ہنٹ 1: عبادت اور اللہ کا قرب


اللہ ہمارا رب اور ہمارا معبود ہے۔وہ لائق عبادت ہے اسی لئے انسان اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ عبادت ہمیں اللہ کے سامنے جھکنا اور اس کی کبریائی کا اقرار سکھاتی ہے۔ یہ صرف ظاہر کا ہی نہیں بلکہ دل سے جھک کر اقرار کرنا ہوتا ہے کہ تو ہے اللہ اکبراور ہم تیرے عاجز اور حقیر بندے ہیں۔
اللہ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے۔
(آل عمران:۸۱)
اللہ کو اپنے بندے کا اپنے سا منے یوں جھک جانا ،اپنی کمزوری اور اللہ کی عظمت و بزرگی کا اعتراف کر لینا پسند آتا ہے اور وہ اسے اپنے قریب کر لیتا ہے۔ اسے ان جنتوں میں داخل ہونے کی بشارت دیتاہے جواس نے آخرت میں اپنے پیارے بندوں کےلئے تیار کر رکھی ہیں۔
وہ جنتیں جن میں داخل ہونے کےلئے عمل کی مہلت اس دنیا میں سانس کے رکنے تک ملی ہوئی ہے اور جن کی قبولیت اللہ کی رحمت اور ہمارے پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شفاعت پر منحصرہے۔
باطل عبادت کے ذریعے ہمارا اللہ سے یہ خوبصورت رشتہ پیدا بننے ہی نہیں دیتا دیتا۔ بلکہ ہماری نظر اپنی عبادت اور اپنی ذات تک ہی رکھتا ہے۔
اس طرح باطل ہمیں عبادت کے اس لطف و سرور سے محروم رکھتا ہے جو در اصل بندے کو اپنے اللہ سے قریب کرتا ہے۔

ہنٹ 2: اپنی عبادتوں کا زعم
اس جہاں میں ہرعمل اور عبادت اللہ کی خوشی کےلئے کرتے ہیں تاکہ ہماری عاقبت بھلی ہو۔ وہ ہم سے راضی ہو جائے لیکن باطل ہمیں یہاں بھی اپنے جال میں پھنسا نے کی کوشش کرتاہے۔ ہم اپنی کی ہوئی عبادتوں کے زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اپنے نیکوکار اور صالح ہونے پر تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں اور باطل اس جانب توجہ ہی مبذول ہی نہیں ہونے دیتا کہ عبادات اور نیک عمل پر تکبر کرنے سے ہم اپنے ہی ہاتھوں ان اعمال اور عبادات کو ضائع کر ڈالتے ہیں۔ ہمارا یوں فخر کرنا شیطان کو تو خوش کر سکتا ہے مگر اللہ اس پر خو ش نہ ہو گا۔
اس طرح باطل ہماری عبادتوں کو ضایع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

💥ہنٹ 3: عبادت پر تکبر
(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں (سورة الفاتحہ: آیت۴)
اللہ کو یہ پسند ہے کہ اس کا بندہ جھک جائے اور اس عبادت اور نیکی کی توفیق کو بھی اللہ کی طرف سے خود پر کرم سمجھے کیونکہ اگر وہ نہ چاہے تو اس کو یہ نیکی اور عبادت کی چاہ اور شوق نصیب نہ ہو۔ہم اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم توایک بال کے برابر بھی قوت اور طاقت نہیں رکھتے۔ ہم سے سرزد ہونے والا ہر اچھا عمل اسی کی دی ہوئی توفیق سے ہے۔ جیسا کہ اللہ خود فرماتا ہے کہ ہر اچھائی کی توفیق اسی کی طرف سے ہے لیکن ہم علم رکھنے کے باوجود اس طر ح سے غافل ہو جاتے ہیں کہ جب شیطان دماغ میں سوچ ڈالے کہ ہاں !تم خود ہی ایسے باعمل انسان ہو اور یہ تمہارا اپنا کمال ہے کہ نیکو کار اور عبادت گذار ہو ، تو ہم بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور خود کو باکمال انسان سمجھنے لگے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سے رائی برابر بھی اچھائی ،نیکی یا عبادت کا ادا ہوناصرف اور صر ف اللہ کی ہم پر ہوئی خاص رحمت ہے کہ اس نے ہمیں ان بندوں میں سے کر لیا جو اس کے راستے پر چلنے والے ہیں ، نہ کہ ان میں سے جن پر ان کا غضب ہوا۔
باطل عبادتوں کو ہمارا کمال بنا کے ہمارے اندر تکبر پیدا کرتا ہے۔
باطل کی یہ چال اسلئے ہے کہ ہم عبادت کے ذریعے اللہ کو راضی کرنے کے بجائے ناراضگی مول لینے والے بن جائیں۔

💥ہنٹ 4: شیطان ہم سے بدلہ لیتا ہے
شیطان ہمیں اللہ کی خوشی سے محروم کر کے اپنا ازلی مقصد پورا کرتاہے یعنی ہمیں جنت سے دور لے جانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ جنت سے نکالے جانے کا بدلہ ہم سے لے سکے۔ وہ کھل کر سامنے نہیں آتا بلکہ ایسے چال چلتا ہے کہ عقل گنگ ہوجائے۔ ہماری عبادات ہوں یا ہماری نیکیاں ، ہمارے اچھے ارادے ہوں کہ عمل، شیطان کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کہیں وہ عمل کے ارادے متزلزل کرتا نظر آتا ہے تو کہیں عمل کی نیت کھوٹی کر ڈالتا ہے۔ اور اگر ہم اس سے لڑ کر اس کو شکست دے کر عمل کی حد تک آہی پہنچیں تو وہ یہاں بھی آرام سے نہیں بیٹھتا بلکہ اب اطمینان کے پر دے میں ، دل میں اٹھی ہوئی تکبر کی اونچی اونچی دیوار وں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ اسی لیئے تو ہم اسے پہچان نہیں پاتے۔ یہ ہمیں اپنا چہرہ نہیں دکھاتا لیکن اگر ہم دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ چھپ بھی نہ پائے۔ ایک ذرا سی للکار اسے الٹے پاﺅں بھاگ جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ادھر اللہ کا نام لیا اور ادھر یہ نو دو گیارہ ہوا۔ ادھر ہم الرٹ ہوئے اور ادھر شیطان کی چالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ضرورت تو صرف سمجھنے اور عمل میں اخلاص کی ہے۔
لیکن یہ ہمیں اس قدر چالاکی سے اپنی لپیٹ میں لیئے رکھتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہو پاتا۔
اس طرح باطل ہمیں اللہ کے انعام سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

💥ہنٹ 5: عبادت گذار تو ابلیس بھی تھا
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجتاً) کافروں میں سے ہو گیا (سورة البقرة ،آیت ۴۳)
عبادت گذار تو ابلیس بھی تھا۔ روزِ اول اس نے حضرتِ آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اسی پر اللہ کے غضب کا شکار ہو کر جنت سے نکال دیا گیا۔ابلیس فرشتہ نہیں تھا بلکہ جنات میں سے تھا لیکن بے حد عبادت گزارہونے کی وجہ سے اسے فرشتوں کے ساتھ رکھا گیاتھا۔ اسے فرشتوں کے اتالیق یعنی استاد ہونے کا شرف حاصل تھا۔ پھر جب سر میں غرور اور اپنے اعلیٰ ہونے کا سودا سمایا تو لمحہ بھر میں ساری عبادت اکارت ہوئی اور چھن گیا اس سے سارا مقام و مرتبہ! ایسا نہیں کہ اللہ اس سے یہ مقام اور مرتبہ واپس لینا چاہتا تھا بلکہ اس نے اللہ کی نہ مان کے خود کو اس مقام سے نیچے گر الیا جس پر اللہ نے اپنے کرم سے اس کو فائز فرما رکھا تھا۔ اللہ کے بندے بھی اللہ کے کرم سے عبادات کرنے کی توفیق پالینے کے بعد شیطان کے گمراہ کر دینے پر اپنی عبادات پر نازاں ہونے کے سبب اللہ کے انعام و فضلِ مزیدسے محروم رہ جاتے ہیں ۔ شیطان اپنی سازشوں کا شکار کر کے ہمیںاپنی عبادتوں پر ناز کرنے میں مصروف رکھتا ہے۔
اس طرح شیطان ہمیں اللہ کی نظر میں اسی طرح نا پسندیدہ بنانا چاہتا ہے جیسے کہ یہ خود ہے۔

ہنٹ 6: اپنی عبادتوں کا تذکرہ
اپنی عبادات اور فرائض کی ادائیگی پر اطمینان شیطان کا ہی دلایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ بندے اپنے رب کے حضور بار بار پیش ہو ںاور سچے دل سے جھک کر اس کی ربو بیت کا اقرار کریں۔ فرائض کی ادائیگی بھی محض ایک رسمی کا روائی ہی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہم جگہ جگہ اٹھتے بیٹھتے جب اپنی عبادتوں کا تذکرہ کریں تو اس میں شیطان ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ ہمیں اکساتا ہے کہ باتوں باتوں میں ایسا ذکر ہو جائے کہ سب جان جائیں کہ ہم کس قدر عبادت گزار اور پرہیز گار ہیں اور پھر لوگوں کی ستائش اور تعریف پر پھولے نہ سمائیں۔ یوں شیطان عبادت کا اصل مقصد پس پشت ڈال دیتا ہے اور ہمیں مزید اچھے عمل کرنے ، سیکھنے اور آگے بڑھنے کی جستجو میں نہیں رہنے دیتا۔
باطل ہماری عبادتوں کو خلوص سے عاری کر کے انکے اجر کو ضایع کر دیتا ہے۔

💥ہنٹ 7: تلاوت قرآن پاک
حضرت ابوذر ؓسے مروی ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا میرے بعد میری امت میں سے کچھ لوگ ہوں گے جو قرآن کو پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا، دین سے اسی طرح بے فیض رہ جائیں گے جس طرح تیر شکار سے بے نشان گزر جاتا ہے۔ پھر وہ دین میں لوٹ کر نہیں آئیں گے وہ مخلوق میں سے بدترین ہوں گے۔(ابن ماجہ)
قرآن پاک کی تلاوت روحانی پاور حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ باطل اس سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر ے گا۔کوئی بھی ایسی وجہ یا صورتحال سامنے لائے گا کہ تلاوت قرآن پاک روز کا معمول ہی نہ بن سکے اور اگر بنے تو اس میں خلل آجائے۔ یوں ہماری روح اس سورس آف پاور سے مستفید نہ ہو سکے۔ باطل اپنی ڈیوٹی بہترین انجام دیتے ہوئے کبھی نہیں چاہتا کہ بندے کا اپنے اللہ سے دِل کا رابطہ یقین اور پیار بڑھے اور بندہ اللہ کی جانب حق کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھے۔ باطل ہمیں قران پاک پرعمل نہیں کرنے دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس سے ہمارے اندر حق پر کھڑا رہنے کی جڑ مضبوط سے مضبوط تر ہو تی ہے۔
اس طرح باطل ہمارے عمل کی بنیاد مضبوط نہیں ہونے دیتا۔

💥ہنٹ 8: نماز
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) ان کے پاس آئے ، اس وقت ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی ، آپ ﷺ نے دریافت کیا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا ، فلاں عورت اور اس کی نماز (کے اشتیاق اور پابندی) کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے فرمایا ٹھہر جاو (سن لو کہ) تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ خدا کی قسم (ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا ، مگر تم (عمل کرتے کرتے) اکتا جاو گے ، اور اللہ کو دین (کا) وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جا سکے۔ (اور انسان بغیر اکتائے اسے انجام دے) (صحیح بخاری)
نماز ہمیں تحفے کے طور پر عطا ہوئی ہے۔ اسکو ادا کرتے ہوئے ہمارے اندر شکر ہو کہ اللہ نے کرم کیا اور اپنے سامنے پیش ہونے کا موقع عطا کیا۔ لیکن باطل نماز میں ہمیں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتا، کہ ہم عاجزے سے اپنا آپ اللہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے شکر میں جھکتے چلے جایئں۔ باطل ہمیں اس دھوکے میں رکھتا ہے کہ نماز ادا کر کے ہم احسان کر ریے ہیں۔ یا پھر یہ ہماری نمازوں میں نمود و نمائش کا عنصر شامل کر دیتا ہے۔
اس طرح باطل ہماری نمازوں اللہ کی پسندیدہ حالت میں نہیں رہنے دیتا۔

💥ہنٹ 9: سچائی سے لیا ہوا جائزہ اور احساس ِندامت
اگر ہم اللہ سے مدد لیں تو باطل کی قید سے رہا ہو سکتے ہیں۔
اور جب اللہ کے خاص کرم سے ہم پر حقیقت کھل جائے تو بہترین یہ ہے کہ تسلی سے خود بیٹھ کر سوچیں کہ وہ عمل ہم جو اپنے کھاتے میں درج کروا رہے ہیں اور شیطان نے ان پر مطمئن کر رکھا ہے... کہیں وہ ہماری راہ نجات آسان کرنے کی بجائے مشکل تو نہیں کر رہے۔ اور پھر اللہ کے سامنے پیش ہو جائیں اور اعتراف کر لیں کہ... میرے مالک !نہ تو میری عبادتیں کسی کام کی ہیں نہ میرے اعمال کا ہی اپنا کوئی وزن ہے.... تو ان کو پسند کر کے اپنے فضل سے انہیں قبولیت عطا نہ کرے تو یہ اکارت ہیں۔مجھ پر اپنے حبیب ﷺ کے صدقے فضل فرما اور مجھے اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نواز دے کیونکہ ... اگر تو فضل نہ کرے تو میرے سارے اعمال دھرے رہ جائینگے ... چاہے وہ سمندر زمین اور آسمانوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ... ان کو قبول کر کے میرے لئے اپنی طرف آنے والی راہیں آسان فرما۔یوں بھی نادم ہوں کہ میں شیطان کے بہکاوے میں آگیا ...اور پھنس گیا اس کے دام میں... اور اس کی طرح متکبر ہو گیا تھا مگر اب شرمندہ اور نادم ہوں۔مجھے اس کی طرح راندئہ درگاہ نہ فرمانا ...میں شرمندہ ہو کر تیرے سامنے آگیا ہوں ...مجھے اپنے در سے خالی نہ لوٹانا۔میں تیری جنتوں کا امید وار ہوں مجھے ان سے محروم نہ کرنا ...اور اپنی رحمت کے سائے میں ان جنتوں میں داخل کرنا کہ... اگر ایسا نہ ہوا تو میں دنیا و آخرت میں خسارا پانے والوں میں سے ہو جاﺅں گا۔
باطل کی قید سے نکل کر ہم اپنی عبادت کے ذریعے اللہ کی رضا اور آخرت میں راحت و سکون کا مقام پا سکتے ہیں۔

💥ہنٹ 10: ورد ، وظائف ،تسبیحات
فرائض کی ادئیگی کے ساتھ ساتھ اگر ہم ورد ، وظائف ،تسبیحات بھی کرتے ہوں تو یہاں بھی باطل ہی ہمیں قربت کی راہ پر آگے بڑھنے سے روکنے کی چال چل رہا ہوتا ہے۔ وہ ہمیں تسلیاں اور تھپکیاں دیتا ہے اور ہم اکڑ جاتے ہیں کہ کیا یہ کم ہے کہ سارا دن اور رات تسبیحات ، وظائف ، ورد کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ باطل یہ جائزہ نہیں لینے دیتا کہ کیا ہم تسبیحات پڑھتے ہیں تو پوری لگن اور توجہ سے پڑھتے ہیں یا نہیں۔ نہ یہ خیال کہ ورد وظائف پڑھتے ہوئے اللہ کا احساس دل میں کتنا موجود ہوتا ہے۔ یہ سچائی بھی نہیں دیکھنے دیتا کہ کیا تسبیح کے ہر دانے کے ساتھ دل کی حالت بدلتی ہے یا نہیں۔ نہ اس پر توجہ بھی نہیں ہوتی کہ زبان کے ساتھ دل کو بھی اللہ کے احساس سے منور رکھنا ہے۔ ہم اکثر ہاتھ میں تسبیح پکڑے ایک ایک دانہ شمار کرتے ہوئے باتوں میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ باتوں کی رفتار میں دانوں کا شمار بھی ہونے سے رہ جاتا ہے۔ بس انگلیوں پر ہی ایک کے بعد ایک دانہ گنتے چلے جاتے ہیں۔ زبان پر جہاں بھر کے قصے اور دل احساس سے غافل ہوتا ہے۔ یہی باطل کا وہ جال ہے جس وجہ سے ہم ایسی ہی تسبیحات، ورد وظائف کے لاکھ نکالنے کے بعد خوش پھرتے ہیں کہ ہم سے تو اللہ خوش ہے۔ ہم تو ایک ایک دن میں اتنے اتنے ہزار اور اتنے اتنے لاکھ پڑھ لیتے ہیں۔
اس طرح باطل ہماری محنت سے ہمیں حقیقی معنوں میں مستفید نہیں ہونے دیتا۔


💥ہنٹ 11: حقیقی فائدہ
اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے حل کےلئے وظائف کرنا اور مطلوبہ تعداد میں تسبیحات پڑھنا درست ہے لیکن اگر دل کا رابطہ اس وقت اللہ سے بھی بنانے کی کوشش کی جائے تو اس سے روحانی پاور بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ اگر یارزاق ہی کا وظیفہ کر رہے ہوں تو اس وقت یہ صرف تسبیح پر ہی نہ پڑھتے چلے جائیں بلکہ پہلے دل میں یہ احساس ہو کہ واقعی اللہ ہی ہمارا رزاق ہے۔ وہ ہمیں روزی اور رزق دینے والا ہے۔ اور اگر ہمیں رزق کی کمی کا سامنا ہے تو بھی وہ کبھی وہ ہمیں بھوکا نہیں سلائے گا۔ ہمارے لئے غیب سے وسیلے بنیں گے اور اس کے کرم سے ہی جہاں سے بھی رزق عطا ہونا ہوا ، ضرور عطا ہو گا۔ اب جب ہم اللہ کی اس صفت پر یقین کے ساتھ یہ اسم(یارزاق) دہرائیں گے اور اللہ کا احساس بھی دل میں ہو گاتو ہمارا یقین اللہ کی اس صفت پر خود بخود بڑھتا چلا جائے گا کہ وہ ضرور ہمارے لیئے غیب سے رزق کے وسیلے بنائے گا۔ اور ہم اگر محسوس کریں تو احساس کے ساتھ وظیفہ پڑھتے ہوئے دل میں مایوسی کی لہر موجود نہ ہو گی جو کہ اکثر تب موجود ہو تی ہے جب ہم احساس اور یقین کے بنا کسی وظیفہ کو دہرا رہے ہوں۔
باطل ہمارے دل کو اللہ کے احساس سے غافل رکھے کی سر توڑ کوشش کرتے نہیں تھکتا۔
باطل کی یہ کوشش اسلیئے ہے کہ کہیں ہم اللہ پر وہ ہقین نہ رکھ کیں جو ہماری دنیا و آخرت کی فلاح کا سبب ہے۔

💥ہنٹ 12: عبادت میں کھوٹ
حج و عمرہ کی سعادت اللہ کی بہت بڑی عطا ہے۔ لیکن شیطان یہاں بھی اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔
بہت سے لوگ ہر سال حج و عمرہ کرتے ہیں۔ انکے دلوں میں شیطان یہ اطمنان ڈالے ہوئے ہے کہ ہم تو اللہ کے بہت پسندیدہ ہیں، تب ہی ہر سال حاضری کا بلاوہ آتا ہے۔ اس آڑھ میں باطل ان لوگوں کو دیگر معاملات میں اللہ کی پسند کے مطابق اپنے آپکو بدلنے سے روکتا ہے۔ ہر سال حج عمرہ کرنے کے بعد بھی اگر رشتہ داروں کے ساتھ معاملات اللہ کے حکم کے مطابق نہ ہوں تو ان عبادتوں کا کیا فائدہ۔ باطل ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ اللہ کے بندوں سے دوری کبھی ہمیں اللہ کی نظر میں پسندیدہ نہیں بنا سکتی۔
صرف یہی نہیں حج و عمرہ پر رخصت ہونے سے پہلے اور بعد میں باقاعدہ تقریبات اور دعوتوں کا دور چلتا ہے۔ اور اصل میں جس مقصد کےلئے رخصت ہونے سے پہلے اور بعد میں مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ،دعا و مبارکبار وصول کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، و ہ کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ بلکہ بہت سے رشتہداروں کیلئے یہ تقریبات معاشی مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ ساتھ ہی باطل اپنی ان عبادتوں کا تذکرہ لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کے کرنے کو بھی نہیں بھولنے دیتا۔ اسکےجال میں پھنس کر بہت سے لوگ حج و عمرہ کی بارہا ادائیگی کو سٹیٹس سمبل یا اپنی برتری کے لیبل طور پر استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس طرح باطل اس بہت قیمتی عبادت میں کھوٹ کی ملاوٹ کر کے ہمیں اس کے بہترین صلے سے محروم رکھتا ہے۔

💥ہنٹ 13: استطاعت کے باوجو د آخری عمر کا انتظار
استطاعت ہونے کے باوجود آخری عمر کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اس عمر میں حج /عمرہ کی عبادت کے سبب ہمارے اعمال نامہ سے تمام خطائیں ،گناہ مٹا دیئے جائیں اور دمِ ِآخر ہم پاک صاف اس جہاں سے رخصت ہوں۔ باطل یہاں بھی ہمیں اپنی مرضی سے عمل کرواتا ہے۔ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ ہر استطاعت رکھنے والا یہ عبادت ادا کرے۔ اللہ نے یہ نہیں فرمایاکہ استطاعت کے باوجود ضعیفی کا انتظار کرو اور پھر ان بوڑھی ہڈیوں ، جواب دیتی ہمت کے ساتھ اس فرض کو ادا کرو۔ یہاں باطل اس چال کے ذریعے تمام عمر نافرمانیوں میں لگا کر مطمئن رکھتا ہے کہ ابھی جی بھر کے نفس کی تسکین کر لو پھر ایک ہی بار حج کر کے سب معاف کروا لینا۔ جبکہ ہر عمل کا جواب ہم نے اللہ کو دینا ہو گا۔ اپنے عمال کا بوجھ خود اٹھا کر روز محشر اللہ کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔
اور اگر آخری عمر تک کی مہلت نہ ملی تو باقی نافرمانیوں کا جواب تو الگ، استطاعت ہونے کے باوجود یہ فرض ادا نہ کرنے کی الگ جوابدہی بھگتنی ہو گی۔
باطل ہمیں دنیا میں مطمئن رکھ کر ہماری آخرت کی راہ کو مشکل بناتا جاتا ہے۔

💥ہنٹ 14: عبادات اور پرہیز گاری
قاری/نمازی اور پرہیز گار میں فرق ہوتا ہے۔ہم نمازی اور قاری تو ہوتے ہیں مگر پرہیز گار نہیں۔ اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہماری عبادات اور فرائض کی ادائیگی ہمیں پرہیز گار نہیں بنا رہی تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری ادائیگی میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہے۔ عبادات اللہ کو راضی کرنے کا ذریعہ ہیں اور یہ ہمیں پرہیز گاری سکھاتی ہیں۔ سادہ ترین الفاظ میں پرہیز گاری یہی ہے کہ ہر اس عمل سے پرہیز کریں جسے اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔ اب ذرا اپنا جائزہ لیں کیا ہم صرف اس بات پر ہی مطمئن تو نہیں تھے کہ ہماری نمازیں تو پوری ہیں؟ فرض کیا کہ ایسا ہی ہے کہ ہم ایک بھی نماز قضا نہیں کرتے مگر ساتھ ہی یہ بھی تو غور کریں کہ کیا ان نمازوں نے ہمیں پرہیز گاری سکھائی۔ اسی ایک سوال کے سچائی سے دیے ہوئے جواب میں ہماری حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آجائے گی کہ ہم کتنے نمازی اور کتنے پرہیز گار ہیں۔ باطل ہمیں اس فرق کو ہی تو سمجھنے نہیں دیتا تبھی تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ باطل ہمیں عبادتوں پر مطمئن رکھ کر اعمال کی درستگی کی جانب نہیں بڑھنے دیتا۔
باطل اس وار کے ذریعے آخرت میں اعمال کی وجہ سے خسارے میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔


💥ہنٹ 15: اللہ سے تعلق
باطل ہمیں اللہ کے قریب جانے اور ہر لمحہ اسی سے مانگنے سے بھی روکتا ہے۔ ہم تو اللہ کے بندے ہیں وہ ہمیں بن مانگے بھی عطا کرتا ہے۔ اور اللہ کو پسند ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنے بندوں کے مانگنے پر بھی عطا کر ے مگر ہم صرف ضرورت کے وقت اللہ کے پاس جاتے ہیں اور ایسی ضرورت کے وقت جو ہم خود ظاہری و سائل سے پوری کرنے کے قابل خود کو نہ سمجھیں۔ یہاں پر بھی باطل نے ہمیں غافل کر رکھا ہوتاہے کہ فلاں فلاں کام تو ہماری اپنی ہی بساط بھر کوشش سے ممکن ہو جائے گا لیکن فلاں کام تو اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا رائی برابر معاملہ بھی اللہ کی مدد کے بغیر مکمل ہونا ممکن نہیں۔ اللہ کے پاس ہم جاتے تب ہیں جب معاملہ ہاتھ سے نکل جائے۔ جھکتے بھی تب ہیں جب اپنی کوئی تجویز کام نہ آئے پھر عبادات پر زور اور وظائف کادور دورہ ہوتاہے۔ یہاں سمجھیں کہ اللہ کے پاس وقت کے وقت جانا ہمارے اللہ کے ساتھ تعلق کی کمزوری کو ثابت کرتا ہے۔
باطل نے اللہ کے ساتھ ہمارا رشتہ ضروریات کی حد تک وابسطہ کر دیا ہے۔ تاکہ ہم سچا اور پکا تعلق اللہ سے نہ بنا سکیں۔

💥ہنٹ 16: عبادات کا اصل ثمر
باطل اس بات پر ہمیں غور نہیں کرنے دیتا کہ آج تک کیا عبادات ،مناجات و حاجات میں اللہ سے اللہ کو چاہا؟ اس سے اپناالگ اور خاص رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی؟
اگر غور کریں تو ایسا بہت ہم ہوتا ہے کیونکہ باطل ایسا سوچنے ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی عبادتوں پر اپنی ہی تعریفوں کے پل باندھ کر ہم اندر ہی اندر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ اللہ سے اللہ کو نہ مانگنے کی توفیق مل جانا اللہ کا ہم پراحسان ظاہر کرتا اور اس کے اور ہمارے خاص تعلق کو بنانے اور مضبوط کرنے میں مدد دیتا ہے۔اللہ سے اللہ کو چاہیں تا کہ ہمیں اس کے ساتھ حقیقی ، مضبوط اور دائمی رشتہ عطا ہو جائے جو ان عبادات کا اصل ثمر ہے۔
اس طرح باطل ہمیں کھوکلی عبادتوں ہر مطمئن رکھ کے اصل ثمر حاصل نہیں ہونے دیتا

💥ہنٹ 17: جھکنے میں ہی عافیت ہے
جھکنے میں ہی عافیت بھی ہے اور یہ جھکنا ہی اللہ کی رحمت کوبھی جوش میں لاتاہے۔ اللہ ہمارا مالک ہے اور مالک کے حکم سے سرتابی مالک کو غضب ناک کر دیتی ہے۔ اسی لئے ہم عبادات میںاللہ کے سامنے اپنا سر جھکاتے ہیں اور لمحہ لمحہ اقرار کرتے ہیں کہ:
اے ہمارے رب !ہم خطا کے پُتلے ہیں۔ ہم کمزور و نادان بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں ...ہم سے پل پل ایسی خطائیں سرزد ہوتی ہیں کہ... اگر تو انہیں نظر میں رکھ کر جزا اور سزا کا تعین فرمانے لگے تو ہمارے عیب ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں...ہم بھی گھاٹا پانے والوں میں سے ہو کررہ جائیں... مگر تو اپنے کرم سے ہم کو خسار ہ پانے والوں میں سے نہ ہونے دینا.... بلکہ ان میں سے کر دینا جو بہترین انعام و اکرام یافتہ ہیں .... اور تیرے فضل کے سبب جنت کے باغات میں داخل کیے جائیں گے ... ہم سر جھکاتے ہیں... اور تجھ سے تیرا فضل مانگتے ہیں کہ... اگر تو ہم پر اپنے فضل کی بارش نہ کرے گا تو ہم کہاں جائیں گے۔
ابلیس کو بھی اپنی عبادتوں پر بڑا فخر تھا اور اسی باعث وہ ایساناپسندیدہ ٹھہرا کہ جنت میں ٹھہرنے کےلئے ایک کو نہ نصیب نہ ہوا۔ اس کا اکڑ جانا اس کو آسمان کی بلندیوں سے گراکے زمین کی پستی میں دھنسا گیا۔
اب وہ ہمیں بھی اسی اکڑ میں مبتلا رکھ کر ہمیں بھی دنیا آخرت کی پستیوں کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔

💥ہنٹ 18: ہم انسان ہیں ، فرشتہ نہیں
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے جملہ جاندار اور فرشتے، اللہ (ہی) کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ (ذرا بھی) غرور و تکبر نہیں کرتے (سورة النحل: آیت۹۴)
عبادات کے بعد ہم یوں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم سے تو نہ کوئی خطا سر زد ہوتی ہے نہ ہی گناہ، اور خطا و گناہ تو کُجا ہم سے معمولی غلطی سر زد ہونے سے بھی رہی ! ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ کیونکہ ہم ہمہ وقت فرائض کی ادائیگی ،عبادات ، وظائف وغیرہ میں ہی مشغول رہتے ہیں اس لیئے ہم سے کیا گناہ کیا خطااور کیا غلطی سر زد ہوگی؟ یہ بھی باطل ہی کا وار ہے۔ وہ ہر وقت یہ یقین دلاتا ہے کہ اب اور کس طرح سے اللہ کو خوش کیا جاسکتا ہے جبکہ زندگی کا ہر گزرنے والا لمحہ تو یاد الٰہی میں بسر ہوا جارہا ہے... اور اس سے بڑھ کر کیا کرنے کی ضرورت ہے... بس یہی کافی ہے... اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم اندر ہی اندر خود کو فرشتہ سمجھنے لگے ہیں جو غلطی سے مبرا ہوتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ ہم اللہ کے کرم سے کیسے ہی متقی و عبادت گذار کیوں نہ ہو جائیں آخر ہیں تو انسان، اور انسا ن سے ہی تو غلطیاں سرزد ہوتی ہیں بشرطیکہ خود پر نظر رکھی ہوئی ہو۔ باطل عبادتوں پر مطمئن کر کے ہمیں خود پر نظر رکھنے ہی سے تو روکنا چاہتا ہے۔
باطل یہ چال اسلئے چلتا ہے کہ کہیں ہم عبادت کے ساتھ ساتھ بہترین عمل کے ذریعے اللہ کی نظر میں سرخرو نہ ہو جایئں۔

💥ہنٹ 19: جنت کے حقدار
جس طر ح ہم دنیا کی راہ پر آگے بڑھنے کےلئے اپنے اندر محسوس کرتے اور ہر دن کچھ نہ کچھ ایسا کرتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کی دولت، ترقی اور خوشی حاصل ہو جائے۔ اللہ کے راستہ پر بھی یہ تڑپ ہونی چاہیے کہ ہر نئے دن کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کی اور سے اور کوشش کی جائے۔ اپنے باطن خو سنوارا جائے، اپنے اعمال کی جانچ پڑتال کر کے مزید بہتر بنانے کیلئے عملی کوشش کی جائے۔ لیکن ایسے نہیں ہوتا۔ ہم بس عبادت کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جیسے ہم نے اللہ کو ہر طرح سے خوش کر لیا۔
ہم وہ تمام عمل کر چکے جو اسے پسند آئیں اور ہم جنت کے حقدار بھی اپنے تئیں بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم نے واقعی ہی ایسی کوشش کر بھی لی ہو کہ زندگی صرف یاد الٰہی میں ہی بسر ہورہی ہو تو بھی غلطی کا شائبہ تو رہتا ہے۔ اگر ہم نے اللہ کے کرم سے خود پر نظر رکھ کر غلطیوں پر قابو پانا بھی سیکھ لیا تو بھی اندر موجود انا اور میں، ہر کام میں اٹھتی ہے مگر ہم اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔
باطل اللہ کی خاطر بہتر سے بہترین عمل اپنانے کا شوق بیدار نہیں ہونے دیتا۔
باطل اس شکنجے میں اسلئے پھنساتا ہے تا کہ ہم اپنی نظر میں بہت بڑے اور اللہ کی نظر میں حقیر ٹھہرائے جائیں۔

💥ہنٹ 20: حقوق العباد اور عبادت
عبادات کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے جس کےلئے اس نے فرمایا کہ معاف بھی کرسکتاہے مگر معاملات اللہ کے بندوں سے متعلق ہوتے ہیں اور ان میں حقوق العباد کا بھی عمل دخل ہوتا ہے اور اس بارے میں اللہ نے فرمایاکہ ان حقوق کو معاف نہیں کرے گا تا آنکہ بندے خود معاف کر دیں۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ معاملات انتہائی اہم ہیں اگر ہم صرف عبادات ہی کو کافی سمجھ کر معاملات کو نظر انداز کرتے ہیں تو یہاں بھی باطل ہمیں پھنسا رہا ہے کیونکہ اللہ عبادات سے ہی نہیں ملتا ہے۔ اسے اپنے بندوں سے پیار ہے۔جب اس کے بندوں کے ساتھ معاملات درست رکھنے کی کوشش اسی کی خوشی کی خاطر کرنے لگتے ہیں تو وہ بے حد خوش ہوتا ہے۔ اللہ کی خوشی ہی تو در اصل عبادات کا مقصدبھی ہے اور اسی کی خوشی معاملات میں بھی ہمارا مطمع نظر ہو تو یہ بھی عبادات کا درجہ پا جاتے ہیں۔ اللہ کو راضی کرنے کےلئے اللہ کے بندوں کے ساتھ معاملات کو اچھے طریقے سے نبھانا اللہ تک جانے کا بہترین اور مختصر راستہ ہے مگر باطل ہمیں ان معاملات کو غیر اہم اور سرسری سی اہمیت کا حامل ہی ظاہر کرتا ہے۔ جیسے ہر امتحانی پرچہ میں چند ضروری سوال ہوتے ہیں جن کو حل کیئے بنا پرچے کو ادھورا تصور کیا جاتاہے، ایسے ہی معاملات بھی ہیں ، عبادات اگر اس امتحان کا لازمی جزو ہیں تو بالکل ایسے ہی معاملات بھی اس امتحان کا لازمی اور اہم ترین جزو ہیں۔
باطل حقوق العباد پر توجہ نہیں دینے دیتا تاکہ ہم گھاٹے میں رہ جائیں۔

💥ہنٹ 21: میں کج وی نئی
عبادات کے ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ''میں ''کو مارنے کا بھی سامان کریں یعنی ذات پر کام کی کوشش شروع کریں۔ ذات پر کام ہم کسی کتاب سے پڑھ کر نہیں کر سکتے۔ یہ کسی ایسے استاد سے ہی گُر سیکھ کر کیا جاسکتا ہے جس نے خود ذات پر عملی کام کیا ہو۔ لیکن ہمیں یہ ماننے نہیں دیتا کہ ہم میں انا موجود ہے اور اسکی اصلاح کیلئے کسی رہنما کی ضرورت ہے۔ اگر ہم باطل کی زنجیروں سے آزاد ہو جائیں تو ہمارا رواں رواں پکارے کہ میرے اللہ ! میں کُج وی نئی ...نہ میری کوئی حقیقت... بس تُوہی تُو ...! جس لمحے یہ احساس بیدار ہو ا کہ میں کج وی نئی ، ذات پر کام شروع ہو جائے گا اور اب خود پر نظر رکھ کر ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنے لگیں گے کہ کہیں کچھ ایسا نہ ہو جائے جو اللہ کو پسند نہ ہو۔ اب جب اللہ کی پسند ترجیح بن جائے تو شیطان کی پہنائی ہوئی زنجیریں خود بخود ٹوٹنے لگیں گی۔ایک استا د ہی دل میں ...میں کج وی نئی کا احساس بیدار ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے اندر یہ احساس خود بیدار ہو چکا ہوتا ہے اور اس نے بھی یہ ذات پر کام کسی استاد سے سیکھ کر کیا ہوتا ہے۔ اس لئے اب وہ آگے بھی سمجھا کر اور سکھاکر ذات پر عملاً کام کروا سکتا ہے۔ باطل اسی سے ہمیں روکتا ہے۔
باطل اس طرح ہمیں عاجزی میں نہیں جھکنے دیتا۔ کہ کہیں ہم اللہ کی رضا نا پا لیں۔

💥ہنٹ 22: نیکی میں سبقت
نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش ہمیشہ جاری رہنی چاہئے مگر اس مغالطہ میں مبتلا نہ ہوں کہ ہمیں واقعی اللہ کے کسی بندے پر سبقت حاصل ہو گئی۔ یہ بھی ذات اور اناہے۔ کوشش کی توفیق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور استقامت سے اسی کوشش کو جاری رکھنا کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے ، ہمارے اپنے جذبے اور شوق کے باعث ہوتا ہے۔
تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحیٰی (علیہ السلام) عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنا دیا۔ بیشک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے۔
(الانبیائ:۰۹)
کسی مقام پر بھی پہنچ کر یہ سمجھنا درست نہیں کہ اب کوشش کا دائرہ کار وسیع نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کے آخری لمحے تک ہم عبادات کی پابندی کے ساتھ اپنی ذات پر کام کر کے ، اپنے نفس پر قابو پاکر خود کو ایسے سنوارنے کی کوشش جاری رکھ سکتے ہیں۔
باطل ہمیں تھوڑا سا عمل کر لینے پر مطمئن کر دیتا ہے۔ تاکہ ہم اللہ کے پسندیدہ لیول پر آ کر کامیاب نہ ہو جایئں۔

💥ہنٹ 23: ہمارے عمل کی قبولیت
اور ہم نے ان لوگوں کو نجات بخشی جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے(سورة حم: آیت۸۱)
عمل کوئی بھی ہو ، اس عمل پر اللہ کی ملی ہوئی توفیق کو دل سے تسلیم کرنا ہی اسے اللہ کے ہاں مقبول بناتا ہے۔اس پر شکر بجا لانا ہی اس میں برکت ڈالتا ہے اور اسی برکت سے پھردوبارہ عمل کی توفیق ملتی ہے۔ اور یہ شکر ہی انا اور تکبر کو نہ تو دل میں جگہ بنانے دیتا ہے نہ زبان سے اظہار ہوتا ہے اور نہ ہی پھر دماغ اس پر ہمیں مطمئن کرتا ہے۔ بلکہ ہمیں اپنا کیا ہوا ہر عمل بہت ہی کم اور اللہ کی بارگاہ میں نہایت حقیر سا پیش کیا ہو ا تحفہ محسوس ہوتا ہے ...جسے وہ چاہے تو اپنی شان کریمی کے صدقے قبول فرمائے ...چاہے تو ایک نظر بھی ڈالے بنا کہیں ایک طرف ڈال دے ...اور چاہے تو اس عمل کو کئی گنا بڑھا کر اس کا ثواب ہمیں عطا کردے۔وہ مالک ہے اس کو حقیر سا پُر خلوص اور عاجزی سے بھر پور عمل بہت عزیز ہے۔ اس کے ہاں عمل گنے نہیں جاتے بلکہ وہ اعمال کو پلڑے میں رکھ کر تو لنے والا ہے۔ اس میں بھی اس کی حکمت اور ہماری بھلائی ہی پوشیدہ ہے کہ اگر ذرہ بھر محبت سے خالص کیا ہوا عمل ترازو میں رکھا گیا اور وہ اس کی نظر میں پسندیدہ ٹھہرا تو یہ پسندیدگی کی سند عمل کا وزن بڑھا دے گی۔
لیکن باطل ہمیں نیکیوں پر فخر میں مبتلا کر کے انکو ہمارے کئے کسی فائدے کا نہیں رہنے دیتا۔

💥ہنٹ 24: نا قابل تلافی نقصان
ہم ذی شعور ہیں اور اپنا اچھا برا خوب جانتے ہیں۔ دنیا میں جس شے سے تھوڑا سا بھی نقصان کا احتمال ہو ہم اس سے کوسوں دور ہو جاتے ہیں۔ یہ مقام افسوس ہی تو ہے کہ جب شیطان کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم اپنے نامہ اعمال میں درج ہر عمل پر خود ہی لکیر کھینچ رہے ہوتے ہیں تو تب ہمیں اپنے خسارے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ جنت سے دوری تو ایسا ناقابلِ تلافی نقصان ہے جس کا اس وقت کوئی سدِ باب بھی نہ ہو سکے گا۔ شیطان بگل بجائے گا اور ہم جنت کے امیدواروں کی صف میں کہیں دور کھڑے اپنے ان اعمال کی حقیقت کھلتے دیکھ رہے ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ وقت تب تک ہمارے ہاتھ میں ہے جب تک زندگی کا آخری لمحہ نہیں آجاتا۔ اس سے پہلے پہلے اگر ہم اپنا محاسبہ کرلیں تو وہاں روزِ آخرت جو اعمال کی حقیقت کھلنی ہے وہ یہیں ہم پر آشکار ہو جائے گی۔ آج اگر آئینہ میں اپنی حقیقت دیکھ کر اس کا سامنا کر لیں تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم حشر میں پھر کفِ افسوس ملتے رہ جائیں۔
باطل ہمارے ہی ہاتھوں ہماری نیکیاں ضائع کرواتا ہے اور ہمیں اسکا احساس تک نہیں ہونے دیتا۔