ٹاپک 18 : منزل کا حسن اور باطل


💥ہنٹ 1: اللہ کی طرف جانے والی راہیں لامحدود ہیں
اللہ کا فرمان ہے :
ترجمہ: اور (میں) تمہارے اندر ہوں ، کیا تم غور نہیں کرتے۔
اللہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا مگر اس کا احساس اس کی صفات کے ذریعے ہر لمحہ رکھا جاسکتا ہے۔ اللہ کی ۹۹ صفات ہیں اور بے شمار شانیں ہیں۔
اللہ... پیارکرنے والااللہ... مہربان اللہ ...دوست اللہ ...ہمدرد اللہ ...کریم اللہ ...رحیم اللہ... قریب اللہ... مجیب اللہ... حکیم اللہ... اللہ ہی اللہ... اللہ ہی بس اللہ ہے۔
اللہ کی صفات کا احساس جب دل میں اترتا جاتاہے تو اب اللہ کا بندہ تنہا نہیں رہتا بلکہ وہ ہر موقع ، ہر مشکل، آسانی، سکھ، پریشانی، خوشی، غمی، محفل تنہائی میں اپنے اللہ کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ اللہ ہمارا ایسا ازل کا دوست ہے جو ہمیں کسی لمحہ بھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ اس ازل کے مہربان دوست نے ہمیں لمحہ اول سے اپنا بندہ بنا کر ہمیں اپنا لیا ہے۔ اب ہم کتنا اس کو اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں یہ ہم پہ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 5 وقت کی نماز کا تعلق بنانا ہی کافی ہے۔ یا کوئی اس سے آگے بڑھا تو اس نے کچھ اور اوقات مخصوص کر لیئے اور ان اوقات میں ذکر ،عبادات وغیرہ کر کے اپنے اسی تعلق پر مطمئن ہو بیٹھا۔ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ نے اپنی طرف آنے کےلئے جو راہیں کھولی ہیں ، وہ لا محدود ہیں۔
ہم جس طرح سے بھی کوشش کریں اورنیت اور ارادہ کو اسی کو پانے کا ہو تو ہر راستہ اسی کو جاتا اور ہمیں اپنی منزل سے قریب کرتا ہے۔ افسوس ہم نے اللہ کو پارٹ ٹائم نوکری سے بھی کم وقت اپنی زندگی میں دے کر یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے زیادہ وقت اللہ کو نہیں دیا جاسکتا۔ اور اس سے زیادہ وقت اللہ کی راہ میں لگانا عین بیوقوفی گردانتے ہیں۔ جو یہ بیوقوفی کرے و ہ قابلِ ترس محسوس ہوتا ہے۔
جبکہ ہم نے تو زندگی کے ہر لمحے میں کو اللہ کی قربت میں گزار کر اللہ کی محبت حاصل کرنی تھی۔
باطل ہمیں اپنی زندگی میں سےمقدور بھر وقت اللہ کیلئے نکالنے پر مطمئن رکھ کر قربت میں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔

💥ہنٹ 2: ہماری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ ہماری حقیقی منزل کیا ہے؟
اللہ نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیئے پیدا فرمایا۔ اس لیئے ایک اللہ کے بندے کی زندگی کا اصل مقصد اللہ کی بندگی ہے۔اسی بندگی سے اسے اپنی حقیقی منزل یعنی جنت عطا ہو گی۔ وہی جنت جسے اللہ نے اپنے پیارے بندوں کے لئے سجا سنوار رکھا ہے اور اس کے دروازے حشرکے روز اپنے محبوبﷺ کی شفاعت کے صدقے اپنے بندوں پر کھول دے گا۔
باطل ایسا مکرو فریب کا جال ہمارے لیئے قدم قدم پر بچھائے ہوئے ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اپنی منزل کا تعین ہی نہیں کر پاتے۔ ہم اپنی مرضی سے پیدا تو نہیں ہوتے ، البتہ عمر بھر خوب مرضیاں کر کے ، آخر کار اپنی مرضی کے بر خلاف دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ زندگی کا آخری وقت آن پہنچتا ہے مگر مقصدِ حیات دنیا سے متعلق ہو تو اسی کے حصول کو کامیابی سمجھ لیتے ہیں اور حقیقی مقصدِحیات چن نہیں پاتے۔ اسی لیئے خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ جاتے ہوئے اعمال نامہ بھی خالی ہی لیئے موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔
باطل ہمیں زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے اور اسکا تعین کر کےزندگی کو راہ راست پر لانے ہی نہیں دیتا کہ اس طرح ہمارے دو جہاں نہ سنور جایئں۔


💥ہنٹ 3: زندگی کے امتحان میں کامیابی پانے کی کوشش
ہم دنیا کو امتحان گاہ نہیں سمجھتے اسی لیئے ہم زندگی کو امتحان نہیں بلکہ کھیل تماشا ہی سمجھتے ہیں۔ اسی لیئے اس امتحان میں جو ٹیسٹ بھی سامنے آتا ہے، کسی معاملے کی صورت میں جو آزمائش آن پڑتی ہے ہم اس میں اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی بجائے، اس سے مدد طلب کرنے کی بجائے زمین آسمان ایک کردیتے ہیں اور امتحان میں پاس ہونے اور جنت کی طرف بڑھنے کا موقع بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ ہر معاملہ اصل میں اپنی منزل یعنی جنت سے قریب کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر زندگی کے ہر لمحے کو ہی امتحان سمجھیں اور اس لمحے کو اللہ کی خوشی اور پسند کے مطابق گزارنے کی کوشش میں اللہ کی چاہت کے موافق سٹیپ لے جائیں تو اصل میں وہ ہر سٹیپ ہماری منزل کی طرف ہی اٹھ رہا ہوتا ہے۔ اب خواہ خوشی ہو یا غم اس کو امتحان جان کر اس میں شکر کی حالت میں رہنا، شکوہ سے حتٰی الامکان بچنا، اصل میں ہمارا اللہ کی خوشی کے مطابق اٹھایا ہوا سٹیپ ہے اور اگر ہم نے اس سٹیپ کو لیتے ہوئے ارادہ بھی یہی رکھاا ور دل میں اس سے کہا کہ اللہ! یہ قدم تیر ی خوشی کےلئے ہی تیری مدد سے اٹھا رہا ہوں تو ضرور وہ اپنے کرم سے جنت کی جانب جاتے ہمارے قدم آگے بڑھا دے گا۔ اور پھر یونہی ہر معاملے میں جب یہ احساس رہے کہ اب اس معاملے کو امتحان، آزمائش ، ٹیسٹ سمجھوں کیونکہ زندگی تو لمحہ لمحہ ایک امتحان ہی ہے تو تب ہر لمحہ میں ہمارے اعمال نامہ میں اللہ کے پسندیدہ اعمال درج ہوتے چلے جائیں گے اور یہی اعمال اللہ کے کرم اورخاص فضل سے جنت کی راہ ہموار کرتے چلے جائیں گے۔ یہ بات سننے پڑھنے میں تو اچھی لگتی ہے لیکن جب عمل کی باری آئے تو ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
باطل ہمیں اللہ کی پسند کے مطابق قدم اٹھا کر زندگی کے امتحان میں کامیاب ہونے سے روکنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اللہ سے مدد مانگ کر بھلائی کی جانب بڑھیں یا خود کو باآسانی باطل کا نشانہ بننے دیں۔

💥ہنٹ 4: نیکیوں کے پلڑے
اور جو لوگ نیک بخت ہوں گے (وہ) جنت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین (جو اس وقت ہوں گے) قائم رہیں مگر یہ کہ جو آپ کا رب چاہے، یہ وہ عطا ہوگی جو کبھی منقطع نہ ہوگی (سورة ہود، ۸۰۱ آیت)
ہماری منزل جنت ہے۔ اس کےلئے نہ تو ہمیں دنیا تج دینے کی ضرورت ہے، نہ جنگلوں کی خاک چھاننا ہو گی۔ اسلام دینِ فطرت ہے اس میں رہبانیت کا قطعی دخل نہیں۔ اللہ کا یہ دین ہمیں زندگی کے تمام معاملات اللہ کی پسند کے مطابق نبھانے کی ترغیب دیتا ہے تا کہ یوں ہم ہر معاملہ اللہ ہی کا معاملہ سمجھیں اور اس معاملہ میں اللہ کی پسند کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اپنے نیکیوں کے پلڑے بھاری کرتے چلے جائیں۔ پھر جب اللہ کا فضل ہر شے پر غالب آجائے تو راہ نجات آسان ہو جائے اور جنت کے در ہمارے لیئے کھل جائیں۔ لیکن ہم اسی دنیا کو ہی ہمیشہ کا ٹھکانہ سمجھ کر اسی کو جنت بنانے میں مشغول ہوجاتے ہیں یوں اصل جنت کی یاد تک دل سے محو ہو جاتی ہے۔
شیطان ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے کہ کسی طرح خدا کے بندے آخرت میں ملنے والی جنت کوبھول کر دنیا کو ہی جنت بنالینے کے چکر میں پڑ کر آخرت میں خالی ہاتھ رہ جایئں۔

💥ہنٹ 5: کامیابی اور ناکامی کا معیار
ہر انسان کی کامیابی اور ناکامی کا الگ معیار ہوتا ہے۔ کوئی بھی انسان جب سے ہوش سنبھالتا ہے اپنے ذہن میں ایک مقصد کا تعین کرتا ہے۔اسی مقصد کے حصول کے لیئے اس کی ساری محنت اور جدوجہد ہوتی ہے۔ اور اگر وہ اس ٹارگٹ کو پا لیتا ہے تو وہ اس کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ اور جب کسی بھی وجہ سے اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا تو وہ اسے اپنی ناکامی سمجھتا ہے۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کا میابی اور ناکامی کا معیار یہ ہے کہ ہم اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کو کامیابی سے منسلک کریں۔جبکہ اللہ کے احکام سے روگردانی کرنا یا کوئی ایسا عمل جو اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتا ہو اس کو اپنی ناکامی سمجھیں۔
آج کل زیادہ لوگ اپنی کامیابی اور ناکامی کو دنیاوی زندگی کے قائم کیے گئے معیار کے حساب سے دیکھتے ہیں۔ ان کی ترجیحات اور خواہشات دنیا کی زندگی تک محدود ہیں اور وہ انہی کو پانے اور نہ پاسکنے کو ہی اپنی کامیابی اور ناکامی تصور کر لیتے ہیں۔
جبکہ اصل میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری ترجیح اور کامیابی و ناکامی کا معیار اللہ اور پیارے آقائے دوجہاںﷺ کی خوشنودی پانا ہی ہونا چاہیے۔
باطل اپنی مرضی کا کامیابی اور ناکامی کا معیار ہمارے سے تعین کروا کر ہمیں گمراہ کر کے ہم سے اپنی پرانی دشمنی نبھاتا ہے۔

💥ہنٹ 6: باطل کی کوشش
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم (یونہی بلا آزمائش) جنت میں داخل ہو جاو گے حالانکہ تم پر تو ابھی ان لوگوں جیسی حالت (ہی) نہیں بیتی جو تم سے پہلے گزر چکے، انہیں تو طرح طرح کی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور انہیں (اس طرح) ہلا ڈالا گیا کہ (خود) پیغمبر اور ان کے ایمان والے ساتھی (بھی) پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاو کہ بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔(سورة البقرة،آیت۴۱۲)
باطل ہماری زیادہ تر کوششوں کا رخ دنیا کی طرف ہی رکھتا ہے کہ نہ اس جانب سے فرصت ملے اور نہ ہی حقیقی مقصد و منزل کاتعین ممکن ہو۔
کبھی ایسی سوچ ڈالتا ہے کہ جیسے زندگی کو امتحان سمجھ کر گزارنے کے ارادے پر عمل زندگی کی ہر خوشی خود پر حرام کر دینے کے متراد ف ہے۔ باطل ہی ایسی کسی بھی کوشش کا آغاز ہونے سے پہلے ہی عمل کی راہیں مسدود کر ڈالتا ہے۔ ہمارے پاس فرصت ہی نہیں ہوتی ہے کہ بیٹھ کر اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرنے کے لئے اللہ سے مدد مانگیں اور روزِ آخر ملنے والی جنت کو منزل بنا کر اس کی طرف بڑھیں۔
باطل ہر امتی کے پیچھے لگا ہوا ہے کہ کسی بھی طرح اسے بھٹکانے کا چارہ کرے۔ اسے اس طرح سے غافل کر دے کہ وہ جنت ، اسی کی خوبصورتیاں ، اس کے ابدی سکھ، آسائشیں ، نعمتیں اور اللہ کی رحمتیں جو اللہ کے بندے کی آخرت میں منتظر ہیں ، وہ ان سے محروم ہی رہ جائے۔
باطل کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہوں اور نہ ہی منزل تک پہنچ سکیں۔

💥ہنٹ 7: دنیا سے انسیت
جتنی ہماری اس دنیا سے انسیت بڑھتی ہے۔ ہم اپنی اسی انسیت کی وجہ سے اس کی چیزوں کو اپنانے لگتے ہیں۔ جیسے دوست اپنے دوست کی صحبت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ ایسے ہی دنیا کی دوستی بھی ہے اور ہم ان چیزوں کی محبت کی وجہ سے دنیا چھوڑتے ہوئے بھی تکلیف سے گزرتے ہیں اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی رنج اٹھاتے ہیں۔
اللہ نے ہمارے لیئے آخرت میں جو انعامات رکھے ہیں۔ ان کی چاہت رکھنے سے بھی ہم اسی لیئے قاصر رہتے ہیں کہ ہم تو دنیا کی ہر شے کو ہی ابدی جان کر اور حسین سمجھ کر اسی سے محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی۔(سورة ہود ،آیت۵۱)
باطل ہماری نظروں میں دنیا کو مزید خوبصورت کر کر کے دکھاتا ہے کہ اسکی جھوٹی دلکشی میں پھنس کر ہم آخرت کی کامیابی کی روشن راہ کی جانب نہ چل سکیں۔


💥ہنٹ 8: دنیا اپنی جاگیر
دنیا کو ہی اپنی جاگیر سمجھ کے اس کو اپنی ملکیت بنانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہوئے آخر کار ناکامی کا منہ دیکھیں گے کیونکہ دنیا کسی کی نہیں۔ ہم یہاں جتنا بھی وقت گزاریں اس میں رہتے ہوئے ہر شے پر اپنی حکمرانی جتائیں ، ہمیں ایک لمحہ کا جھٹکا اِس دنیا سے اُس دنیا میں لے جاتا ہے اور پھر سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔
وہ تما م چیزیں جن کو ہم اپنی ملکیت سمجھ کر انہیں نہ اپنے فائدے کے لیئے استعمال کرتے ہیں نہ ہی ان کا فائدہ اٹھانے کی اجازت کسی دوسرے کو دیتے ہیں وہ ہمارے لیئے وبالِ جان بن جائیں گے۔
اور کوئی شخص اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتا (اس کا) وقت لکھا ہوا ہے، اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو (خوب) صلہ دیں گے۔
(سورة آل عمران، آیت۵۴۱)
کبھی ہم مقابلہ بازی میں پھنس جاتے ہیں۔کبھی سٹینڈرڈ اور سٹیٹس کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں مگر اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم کبھی متاثر ہو کر اور کبھی احساس کمتری کا شکار ہو کر اندر ہی اندر مقابلے میں لگ جاتے ہیں۔اور ہم اپنی تمام ترصلاحیتیں ، اپنا وقت ، توانائی ، وسائل وغیرہ اسی دنیا کے کسی مقصد کے حصول کے لئے لگا دیتے ہیں تاکہ مقابلہ جیت سکیں اور اسی میں پھنس کر پھر منزل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں دنیا کو اپبی جاگیر سمجھ کر اسکی ہر چیز پر حکمرانی کرنے کی حرص بڑھتی ہی جاتی ہے۔
باطل یہ تمام ہتھکنڈے ہمیں آخرت میں ناکام کرنے کیلئے اپناتا ہے۔

💥ہنٹ 9: جنت کی خوبصورتیاں
جب ہمارے دل میں یہ چاہت بیدار ہو جاتی ہے کہ ہمیں اپنے خالق کی بنائی ہوئی جنت ہی ملے تو پھر اسی کے حصول کی کوشش اصل میں اس دنیا کو بھی ہمارے سامنے تمام تر خوبصورتیوں کے باوجود بے وقعت کر دیتی ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ ہم نے کبھی ان خوبصورتیوں کو کھوجنے کی کوشش ہی نہیں کی جو جنت میں پنہاں ہیں ...حسنِ ازل کا دیدار جنت میں میسر آنے والا ہے... ہمیں جنت کے سرداران کی سرداریوں میں جنت میں رہنا نصیب ہو گا ...ہمیں جنت کے خالق کا اور پیارے آقائے دو جہاںﷺ کا قرب بھی جنت میں ملے گا ...اگر ہم یہ چاہت طلب اور خواہش دل میں رکھ لیں تو اسی کی تڑپ ہمیں بے چین رکھے گی... اور تڑپ ہی عمل کی جانب لے کر جائے گی۔ اور عمل ہی منزل کو قریب لائے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: آپﷺنے فرمایا اللہ عزوجل نے فرمایا میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے (ایسی ایسی چیزیں) تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا جو آدمی جنت میں داخل ہو جائے گا وہ نعمتوں میں ہو جائے گا اسے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کے کپڑے پرانے ہوں گے اور نہ ہی اس کی جوانی ختم ہو گی۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ایک آواز دینے والا آواز دے گا (اے جنت والو) تمہارے لئے (یہ بات مقرر ہو چکی ہے کہ) تم صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہیں ہو گے اور تم زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی اور تم جوان رہوگے تم کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے اور تم آرام میں رہو گے تمہیں کبھی تکلیف نہیں آئے گی تو اللہ عزوجل کا یہی فرمان ہے کہ آواز آئے گی کہ یہ جنت ہے تم اپنے اعمال کے بدلہ میں اس جنت کے وارث ہوئے۔ (صحیح مسلم)
باطل جو خود جنت سے نکالا گیا ہے وہ ہمارے لئے بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم بھی جنت میں جانے والوں میں شامل نہ ہو سکیں اسی لئے جنت کی خوبصورتی کے بجائے دنیا کی خوبصورتی ہماری نظروں میں سمائے رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 10: منزل کی طرف لپکنا
حضرت سہیل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جنت والے جنت میں ایک دوسرے کے بالاخانے اس طرح دیکھیں گے کہ جس طرح تم آسمانوں میں ستاروں کو دیکھتے ہو۔ (صحیح مسلم)
ایک بار ٹھہر کر اپنی گزشتہ زندگی کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ یوں اندازہ ہو سکے گا کہ آج تک زندگی کس نقطہ کے گرد گھومتے گزری۔ اللہ کی چاہت اور اللہ کی جنت کی طلب کیا کبھی سوچ یا احساس میں بیدار ہوئی؟ بدلی ہوئی سوچ ، احساس اور طلب کی شدت منزل کو پل بھر میں قریب لے آتی ہے۔
جس لمحہ احساس ہو جائے کہ زندگی تو بنا مقصد کے ہی گزرتی چلی جا رہی تھی اسی لمحے منزل کی طرف بڑھنے کی ٹھان لیں تو منزل خود ہمیں اپنا لیتی ہے۔ جنت خود آواز دیتی ہے اور جنت بنانے والا خود راہ دکھا دیتا ہے۔
اللہ بڑا مہربان ہے اسے ایک باردل سے پکاریں وہ جواب دیتا ہے۔ ایک بار جنت کے لئے قدم اٹھائیں وہ ہزار در کھول دیتا ہے۔
بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہو گئے، تو ان پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
(سورة حم سجدہ :آیت۰۳)
جو بھی کرو...جو محسوس کرو...جو کہو...جو سوچو...جو دیکھو...جو سہہ جاﺅ...اگر اسمیں خیال رہے کہ کیا یہ میرے اللہ کو پسند آرہا ہوگا؟ اور پھر اس کی پسند نا پسند سے حیا آجانے پر کچھ اچھاکرنا یاکچھ برا چھوڑنا ....اور لمحہ لمحہ ہی ایسا کرتے چلے جانا ہی منزل کی جانب لپکنا ہے۔
منزل یعنی جنت اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اللہ کو پسند آتا ہے جب ہر حال میں ا س کی پسند بالاتر رہے اور پھر وہ خود بڑھ کر اپنے بندے کو جنت سے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے۔
باطل ہم میں منزل تک پہنچنے کی طلب ہی پیدا نہیں ہونے دیتا تاکہ اخرت کی پرسکون اور عزت والی منزل،جنت نہ پا سکیں۔

💥ہنٹ 11:
یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جدوجہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں۔(سورة کہف: آیت۴۰۱)
باطل ہمیں یوں بھی پھنساتا ہے کہ ہم اللہ کے شکر گزار بندے بھی ہیں اور ہمارے عمل بھی ایسے ہیں کہ اللہ بھی ہم سے راضی ہے، یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھی کمالی اور اللہ بھی راضی ہو گیا۔ ہمارا اللہ سے اچھا تعلق ہے اسی لیئے اللہ نے نواز دیا ہے۔ یہیں سے ہمیں یہ غلط فہمی بھی ہو جاتی ہے کہ ہم نے اللہ کو پالیا۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں دنیا دوں تو اسے میری رضا نہ سمجھنا اور ہم عین دنیا کو ہی اللہ کی رضا سمجھ کر بیٹھے رہتے ہیں اور اصل منزل کےلئے تگ و دو نہیں کرتے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اخروی اَجر کے حساب سے) اکارت ہوگئے جو انہوں نے دنیا میں انجام دیئے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیونکہ ان کا حساب پورے اجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)
(سورة ھود آیت۶۱)
باطل یہ دکھاتا ہے کہ دنیا کی فراوانی ، نعمتیں ، آسائشیں مل جانا بھی اللہ کے فضل سے تعبیر کرتے ہیں اور اسی کو اپنے لیئے کامیابی بھی تصور کرلیتے ہیں حالانکہ یہ حقیقی کامیابی نہیں ہوتی۔

💥ہنٹ 12: دنیا کا سودا
ہم کسی بھی طور اپنا آپ بیچ کر دنیا کا سودا مول لیتے ہیں اور اس کا نتیجہ خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ ہم اللہ کے دیے ہوئے راستے کو نہیں اپناتے اور دنیا کی کانٹو ں بھری راہ پر خوشی خوشی چلتے ہیں۔ یہ کانٹوں بھری راہ ہم اپنی مرضی سے چن کر اس پر چلتے ہیں۔ اف بھی نہیں کرتے مگر اللہ کی راہ پرچلیں تو ذرا ہوا کا جھونکا بھی چھو جائے تو واویلا کرنے لگتے ہیں کہ یہ کیسی اللہ کی قربت اور منزل ہے کہ جس کےلئے ہمیں اتنی آزمائشوں سے گزرا جا رہا ہے۔ دنیا میں امتحان سے تو ہر ایک کو گزرنا ہے مگر فرق یہ ہے کہ کون اللہ کی خاطر اس آزمائش سے گزر کر اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور کون دنیا کی محبت میں ان تکالیف سے گزرتا ہے اور دنیا کو ہی پانے کی کوشش میں جنت کی چاہت سے غافل ہوتاچلا جاتاہے۔
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتاََ کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔(سورة آل عمران، آیت۵۸۱)
اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا دنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے، وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے۔ بیشک وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا تھا اور وہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے(سورة یونس، آیت۵۴)
آخرت کے بدلے دنیا کا سودا کر لینا سراسر خسارہ یے۔ باطل یہی خسارہ ہماری جھولی میں بھرنا چاہتا ہے۔

💥ہنٹ 13: آزمائشیں
رسول اللہﷺ نے فرمایا جنت تکلیفوں سے گھری ہوئی ہے جبکہ دوزخ نفسانی خواہشات سے گھری ہوئی ہے۔
(صحیح مسلم)
اگر ہم اللہ کے قرب اور اپنی منزل(جنت) پانے کےلئے زندگی اللہ کی پسند کے مطابق گذارنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوں تو آزمائشیں آجانے پر باطل ڈاﺅن کرتا ہے اور ہم مظلوم بن جاتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آسانیوں کے مستحق ہیں۔ ہماری خواہشیں ادھوری رہ جائیں تو منتقم مزاج بھی بن جاتے ہیں۔ یوں باطل ایک طرف ہمیں اپنی منزل سے دھیان ہٹا نے کےلئے ذات میں پھنساتا ہے مظلوم بناتا ہے اور دوسری طرف دوسرے اللہ کے بندوں کے لئے منفی جذبات ابھارتا ہے اور اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے پر توجہ مرکوز کروا کے منزل سے دور کرتا چلا جاتاہے۔
اللہ تو پیار ہی پیار ہے۔ باطل آزمائشوں کو مصیبت ثابت کرتا ہے جبکہ اللہ کے پیارے بندوں کے لیئے آزمائشیں تو امتحان ہی ہیں اور اس کے بدلے میں اللہ اپنے بندے کو جنت میں ابدی سکون اور دائمی راحت عطا کرے گا۔ وہی جنت جو ہماری منزل ہے۔جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں تو اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہم اس سے ایسا تعلق بنانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہو اور اسی تعلق کی خاطر ہم ہر وہ کوشش کرتے ہیں جو ہمیں اللہ کی نظر میں سرخرو کردے اور ہماری فلاح کا باعث بن جائے۔
ہمارا اللہ پر یقین ، اسکی صفات کی آشنائی ، پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی محبت پر ایمان ہمارے عمل سے واضح ہوتا ہے اور اس کی خاطر ہی ہم دنیا کو ٹھوکر مار کر اپنی اصل منزل کی جانب جانے والی راہ کو اپناتے ہیں۔
باطل نہیں چاہتا کہ ہم ان آزمائشوں کے ذریعے آخرت کی کامیابی پا سکیں اسلئے انکو ہماری نظر میں بوجھ بنا کر دکھاتا ہے۔

💥ہنٹ 14: پاور کے ذرائع سے وقتاً فوقتاً فائدہ اٹھاتے رہیں
اصل میں ہوتا یہی ہے کہ جب ہم دنیا کو اپنی منزل بنا لیتے ہیں تو کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایمان کی کمزوری ہی اصل منزل سے بیگانہ کرتی چلی جاتی ہے اور ایک بار جب ہم کمزور پڑجا ئیں تو شیطان بار بار حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر ہمارے اندر ایمان کی طاقت ہو اوراپنی منزل سے آشنا ہوں اور ہرقدم منزل کی جانب بڑھانے کی فکر ہو تو شیطان کی مجال نہیں کہ وہ راستہ روکے۔
یہاں اگر ہم خود کو ہی اپنا استاد سمجھ کر بیٹھ رہیں کہ دین کی آگاہی ہے تو خود ہی اس راہ پر آگے چل پڑیں گے تو اس غلط فہمی سے نکل آنا بہتر ہے۔ دنیا کے ہر شعبہ میں سپیشلسٹ ہوتے ہیں اسی طرح اللہ کی راہ پر وہی آگے انگلی پکڑ کر بڑھا سکتا ہے جو کہ منزل تک کا راستہ جانتا ہو۔ اسی لیئے اس منزل کے حصول کی چاہ دل میں بیدار ہو تو رہبر و استاد کا دامن تھام لینا بہترین ہے۔
پاور کے ذرائع ہمارے دل اور روح کو پاور عطا کرتے ہیں تو اب ایمان بڑھتا اور مضبوط ہوتا ہے اور شیطان کا وار کام نہیں کرتا۔ اسی لئے شیطان ہمیں ان پاور کے ذرائع کی نہ اہمیت سمجھنے دیتا ہے نہ ان سے فائدہ اٹھانے دیتا ہے۔

💥ہنٹ 15: نشاندہی کر کے سمجھانے کی کوشش کرنے والا
اگر کوئی ہمیں نشاندہی کر کے سمجھانے کی کوشش کرے کہ ہم منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں تو فوراً اسی پر انگلی اٹھاتے ہیں اور غلطی ماننے کی بجائے اسی پر پل پڑتے ہیں۔
اس کی کردار کشی کرتے ہیں اور اس بندے کے ذریعے اللہ جو ہمار ی ہدایت کی راہ کھولنا چاہتا ہے ہم باطل کے ہاتھ آکر خود ہی بند کر دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ اللہ کا پیارا بندہ جس کے ذریعے ہمیں اللہ ہدایت کی راہ پر لانا چاہتا ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں اپنا بہترین عمل انجام دے رہا ہے تو کہیں اس میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ بھی انسان ہے مگر فرق یہ ہے کہ اس نے اللہ کی راہ اپنالی اور اب خود کو اللہ اور اللہ کے حبیبﷺ کی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ ہم ایسی کوئی کوشش بھی بروئے کار نہیں لاتے بلکہ الٹا ایسی کوشش پر آمادہ کرنے والے کو بھی برا بھلا کہتے ہیں اور اس سے دور بھاگتے ہیں اور یوں دراصل اپنی ہی راہ کھوٹی کر لیتے ہیں۔
ایسابھی ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی کی بتائی ہوئی اچھی بات قبول بھی کر لیں تو بھی باطل سچائی سے ہمیں اس پر عمل نہیں کرنے دیتا بلکہ وہ ہم سے ڈھونگ کرواتا ہے۔ ہم کسی اللہ والے کے سامنے تو اچھے بن کر پیش ہو جاتے ہیں لیکن ہر لمحہ خالص اور سچا ہونے کی کوشش اللہ کی خوشی کے لئے نہیں کرتے اسی لیئے تو ہمارا قدم اپنی منزل کی طرف نہیں اٹھتا۔
باطل ہمیں سچائی سے کوشش نہیں کرنے دیتا کیونکہ یہ جانتا ہے کہ اگر ہم ایسے کریں تو ہمارے عمل میں ایسا بدلاﺅ آئے گا کہ جو اللہ کو بھی پسند آجائے گا اور وہ ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل کرکے ہمیں جنت سے نواز دے۔

💥ہنٹ 16: رہبر و رہنما
ہر وہ لمحہ جو ہم اپنے اللہ کے احساس میں اللہ کی پسندکے عمل کرتے گزارتے ہیں اور ایمان کی قوت سے باطل کو شکست دیتے ہیں وہ ہماری کامیابی کا لمحہ ہے۔ اور ہر وہ لمحہ جس میں ہم اپنے کمزور ایمان کی وجہ سے باطل کے شکنجے میں پھنس گئے وہ لمحہ ناکامی کا ہے۔ ایسی ناکامی سے دو چار ہونے سے بچنے کے لیے اپنے رہبر و رہنما کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر عمل کرنا اور اپنے اندر مثبت تبدیلی لانا لازمی ہے۔
کوئی بھی خالص اللہ والے ہمیں ایسا ہی عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی رضا کے حصول اور ہماری دنیا اور آخرت میں کامیابی کا باعث بنے۔
عام لوگوں کے نزدیک کامیابی صرف دنیاوی خواہشات تک محدود ہوتی ہے جبکہ اللہ کی راہ کے مسافر اپنے رب کی رضا میں راضی ہونے اور ہر لمحہ اللہ کاشکر بجا لانے کو ہی اپنی کامیابی جانتے ہیں۔ اس کامیابی کے حصول میں کلیدی کردار رہبر و رہنما کا ہوتا ہے جو ہمیں ہدایت کی راہ دکھاتے ہیں۔
باطل ہمیں رہبر و رہنما سے ہر ممکن حد تک دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ ہم حقیقی کامیابی نہ پا سکیں۔

💥ہنٹ 17: استاد کی ذمہ داری
حقیقی منزل کی اہمیت کو سمجھنے کےلئے تعلیمی استاد کا کردار اہم ہے۔ سکول ہو یا کالج یونیورسٹی ایک استاد ہی طالبعلم کا آئیڈیل ہوتا ہے۔ ایک طالبعلم کےلئے اس کی شخصیت اہم ہوتی ہے۔
تعلیمی اداروں میں استاد کا بھی فرض ہے کہ وہ بتائے کہ ہم جو آسائشات یہاں چاہتے ہیں وہ دنیا سے کئی ہزار گنا زیادہ اور بہترین صورت میں جنت میں میسر آئیں گی اور ان کے چھن جانے کا بھی احتمال نہیں جبکہ دنیا کی ہر نعمت آخر کار یا ختم ہو جاتی ہے یا کھو دیتے ہیں یا چھین لی جاتی ہے۔ اگر ہم اس جنت کے حصول کا راستہ بتائیں تو دین کی نعمت اور جنت کی دولت کو پانا آسان ہو گا اور دنیا کی بجائے کوششوں کا رخ جنت کو ہی پانے کی طرف مڑ جائے گا۔ یوں استاد جو ظاہری نمونہ ہوتا ہے وہ ہمیں کامل و اکمل نمونہ جو کہ پیارے آقائے دو جہاںﷺہیں انﷺ کی پیروی کی راہ دکھاتا ہے۔ ہم انﷺ کی پیروی کی راہ پر چلتے ہوئے جنت تک جاپہنچتے ہیں کیونکہ جنت تک جانے والے سیدھی راہ آپﷺ کی محبت اور اطاعت ہی ہے۔ یوں ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم پر بھی عمل کر رہے ہوتے ہیں اور حق بات کہہ کر حق کی راہ بھی دوسرے کو دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا استاد کا کردار بہترین انداز میں نبھاتے ہیں۔
اس مقدور بھر کوشش کے نتیجے میں کسی کی زندگی سنور جائے گی اور اس کا بلا شبہ فائدہ خود استاد کو بھی ہو گا اور طالبعلم بھی فیض پائے گا۔
باطل نہ ہمارا فائدہ دیکھ سکتا ہے نہ ہمیں کسی دوسرے کی بھلائی کا سبب بنتے دینا چاہتا ہے اسلئے ہمیں اپنی ذمہ داری کے احساس سے غافل رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 18: اعلیٰ کی چاہت
اللہ کی چاہت ہی تو منزل کی چاہت کی طرف بڑھاتی ہے کیونکہ وہ اعلیٰ ہے۔ اور اسی کے لئے اعلیٰ کی چاہت اندر رکھی بھی گئی ہے لیکن ہم توجہ نہیں دیتے۔ اس لیئے دنیا اور اسمیں جو بھی اعلیٰ نظر آتا ہے اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ جتنا اس گھٹیا دنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں اعلیٰ کی چاہت کہیں پردوں میں دبتی جاتی ہے اور منزل بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔
اسکو ہم خود اس طرح واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا جتنی بھی حاصل کر لیں، دنیا کا اعلی سے اعلی مقام، اعلی سے اعلی آسائش حاصل کر لیں ہمارے دل کو تسلی نہیں ملتی نہ دل میں سکون اترتا ہے۔ یہ اسی لئے ہے کیونکہ دل میں اللہ کو پانے کی چاہت رکھی گئی تھی جسے باطل نے دنیا کی چاہت اور لالچ میں بدل دیا۔
ہمارے اندر حرص اللہ کی راہ پر ہی بڑھنے کی ہونی چاہئے تھے مگر باطل دنیا کی حرص بھر دیتا ہے۔

💥ہنٹ 19: ایک دن ہم نے یہ دنیا چھوڑ جانی ہے
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔ (صحیح مسلم)
باطل تو ہمیں منزل سے دور کرنے کےلئے یہ بھی یاد نہیں کرنے دیتا کہ ایک دن ہم نے یہ دنیا چھوڑ جانی ہے اور اسی کے بعد ہمیں جنت ملے گی۔ ہم موت کو یاد کرنے کی بجائے اس کا نام لینا بھی بدشگونی سمجھتے ہیں۔ اگر موت ہی نہ یاد رہے گی توموت کے بعد ابدی زندگی کے انعام اور نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی چاہ بھی دل میں بیدار نہ ہو گی۔ موت کا خوف باطل دل پر حاوی کرتا ہے اسی لیئے ہی ہم موت کے بعد زندگی کی تیاری بھی نہیں کرتے۔
باطل یہی چاہتا ہے کہ ہم آخرت کی زندگی کے لئے سامان اکٹھا کرنے کی کوشش نہ کر سکیں اسلئے منفی احساسات میں الجھا کر عمل سے محروم رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 20: اللہ کی طرف پلٹ آنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے تمام بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ترجمہ: اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔(صحیح مسلم)
ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر ہم پر اللہ کا کرم ہو جائے اور ہمیں یہ آشنائی عطا ہو جائے کہ ہماری منزل دنیا نہیں بلکہ آخر ت میں ملنے والی جنت اور اس کی نعمتیں ہیں تو ہم خود کو بدلنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں مگر کیونکہ کمزور انسان ہیں اور باطل کے بے شمار روپ ہیں جن کے ذریعے وہ ہماری راہ روکتا ہے تو ہم اس کے بہکاوے میں آکر وہ راہ چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر اندر ندامت آتی ہے تو دوبارہ وہ راہ اپنا لیتے ہیں جو منزل کو جاتی ہے۔ یہی جوش جذبہ کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتا ہے اور بار بار عمل کرتے اورچھوڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اندر ایمان نہیں اترتا بلکہ ظاہر کے روپ بدل لینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ یہاں بھی الرٹ رہیں کہ اگر بار بار اللہ کے راستے کو پکڑ اور چھوڑ رہے ہیں تو ایمان کی مضبوطی حاصل نہیں کر پار ہے جس کی وجہ سے قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔
اب یہاں ڈاﺅن نہیں ہونا اور نہ ہی شرمندہ ہو کراللہ کے راستے کی طرف پلٹ جانے سے رکنا ہے بلکہ کسی رہبر یا استاد سے رہنمائی لے کر جب بھی موقع ملے اللہ کی طرف پلٹ آنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں اور نئے سرے سے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ باطل کا سینہ چیرنے کےلئے حق کی راہ پر قدم اٹھانا ہے جو ہمیں ہماری اصل منزل کے قریب لے جائے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس موجود کتاب میں لکھ دیا میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہو گی۔(صحیح مسلم)
باطل ہمیں مایوس کر کے اللہ کی جانب پلٹنے سے روکتا ہے تاکہ ہم اسی کے شکنجے میں پھنسے رہیں۔

💥ہنٹ 21: مسلمان اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے
ہم پیدائشی مسلمان ہونے کے ناطے بھی یہ یقین رکھ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہتے ہیں کہ اللہ نے جنت ہمارے لیئے ہی تو بنائی ہے۔ آخر کار ہر طرح کے حساب کتاب سے گزر کر شفاعتِ آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام کے وسیلے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں گے۔
یہاں یہ بات سمجھی جائے کہ بے شک اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہمیں آقائے دو جہاںﷺ کی شفاعت نصیب ہو جائے گی مگر کیا ہم نے اپنے لیئے جنت کی راہ آسان کرنے کی کوشش خود اس دنیا میں کی؟ ہم نے مسلمان ہونے کے ٹیگ کو کافی نہیں سمجھنا۔ حقیقی معنوں میں مسلمانیت اپنانے کی کوشش کرنی ہے۔
مسلمان اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے مگر ہم تو قد م قدم پر اللہ کے احکام سے رو گردانی کرتے ہیں۔ ہر معاملہ میں اپنی مرضیاں کرتے ہیں اور پھر بھی تصور کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو خوش کرچکے ہیں۔ اللہ کے نام پر ہزاروں روپے لٹا دیتے ہیں کیونکہ وہ آسان ہے کہ لاکھوں کروڑوں میں سے چند روپے لٹا دیئے جائیں اور سمجھا جائے کہ کوئی تیر بہدف نسخہ آزمایا ہے کہ اب تو جنت ہاتھ آئے گی اور جب بات اللہ کے سامنے جھکنے کی آئے تو پھر اپنی ہی مرضی پر ڈٹ جائیں اور جھکنے سے انکار کر دیں۔
یہ باطل ہے جو مسلمانیت کا ٹیگ لگوا کر ہمیں ایسے آسان عمل پر مطمئن رکھتا ہے جس کی وجہ سے ذات میں پھنس کر اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔

💥ہنٹ 22: چند سوالوں کی روشنی میں اپنا جائزہ
آج اگر ہم الرٹ ہو جائیں اور چندسوالوں کی روشنی میں ا پنا اپنا جائزہ لیں تو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنے میں اور حقیقی منزل کی طرف بڑھنے میں مد د ملے گی۔
ہم نے جنت کے حصول کے لئے کیا کیا؟ کیا ہم ہر لمحہ اللہ کے ذکر سے دل کو منور رکھتے ہیں؟ کیا ہماری زندگی کا ہر لمحہ ہشیار باش گزرتا ہے کہ کہیں کچھ ایسا نہ سرزد ہو جائے جو اللہ کو پسند نہ آئے؟ کیا ہم الرٹ رہتے ہیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور اسے کیا اچھا لگ رہا ہے؟ کیا ہم نے اللہ کو وقتی دوست ساتھی غمخوار سمجھ رکھا ہے یا وہ پل پل کا ساتھی ہے؟ کیا ہم دنیا کو عیش و عشرت کا مقام بنانے کی لاحاصل کوشش میں تو مصروف نہیں ہیں؟ کیا ہم نے کبھی آخرت میں جنت میں وہ ابدی لمحے اپنے اللہ کی معیت گزارنے کی چاہت رکھی ہے؟ کیا ہم جنت کی چاہ رکھ کر اسی چاہت پر تکیہ کیے ہوئے ہیں یا عمل کی کوشش بھی کر رہے ہیں؟
ان سوالوں کے سچائی سے دیے گئے جواب ہمارے اندر احساس بیدار کریں گے کہ دنیاکی کسی کامیابی کو ٹارگٹ بنا کر اسے پالینا حقیقی کامیابی نہیں ہے۔
باطل ہمیں دنیا میں اس قدر الجھا دیتا ہے کہ ہم کبھی ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر اصلاح کی جانب بڑھنے کا سوچتے ہی نہیں۔

💥ہنٹ 23: حقیقی کامیابی
منزل کی چاہ رکھ کر اللہ کے راستے پر بڑھنے والے مسافروں کے لیے کامیابی یہ ہے کہ وہ کس تیزی سے اورمہارت سے دنیا کی گرفت سے نکلتے ہیں۔ دنیا کی چاہتوں سے کتنا ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اور ہر طرح کے معاملات میں کتنی جلدی اللہ کی خوشی اور رضا میں راضی ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا ہر عمل جو اللہ اور پیارے آقائے دوجہاںﷺ کی پسند کے مطابق ہو کامیابی ہے۔اوران کا نا پسندیدہ عمل کرنا ہماری ناکامی ہے۔
کسی بھی معاملے میں اپنی پوری کوشش کر کے یہ یقین رکھتے ہوئے نتیجہ اللہ کی مرضی پہ چھوڑ دیناکہ وہ جو فیصلہ ہمارے لیے کرتا ہے وہی ہماری اصل کامیابی ہے۔ہمارے لیے بظاہر ہمارا مقصد یا ٹارگٹ کا نہ ملنا ہماری ناکامی سمجھی جائے گی۔پر ہمارے لیے ہمارے پیار کرنے والے اور ہمارے لیے حکمتوں بھرے فیصلے کرنے والے اللہ کا ہر حکم یا فیصلہ جو ہمارے لیے جاری کیا جا تا ہے اسی کو دل کی بہترین حالت اور یقین کی پختگی کے ساتھ قبول کرنا ہی ہماری اصل کامیابی ہے۔اگر ہم ایک با ت کا خیال رکھیں کہ اللہ کے ہمارے لیے کیے گئے ہر فیصلے پر راضی اور دل سے مطمئن ہوں اور ہمارا ایمان ہو کہ ہماری کامیابی اسی فیصلے کو دل سے قبول کر لینے میں ہے تو ہم صرف کامیابی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین حقیقی کامیابی پانے والوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
باطل ہمارے دل میں اللہ کا یقین ہی مضبوط نہیں ہونے دیتا تا کہ ہم حقیقی کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔

💥ہنٹ 24: منزل کاتعین
اگر اللہ کے بندے کی حیثیت سے آج ہی اپنے منزل کا تعین کر کے اس کی طرف سفر کا ارادہ کر لیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے باطل کی دھونس میں آنے سے آخر کار انکار کر ڈالا اور آج سمجھ لیا کہ کامیابی اصل میں یہ ہے کہ ہم اپنی منزل پہچان لیں اور پھر اس کی سمت قدم بڑھانے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہ کریں۔اور ایک بار ایسا کرنے کےلئے نیت ہی کر لیں تو اللہ حامی و ناصر ہو جاتا ہے۔
حضرت جابرؓ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے آپﷺ کی وفات کے تین دن پہلے سنا۔ آپﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک نہ مرے سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے اچھا گمان رکھتا ہو۔ (صحیح مسلم)
ہم ایک بار اپنی منزل جنت کی خاطر قدم اٹھانے کی ٹھان لیں تو اللہ خود بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھام لیتا ہے کیونکہ اس نے یہ جنت اپنے بندوں کےلئے ہی تو بنائی ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں کےلئے جنت کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ بے شک! ہر کسی کو اپنے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا مگر اللہ کا فضل اور رسولِ امینﷺ ، شفیع المذنبینﷺ کی شفاعت جنت میں داخلے کی ضامن ہے۔
اس شفاعت کے عطا ہونے کے لئے آج سے عمل کی راہ چن کر قدم اٹھانا ہے تاکہ باطل کا منہ کالا ہو جائے۔ اور اس کی وہ سازش جو وہ دنیا کو جھوٹی جنت بناکر ہمیں اس کی محبت میں پھنسانے کے لئے تیار کرتا ہے، وہ بھی ناکام ہو جائے۔