دشمن الرٹ 20: بچہ، بچپن اور باطل

💥ہِنٹ 1: عالم ارواح

عالم ارواح میں اللہ نے تمام روحوں کو تخلیق فرما کر ان سے اپنی واحدانیت اور ربوبیت کااقرار لیا لہٰذا جوروح بھی دنیا میں آتی ہے اسے اللہ کے رب ہونے کا احساس آشنائی ازل سے عطا ہوتا ہے۔ یہ احساس آشنائی ہی اس دنیا میں اللہ کی راہ پر چلنے اور اللہ کے احکام کی اطاعت کرنے کی قوت اور توفیق دیتا ہے۔ روح کی پاور ہمیں دنیا، نفس اور شیطان کے وار پہچاننے اور ان سے لڑ جانے میں مدد دیتی ہے۔ اور پاور کے اس خزانے کو سنبھالنے، بچا کر رکھنے اور بڑھانے کی کوشش کی ضرورت اسی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے جیسے کہ ہم دنیا کی دولت کو سنبھالنے ،اسے بچانے اور بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
باطل اسی کو ضائع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور اس دنیا میں اسکا ہر وار اسی لیئے ہوتا ہے کہ ہماری یہ دولت اور خزانہ ضائع کر دے۔

💥ہِنٹ 2: شیطان تاک میں رہتا ہے
دنیا میں کسی روح کے آتے ہی شیطان لمحہ لمحہ تاک میں رہتا ہے کہ کب اور کیسے موقع پاتے ہی اس پر جھپٹ پڑے اور اسے اپنے حلق کا نوالہ بنائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر انسان کو اس کی والدہ فطرت پر جنم دیتی ہے اور اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں کہ اگر والدین مسلمان ہوں تو وہ مسلمان بن جاتا ہے۔
مزید فرمایا
ہر انسان کی پیدائش کے بعد اس کے دونوں پہلووں میں شیطان انگلی چبھو دیتا ہے سوائے مریم اور ان کے بیٹے کے۔ (صحیح مسلم

بچے کی پیدائش کے بعد والدین کے طور پر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں ایک طرف بچے کی جسمانی تندرستی اور نشوونما کاخاطر خواہ خیال رکھنا ہے تو دوسری طرف اس کی روح کی غذا اور روحانی بالیدگی کا اہتمام بھی اسی قدر ضروری امر ہے۔
اللہ کا احساس جو ازل سے عطا کرکے بھیجا جاتا ہے اس کی پاور سے ہی روح کی پاور بحال رہتی ہے، اگر اللہ کا یہ احساسِ آشنائی دنیا کی دھول اور گرد سے اٹ کر ماند پڑ جائے، تو رفتہ رفتہ اس کے کم ہو کر ختم ہوجانے کا امکان بڑھتا چلا جاتاہے۔
باطل کا ایک وار یہ ہوتا ہے کہ وہ والدین کے دل میں اس چیز کی اہمیت ہی پیدا نہیں ہونے دیتا کہ جسمانی نشونما کے ساتھ ساتھ بچے کی قوتِ ایمانی کے بڑھنے کی طرف توجہ دینا اور اسکو مضبوطی دینا والدین کی اولین ذمہداری ہے۔
باطل تاک میں رہتے ہوئے اپنا کام انتہائی مہارت سے کرتا ہے اور والدین کو حقیقی احساسِ ذمہ داری سے غفلت میں ڈال کر بچے کی دنیاوی زندگی کی بنیاد ہی کمزور کر ڈالتا ہے


💥ہِنٹ 3: آخرت کے امتحان سے بے فکری
دنیا ایک سنہری جال ہے۔ یہ ہمیں اپنے تانے بانے میں الجھا کر اپنے امتحان میں ڈالے رکھتی ہے اور آخرت کے امتحان سے ہماری نظر ہٹا دیتی ہے۔
بظا ہر یہ دنیا ایسی پرکشش ہے کہ ہم اس کو پانے کے لیے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیتے ہیں مگر یہ ہاتھ میں آئی ریت کی مانند مٹھی سے پھسل جاتی ہے اور پھر اس کو پانے کی حسرت لگ جا تی ہے۔
یہ کسی ایک جگہ اسی لیے نہیں رکتی تاکہ ہماری حسرت برقرار رہے۔ اور ہماری حسرت نہ صرف بر قرار ہتی ہے بلکہ اور سے اور بڑھتی جا تی ہے۔
باطل دنیاوی خواہشات کے روپ میں ہمارے اندر داخل ہو کر دنیاوی خواہشوں کے انبار لگا دیتا ہے۔ اور ہماری توجہ آخرت کے امتحان کی فکر اور اسکی لئےعمل کرنے کیطرف سے ہٹا کر دنیاوی خواہشات کے حصول کی جانب کر دیتا ہے۔
باطل یہاں سے ہمیں کمزور کر دیتا ہے …

اسی بنا پر بچے کی تربیت میں ہمارے ہاتھوں بہت بڑی کمی رہ جاتی ہے۔
باطل کا یہ وار اسلیئے ہوتا ہے کہ بچے کے اندر حق کی آشنائی اور حق کی راہ پر آگے بڑھنے کے احساس کو جڑ سے ختم کر دے۔

💥ہِنٹ 4: اللہ سے دوری
دنیا کی خواہشات جتنی بڑھتی ہیں ہم اللہ سے اتنا ہی دور ہوتے جا تے ہیں۔ دنیا کی یہی خواہشات اصل فساد کی جڑ ہیں جنہیں حاصل کرنے کی ہوس ہمارے اندر صبر اور شکر کے احساس میں بھی کمی کرتی ہے۔ اللہ کے احکام کی بجا آوری سے غفلت کی وجہ بھی یہی دنیا کی خواہشات ہیں کیونکہ جب دل شکر میں نہیں ہوتا تب اطاعت کا جذبہ مدھم پڑنے لگتا ہے۔ ان خواہشات میں گم ہو کر ہمارے اندر اللہ کو راضی کرنے کی خواہش بھی نہیں رہتی۔ یوں ہماری زندگی بے راہ روی کا شکار ہو کر بے سکونی و بے اطمینانی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔
یہی باطل کی چال ہے، کہ وہ ہمارے دلوں میں اللہ سے دوری کے باعث بے سکونی و بے اطمینانی پیدا کر کے دل کو اس قدر مردہ کر دیتا ہے کہ اللہ کی رضا پانے کا احساس ہی دل میں جنم نہیں لے پاتا۔
اس طرح دنیاوی خواہشات کو اپنا ہتھیار بنا کر باطل ہمیں اللہ سے دور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے


💥ہِنٹ 5 : دنیاوی ترقی ہماری کوشش کامحور و مرکز
ہم والدین یا بڑوں کے طور پر اس بات کی تو حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو دنیا کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور ترقی کے مواقع دیں۔ہر طرح سپورٹ کرنے کی خاطر ہم ان کےلئے سکولز، اکیڈمی ، سپیشل کوچنگ سینٹر وغیرہ کا بندوبست بساط سے بڑھ کے کرتے ہیں کہ کہیں ہمارا بچہ دنیا میں کسی شعبہ میں ہماری کوشش میں کمی کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائے۔
جبکہ حقیقت قران مجید میں یوں بیان ہوئی:
اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی بس (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں اور بے شک آخرت ہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے(سورة مومن :۹۳)
باطل اس حقیقت سے ہمیں غافل کر دیتا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ کا ٹھکانہ نہیں بلکہ عارضی قیام گاہ ہے۔ اسی لیئے ہم اپنے بچوں کو دنیا سے متعلقہ ٹارگٹ دیتے ہیں اور انہی ٹارگٹس کے حصول میں ہی انہیں دن رات یوں مگن کر دیتے ہیں کہ ان کی ہر طرح کی توانائی ، ٹیلنٹ ، مہارت، خوبی اور صلاحیتیں انہی دنیاوی ٹارگٹس کے حصول کے لئے لگنے لگتی ہے۔
اس طرح باطل شروع زندگی سے ہی اس عادضی دنیا کی ترقی کو ہمارا محور و مرکز بنا کر آخرت کی ابدی زندگی کی فکر سے غافل کر دیتا ہے۔

💥ہِنٹ 6:دنیاوی میدان میں پیچھے رہ جانے کا خوف
مسلمان ہونے کے ناطے بچوں کی پرورش کا طریقہ کار یہ ہونا چاہئیے کہ ہم بچوں کو دین و دنیا کی راہ پہ بیک وقت بہترین کوشش کرنے میں نہ صرف معاون و مددگار ثابت ہوں بلکہ اس پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں تاکہ وہ یہ محسوس کریں کہ دنیا کے ٹارگٹ کا حصول ہی اہم نہیں ہے بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی اصل منزل کی چاہ رکھنا اور اس کےلئے تگ و دو کرنا بھی انتہائی اہم ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو دنیا یا اس کے معاملات سے الگ ہو کے زندگی گذارنے کی تربیت دینی ہے بلکہ یہ کہ ان کے دل میں اللہ کا احساس آشنائی اور اللہ کے ہر لمحہ ساتھ کا احساس بچپن سے ہی ایسے بیدار کرنے کی کوشش کریں کہ آگے کی زندگی کے ہر لمحہ میں یہی احساس انہیں الرٹ رہنے اور اللہ کی پسند کے عمل کی طرف راغب ہونے میں مدد دے۔
یہاں باطل ہمیں یہ سوچنے ہی نہیں دیتا کہ دنیاوی مقاصد اور ٹارگٹس کا تعین کرنا اور ان کے حصول کےلئے کوشش کرنا غلط نہیں مگر ان کو اس قدر خود پر سوار کرلینا کہ دین کی راہ بھی محو ہو جائے اور زندگی کے اصل مقصد سے بھی غافل ہوتے چلے جائیں ، یہ غلط ہے۔
باطل ہمارے اندر یہ خوف پیدا کر دیتا ہے کہ اگر ہم نےزندگی میں اللہ کی رضا پانے کو اہمیت دے کر زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارنا شروع کر دی تو کہیں ہم اور ہمارے بچے دنیاوی میدان میں باقی سب سے پیچھے نہ رہ جایئں۔
دنیاوی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا خوف اور آخرت کے نا قابلِ تلافی نقصان سے بےفکری پیدا کرنا باطل کی چال ہے۔

💥ہِنٹ 7: بچوں کی تربیعت اور والدین کا حساب
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی بذات خود ایک امتحان ہے اور اس کے اختتام پر ہمیں ہر طرح کا حساب کتاب دینا ہو گا۔
اور اسی حساب میں ہم سے بطور والدین بچوں کی پرورش اور تربعیت پر پوچھ گچھ کی جائے گی کہ ہم نے بچوں میں اللہ کے احکامات کی پیروی اور آخرت کی کامیابی کیلئے عملی کوشش کے احساس کو بیدار کیا یا نہیں۔ یعنی بچوں میں اللہ کی آشنائی کا احساس اور اس احساس کے تحت زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانا والدین کی ایسی زمہ داری ہے جس کے بارے میں روز محشر سوال کیا جائے گا۔
لیکن ہمارے اندر یہ احساس موجود ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی دنیاوی کامیابیوں پر اس قدر خوش اور مطمئن ہوتے ہیں کہ یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ اگر ہم نے انہیں دین کی راہ پر قدم اٹھانا اور آگے بڑھنا نہ سکھایا تو اس بات پر ہماری بھی پوچھ گچھ ہو گی۔ جس سے نہ صرف ہم خود اس دن خصارے میں مبتلا ہوں گے بلکہ اپنے اس فرض سے کوتاہی برتنے کی وجہ سے ہمارے اپنے بچے جن کی ایک لمحہ کی تکلیف بھی ہم سے برداشت نہیں ہوتی ،وہ کل کو جب حشر میں خالی اعمال نامہ لے کر پیش ہوں گے تو انہیں خدانخواستہ ایسی تکلیف ودرد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کا تصور بھی ہم نے نہیں کیا ہو گا۔
یہاں باطل ہمیں اپنے بچوں میں اللہ کے راستے اور منزل کو اپنانے کی چاہ بیدار کرنے نہیں دیتا اور اس چاہ کے حصول کےلئے قدم اٹھانے سے بھی ہمیں اور ہمارے بچوں کو محروم کیے رکھتا ہے۔
اس طرح باطل ہمیں اپنے شکنجے میں پھنسا لیتا ہے، تاکہ اس حساب کے دن ہم خود بھی اور ہماری نسلیں بھی ابدی ناکامی و خسارے کے دہانے پر پہنچ جائیں۔

💥ہِنٹ 8: اللہ کی حدود
وہ تمام غلط سوچیں ،خیالات اورعادات واعمال جو اللہ کی بتائی گئی حدود سے باہر ہوںان کا ذمہ دار بھی شیطان ہے۔
جب انسان اللہ کی بتائی گئی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو شیطان کی طرف رخ کر لیتا ہے، جہاں گھپ اندھیر ا ہوتا ہے، وہاں نہ اچھے برے کی تمیز ہوتی ہے نہ کوئی روشن راہ نظر آتی ہے۔ تب جس طرف شیطان ہاتھ پکڑ کے چلتا ہے انسان اسی جانب چلنے پر مجبور ہو جا تا ہے۔
باطل والدین کو اللہ کی عائد کردہ حدود کے حوالے سے تربیت کے اہم ترین پہلو سے غافل کیے رکھتا ہے اور نتیجتاً ہمارے بچے اوائل عمری کی حد پار کرتے کرتے ہی اللہ کی حدود کو پار کرنے کی جانب بھی مائل ہونے لگتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کو نافذ کرنا اللہ کی زمین میں چالیس روز کی بارش سے زیادہ بہتر ہے۔(ابن ماجہ)
اسکو نظر انداز کرتے ہوئے جب جب ہم ہر فانی شے کو ہی سب سے اہم گردانتے اور اس کے حصول کو زندگی اور موت کا معاملہ بنا کر رکھ دیتے ہیں تب تب اصل میں ہم اپنے بچوں کے اندر مادیت پرستی کا بیج بو کر انہیں دنیا کی دلدل کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور جب وہ باطل کے ہاتھ لگ کر شیطان کی پیروی میں حدود سے تجاوز کرنے لگ جائیں تب ہم پچھتاتے ہیں اور اب انہیں کھینچ کر واپس اللہ کی راہ پر لانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ ہم انہیں پہلے ہی راہ راست پر رکھنے کی بہترین کوشش کریں۔ بچوں کو اللہ کی حدود سے روشناس کروائیں اور انہیں اللہ کا احساس اس طرح دیں کہ وہ اللہ کی پسند اور ناپسند کے تحت اپنے عمل میں تبدیلی لاتے چلے جائیں۔
باطل ہمیں یہ کوشش کرنے سے روکے رکھتا ہے تاکہ اوائل عمری سے ہی بچے کے عمل کی بنیادیں کمزور پڑ جائیں



💥ہِنٹ 9: دنیا کی حقیقت
یہ دنیا عارضی ہے۔ اس کی حاصل کردہ ہر چیز بے یقینی ہے۔
والدین کو یہ سمجھ بوجھ ہونی چاہئے کہ جیسے وہ باطل کے جال میں پھنس کر خود اللہ کے احساس سے غافل ہو کر دنیا کی زندگی کو ہی ُکل سمجھ بیٹھے تھے ا ور اسی کےلئے اپنی تمام تر کوششوں کو لگایا اور اس کے باوجود آخر کار خالی ہاتھ رہ جانے کی حقیقت کو سمجھا، ایسا ان کے بچوں کے ساتھ نہ ہو۔ دنیا کے بے وقعت اور حقیر ہونے کا جو سبق انہوں نے زندگی سے سیکھا، اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کی یہ حقیقت بچوں کے سامنے واضح کرتے ہوئے ان کو باطل کے اس جال میں پھنسنے سے بچائیں اور انہیں اللہ کے احساس آشنائی اور حقیقت دنیا سے روشناس کرائیں۔
جیسے کہ فرمایا گیا:
اور (اے لوگو!) یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے، اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش! وہ لوگ (یہ راز) جانتے ہوتے۔
(سورةالعنکبوت: ۴۶)
افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین دنیا کی حقیقت کو جان تو لیتے ہیں لیکن دل سے اس کے عارضی پن کو تسلیم نہیں کرتے، اسی لیئے نہ تو اپنا عمل بدلتے ہیں نہ ہی یہ اصلیت بچوں کے سامنے واضح کرتے ہیں۔
یوں باطل دنیاوی زندگی کے دھوکے کو ہمارے سامنے سچ بنا کر ہمیں اور ہماری نسلوں کو گمراہی کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے


💥ہِنٹ 10: باطل کی انسان سے دشمنی
اللہ کی راہ پر چلنا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اس کے تمام معاملات اللہ کی خوشی کے لیئے نبھانے کی کوشش کرتے جائیں۔ اور اسی کوشش میں دنیاسے دل نہ لگانے اور اس میں پھنسنے سے بچنے کی جدو جہد کرتے رہنا اصل میں اللہ کی راہ پر قدم آگے بڑھاتا ہے۔
یہی احساس ہمیں والدین کے طور پر اپنے اندر بھی بیدار کرنا ہوتاہے۔
یہی احساس ہمارے بچوں کےلئے اللہ کی راہ پر قدم آگے بڑھانا سہل کرتا چلا جائے گا۔
اسی میں باطل کی ناکامی ہے کیونکہ جب ہم بچپن سے ہی دنیا کے فانی ہونے ، ابدی زندگی کی طرف لوٹ کے جانے کے احساس اورجنت کے حصول کی چاہت بچے کے دل میں بیدار کر دیں گے تو اس کی کوشش کا محور و مرکز صرف دنیا اور اس سے وابستہ خواہشات کا حصول ہی نہیں رہیں گے بلکہ وہ جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے کرے گا اسے خود احساس ہو گا کہ ہر معاملے میں اصل کو شش اللہ کو خوش اور راضی کرنے کے لیئے کرنی ہوتی ہے تا کہ ہم اپنی منزل یعنی جنت کو پا سکیں۔
اس جنت سے شیطان کو نکالا گیا اور اب وہ ہمیں اس سے بے دخل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ (سورةالحجر: ۹۳ )
شیطان کے اس گھناﺅنے کھیل کو سمجھ کر ہی بچہ شیطان سے جنگ جاری رکھے گا اور اس جنگ کو جاری رکھنے میں کلیدی کردار والدین ہی کا ہوتا ہے۔
باطل ہم سے دشمنی نبھاتے ہوئے ہمیں دنیا کے فریب میں پھنساتا ہے تا کہ اسی کو پانے کی کوشش میں کھو کر ہم اپنی حقیقی منزل تک نہ پہنچ پائیں۔


💥ہِنٹ 11: دنیا والوں کا ڈر
باطل کی ایک چال یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر کوئی بچہ دین کی راہ اپنانے کی کوشش کرنے لگے تو ہم اس کی راہیں ہموار کرنے کی بجائے انہیں اس کے لیئے دشوار کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ دنیا والوں کی طنزیہ باتیں سننے کا ڈر ہمیں بچوں کی حوصلہ شکنی پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ کیونکہ دنیا کے ٹارگٹ حاصل کرنے میں ناکام ہونے کا خدشہ تھا اس لئے ہی اپنے بچوں کو دین کی تعلیم کی راہ پر ڈال دیا۔ اسی ڈر سے والدین اکثر بچوں پر اپنی ہی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ہی چاہ کے مطابق ان سے عمل کروانا چاہتے ہیں۔ اگر بچے شوق سے اللہ کے راستے پر بڑھنا بھی چاہیں تو والدین اپنے دل میں موجود ڈر کو بچوں کی راہ کی رکاوٹ بنا دیتے ہیں جس وجہ سے بچے کا ارادہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔
باطل کا یہ وار اسلیئے ہوتا ہے کہ والدین کے ذریعے مضبوط بنیادوں پر بچوں کی حق پے چلنے کی راہ بند کر دے۔

💥ہِنٹ 12: انتہا پسندی
بچے کی جو تربیعت اسکے اوائل عمری میں کی جاتی یے اسکی زندگی اسی کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔ والدین یہ غلطی کر جاتے ہیں کہ اس وقت کہ جب بچے کا دل صاف شیشے کی مانند ہوتا ہے، تب اس پر اللہ کی اطاعت اور آخرت کی فکر کا احساس رقم نہیں کرتے۔ اب جب بچے کو عملی زندگی میں دین کے احکامات کے بارے میں صحیح رہنمائی نہیں ملتی تو وہ غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔
جب والدین کو احساس ہوتا ہے کہ بچہ بے راہ روی کا شکار ہونے لگا ہے تو اچانک خود بھی انتہا پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے بچے کو جبر کا شکار کرنے لگتے ہیں۔
عام طور پر اس وقت زور زبردستی کر کے بچے کو دین کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرنا مثبت نتائج کی بجائے منفی نتائج سامنے لاتا ہے۔ قدرتی طور پر زبردستی اور جبر کے ذریعے عائد کی گئی بات دل پر اثر نہیں کرتی بلکہ بے زاری کا سبب بنتی ہے۔
یہاں باطل اپنے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے والدین اور بچے دونوں کے دل میں انتہا پسندی پیدا کر کے دل کو منفی احساسات مین جکڑ لیتا ہے جسکی وجہ سے کوئی بھی مثبت نتیجہ حاصل نہیں ہو پاتا۔
ضروری یہ ہے کہ شروع سے ہی میانہ روی اختیار کی جائے اور بچے کو دین دنیا دونوں میں اللہ کے احساس کی روشنی دکھا کر سیدھی راہ پے چکنا سکھایا جائے۔
باطل میانہ روی سے نکال کر انتہا پسندی میں دلوں کو الجھا دیتا ہے، تاکہ حق کی سیدھی اور آسان راہ دشوار ہو جائے۔


💥ہِنٹ 13: مقصد حیات
اگر غور کریں تو سب والدین چاہتے تو یہ ہی ہیں کہ ان کے بچے دین و دنیا کی کامیابیاں پانے والے ہوں مگر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ ہم کتنی کوشش ان کی دین کی کامیابی کے حصول میں لگارہے ہیں اور کتنی دنیا کی کامیابی کے لئے لگارہے ہیں۔ ہم باطل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پہلے خود ہی بچے کو صرف اور صرف دنیا کے مقاصد چن لینے ...پھر ساری کوشش اسی پر صرف کرنے ...اور اسی مقصد کے حصول کو کامیابی کا معیار سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں۔یہ احساس ہی بیدا ر نہیں ہونے دیتے کہ حقیقی مقصد حیات صرف دنیا کی خواہشوں کو زندگی کا مقصد بنا کر انہی کے حصول کی بھاگ دوڑ نہیں ہے بلکہ مقصد حیات تو اللہ کے احکام کے تحت زندگی گزارنے اور پیارے آقائے دوجہاں علیہ صلوٰة والسلام کی پیروی و اطاعت کی کوشش ہے تاکہ دوزخ سے بچ سکیں اور جنت میں داخل ہو سکیں جو ہمارا اصل ٹھکانہ ہے۔
اگر ہم بچپن سے اپنی اولاد کے دل میں یہ احساس بیدار کر دیں کہ دنیا سے وابستہ چاہتوں کی تکمیل ہمارا مقصد حیات نہیں ہے تو وہ اپنے اصل مقصد حیات کو اپنا کر اس کی تکمیل کے لئے آخری دم تک کو شاں رہیں گے اور دنیا کے تمام معاملات کو دین کے احکامات کے تحت نبھاتے چلے جائیں گے۔ اسی میں ان کی دنیا کی بھی بھلائی ہے اور اس میں ہی ان کی آخرت کے سنورنے کا راز پنہاں ہے۔
باطل ہمارے اندر یہ احساس ہی بیدار نہیں ہونے دیتا کہ درست مقصد حیات ہی دنیا و آخرت کی کامیابی کی دلیل ہے۔
باطل یہ چال اسلیئے چلتا ہے تاکہ حقیقی مقصد حیات سے بے خبر رہ کر اپنے دامن میں خصارہ بھرتے یوئے ناکامی کے کنارے پر پینچ جائیں۔

💥ہِنٹ 14: اللہ کی صفات سے نا آشنائی
بچے میں سمجھ بوجھ اور شعور بیدار ہونے کے بعد ہم نے اس میں اللہ کے آحساس اور اسکی صفات کی آشنائی پیدا کرنی ہوتی ہے۔
مثلاً اللہ کی سمیع (سننے والا) اور بصیر (دیکھنے والا) صفت کو ہی لیں اگر ہم ابتداءسے اپنے بچوں کے دلوں میں یہ احساس بیدار کرنے کی کوشش کریں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اللہ ہمیں سن رہا ہے تو اس سے ہمیں نہ صرف بچے کی بہترین تر بیت کرنے میں مدد ملے گی بلکہ وہ اپنا اچھا برا خود سمجھنے کے قابل بھی ہوتا چلا جائے گا۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ جھوٹ نہ بولو اللہ سن رہا ہے... اسے اچھا نہیں لگے گاکہ میرا ننھا سا بندہ اور پیارا دوست والدین سے جھوٹ بولے ...تو یہ بات بچے کے دل پر زیادہ گہرائی سے اثر کرے گی ، بہ نسبت اس بات کے کہ ہم یا تو یہ کہیں کہ ...جھوٹ نہ بولو ، ابو ماریں گے یا یہ کہ اللہ دوزخ میں پھینک دے گا۔ اسی طرح بچے کے دل میں اللہ کے سمیع و بصیر کا احساس اس وقت بھی بیدار کریں جب وہ کوئی چھوٹا سا اچھا عمل بھی کر کے ہمارے پاس آئے مثلاً اگر اس نے اپنے دوست کی مدد کی ، بزرگوں کا کہا مانا، وغیرہ وغیرہ تو وہاں فوراً اس کو بتائیں کہ اس کے عمل کو اللہ دیکھ رہا ہے اور وہ بہت خوش ہور ہا ہو گا کیونکہ یہ عمل اللہ کو پسند ہے۔ یوں ہر عمل بچپن سے ہی اللہ کی پسند اور ناپسند کے تحت ہونا شروع ہو جائے گا۔
اللہ کی صفات سے آشنائی اللہ سے رشتہ مضبوط کرتی ہے۔
باطل ہمیں اس بات میں پھنسائے رکھتا ہے کہ ہم بچے کو اپنے یا اللہ کے خوف میں مبتلا کر کے کچھ اچھا کروانے کی کوشش کریں اور اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر پائیں۔
باطل بچے کو اللہ کی صفات سے نا آشنا رکھ کے اللہ سے دل کا مضبوط رشتہ استوار نہیں ہونے دیتا۔


💥ہِنٹ 15: ضمیر
اگر ہم نے بچے کے اندر اللہ کا احساس بیدار کیا ہو گا اور اس کو یہ شعور دیا ہو گا کہ اللہ کو کیا پسند اور کیا نا پسند ہے تو یقینا یہ احساس آشنائی اور شعور کی بیداری اس کےلئے ایک حفاظتی بند کا کام دے گی۔جہاں جہاں باطل اسے نفس، شیطان اور دنیا کے ہتھکنڈوں کے ذریعے کسی بھی ناپسندیدہ عمل کا ارتکاب کرنے پر مجبور کرے گا تو اس کے اندر ضمیر کی گھنٹی بجنے لگے گی۔ اگر والدین نے اس کے اندر اللہ کا احساس مضبوطی اور گہرائی سے دل میں بیدار کیا ہوگا تو وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہے گا اور ایسے عمل سے بچنے کی کوشش خود بھی کرے گا اور اس سلسلے میں والدین سے بھی مدد لے گا۔ یوں وہ خود بھی باطل سے نبرد آزما ہو پائے گا اور والدین بھی اپنے بچے کے حوالے سے لمحہ لمحہ الرٹ رہ کر اسے شیطان کے حربوں سے بچانے کی کوشش جاری رکھ پائیں گے۔
لیکن باطل والدین میں یہ احساس پیدا نہیں ہونے دیتا کہ وہ بچے کو اسکے ضمیر کی آواز پہچاننے کیلئے اس کی ایسی تعلیم و تربیت کو یقینی بنائیں کہ وہ جب عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں نکلے تو اس کے اندر اللہ کا احساس آشنائی اور اللہ پر یقین اتنا مضبوط ہو کہ وہ ہر سو جاری شیطان کے کھیل میں کھلاڑی بن کر شامل نہ ہو بلکہ اس کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے سپاہی کی صورت میںاپنی جنگ جاری رکھے اور باطل کی موت کا سامان کرتا چلا جائے کیونکہ اسی میں اس کی دنیا اور عاقبت کی بھلائی ہے۔
باطل یہ چال اسلیئے چلتا یے کہ بچے کے ضمیر کو مردہ کر کے اسے حق و باطل کے فرق سے بےگانہ کر دے

💥ہِنٹ 16: رہبر و رہنما
جیسے ہم بچے کے شعور کی پہلی منزل کی طرف قدم رکھتے ہی اسکی دنیاوی تعلیم و تربیعت کی فکر اور اسکیلئے بہترین درس گاہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی والدین کی ذمہداری ہے کہ بچوں کی روحانی تعلیم وتربیت کسی ایسے رہبرو رہنما کے زیر سایہ ہونے کا اہتمام کریں جو اس کے دل میں اللہ کا احساس بیدار کرے ، اسے اس کی بھلائی کی راہ دکھائے اور لمحہ لمحہ رہنمائی کرتے ہوئے منزل تک بھی لے جائے۔ یہاں بھی ہمیں اسی فہم و فراست اور عقلمندی سے کام لینا چاہئے جیسے کہ ہم دنیا کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں لیتے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ ہم دنیا کے لئے تو ہر طرح سے محتاط ہو کر بہترین چناﺅ کی کوشش کرتے ہیں مگر جب اللہ کا راستہ دکھانے والے رہبر و رہنما کے انتخاب کے باری آتی ہے تواول تو ہم سرسری سی کوشش ہی اس معاملے میں کرتے ہیں اور دوسرا یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے اس کےلئے بچپن سے ہی کوشش کرنا ضروری نہ ہو۔
باطل اس احساس سے غافل کیئے رکھتا ہے کہ بچے کی روح میں اترے ہوئے اللہ کے احساس اور اس کی قوت ایمانی کی دولت کی حفاظت بھی ہماری ذمہ دار یوں میں شامل ہے۔
اور اسکیلئے بچے کو بہترین رہبر و رہنما کی ضرورت ہے۔
باطل اپنے اس وار سے بچے کی روحانی نشونما اور بہترین تربیعت کا رستہ روک کر اسے دنیا کے جال کا لقمہ بنا دیتا ہے۔

💥ہِنٹ 17: ناز نخرے
والدین اپنے بچے کے ناز نخرے اٹھانے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ انکی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو ہر طرح سے خوشی و سکون دیا جائے۔ حتہ کہ کسی گرم ہوا کا جھونکہ تک انکو چھو کے نہ گزرنے پائے۔
لیکن یہاں بہت بڑی کمی رہ جاتی ہے۔
ناز نخرے اٹھانے کی اصل صورت یہ ہے کہ باطل جو دنیا میں آنے والے بچے کو اپنے پھندے میں پھنسانے کےلئے گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے، اسکے ہر وار سے اپنے بچے کو محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات کیئے جایئں۔
انہیں دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت سنوارنے کی فکر اور احساس بھی بیدار کیا جائے تاکہ کل وہ روز حشر جب اپنے مالک کے سامنے پیش ہوں تو وہاں نامہ اعمال دائیں باتھ میں ہو اور جنت میں داخلہ آسان ہو سکے۔
یہاں باطل یہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ وہ بچہ جس کو ایک کانٹا چبھنے جتنی تکلیف والدین کیلئے نا قابل برداشت ہوتی ہے، تو خدانہ خواستہ روز حشر کی تکلیف میں دیکھنا کیسے ممکن ہو گا۔
باطل دنیاوی طور پر بچے کے ناز نخرے اٹھانے پر دل کو مطمئن کیئے رکھتا ہے کہ ہم بچے کا ہر طرح سے خیال رکھ کر اس کو سکون و راحت دے رہے ہیں۔ جبکہ حقیقی اور ابدی تکالیف و نقصان سے بچانے کیلئے نہ تو ہم کوشش کرتے ہیں نہ اسکا احساس ہوتا ہے۔

💥ہِنٹ 18: دعا کی اہمیت سے غفلت
زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھانے کا ساتھ ساتھ والدین کا فرض ہے کہ بچے کو شروع سے دعا میں اللہ کے سامنے پیش ہونے کا طریقہ بھی سکھائیں۔ جب ہمارے اپنے اندر دعا کی اہمیت ، دعا پر یقین، دعا میں اللہ کے احساس اس کی صفات کے حوالے سے واضح ہوں تو ہی ہم اپنے بچوں کو بھی اس بارے میں سمجھا سکیں گے۔
ارشار ہوتا ہے:
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے: تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔(سورةالمومن: آیت ۰۶)
ایک اور جگہ فرمایا:
تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورة الاعراف: آیت ۵۵)
دُعا اللہ سے ہمارے دل کے براہ راست رابطہ کا نام ہے۔
دُعا تقدیر بدل سکتی ہے۔ دعا بند راستے کھول سکتی ہے۔ دعا کے بارے میں احساس اگر ہمارے دل میں اترے ہوں تو بچے کو اس کی ذہنی سطح کے مطابق ان احساسات کی مدد سے اپنے الفاظ میں رہنمائی دی جاسکتی ہے۔ اسے دعا کی اہمیت، دعامیں دل کے یقین، دعا سے ملنے والی پاور کے حوالے سے بتایا جا سکتا ہے تا کہ وہ زندگی کے ہر معاملہ میں اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے اور دوسروں کے لیئے بھی دعا کر سکے۔ اسے احساس ہو کہ کوئی مشکل ہو تو اللہ کے سامنے اس مشکل میں آسانی کی درخواست پیش کرنی ہوتی ہے۔ کسی صورت کسی بھی وقت اللہ کا کرم ہو ، کوئی نعمت عطا ہو تو شکر کے لئے دعا میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا بہترین ہے۔
باطل ہمارے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہونے دیتا کہ بچوں کو اپنے اللہ سے رجوع کرنے کا طریقہ بتانا اور اس حوالے سے دل میں بہترین احساس بیدار کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ نتیجتا بچے کو علم ہی نہیں ہوتا کہ دنیاوی معاملات میں کس طرح اللہ کی مدد حاصل کر کے دنیا آخرت کی کامیابی حاصل کرنی ہے۔
دعا اور اسکی اہمیت سے لا تعلقی دنیا کی الجھوں میں پھنسائے رکھتی ہے جب ہم دنیا میں پھنسنا شروع ہوتے ہیں تو یہ جال تنگ سے تنگ ہوتا چلا جاتا ہے۔
باطل اللہ کے عطا کردہ دعا کے ہتھیار سے فاعدہ اٹھانے سے روکنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔
باطل اپنے اس شکنجے میں جکڑ کے دنیا اور آخرت کی فلاح کی راہ دشوار کر دیتا ہے


💥ہِنٹ 19: نماز کی پاور سے محرومی
والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انکے بچے برائی سے محفوظ رہ کر معاشرتی اور دینی طور پر بہترین شخصیت بنیں۔
نماز کی بروقت اور باقاعدہ ادائیگی روح کی پاور کا بہترین ذریعہ ہے۔اللہ کے حضور عاجزی سے جھک کر اپنی بندگی کا اظہار اور اللہ کی عظمت کا اعتراف کرنا اللہ کو پسند ہے۔
سات سال کی عمر میں نماز شروع کروانا اور پھرادائیگی میں ہر لمحہ مدد گار ثابت ہونا بچے کو نماز کی باقاعدہ اور بروقت ادائیگی کے قابل کرتا چلا جائے گا۔ یہ عادت راسخ ہو جائے تو اسی نماز سے عطا ہوئی روح کی پاور کی مدد سے بری عادات سے بچنا بھی ممکن ہو سکے گا۔
جیسا کہ فرمایا گیا:
بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے (سورۃ العنکبوت)
مگر یہ جاننے کے باوجود ہم نماز کے اہتمام میں اپنی اولاد کی مدد نہیں کرتے۔ یہاں باطل ہمیں باز رکھتا ہے کہ ہم ابتداء سے نماز کے ذریعے اپنے بچوں کو ایک ایسے حفاظتی حصار میں داخل کر دیں جہاں شیطان کا گزر مشکل ہے۔
باطل اس چال کے ذریعے ہمارے بچوں کو نماز کی پاور سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔

💥ہِنٹ 20: احساسِ قران سے غفلت
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے۔(سورة البقرة:۲)
زندگی کی دیگر آسائشوں اور آسانیوں کے ساتھ والدین چاہتے ہیںh کہ بچوں کیلئے ہدایت کی راہ بھی بے حد آسان ہو۔ یہ آسانی اللہ نے قران کی صورت ہمیں عطا کی۔
قرآن پاک اللہ کی ہم سے محبت کا مظہر ہے۔بے چینی و بے قراری میں قرار بھی اللہ کے ساتھ کے احساس سے ہی ملتا ہے۔ہم مضطرب ہوں تو ا للہ سے رجوع کریں۔ایسے میں قرآن پاک کو کھولیں تو ہمارے سامنے کوئی ایسی آیت آ جا تی ہے کہ جِسے پڑھ کر ہمیں ٹھنڈ اور سکون کا احساس د ل میں اتر تا محسوس ہوتا ہے۔ اس وقت اندر یقین اتر تا ہے کہ اللہ قران میں ایسے کہہ رہا ہے تو پھر ہمیں کیا پریشانی ہے۔ اسکے علاوہ زندگی کے معاملات نبھانے کیلئے اس امُ الکتاب میں مکمل رہنمائی دی گئی ہے۔
قران پاک دنیا کے مشکل ترین معاملات کو بہترین طرح نبھانے اور ان میں سے کامیابی کے ساتھ نکلنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسے نا صرف دنیاوی فلاح حاصل ہوتی ہے بلکہ جب معاملات قران پاک میں دیئے گئے اللہ کے احکام کے ذریعے نبھایئں گے تو آخرت کی کامیابی بھی حاصل ہو گی۔
یہاں باطل یہ چال چلتا ہے کہ والدین کو بچے کے دل میں یہ تمام احساسات اور ان پر عمل کرنے کی راہ نہیں دکھانے دیتا۔
کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس نے اللہ کی اس کتاب کو تھام لیا وہ دو جہان میں کامیاب ہوا۔ اور جو اس سے غافل رہا وہ برباد ہوا۔
باطل قران کے ذریعے دو جہان کی کامیابی پانے سے روکنے کیلئے یہ وار کرتا ہے۔

💥ہِنٹ 21: خود پسندی
بچوں کی کامیابی والدین کیلئے دل کے سکون کا ساماں ہوتی ہے۔ لیکن یہاں والدین سے ایک بہت بڑی غلطی سرذد ہو جاتی ہے۔ بچے کی کامیابی پر والدین اس کو ہی سراہتے اور اس کے اندر یہ یقین بیدار کرتے ہیں کہ وہ خود اتنا لائق ، قابل اور ذہین ہے کہ اس کی محنت کا نتیجہ ہمیشہ زندگی کے ہر امتحان میں قابل ستائش ہوتا ہے۔ یوں بچے کے اندر شروع سے ہی ذات کا عفریت اپنے پنجے گاڑنا شروع کردیتا ہے اسے ہم یہ احساس آشنائی ہی نہیں دیتے کہ اصل میں سب کامیابیاں و کامرانیاں صرف ہماری محنت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ کا کرم اور مہربانی ہوتی ہے کہ وہ ہماری ذراسی کوشش کے بدلے میں ہمیں بڑی کامیابی سے نواز دیتا ہے۔
اگر ہم یہ احساس بچوں کے دل میں بیدار کریں تو خود اعتمادی سے زیادہ اللہ کے یقین کو تھام لیں گے اور یہی یقین انہیں پھر ایسی خود اعتمادی دے گا جس کو وہ اللہ کی عطا سمجھیں گے اور شکر میں رہیں گے۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ جیسے جیسے زندگی آگے بڑھے گی ہمارے بچے اسی شکر کے احساس میں رہنے کی وجہ سے اللہ کے کرم سے مزید نواز ے جائیں گے کیونکہ اللہ شکر کرنے والوں کو مزید عطا کرتا ہے۔
باطل ہمیں اسی سے محروم رکھنے کےلئے ہماری کامیابیوں کو ہماری محنت کے ثمر کے طور دکھاتا ہے جبکہ ہم نے یہاں شکر میں رہ کر اور بچوں کے دلوں میں بھی شکر کے احساس بچپن سے ہی بیدار کر کے انکو خود پسندی اور ذات کے چنگل میں پھنسنے سے بچانا ہے۔
باطل خودپسندی کے اس جال کے ذریعے ہمارے بچوں کو شکر کے ذریعے ملنے والی اللہ کی خاص عنایتوں سے محروم رکھتا ہے۔

💥ہِنٹ 22: آئیڈیل
بچوں کے اندر محبت پانے کی صلاحیت اور دوسروں کو آئیڈیل بنا لینے کا جذبہ ہوتا ہے۔ گھر میں ، رشتہ داروں میں ، سکول میں ، آس پاس ، والدین کے دوست احباب میں جو کوئی محبت سے پیش آئے اسی کو اپنا مان کر آئیڈیل بنا لیتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی آئیڈیل اس آئیڈیل کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتا جو ہمیں پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شخصیت کی صورت میں عطا ہوا ہے۔ وقت گزرنے اور سمجھ بڑھنے کے ساتھ ہر آئیڈیل کی اصل حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے تو کیوں نہ بچے کی پہلی بار میں ایسا آئیڈیل بنانے میں مدد کی جائے جو حقیقی آئیڈیل بھی ہیں اور ہمارے لیے ان ﷺ کی حیات مبارکہ نمونہ بھی ہے۔
اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔(سورة النسا، آیت ۹۶)
باطل والدین کو یہ نہیں سوچنے دیتا کہ اگر بچہ پچپن سے پیارے آقائے دو جہاں ﷺ سے محبت کے احسا س میں اطاعت کی کوشش کرنے لگے تو آگے اس کو یہ اطاعت اور پیروی کی کوشش آپ ﷺ کے دکھائے ہوئے ہدایت کے راستہ پر قدم بہ قدم بڑھنے میں مدد کرے گی۔ جس سے انکے بچے کو دنیا و آخرت میں اعلی مقامات حاصل ہو سکیں گے۔
باطل ہماری نسلوں کو دنیا آخرت کی کامیابی کی راہ سے گمراہ کرنے کیلئے غلط آڈیئل کا جال بنتا ہے۔

💥ہِنٹ 23: والدین کی حدود
بچوں کو اللہ کی بتائی گئی حدود سے روشناس کرانا نہایت اہم ذمہ داری ہے۔ جب والدین یہ کوشش کرتے ہیں کہ بچے صرف اور صرف اپنے ماں باپ کی ہی حدود میں رہنا سیکھیں تو ہوتا یہ ہے کہ انہیں کیونکہ اللہ کی حدود کا علم ہی نہیں ہوتا اس لئے جیسے وہ ماں باپ کی مقرر کردہ حدود سے نکلتے ہیں تو اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ محدود ہوتی ہیں جبکہ اللہ کی حدود تو پھیلی ہوئی ہیں۔ اللہ کا احساس دل میں بیدار ہوا ہوگا تو دنیاکے کسی کونے میں بھی جائیں ان حدود کا پاس رہے گا۔ ماں باپ کی حدود تو گھر کی چاردیواری تک ہی ہیں۔ اس قید سے نکلتے ہی اولاد ان کی رسائی سے بھی نکل جاتی ہے۔اگر انہیں اللہ کا احساس دیا ہو گا تووہ کہیں بھی ہوں گے حق پر کھڑے رہنے کا احساس ، اللہ سے بنا ہوا تعلق اور دل کا رشتہ ان کے دل کو ایسے بدلے ہوئے ہوگا کہ وہ اللہ کی حدود کی پاسداری اسی تعلق اور رشتہ کی لاج نبھانے کی خاطر کریں گے۔اور اسی احساس کے تحت ہی ہر طرح کے حالات میں شیطان اور باطل کے وار سے لڑنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اور اگر اللہ کی مقرر کردہ حدود سے نا واقفیت ہو تو شیطان کے لیئے بچہ انتہائی آسان ہدف ہوتا ہے جسے اچک کر وہ اپنا پیرو کار بنا لیتا ہے اور اس میں نقصان سراسر بچے کا ہی ہوتا ہے۔
یہاں باطل والدین کے دل میں اللہ کی حدود کی بجائے اپنی حدود کی اہمیت کا احساس جگائے رکھتا ہے۔
اس شکنجے میں پھنسا کر باطل بچوں کے بے راہ روی کا شکار ہونے کے رستے آسان کرتا ہے

💥ہِنٹ 24: حقیقی فلاح سے نا آشنائی
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاو تاکہ تم فلاح پا سکو۔(سورةا لحج : آیت ۷۷)

اصل میں تو اللہ کی ہی راہ فلاح کی راہ ہے۔ وہ راہ جس پر اللہ کے پیارے نبی ، پیغمبر،اولیائے کرام اور بزرگانِ دین خود بھی چلے اور پھر اللہ کے بندوں کے لیئے بھی یہی بھلائی کی راہ آسان کرنے کی کوشش کی۔ یہی راہ آج بھی جس نے اپنائی وہی حقیقی کامیابی پانے والوں میں سے ہے مگر افسوس باطل ہمیں اسی راہ کو اپنانے سے ہی باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم بھی بے خبری میں نہ صرف خود اپنی فلاح کی راہ اپنانے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی یہ راہ اپنانے کی طرف راغب نہیں کرتے۔ اگر والدین کی کوشش سے ایک بچے کے اندر شروع سے ہی یہ لگن پیدا ہو جائے کہ اسے اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرنی ہے اور اصل میں اسی میں اس کی فلاح کا راز چھپا ہے تو یقینا والدین کی اس کوشش ، محنت کا پھل نہ صرف نیک، صالح اولاد کی صورت میں انہیں ملے گا بلکہ آخرت میں بھی انہیں اپنے اللہ کے حضور سرخرو رکھے گا۔(ان شاءاللہ)
اور یہی وہ بدلہ یعنی جنت ہے جس سے محروم رکھنے کےلئے باطل والدین کو اپنے بچوں کو حقیقی فلاح کی راہ سے آشنا کرنے سے غافل رکھتا ہے۔

💥ہِنٹ 25: کلام
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ سے محبت کااظہار، حمد و ثنا اور نعتیہ کلام کی صورت میں کیا جاتا ہے۔یہ کلام سن کر اللہ ااور پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوٰة والسلام کے لیئے محبت کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ اللہ کو راضی کرنے اور پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوٰة والسلام کی اطاعت کا جذبہ جاگتا ہے۔ہمارے دنیا کے تماشے میں مست ہو کر اسی میں کھو کر رہ جانے کی وجہ سے ہماری روح کمزورہوتی چلی جاتی ہے۔ اس ضیعفی و کمزوری کو رفع کر نے کی ایک تدبیر کلام بھی ہے۔ کلام کی محفل روح کو کیف و سرور عطا کر تی ہے۔اللہ سے دوری روح کے حزن و ملال اور ضیعفی کا باعث بنتی جا تی ہے۔ جس قدر فاصلہ بڑھتا ہے اسی قدر ان میں بھی اضافہ ہوا جاتا ہے۔ اللہ اور پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوٰة والسلام کی محبت سے لبریز کلام سن کر روح سر شار ہو کے جھوم اٹھتی ہے۔یہی سر مستی اور سرشاری روح کی طاقت ہو تی ہے جس کو اللہ کی خوشی اور پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوٰة والسلام کی پیروی کی بہترین کوشش میں صرف کر کے ہم خود اپنی عاقبت بھی سنوار سکتے ہیں اور اپنے بچوں میں اسکا شعور بیدار کر کے انکی آخرت بھی خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
باطل پاور کے اس موثر ذریعے پر یقین نہیں رکھنے دیتا اور نہ اسکی اہمیت کو دل سے قبول کرنے دیتا ہے۔
باطل اس وار کے ذریعے پاور کے بہت بڑے وسیلے سے محروم کر دیتا ہے