ الکبریؓ کی نسبت سے حضرت فاطمة الزہرہ ؓکے بھائی تھے۔ یہ بات اس امر کی غماز ہے کہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی تعلقات محبت و شفقت عبارت تھے۔(سیرت سیدہ خدیجتہ الکبریؓ)
باطل ہمارے دل میں تنگی پیدا کر کے اس طرح کے رشتوں سے دوری اور منفی احساسات میں الجھائے رکھتا ہے۔


💥ہنٹ 8: طبع مبارک میں ناز برداری دلجوئی اور مزاح کا پہلو
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رسول اللہ ﷺکے ساتھ شادی نو عمری میں ہی ہو گئی تھی اور عام بچیوں کی طرح ان کا گڑیوں سے کھیلنے کا شوق ابھی پورا نہ ہوا تھا۔
روایات میں ہے کہ آنحضور ﷺگھر تشریف لاتے اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کو اپنی سہیلیوں میں گڑیوں کے ساتھ کھیلتا دیکھتے تو مسکرا کے ایک طرف ہو جاتے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے کبھی مجھے یا میری سہیلیوں کو کھیلنے سے منع نہیں فرمایا۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کھیلنے میں مشغول تھی کہ حضور ﷺتشریف لے آئے۔
آپ ﷺنے ان کے پاس ایک پروں والا گھوڑا دیکھا۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺنے مجھ سے پوچھا عائشہ! یہ کیسا گھوڑا ہے جس کے پر ہیں؟ اس پر میں نے کہا حضور ﷺ! یہ سلیمانی گھوڑا ہے۔
میں نے سنا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کے پاس اڑنے والے پردار گھوڑے ہوتے تھے۔یہ سن کر حضور ﷺ مسکرا دیئے اور فرمانے لگے یہ گھوڑوں کے پروں والی بات آج میں نے پہلی بار سنی ہے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ دوران گفتگو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہلکی پھلکی ہنسی اور مزاح کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ اور آپ ﷺ کے کلام میں سنجیدگی ہی نہیں خوش گفتاری کا عنصر بھی موجود تھا۔
آج بے شمار شادی شدہ جوڑوں کے درمیان باطل نے ایسی نااتفاقی ڈلوا رکھی ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات کااحترام ندارد ہے۔ ہنسی اور مزاح تو دور کی بات عام روٹین کی گفتگو کی نوبت بھی لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔
اگر ہم آ پ ﷺ کے اطاعت گزار امتی بننا چاہتے ہیں تو اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

💥ہنٹ 9: کمال التفات اور محبت و شفقت
حضرت عائشہؓ ایک اور روایت بیان کرتی ہیں کہ ایک دن ہمارے گھر ایک معمر سال خوردہ خاتون آئیں حضور اکرم ﷺ ان کی طرف متو جہ ہوئے اور دیر تک کمال التفات اور محبت و شفقت سے محو گفتگو رہے آپ ﷺ نے ان کی اور ان کے گھر والوں کی خیریت دریافت کی اور پوچھا جب ہم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو آپ لوگ کن کن حالات سے گزرے اور کیا کیا واقعات پیش آئے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اتنی اپنائیت اور چاہت سے کرید کرید کر اس سے احوال پوچھتے رہے کہ مجھے اس بڑھیا پر رشک آنے لگا۔
جب وہ چلی گئی میں نے پوچھاآقا!وہ بڑھیا کون تھی؟ تو آپ ﷺنے فرمایاوہ خدیجہؓ کی ایک سہیلی تھی جب ہم مکہ میں رہتے تھے تو وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ خدیجہؓ اس سے بہت محبت کرتی تھیں۔
یہ آ پ ﷺ کا اپنی زوجہ محترمہ کی ایک سہیلی کے لیے شفقت کا عالم تھا۔
اب اگر ہم غور کریں تو میاں بیوی ایک دوسرے کے رشتہ داروں کو بھی بہ مشکل برداشت کر پاتے ہیں۔
باطل بے کار کے لڑائی جھگڑوں میں پھنسا کرہمیں ہٹ دھرم بناتا ہے اور ایک اطاعت گزار امتی بننے کی راہ مشکل کرتا ہے۔

💥ہنٹ 10: فقر و فاقہ کا عالم
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
اہل بیتِ نبی ﷺ پہ بسا اوقات ایک ایک مہینہ گزر جاتا مگر حضور ﷺ کے گھروں میں سے کسی ایک کے گھر میں بھی دھواں نہیں اٹھتا تھا۔
اسی حالت کا تذکرہ ایک اور حدیث میں اسطرح ملتا ہے۔(ترمذی شریف)
حضرت ابو طلحہؓ روایت کرتے ہیں :
ہم نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کرکئی دنوں کے فاقے کا ذکر کیا۔ اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا ہٹا کر ایک ایک پتھر بندھا ہوا آپ ﷺ کو دکھایا۔ یہ دیکھ کر حضور اکرم ﷺ نے اپنے بطن مبارک سے کپڑا ہٹایا تو اس پر(فاقے کا اثر زائل کرنے کے لئے)دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اور اگر آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں کوئی چیز پیش کی جاتی توا سے بچا کر ر کھنا مناسب نہ سمجھتے۔(ترمذی شریف)
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں:
رسول اللہ ﷺنے اپنی وفات تک کبھی متواتر دو دن جو کی روٹی سے بھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا تھا۔(بخاری۔ مسلم۔ترمذی)۔
ہم ہر روز تین وقت طرح طرح کی بے شمار نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اوراللہ کا کرم ہونے کے باوجود باطل زیادہ تر گلہ شکو ہ کا شکار رکھتا ہے۔


💥ہنٹ 11: ایثار و احسان کا معمول
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضور نبی اکرم ﷺکے ایثار و احسان کا معمول بیان کرتے ہوئے یہاں تک روایت کیا کہ ایک مرتبہ چھ یا سات دینارہمارے گھر بچ گئے جب کہ باقی سب کچھ راہ خدا میں انفاق کر دیاتھا
۔یہ واقعہ حضور نبی کریم ﷺکے ایام مرض الموت کا ہے۔آپ ساری رات بے چین رہے۔کروٹیں بدلتے بدلتے رات گزار دی۔
آپ ﷺسے صبح ہم نے بے چینی کا سبب پوچھا تو حضور ﷺنے فرمایا۔
وہ دینار گھر میں ہی ہیں کسی ضرورت مند کو نہیں دیئے گئے۔اگر ان دینار وں کے گھر میں ہوتے ہوئے خدا کا نبی خدا سے جا ملتا، تو اس کا کیا حال ہوتا۔(مسند امام احمد)
اسی تصور نے حضور نبی اکرم ﷺ کو رات بھر پریشان رکھا اور نیند تک نہ آنے دی۔
گویا اسوئہ مصطفویٰ ﷺیہ تھا کہ چھ یا سات دیناربھی گھر میں چھوڑ کر وصال الہیٰ کے تصورسے پریشان تھے اور حجاب محسوس کر رہے تھے۔
اصحاب سیر و حدیث بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں سونے کی ڈلی بطور نذرانہ پیش کی گئی۔
آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دے کر اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کروا دیا۔
اتنے میں رات ڈھل گئی مزید کوئی حاجت مند نہ آیا اور ڈلی کا کچھ ٹکڑاگھر میں باقی رہ گیا۔
آپ ﷺنے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ ہمارے گھر اطلاع دو، جب تک سونے کا ٹکڑا گھر میں پڑا ہے اور راہ خدا میں خرچ نہیں ہو جاتا میں رات مسجد میں ہی بسر کروں گاگھر نہیں لوٹوں گا۔
معاشرتی زندگی میں حضور نبی کریم ﷺ کا یہ وہ طرز عمل تھا جسے بطور نمونہ کمال دنیائے انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جو نمونہ کمال تاجدار کائنات ﷺ نے عالم انسانیت کے سامنے پیش فرمایا اس کا معیار یہ تھا کہ اگر کوئی شخص صبح اس حال میں کرے کہ اس کے پیٹ میں ضرورت کی غذا ہو اور اس کے ہوتے ہوئے دن کا کھانا سنبھال کے رکھے تو وہ سوچے اس نے دنیا جمع کر رکھی ہے۔
آج ہم نے دل میں اور گھروں میں دولت کے انبار جمع کر رکھے ہیں۔
باطل نے دلوں میں دنیا اور اس کی دولت کی محبت اس قدر بھر رکھی ہے کہ آپﷺ کی حقیقی محبت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔

💥ہنٹ 12: حیات نبویﷺکا معاشرتی پہلو
معاشرتی زندگی میں حضور نبی کریم ﷺ کا طرزعمل، نفع بخشی، فیض رسائی، اور ایثار انفاق کا اس قدر نمونہ کامل تھا کہ آپ ﷺ نے معاشرے سے فقروفاقہ اور معاشی تعطل رفع کرنے کے لئے اپنی ساری کی ساری دولت لٹا دی تھی۔ اس حقیقت کا اندازہ آپ حضور کریم ﷺ کے ارشاد گرامی سے ہوتا ہے جسے حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا
اگر میرے پاس احد کے پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے اس بات میں دلی مسرت ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس میں سے کچھ نہ بچے سوا ئے اس کے جس میں قرض ادا کر سکوں۔(صحیح بخاری)
یہ تھا، حضور اکرم ﷺ کا وہ اصول زندگی جس نے آپ ﷺکے طرز عمل کو ابد الآباد تک نمونہ کمال کیا۔
یم باطل کے وار میں پھنس کر دوسروں کو مال بھی اپنی گرفت میں لے لینا خوشی کا سبب سمجھتے ہیں۔

💥ہنٹ 13: پیارے آقائے دو جہاںﷺ کا تقوی:
پیارے آقا ئے دوجہاں ﷺکی زندگی ہر طرح سے ہمارے لیے ایک مکمل نمونہ حیات ہے۔ زندگی کے تمام معمولات میں ہر پہلو کے حوالے سے پیارے آقائے دوجہاں ﷺ کی حیاتِ طیبہ امت کے لیے اسو ئہ حسنہ ہے۔
زندگی کے عادات و اطور میں سنت بنوی ﷺ سے آشنائی حاصل کرنے کے بعد زندگی کے مختلف معاملات میں پیارے آقائے دو جہاں ﷺ کی پیروی عملی طور پر کرنا ممکن ہوتی ہے۔
بلا شبہ آپ ﷺ کا اتباع ہی ہماری زندگی کے سب معاملات کو سنوارنے کا بہترین وسیلہ ہے۔
آقائے دو جہاںحضرت محمد مصطفی ﷺ افضل البشر تھے۔تمام گناہوں سے پاک تھے۔ جب رات کو عبادت کے لئے کھڑے ہوتے تو گھنٹوں ایک ہی رکعت میں کھڑے رہتے اور سجدے میں جاتے تو دیکھنے والے سمجھتے کہ روح مبارک پر واز کر گئی ہے۔
ایک بار آپ ﷺ نے ساری رات بے قراری میں کروٹ بدلتے ہوئے گزار دی۔ آپ ﷺکی بے چینی کو دیکھ کر حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ آپ ﷺ کو ساری رات نیند نہیں آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک کھجور پڑی تھی جو میں نے اس لئے اٹھا کے کھالی کہ ضائع نہ ہو اب فکر ہے کہ وہ کھجور صدقے کی نہ ہو۔
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا عمل بھی آپ ﷺ کو پریشان کر رہا تھا کہ کہیں دوسرے کے حصے کی کھجور نہ کھالی ہو۔ وہ کھجور صدقے کی تھی۔ آپ ﷺ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کو بے چینی لگ گئی۔
ہم تو قدم قدم پر احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ اور کتنے ہی بے شمار عمل خلاف حکم کرتے ہوئے بھی بے چین نہیں ہوتے۔
نیکی کرنا بھول جاتے ہیں، گناہ سے بچنے کی کوشش ترک کرتے ہیں مگر ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم تقویٰ اختیار کرنے والے نبی ﷺ کے امتی ہیں۔
باطل ہمیں اپنی نافرمانیوں کے باوجود مطمئن رکھتا ہے تاکہ ہم اصلاح کرنے کی بجائے مزید نافرمانیوں میں پھنستے جایئں۔

💥ہنٹ 14: حسن سلوک
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:میزان عمل میں حسن سلوک سے وزنی کوئی عمل نہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:میں بہترین اخلاق و عادت کے اہتمام کے لئے بھیجا گیا ہوں۔
حسن سلوک یہ ہے کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو معاف کرے، جو نہ دے تو اسے دیں، جو لڑائی رکھے تو اس سے جوڑیں۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ:
قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ محبوب اور میری مجلس میں سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جوتم میں اچھے اخلاق والے اور نرم خوہوں گے۔
کفار مکہ نے ہر ظلم آپ ﷺکے ساتھ روا رکھا مگر جب مکہ فتح ہوگیا تو سب کفار خوف اور دہشت سے کانپ رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان کو یہ کہہ کے چھوڑ دیاتھا کہ ”تم سے آج کوئی مواخذہ نہیں تم سب آزاد ہو۔
جب مکہ فتح ہوگیا تو اس وقت آپ ﷺ نے ایک ضعیف عورت کو سر پر گٹھڑی اٹھا کر بھاگتے دیکھا، آپ ﷺ کو اس پر ترس آگیا، اس کو پوچھا اتنا بوجھ اٹھا کر کہاں جارہی ہو؟ اس نے کہا! اے بیٹے!محمدﷺ نامی ایک شخص کے خوف سے مکہ چھوڑ کر جا رہی ہوں کہیں وہ میرا مذہب نہ چھڑوا دے۔ آپﷺ یہ بات سن کر مسکرا دےے اور کہا ،لا یہ بوجھ مجھے دے دے۔ آپ ﷺ نے بوجھ سر پر رکھا اور بڑھیا کے ساتھ چل پڑے۔ سارے راستے وہ آپﷺ کو برا بھلا کہتی رہی لےکن آپ ﷺ نہایت تحمل سے سنتے رہے۔ منزل پر پہنچ کر بڑھیا نے کہا، بیٹے مکہ میں محمد ﷺ آگیا ہے وہ بہت بڑا جادو گر ہے، اس سے بچ کر رہنا۔ آپ ﷺ نے بڑھیا کی بات سن کی ملائمت سے کہا کہ میں ہی وہ محمد ﷺ ہوں جس کے خوف سے تو مکہ چھوڑ آئی ہے
۔وہ بہت شرمندہ ہوئی اور کہا بے شک محمد ﷺ دشمنوں سے حسن سلوک کرتے ہیں۔
اس نے آپ ﷺ سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا۔
ٓٓآپ ﷺ نے جانی دشمنوں سے بھی حسن سلوک روا رکھا۔
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہونے کے ناطے صحیح معنوں میں آپ ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں دلوں میں ایسی نرمی لانے کی کوشش کرنی ہوگی کہ ہمارے ہاتھ سے ہر کسی کی جان اور عزت محفوظ رہے۔ دوست اور دشمن کو معاف اور درگزر کرنے کی کوشش ہی ہمیں اس میں کامیاب کر سکتی ہے۔
باطل نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا ہے۔ دوست ہی دوست کے خون کا پیاسا ہے۔ باطل کی اسی چال کی وجہ سے ہمارے گھروں میں برکت نہیں رہی۔ اب یہیں سے اندازہ لگا کیں ہم کہ جن عمال کی وجہ سے یہ دنیاوی زندگی بے برکت ہوتی جا رہی ہے، انکی وجہ سے آخرت کیسی ہو گی۔


ٹاپک 17 : پیروی و اطاعتِ آقائے دو جہاںﷺ اور باطل

💥ہنٹ 15: امانت
کسی کی چیز یا حکم اس کی رعایت کے ساتھ ادا کرنے کا نام امانت ہے۔ اسکا تعلق صرف روپے پیسے سے نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے، ہر مالی، قانونی اور اخلاقی امانت تک وسیع ہے۔ اگر کسی کی کوئی چیز آپ کے پاس رکھی ہے تو اس کے مانگنے پر یا ویسے بھی اس کو جوں کا توں دے دینا امانت ہے۔ اگر کسی کا کوئی حق آپ پر باقی ہے تو اس کو ادا کرنا بھی امانت ہے۔کسی کا کوئی بھی راز معلوم ہوا س کو چھپا نا امانت ہے۔ کسی مجلس میں ہوں اور کچھ باتیں دوسروں سے متعلق آپ وہاں سن لیں اور اسی مجلس تک محدود رکھنا اور دوسروں تک پہنچا کر فتنہ و فساد کا باعث نہ بننا بھی امانت ہے۔ کسی نے آپ سے کسی کام میں مشورہ مانگا تو اسے مشورہ دے کر اپنے تک ہی محدود رکھنا اور اس کو صحیح یا اچھا مشورہ دینا بھی امانت ہے۔ اگر کوئی کسی کام پر نوکر ہے تو اس کام کو شرائط کے مطابق اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے انجام دینا بھی امانت ہے۔
قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے:
وہ لوگ جو جنت میں جا کر کامیاب ہونے والے ہیں ان میں امانت اور وعدوں کی روایت کرنے والے ہیں۔
امانت داری کی صفت اللہ نے ہر پیغمبر میں رکھی ہے۔ آپ ﷺ کے بارے میں قرآن میں ہے کہ:میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔
آقائے دو جہاںحضرت محمد مصطفی ﷺ کی امانت داری بے مثال تھی۔ آپ ﷺ نے تب بھی امانت میں خیانت نہ کی کہ جب آپ ﷺ کے پاس بد ترین دشمنوں کی امانتیں تھیں۔ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو بستر پر لٹا کر ہدایت کی کہ صبح ہوتے ہی امانتیں لوٹا کر مدینہ پہنچ جاتا۔
یہ عالم تھا ہمارے پیارے آقا ﷺ کا کہ جان کا خطرہ ہونے کے باوجود امانت میں خیانت پسند نہ کی۔ آپ ﷺ اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے کہ جو امانت کی صفات نہیں رکھتا اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین دار نہیں ہے۔
باطل ہمیں اخلاقی طور پر نہایت کمزور کرنا چاہتا ہے اس لئے امانتداری کی صفت ہم میں ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔


💥ہنٹ 16: عاجزی
عاجزی کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں تکبر اور غرور پیدا نہ ہو۔ ہر شخص دوسرے کی عزت کرے اور اپنی کمی اور کوتاہی اور کمزوری کا اعتراف کرے۔
عاجزی یہ ہے کہ زمین پر انکساری کے ساتھ چلنا یعنی سینہ تان کر متکبرانہ چال سے دور رہنا۔ عاجزی اللہ کے خاص بندوں کا وصف ہے۔ لوگوں سے بات کرتے ہوئے بے رخی نہ اختیار کی جائے۔ آواز میں تیزی اور سختی نہ ہو کہ تکبر اور غرور ٹپکے۔
ارشاد باری تعالی ہے:اے شخص! اپنے رب کو یاد کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ، زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح و شام اور اہل غفلت میں سے مت ہوجاﺅ۔
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے کہا کہ میں مکہ کی وادی بطحا کو آپ ﷺ کے لئے سونا بنادوں۔ میں نے عرض کی نہیں۔ یا اللہ ! بلکہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دن سیر ہوکر کھاﺅں اور دوسرے دن بھوکا رہوں اور جب بھوکا رہوں تو تیرے سامنے عاجزی کروں اور جب سیر ہوکر کھاﺅں تو تیرا شکر ادا کروں اور تیری حمدو ثناءبیان کروں۔
کیا شان ہے کہ دونوں عالم کے داتا ہیں اور عاجزی کا یہ عالم ہے کہ جب کچھ نہ ملتا تب بھی عاجز رہتے۔
اور ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی عاجزی کے نزدیک نہیں جاتے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ:
آپ ﷺ غلاموں کی بھی دعوت قبول فرما لیتے تھے، بیماروں کی عیادت فرماتے، فقراءکے ساتھ ہم نشینی فرماتے، اور اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مل جل کر بیٹھا کرتے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ نے فرمایا کہ :
آپ ﷺ گھریلو کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔ اپنے غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے اور گھر کے کاموں میں غلاموں کی مدد فرماتے۔
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان ِعاجزی بھی سارے عالم سے نرالی تھی۔
اللہ نے آپ ﷺ کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ اے حبیب ﷺ اگر آپ چاہیں تو شاہانہ زندگی بسر کریں اور اگر آپ چاہیں تو ایک عام بندے کی زندگی گزاریں تو آپ ﷺ نے ایک عام بندے کی سی زندگی گزارنے کو پسند فرمایا۔
اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔
فتح مکہ کے دن جب فاتحانہ شان کے ساتھ آپ ﷺ اپنے لشکروں کے ہجوم میں شہر مکہ کے اندر داخل ہونے لگے تو اس وقت آپ ﷺ پر عاجزی و انکساری کا ایسا عالم تھا کہ آپ ﷺ اونٹنی کی پیٹھ پر اس طرح سے سر جھکائے بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ کا سر مبارک کجاوے کے اگلے حصے سے لگا ہوا تھا۔
جب حجة الوداع میں آپ ﷺ ایک لاکھ شمع نبوت کے پروانوں کے ساتھ اپنی مقدس زندگی کے آخری حج پر تشریف لے گئے تو آپ ﷺ کی اونٹنی پر ایک پرانا پالنا تھا اور آپ ﷺ کے جسم انور پر ایک پرانی چادر تھی جس کی قیمت ۴ درہم سے زیادہ نہ تھی۔ اسی اونٹنی کی پشت پر اسی لباس میں آپ ﷺ نے اللہ کے نائب اور تاجدار دو عالم ہونے کی حیثیت سے اپنا شہنشاہی خطبہ پڑھا جس کو ایک لاکھ سے زائد فرزاندان توحید نے ہمہ تن گوش سنا۔
حضرت عبداللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ :
ایک مرتبہ آپ ﷺ کے نعلین مبارک کا تسمہ ٹوٹ گیا اور آپ ﷺ اپنے دست مبارک سے اسے درست فرمانے لگے۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ خود یہ کام نہ کیجئے، مجھے دیجئے، میں اس کو درست کردوں۔ میری اس درخواست پر آپ ﷺ نے فرمایا: کہ یہ صحیح ہے کہ تم اس کو ٹھیک کرو گے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں تم لوگوں پر اپنی بڑائی اور برتری کو ظاہر کروں۔
ہم اپنا جائزہ لیں تو بولتے ہوئے، بات کرتے ہوئے یا ہمارے کسی بھی عمل سے عاجزی کا اظہار نہیں ہوتا، اور دل میں عاجزی کے ہونے کا احساس تو بالکل نہیں رہتا یعنی سب گند جمع کرتے جاتے ہیں اور اندر عاجزی نام کی کوئی شے نہیں رہتی۔
باطل ہمیں اپنی حقیقت ماننے ہی نہیں دیتا تاکہ ہم خود کو سنوار ہی نہ سکیں۔

ٹاپک 17 : پیروی و اطاعتِ آقائے دو جہاںﷺ اور باطل

💥ہنٹ 17: مساوات اور بھائی چارہ
ًقرآن پاک میں ہے کہ:اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک اصل سے پیدا کیا۔
آپﷺ کافرین کے ساتھ بھی اچھا برتاﺅ کرتے۔بیمار پرسی کے لئے اپنے مشرک چچاﺅں کے گھر بھی تشریف لے جاتے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ :
آپﷺایک بار اپنے عصا مبارک پر ٹیک لگا کر اپنے کاشانہ نبوت سے باہر تشریف لائے تو سب صحابہ کرام تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ آپﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا تم لوگ اس طرح کھڑے نہ رہا کرو جس طرح عجمی ایک دوسرے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ میں بھی ایک بندہ ہوں، بندوں کی طرح کھاتا ہوں اور بندوں کی طرح بیٹھتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ القرآن سورہ آل عمران میں فرماتا ہے:
سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ اللہ کے احسان کو جو اس نے تم پر کیا تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اس نے تمہارے دل جوڑ دےے اور اس کے فضل سے تم بھائی بھائی بن گئے۔
آپ ﷺسب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ بڑھ کرلائق تکریم تھے مگر اس کے باوجود آپﷺ نے کبھی خود کو برتر نہ سمجھا او
ر ہم وہ ہیں کہ نہ ہمارے پاس تقوی ہے نہ عمل مگر اس کے باوجود ہم خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی معاملات میں برابری کا معیار نہیں رکھتے بلکہ فرق رکھتے ہیں۔
باطل ہمیں ہماری نظروں میں بہت معتبر بنائے رکھتا ہے تا کہ ہم اپنی سچائی کبھی نہ جان سکیں بلکہ آخرت میں جب کوئی اصکاح کی گنجائش نہ ہو گی تب اپنی سچائی کا صلہ سہنے پر مجبور یو جایئں۔

💥 ہنٹ 18: غیر مسلموں سے حسن سلوک
اسلام تمام انسانوں کے لئے امن اور بھلائی کا پیغام دیتا ہے اور اس میں غیر مسلموں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ فرماتی ہیں کہ جس زمانے میں قریش سے معاہدہ ہورہا تھا(صلح حدیبیہ) اس وقت میری والدہ جو مشرک اور کافر تھیں، میرے پاس آئیں۔
میں نے آپ ﷺ سے معلوم کیا کہ میری والدہ اعانت کے لئے میرے پاس آئی ہیں کیا میں ان کی مدد کروں؟
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ان کی اعانت کرو۔
حضرت ابوبکرؓ کی یہ بیوی اور حضرت اسمائؓ کی والدہ تھیں۔ باپ بیٹی نے اسلام قبول کرلیا مگر یہ کافر رہ گئیں۔ اسی وجہ سے مکہ سے مدینہ شوہر اور بیٹی کے ساتھ نہ آسکیں۔ بعد میں مدد کے لئے اپنی بیٹی کے پاس آئیں۔
جس میں حضرت اسمائؓ کو پس و پیش ہوا کہ مدد کروں یا نہ کروں، تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:یعنی ہمیں کسی قسم کی تکلیف اگر غیر مذہب والوں سے نہیں پہنچ رہی تو ہم ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کریں۔
ایک بار ابو جہل نے آپ ﷺ کے ساتھ بد سلوکی کی۔
اس کے باوجود آپ ﷺ نے انتہائی صبر سے کام لیا اور جواب نہ دیا۔
اللہ نے آپ ﷺ کو قرآن پاک میں تاکید کی کہ:نرمی اور در گزر سے کام لو اور معروف کی تلقین کیے جاﺅ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔
آپ ﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، تو اس وقت بہت سے لوگ آپ ﷺ کا پیچھا کرنے لگے تاکہ پکڑ سکیں۔
ان میں سے ایک شخص جو غیر مسلم تھا آپ ﷺ کے قریب پہنچا تو اس کے گھوڑے کے پاﺅں زمین میں دھنس گئے۔ اس نے ۳ بار قسمت آزمائی لےکن نا کام رہا اور آپ ﷺ سے معافی مانگ کرامان چاہی اور آپ ﷺ نے اپنی جان کے دشمن کے ساتھ اس وقت بھی حسن سلوک فرمایا۔
بے شک کہ یہی ہیں وہ حسن سلوک کی اعلیٰ ترین مثالیں جن کی ہمیں پیروی کرنی چاہئے۔
باطل ہمیں ہماری انا کا غلام بنا کر ہمیں حسن سلوک کے ذریعے اللہ کی نظر میں اچھا مقام حاصل نہیں کرنے دیتا۔


💥ہنٹ 19: عفو یا معافی
جب کوئی ظلم یا زیادتی کرنے کے بعد اپنی غلطی کے بعد نادم ہوں تو اس سے بدلہ نہ لینا معافی کہلاتا ہے۔
شریعت مصطفی میں پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺکا ایک واقعہ ایسے بیان کیا گیا ہے کہ:
ایک سفر میں آپ ﷺآرام فرما رہے تھے۔
ایک شخص نے آپ ﷺ کی جان لینے کے ارادے سے آپ ﷺ کی تلوار نیام سے کھینچ لی۔
جب آپ ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ! اب آپ کو کون بچائے گا۔
آپﷺ نے فرمایا! اللہ۔ نبوت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور آپ ﷺ نے تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ بول اب تجھ کو میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟
وہ گڑگڑاکر کہنے لگا کہ آپ ﷺ ہی میری جان بچا دیں۔
رحمت دو عالم ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور اسے معاف فرما دیا۔چنانچہ وہ اپنی قوم میں آکر کہنے لگا اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آرہا ہوں جو تمام دنیا کے انسانوں میں سب سے بہتر ہے
کون سا ایسا ظلم اور برتاﺅ تھا جو کفار مکہ نے آپ ﷺ کے ساتھ نہ کیا ہومگر جب فتح مکہ کے دن یہ سب سرداران قریش انصار و مہاجرین کے لشکروں کے محاصروں میں مجبور و محصور ہوکر حرم کعبہ میں خوف و دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے ان کے جسم کا ایک ایک بال لرز رہا تھا،
رسول رحمت ﷺنے ان مجرموں اور پاپیوں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا اور معاف فرمادیا:
آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے، جاﺅ تم سب آزاد ہو۔
آپ ﷺ خود معاف کرنے والوں کے لئے مثال ہیں۔ آپ ﷺ دشمنوں کے پتھر کھا کر معاف کرنے والے تھے۔
مگر ہم باطل کے ہتھکنڈوں سے مجبور ہو کر کسی کی چھوٹی سے غلطی بھی معاف نہیں کرتے۔

💥ہنٹ 20: درگزر
جب ظلم یا زیادتی کرنے والا سامنے ہو اور بدلہ لینے کی پوری طاقت بھی ہو، تو بدلہ نہ لینا اور معاف کردینا در گزر کہلاتا ہے۔
حضرت زید بن سنعاءجو پہلے ایک یہودی عالم تھے، انہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کھجوریں خریدیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں انتہائی تلخ اور ترش لہجے میں، سختی کے ساتھ تقاضا کیا۔ اور آپ ﷺ کا دامن اور چادر پکڑ کر تیز اور تند نظروں سے آپ ﷺ کی طرف دیکھا اور چلا چلا کر کہا، اے محمد ﷺ! تم سب عبدالمطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں ہمیشہ دیر کرتے ہو اور ٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ آپے سے باہر ہوگئے اور نہایت غضب ناک اور زہریلی نظروں سے گھور گھور کر کہا:
اے اللہ کے دشمن تو اللہ کے رسول ﷺ سے ایسی گستاخی کر رہا ہے؟ خدا کی قسم! اگر حضور ﷺ کا ادب مانع نہ ہوتا ہو تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔
یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرؓ!تم کیا کر رہے ہو تمہیں تو چاہئے تھا کہ مجھے ادائے حقوق کی ترغیب دے کر اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کر کے ہم دونوں کی مدد کرتے۔
پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اے عمرؓ! اس کو اس کے حق سے زیادہ دے دو۔جب حضرت عمرؓ نے زیادہ کھجوریں دیں تو حضرت زید بن سنعاؓ نے کہا کہ میرے حق سے زیادہ کیوں؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں ترچھی ترچھی نظروں سے دیکھ کر تمہیں خوف زدہ کر دیا ہے اس لئے حضور ﷺ نے تمہاری دلجوئی کے لئے تمہارے حق سے زیادہ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ یہ سن کر زید بن سنعاؓ نے کہا کہ مجھے پہچانتے ہو کہ میں کون ہوں؟
آپؓ نے فرمایا تم وہی زید بن سنعاءہو جو یہودیوں کا بہت بڑا عالم ہے۔ انہوں نے کہا ہاں جی! یہ سن کر حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تم نے حضور ﷺ سے ایسی گستاخی کیوں کی؟
حضرت زید بن سنعائؓ جواب دیا اے عمرؓ !در اصل بات یہ ہے کہ میں نے تورات میں نبی آخر الزماں کی جتنی نشانیاں پڑھیں ان سب کو میں نے ان ﷺ کی ذات میں دیکھ لیا، مگر ان نشانیوں کا امتحان کرنا باقی تھا، اور یہ کہ ان کا حلم، جہل پر غالب رہے گا اور جس قدر ان کے ساتھ جاہلانہ برتاﺅ کیا جائے گا اسی قدر ان کا حلم بڑھتا جائے گا چنانچہ میں نے اس ترکیب سے ان دونوں نشانیوں کو دیکھ لیا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ یقیناً نبی برحق ہیں۔ اور اے عمرؓ میں بہت مال دار آدمی ہوں، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا آدھا مال آپ ﷺ کی امت پر صدقہ کیا۔
پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کلمہ پڑھ دامن اسلام میں داخل ہوگئے۔
سورہ الفرقان میں بھی در گزر سے متعلق ایسا ہی حکم ہے :اور جب جاہل ان سے جاہلانہ باتیں کرتے ہیں تو یہ سلامتی کی بات کرتے ہیں۔
باطل ہمیں اپنے نفس کا پجاری بنا کر اپنی منمانی اور چاہت کے مطابق عمل کرواتا ہے کیونکہ یہ جانتا ہے کہ نفس کی ماننے والے کو آخرت میں خسارے کے سوا کچھ نہیں ملنا۔


ہنٹ 21: ۔ بچوں سے محبت
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺکو بیٹیوں سے خاص محبت تھی، اور بیٹیوں کی پرورش اور ان کو علم سکھانے والے کو جنت کی خوشخبری دی۔فرمایا:جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کرے، پھر ان کو علم دین سکھائے اور ان کےساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کرے اللہ اس شخص کے لئے جنت واجب کردے گا۔
پیارے آقا ﷺ کو اپنی اولاد میں حضرت فاطمہؓ سے سب سے زیادہ محبت تھی۔
آپ ﷺ سفر پر تشریف لے جاتے تو اپنی پیاری بیٹی سے مل کر جاتے اور واپس آتے تو بھی سب سے پہلے پیاری بیٹی سے ملتے اور پھر ازواج مطہرات کے پاس جاتے۔حضرت فاطمہؓ جب بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں تشریف لاتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہوکر استقبال فرماتے، بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
حضور ﷺ بھی جب اپنی پیاری بیٹی کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی ایسی ہی کرتیں۔
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے فرمایا فاطمہؓ میرے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جس شخص نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔
نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔
آپ ﷺ کو حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سے بہت محبت تھی۔
حضرت داتا گنج بخشؓ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ عید کے دن حضرت امام حسینؓ نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ: تمام بچوں کے پاس سواریاں ہیں اور میرے پاس سواری نہیں ہے۔ آپﷺ اسی وقت زمین پر گھٹنوں کے بل تشریف فرما ہوئے اور امام عالی مقامؓ کو اپنے پشت پر بٹھا لیا۔ انہوں نے عرض کیا: بچوں کی سواری کی تو لگام بھی ہے۔ آپﷺ نے سرخ رنگ کا دھاگہ منہ میں ڈال کر اس کے سرے دونوں طرف سے آپؓ کو پکڑا دیئے اور کہا کہ اس سے لگام کا کام لو پھر حضرت امام حسینؓ جس طرف دھاگا کھینچتے آپ ﷺ اسی طرف مڑ جاتے۔ اس سے داتا صاحب نے یہ نتیجہ نکالا کہ پیارے آقا ﷺکی مرضی وہی ہے جو حضرت حسینؓ کی ہے۔

آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺحضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو کندھوں پر اٹھا کر مدینے کی گلیوں میں چلتے تو لوگ کہتے کہ حسنینؓ کتنے خوش نصیب ہیں کہ جن کے ہاتھ پیارے آقا ﷺ کی پیشانی کے ساتھ لگے ہیں اور پاﺅں سینہ اقدس کو چھو رہے ہیں۔ ایک بار آپ ﷺحضرت امام حسینؓ کو کندھے پر سوار کر کے جارہے تھے کہ ایک صحابیؓ نے کہا کہ کتنی اچھی سواری ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے فرمایا کہ :
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ سجدے میں جاتے اور حضرت حسنؓ آتے تو آپؓ کی گردن یا پشت مبارک پر سوار ہوجاتے تو آپ ﷺ انہیں اتارتے نہیں تھے اور خود ہی اتر جاتے تھے۔ اور میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ رکوع کی حالت میں ہوتے تو آپ ﷺ انہیں اتارتے نہیں تھے اور خود ہی اتر جاتے تھے۔ اور میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ رکوع کی حالت میں ہوتے تو اپنے پیروں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دیتے کہ حضرت حسنؓ ان کے درمیان سے دوسری طرف سے گزر جاتے۔
آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں حضرت امام حسینؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضور ﷺ نے ان کو پکڑ کر پیار کرنا چاہا تو حضرت امام حسینؓ نے دوڑ لگادی اور ان کو پکڑ لیا۔صحابیؓ کہتے ہیں کہ ہم دیکھ رہے تھے کہ آپؓ نے ایک ہاتھ حضرت امام حسینؓ کے سر کے نیچے رکھا اور دوسرے سے ان کی ٹھوڑی پکڑ کر ان کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر بوسہ لیا اور پھر چھوڑ دیا۔
اسی طرح ایک مرتبہ نمازکے دوران حضرت امام حسینؓ حضور ﷺ کی کمر مبارک پر سوار تھے۔ حضور ﷺ نے سجدے سے اس وقت تک سر نہ اٹھایا جب تک آپؓ اترنہ آئے۔

ہنٹ 21:بچوں سے محبت
آپ ﷺمنبر پر جلوہ افروز تھے اور حضرت امام حسنؓ آپ ﷺکے پہلو میں تھے، یعنی کسی بھی موقع پر بچوں کے لئے چاہت کو کم نہ کیا جائے۔
چاہے کیسا بھی کام ہوتا نماز یا خطبہ بچوں کی چاہت اور خواہش کو کم نہ کرتے۔
غزوات میں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺکی ہدایت تھی کہبچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کیاجائے۔
آپ ﷺکا وجودلڑکیوں کے لئے خصوصیت سے رحمت تھا۔زمانہ جاہلیت میں عرب افلاس کے ڈر سے لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے۔ ایک شخص آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا۔ ہم اہل جاہلیت اور بت پرست تھے، اپنی اولاد کو مار دیتے تھے۔میرے ہاں ایک لڑکی تھی۔ میں نے اس کو بلایا۔
وہ خوشی خوشی میرے ساتھ چل پڑی میں ایک کنویں کے قریب پہنچا تو میں نے اسے میں دھکا دے دیا، وہ ابا ابا پکارتی رہی۔
یہ سن کر آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
آپﷺ نے فرمایا یہ واقعہ مجھے دوبارہ سناﺅ، اس شخص نے سنا یا تو آپ ﷺ اتنا روئے کہ آنسوﺅں سے آپ ﷺ کی داڑھی تر ہوگئی۔
آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے تھے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک روز آپ ﷺحضرت حسن بن علیؓ کا بوسہ لے رہے تھے کہ عقرہ بن حابس، آپ ﷺکے پاس بیٹھے تھے، آپ ﷺ کو بوسہ دیتے دیکھ کر کہنے لگا کہ میرے ۰۱ لڑکے ہیں۔ میں نے ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ تو آپ ﷺنے فرمایا، جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا۔
حضرت جابر بن شمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺکے ساتھ چل پڑا۔ راستے میں بچے ملے۔ آپ ﷺ نے ہر ایک کے سر پردست شفقت پھیرا اور میرے رخساروں پر بھی پھیرا۔
میں نے آپ ﷺکے دست مبارک کی ٹھنڈک یا خوشبو ایسی پائی گویا آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک عطر کے صندوقچے سے نکالا ہو۔
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل پکتا تو لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں لایا کرتے تو آپ ﷺ اس پر یہ دعا پڑھتے۔
”خدایا ہمیں اپنے مدینے میں، اپنے پھل میں، اور اپنے ساتھ میں برکت دے“۔
اس دعا کے بعد جو بچے حاضر خدمت ہوتے ان میں سے سب سے چھوٹے بچے کو وہ پھل عنایت فرماتے۔

علامہ سید شاہ تراب الحق کی کتاب حضور ﷺ کی بچوں سے محبت میں ایسے واقعات نقل کئے گئے ہیں جن میں بچوں سے آپ ﷺ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
آپ ﷺ جب سفر سے تشریف لائے تو بچے بھی استقبال کرتے، جو بچے قریب پہنچ جاتے، آپ ﷺ ان میں کسی کو سواری پر کبھی آگے اور کبھی پیچھے بٹھا لیتے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جو حضرت اسماءبن ابوبکرؓ کے بیٹے تھے۔ جب پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے ایک کھجور چبا کر نرم کی اور بچے کے تالو سے لگا دی۔
آپ ﷺ اپنی نواسی حضرت امامہؓ سے بہت محبت فرماتے تھے۔
جب وہ آپ ﷺ کی گود میں آتی تھیں اور نماز کا وقت ہوتا تو آپ ﷺ ان کو کندھوں پر بٹھا کر نماز ادا کرتے۔
ایک روز ام قیس اپنے شیر خوار بچے کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے بچے کو گو د میں اٹھالیا۔ اس نے آپﷺ پر پیشاب کردیا۔

آپ ﷺ نے اس پر پانی بہادیا اور کچھ نہ کیا۔
الغرض آپ ﷺ کے سایہ محبت میں تمام بچوں کو پناہ محبت ملی اور وہ محبت کا درس ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔
ہم اپنا جائزہ لیں تو باطل کی زد میں آ کر ہم بچوں کے ساتھ اس قدر سخت ہو جاتے ہیں کہ بچہ اپنی معصومیت کھو بیٹھتا ہے۔
باطل نے جس طرح ہمارے دل مردہ کر دئے وہ چاہتا ہے کہ اگلی نسلوں کے دل بھی ہماری سختیوں کی بھینٹ چڑھ کر مردہ ہو جاییں۔

💥ہنٹ 22: جانوروں اورپرندوں سے محبت
آقائے دو جہان حضرت محمد مصطفی ﷺ پیکر رحمت تھے۔ آپ ﷺ کا سایہ رحمت صرف انسانوں پر ہی نہیں تھا بلکہ جانور اور پرندے بھی اس سے محروم نہ تھے۔ جانوروں کے بارے میں آپ ﷺ نے تاکیدا فرمایا:
ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان پر سوار ہوتو اچھی حالت میں سوارہو، اور ان کو کھاﺅ تو اچھی حالت میں رکھ کر کھاﺅ۔
آپ ﷺ ایک بار ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، وہاں دیکھا کہ ایک اونٹ ہے۔جب اس اونٹ نے آپﷺ کو دیکھا تو رو پڑا، آپﷺ اس کے پاس گئے اور اس کے پس گوش ہاتھ پھیرا وہ چپ ہوگیا۔ آپﷺ نے دریافت کیا کہ اس کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نے کہا یہ میرا اونٹ ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس چوپائے کے بارے میں جس کا اللہ نے تجھے مالک بنایا ہے، اللہ سے نہیں ڈرتا؟ اس نے میرے پاس شکایت کی کہ تو اس کو بھوکا رکھتا ہے اور کثرت سے تکلیف دیتا ہے۔
حضرت سعیدؓ فرماتے ہیں کہ میں ابن عمرؓ کے ساتھ تھا۔ وہ چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک مرغی باندھ رکھی تھی اور اس پر تیر سے نشانے بازی کر رہے تھے۔حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ:بلا شبہ رحمت اللعالمینﷺنے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ پیارے آقاﷺ نے فرمایا کہ:لعنت ہے کہ جانداروں کو نشانے کے لئے باندھا جائے۔
بعض لوگ جانوروں کو باندھ کر نشانہ کرتے ہیں اور مشق کرتے ہیں، اس کی سخت ممانعت ہے۔ اوراس طرح بے دردی سے مارنا حرام ہے البتہ شکار کرنا درست ہے کہ یہ انبیاء کا طریقہ ہے۔حضرت اسماعیلؑ شکار کیا کرتے تھے۔
سفر کے دوران اگر کسی جگہ غلہ ہوتو ایسی جگہ پر رک کر جانور کو غلہ کھانے کا حکم فرمایا۔ ہم میں جب ہر کوئی جانور پالے یا باندھ کر رکھے تو اس کے کھانے پینے کا انتظام اس پر واجب و لازم ہے، اگر اس نے اس میں کوئی کوتاہی کی اور اس کا خیال نہ رکھا اور اسے بھوکا رکھا تو اس کا گناہ مالک پر ہوگا۔ عموماً ہم اس بات کا خیال نہیں کرتے، بسا اوقات جانور پال لیتے ہیں اور ان کو بھوکا مارتے ہیں۔
خیال رہے کہ جانور سے فائدہ ہویا نہ ہو ہر صورت قبضہ میں رکھنے کی وجہ سے اس کا حق ادا کرنا واجب ہے۔
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
ایک عورت کو عذاب ا س لئے دیا جارہا تھا کہ اس نے ایک بلی پالی، نہ تو اس کو باندھ کر رکھنے کی صورت میں کھانا دیا اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑا کہ چل پھر کر زمین سے کھا لیتی۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عثمانؓ سے روایت ہے کہ:
آپ ﷺ سے ایک طبیب نے مینڈک سے دوا بنانے کے بارے میں پوچھا، تو آپ ﷺ نے اسے مارنے سے منع فرمایا۔
ویسے تو ان جانوروں کو جو نقصان اور ضرر نہ پہنچاتے ہوں اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ،ان کو مارنا منع ہے۔ اور جو نقصان پہنچاتے ہوں، ان کو مارنا درست ہے۔ پیارے آقا ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ جانوروں میں مینڈک اور چیونٹی کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔
جب حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالا گیا تو مینڈک نے پانی ڈالا تھا۔ اور یہ کہ خدا کے دشمن فرعون کو خوب پریشان کیا، اور اس کا ٹرٹرانا تسبیح ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ہے کہ:
مینڈک کو قتل مت کرو اس کا ٹرٹرانا تسبیح ہے کہ سب جانوروں میں سب سے زیادہ تسبیح کرنے (پڑھنے) والا جانور مینڈک ہے۔

💥ہنٹ 22: جانوروں اورپرندوں سے محبت
روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے چیونٹیوں کا ایک گھر دیکھا کہ جسے کچھ صحابہ نے جلا دیا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا اسے کس نے جلایا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے جلایا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے حکم دیا کہ چیونٹی کی جگہ کو جلا دیا جائے تو اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ کاٹا ایک چیونٹی نے اور تم نے اس کی ساری جماعت کو جلا دیا جو تسبیح کرتی تھیں۔
ایک اور جگہ پر فرمایا کہ:
کسی کو جائز نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کو آگ کا عذاب دے۔
آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جانوروں کے ساتھ ساتھ پرندوں کو بھی پیار و محبت کی نگاہ سے دیکھا، آپﷺ نے فرمایا:
جو شخص کسی چڑیا یا جانور کو ناحق مارے، قیامت کے دن اس کو مارنے کا مواخذہ ہوگا۔
پوچھا گیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا اس کا حق یہ ہے کہ اگر اس کو ذبح کرے تو اس کو کھائے یہ نہ کرے کہ اس کا سر کاٹ کر پھینک دے اور گوشت استعمال نہ کرے۔
ایک بار ایک صحابیؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے جو چوں چوں کر رہے تھے، آپ ﷺ نے ان پرندوں کے بارے میں پوچھا تو صحابیؓ نے عرض کیا کہ میں ایک جھاڑی کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ان بچوں کی آوازآرہی تھی، میں نے ان کو اٹھا لیا، ان کی ماں نے دیکھا تو بے تا بانہ چکر کاٹنے لگی۔
یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا، فوراََ جاﺅ اور ان بچوں کو وہیں واپس رکھ آﺅ، جہاں سے لائے ہو۔
حضرت عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ:
آپ ﷺ نے دوران سفر ایک منزل پر قیام کیا، ایک شخص نے پرندے کا انڈہ گھونسلے سے اٹھایا، جب وہ چڑیا آئی تو وہ آپ ﷺ کے سر مبارک کے چاروں طرف پھڑ پھڑانے لگی۔
آپ ﷺ نے فرمایا، کس نے انڈے اٹھا کر اس کو پریشان کیا؟ ایک شخص نے کہا میں نے۔ آپﷺ نے رحم فرماتے ہوئے کہا کہ اس کے انڈے واپس رکھ دو“۔
آپﷺ نے ہدہد اور شہد کی مکھی کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔ان پرندوں کے بارے میں ایسے بیان کیا جاتاہے۔
ہد ہد نے حضرت سلیمانؓ کی تعریف کی اور ان کے لشکروں کو حسن ترتیب سے ظلم سے بچایا۔اور حضرت سلیمان ؑ کو پانی کے مقام کی رہنمائی کرتا جس سے نماز اور وضو میں سہولت ہوتی۔ اور حضرت بلقیسؒ کی رہنمائی فرمائی کہ جس کے نتےجے میں ایمان لاکر زوجیت سلیمان میں داخل ہوئیں۔
شہد کی مکھی کی طرف اللہ نے الہام کیا، الہام جس کی تعبیر وحی سے کی گئی ہے کہ یہ ایک نعمت اور فضیلت ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
ہر قسم کی مکھیوں، مچھروں اور کیڑے مکوڑوں کو اہل جہنم پر مسلط کیا جائے گا، مگر شہد کی مکھی کو ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا۔
شہد کی مکھی چونکہ انسان کے لئے فائدہ مند ہے، اس لئے اس سے نکلنے والی شے کو اللہ نے باعث شفا فرمایا ہے۔ اس لئے اس کو مارنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
باطل ہم سے جانوروں اور پرندوں کے ساتھ من چاہا سلوک کرنا اپنا حق سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔یہی وجہ یے کہ ہم کبھی انکے حقوق کا خیال نہیں رکھتے۔


ٹاپک 17 : پیروی و اطاعتِ آقائے دو جہاںﷺ اور باطل

💥ہنٹ 23:اللہ نے قرآن پاک میں ہی اپنےحبیبﷺ کی اطاعت کرنے والوں کو دنیا و آخرت کے انعام کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔

بہترین روزی :
اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے۔(سورة الاحزاب:31)

رحم :
نماز کی پابندی کرو زکوة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرماں برداری میں لگے رہوتاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(سورةا لنور:56)

بڑی مراد پانا:
تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مرادپالی۔(سورةالاحزاب:71)

اعمال کی بچت اور حفاظت:
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔(سورة محمد:آیت 33)

بخشش:
تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔
بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورة الحجرات:14)
جنت:
جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرما نبرداری کرے اسے اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے (درختوں) تلے نہریں جاری ہیں۔(سورة الفتح:17)
ہم اچھا بننے کے لیئے، اپنی ذاتی شخصیت کی پہچان بنانے کے لیئے، دنیا کے رسم و رواج کے لیئے یا ایسی ہی کئی اور وجوہات کی بنا پر بھی اچھے کام کرتے ہیں اگر انہی سب کاموں کو کرتے ہوئے ہم آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کا احساس دل میں رکھیں تو دو جہان کی کامیابی پانا بہت آسان ہو جائے گا۔
باطل ہمیں دنیاوی مفاد میں پھنسا کر آخرت کےفائدے سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔*