ٹاپک 21 :توحید اور باطل

💥 ہنٹ 1: کلمہ تو حید
رسول اللہﷺ نے فرمایا :ایمان معرفت قلب کا نام ہے زبان سے کہنے اور اعضاءسے عمل کرنے کا نام ہے۔ (ابن ماجہ)
ایمان کی بنیاد کلمہ تو حید پر ہے۔
اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے اللہ نے جب عالم ارواح میں تمام روحوں کو اکٹھا کر کے عہد الست لیا یعنی ان سے پوچھا کہ تمہارا رب کون ہے؟ تو سب روحوں نے اقرار کیا کہ تو ہی ہے ہمارا رب۔اسی لمحے سے ہماری روحوں کو آشنائی عطا ہو گئی تھی کہ اللہ ہی ہمارا واحد رب ہے۔ اور یہی اقرار ہم یہاں اس دنیا میں آکر کلمہ پڑھ کر بھی کرتے ہیں۔
ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے بعد ہم پیدائشی مسلمان بن جاتے ہیں۔ مگر کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہماری زندگی کے لمحہ لمحہ میں توحید کا احساس ہمارے دل میں موجود بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ شاید ایسے نہ کبھی غور کیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوشش کی۔ اسی لیئے زبان سے اقرارکرنے کے باوجود ، دل سے تصدیق اور عمل سے ثبوت میں کمی باقی رہتی ہے۔ ہماری زبان سے جو کلمہ ادا ہوتا ہے اس کی ادائیگی کے وقت بھی ہم اس توحید کے احساس کو مکمل طور پر محسوس نہیں کر پاتے۔ جس کی بناءپر ہمارے عمل میں اس کی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔
باطل ہمارے دل کو توحید پر قائم نہیں رہنے دیتا۔ کیونکہ یہ جانتا ہے کہ اللہ کے واحد ہونے کا زبانی اقرار ہی توحید کے قائم ہونے کےلئے کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ دل سے اس کی تصدیق اور عمل سے اس کا ثبوت بھی ضروری ہے تبھی ہماری زندگی کے لمحہ لمحہ میں توحید قائم ہو سکتی ہے۔
باطل ہمیں توحید کے احساس کے ساتھ سچے عمل سے روک کر ہماری آخرت کی راہ آسان نہیں ہونے دینا چاہتا۔

💥 ہنٹ 2: اللہ کی صفات کی آشنائی
اللہ کا ہر لمحہ کا احساس دل میں تب بیدار ہوتا ہے جب ہم اس کی صفات سے آشنا ہونے لگتے ہیں۔ ہمارا اس پر یقین قائم ہونا اور بڑھتے چلے جانا بھی ، اس کی صفات کی آشنائی عطا ہونے سے مربوط بھی ہے اور مشروط بھی ہے۔ انہی صفات کی آشنائی ہمارا اللہ پر یقین اور اس سے ہمارا رشتہ مضبوط کر تی ہے۔جتنایہ یقین اور رشتہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہم اپنے احساس، سوچ اور عمل کو اللہ کی پسند اور نا پسند کے تابع کرتے چلے جاتے ہیں اور یہیں سے توحیدعملی طور پر قائم ہونے کا آغاز ہو جاتا ہے۔
باطل ہمیں اللہ کی صفات کا احساس آشنائی پانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور ہم اس کے جال میں پھنس کر توحید کو عملی زندگی میں قائم کرنے کی کوشش نہیں کر پاتے۔

💥 ہنٹ 3: توحید کی شمع
توحید کی شمع کا دل میںروشن ہونا ہمارے ہر پل کو نورِ ایمانی سے معمور کرتا چلا جاتاہے۔ توحید صرف ایک بار کلمہ پڑھ لینے کانام نہیں۔ اس کا احساس دل میں بیدار ہو جائے تو یہ نور کی صورت زندگی کے ہر لمحہ کو جگمگا دیتا ہے۔ ہمارے اس اقرار کا تعلق اصل میں تو قلب سے ہی ہے کیونکہ آشنائی کے احساس یہیں بیدار ہوتے ہیں اور یہیں مضبوطی پاتے ہیں۔ اسی لیئے اللہ کی واحدانیت کے احساس جب اس کی صفات کی آشنائی کی صورت میں ہمیں عطا ہونے لگیں تو اب دل کو جو قوتِ ایمانی ملتی ہے اسی کی مدد سے عمل میں بھی بدلاﺅ آتا ہے۔
باطل ہمارے دل میں دنیا کی محبت اور طرح طرح کے ذات کے گند بھر کے دل کو اندھیر نگری بنا دیتا ہے۔ہمارے معاملات میں ہمیں کم یقینی، ناامیدی، مایوسیوں کا شکار کر کے دل میں ظلمت کے اندھیرے بڑھاتا ہے تا کہ اس دل میں نہ تو حید کی شمع روشن رہ پائے، نہ اللہ کے یقین کے احساس بیدار ہو کر پھر مضبوط ہوں۔ اور ہم قدم قدم پر ذات کی دلدل میں پھنس کر عملی توحید قائم کرنے سے محروم رہ جائیں۔

ٹاپک 21 :توحید اور باطل

💥 ہنٹ 4: نہیں ہے کوئی تیرے سوا
ہم کلمہ پڑھتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ لا الٰہ الا اللہ... اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں... یعنی نہیں ہے کوئی تیرے سوا۔ زبان سے اس کو کہہ دینے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم اللہ کی واحدانیت پر ہی یقین رکھتے ہوئے اللہ کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔
جب ہم یہ کہیں کہ نہیں ہے کوئی تیرے سواتو اب میں کی گنجائش تو باقی نہ رہی۔ لیکن اپنے اپنے اندر جھانکیں تو ہمارا یہ کہنا زیادہ تر ہمارے عمل سے مسابقت نہیں رکھتا۔ اکثرہمارا عمل تو لمحہ لمحہ اپنی ذات کی ہی مان کے سرزد ہوتا ہے۔ جہاں میں آگئی وہاں اب نہیں ہے کوئی تیرے سواکی حقیقت کو جھٹلا دیا۔باطل ہمیں اللہ کی مرضی پر چلنے کی بجائے اپنی مرضیاں کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب جب ہمیں اللہ کی صفات کا احساس ہو کہ وہ دیکھ رہا ہے ، وہ سن رہاہے، تو اپنی مرضیاں نہ کریں۔ دل میں یہ احساس اور چاہت ہوکہ اللہ! جو تجھے پسند ہے ، وہی کروں اور جو ناپسند ہے وہ چھوڑ دوں تو یہی اصل میں اس توحید کا لمحہ لمحہ میں قائم ہونا ہے جس کا اقرار ہم یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ نہیں ہے کوئی تیرے سوا۔
باطل ہمیں ان احساسات سے غافل کر کے ہمیں فلاح کی جانب نہیں بڑھنے دیتا۔

💥 ہنٹ 5: نہیں ہے کوئی تیرے سواجو تجھ سا سمیع و بصیر ہو
اللہ کی واحدانیت کا اقرار جب زبان سے ہو جائے تو دل کو آگہی عطا ہوتی ہے کہ کائنات میں ہر طرف ، ہر سو اللہ ہی اللہ ہے اس لیئے کوئی گناہ اس سے چھپ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اس احساس میں اللہ کا یقین مضبوطی سے تھام کر شیطان کی پیروی سے انکار کرتے ہیں۔ اللہ ہی کی نظر میں ہونے کے احساس میں کچھ اچھا کر جانے کی کوشش بھی ایمان کو پختہ کرتی چلی جاتی ہے۔
(اے انسان!) کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ ان سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، کہیں بھی تین (آدمیوں) کی کوئی سرگوشی نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ (اللہ اپنے محیط علم و آگہی کے ساتھ) ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی پانچ (آدمیوں) کی سرگوشی ہوتی ہے مگر وہ (اپنے علمِ محیط کے ساتھ) ا ن کا چھٹا ہوتا ہے، اور نہ اس سے کم (لوگوں) کی اور نہ زیادہ کی مگر وہ (ہمیشہ) ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوتے ہیں، پھر وہ قیامت کے دن انہیں ان کاموں سے خبردار کر دے گا جو وہ کرتے رہے تھے، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
(المجادلة:۷)
باطل ہمیں یہ یقین اور احساس ہی نہیں رکھنے دیتا کہ اللہ تو لمحہ لمحہ ہمیں دیکھ رہا ہے، چاہے وہ عمل اکیلے میں ہو یا سب کے سامنے اوروہ ہر لمحہ ہمیں سن رہا ہے چاہے ہم اونچیِ آواز میں بات کریں یادھیمی آواز میں ، وہ تو دل میں کہی بات بھی سن رہا ہوتا ہے۔
اس طرح ہمیں نافرمانیوں کی دلدل میں پھنسا کر آخرت کی ناکامی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔
💥 ہنٹ 6: توبہ قبول کرنے والا
اللہ نے صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو نادانی کے باعث برائی کر بیٹھیں پھر جلد ہی توبہ کر لیں پس اللہ ایسے لوگوں پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرمائے گا، اور اللہ بڑے علم بڑی حکمت والا ہے۔
(النسائ:۷۱)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار عزوجل ہر رات جب آخری ایک تہائی رات رہ جاتی ہے آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے مجھ سے مانگنے والا کہ اس کی دعا کو قبول کروں۔ کون ہے مجھ سے سوال کرتا ہے اسے عطا کروں۔ کون مجھ سے مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں۔(سنن ابو داﺅد)
باطل ہمیں اللہ کے غفور الرحیم ہونے پر مضبوط یقین نہیں رکھنے دیتا۔ اس طرح ہمیں غلطی کا اقرار کرنے اور اسکی اصلاح سے دور رکھ کے کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا۔

ٹاپک 21 :توحید اور باطل

💥 ہنٹ 7: نہیں ہے کوئی تیرے سوا،مدد گار سہارادینے والا
اور اللہ نے اس (مدد) کو محض تمہارے لئے خوشخبری بنایا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا غالب حکمت والا ہے۔(آل عمران:۶۲۱)
دیگر صفات کے احساس آشنائی ہمیں اللہ پر بھروسہ اور یقین عطا کرتے ہیں۔ جیسے کہ مدد گار سہارادینے والا، بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا معاملہ آن پڑے کہ مدد کی ضرورت ہو اور سہارا چاہئے ہو تو اب ہم ذات کے پجاری بن کے وہاں یا تو اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہیں اور یا پھر شیطان کے بہکاوے میں آکرظاہری اور سطحی سہاروں کی جانب فوراً اور اولاً لپکتے ہیں۔ اور پھر صرف انہی کو ہی اپنا پرسان حال جان کر اللہ کی طرف بھی نہیں پلٹتے۔ اس وقت احساس ہی نہیں رہتا ہے کہ اللہ... !میراپہلا اور آخری سہارا۔ کوئی سہارا ہے ہی نہیں تیرے سوا... میرا کوئی مددگار بھی نہیں ہے تیرے سوا ... ہر ہر لمحہ میں ، ہر ہر معمول و معاملہ میں ہماراپہلا احسا س اور سوچ اللہ سے ہی وابستہ ہو کہ میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا...بس تو ہی ہے میرا ...تو تب ہی ہر مشکل اور ہرآسانی میں بھی ہم سب سے پہلے اللہ کی طرف ہی رجوع کریں گے۔ یہ احساس رکھ کر کہ... وہ واحد سہارا ہے ...وہ واحد مددگار ہے... اسی سے مدد مانگیں گے۔
باطل کے بہکاوے میں آ کر اگر ہم نے اس سے قبل کسی اور سہارے کو پکار لیا اور کسی اور مدگار کو تھام لیا تو کلمہ پڑھ کر اپنے کیئے اقرارِ توحید کو عملی طور پر لاگو کرنے میں بہترین طور پر کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ یہی سب سے بڑی ناکامی ہے جس جانب باطل لے کر جانا چاہتا ہے۔

💥 ہنٹ 8: سبب اورمسبب الاسباب
اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
(آل عمران:۲۲۱)
اللہ کی مددگار اور سہارا دینے کی صفت پر جب اندر سے دل کا یقین ہوتبھی تو اللہ ہی واحد سہارا اور واحد مدد گار بھی لگتا ہے۔ ظاہری سہارے کو ہم اللہ کا سہارا تھامنے کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی راستہ نظر آنے پر اسی کے بھروسے تھامتے ہیں کہ اصل سہارا دینے والا وہی ہے، وسیلہ چاہے وہ کسی کو بھی بنائے۔ بے شک کہ مددگار اکیلا وہی اللہ ہے مگر وہ مدد کا ذریعہ دنیامیں اپنے بندوں کو ہی بناتاہے۔ فرق یہ ہے کہ ہم اول اول کس کو پکارتے ہیں ، کس کے سامنے جھکتے ہیں ، کس سہارے کو تھامتے ہیں۔ کس کے یقین کو پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر باطل نے غافل کیا اور ہم نے ظاہری اور دنیاوی سہارے پہلے تھام لیے ،مسبب الاسباب کو پکارنے کی بجائے سبب کا نام پہلے زبان پر آیا تو اقرارِ توحید سے غافل ہو ئے کیونکہ ہم نے(چاہے وقتی طور پر ہی سہی معاملے سے گھبرا کر) ا س وقت اللہ کے سوا کسی کو اپنا پہلا سہارا اور مددگار مان لیا تھا۔
اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہیں بے سہارا چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔
(آل عمران:۰۶۱)
باطل ہمیں سبب پر نظر رکھوا کر اللہ پرمضبوط یقین قائم نہیں کرنے دیتا۔ کہ اس طرح عارضی سہاروں کے سہارے پر رہ کر حقیقی سہارے اور آسانی سے محروم رہ جایئں۔


💥 ہنٹ 9: سب سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کریں
چاہے کتنا ہی چھوٹا یا بڑا معاملہ ہو اس کے لےے سب سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کریں اور پھر اگر ضرورت ہو تو باقی اسباب بھی اختیار کریں۔وہ اسباب بھی اللہ نے اسی لئے دئے ہوتے ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھائیں مگر اس سے پہلے اللہ سے ہر معاملہ میں رجوع کرنا سب سے ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ہمیں سردرد ہوجاتا ہے۔ اب ہم اس کے حل کے لئے اپنی سر توڑ کوشش کریں گے۔پہلے خود سردرد کی گولی ڈھونڈیں گے۔ اگر نہ ملے تو گھر والوں سے پوچھیں گے۔ پھر کسی میڈیکل سٹور سے رابطہ کریں گے۔دوائی کھا کے آرام نہ آئے گا تو ہسپتال کی طرف بھاگیں گے۔ اور اگر وہاں بھی کہا جائے کہ کسی بڑے ڈاکٹر سے رجوع کرو تو اس وقت ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کہ... ہائے اللہ یہ کیا ہو گیا... یعنی اس سے پہلے اپنے ٹوٹکے آزمانے ،گھر والوں کی ترکیبوں پر عمل کرنے ، ڈاکٹر اور ہسپتال سے رابطہ کرنے تک... ہمیں اللہ یاد نہیں آتا۔ جبکہ اصل میں اس وقت ہمیں چاہیئے کہ سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگیں کہ ایسے میرے سر میں درد ہے.... اس کا حل کیا ہے ..کس طرح ٹھیک ہو گا۔ تُو مدد کر ...کہ تیری مدد کے بغیر تو کچھ نہیں ہوتا۔ اب جب ہم سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگ لیتے ہیں اور اس کے بعد اسباب اختیار کر نے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ کی مدد سے براہ راست وہیں ہمارا رابطہ ہو جاتا ہے جہاں سے مسئلہ حل ہونا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اللہ سے رجوع کرنے کی وجہ سے ہم اس بے معنی اور لاحاصل محنت سے بچ جاتے ہیںجس کا نتیجہ اس مسئلے کے حل کی بجائے اس معاملے کو مزید الجھا دیتا ہے۔
باطل جانتا ہے کہ اللہ سے رجوع کرنا اور ہر معاملہ میں اللہ سے مدد مانگ کے ظاہری اسباب کااختیار کرنا ہی معاملات کو سلجھانے کا باعث بنتا ہے۔ اسی لئے وہ ہمیں اللی سے رجوع کرنے سے دعر رکھتا یے۔ تا کہ ہم نہ کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکیں۔

💥 ہنٹ 10: اللہ کی طاقت پر یقین
عموماً ہم بڑے بڑے کاموں میں تو اللہ اللہ کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں وہ اپنی رسائی اور پہنچ سے باہر لگتے ہیں۔ اس لےے ہم اللہ سے رجوع کرتے ہیں اور اس معاملہ میں اللہ سے ہمت مانگتے ہیں۔ لیکن چھوٹے یا معمولی کاموں میں ہم نے اللہ پر بھروسا کرنا چھوڑ دیاہے۔ ان میں خود پر بھروسہ کر کے ہم غلطی کر لیتے ہیں۔ کام یا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے لئے اللہ سے ہی مدد مانگیں۔ کسی بھی کام کی ہمت اور طاقت دینے والا وہ ہی ہے۔ باطل ہمیں خود پر یقین کرنے پر مجبور کرتا ہے اورہم چھوٹے معاملات کو اپنے زور بازو کے کمال پر کرنے کی کوشش میں اللہ کو بھول جاتے ہیں حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر اللہ طاقت نہ دے تو ہم تو دعا کے لئے ہاتھ بھی نہ اٹھا سکیں۔ روز مرہ روٹین کا کوئی کام جیسے روٹی بنانا، کھانا پکانا ، آنا جانا، چلنا پھرناوغیرہ کچھ بھی نہ کر سکیں۔ یہ اللہ ہی ہے جو چھوٹے اور بڑے معاملات میں ہمیں طاقت دیتا ہے اور ہم کوئی کام کر پاتے ہیں۔
باطل نہیں چاہتا کہ ہم ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ کے ساتھ کا احساس دل میں رکھیں۔ کیونکہ اسکو معلوم ہے کہ اس طرح ہماری زندگی بھی آسان ہو جاتی ہے اور ہم اللہ کے قریب بھی ہونے لگتے ہیں۔ ہمارا یقین اللہ پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ سب ہمیں حاصل ہو باطل کہاں برداشت کر سکتا ہے۔ اسی لئے ہمیں چھوٹے بڑے ہر طرح کے معاملات میں اللہ کی مدد کی ضرورت محسوس نہیں ہونے دیتا۔

💥 ہنٹ 11: قوتِ فیصلہ
وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے، اور جب کسی چیز کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے کہ تو ہو جاپس وہ ہوجاتی ہے۔(البقرة:۷۱)
جب ہم اپنی ہی عقل پر بھروسہ کرتے ہیں تو خود ہی اپنے فیصلوں کو بہترین مان لیتے ہیں۔باطل یہ نہیں ماننے دیتا کہ ہم تو ناقص عقل رکھنے والے کمزور انسان ہیں۔ ہم کہاں قوت ِ فیصلہ رکھتے ہیں۔ یہ تو اللہ ہی ہے جو ہمیں بہترین فیصلوں کی قوت عطا کرتا ہے۔جب ہم اللہ سے معاملات میں طاقت مانگ کر کے فیصلے نہیں کرتے تو بھی باطل ہی ہمیں شہ دے رہا ہوتا ہے۔ اپنی عقل پر بھروسہ بھی تو ذات ہی ہے کہ میں خود اس قدر کامل عقل رکھنے والا ہوں کہ جو فیصلہ کروں گا وہ بہترین ہی ہوگا۔
باطل ہمارے اندر اپنے آپ پر یقین رکھواتا ہے کہ ہم اللہ سے ہمت طلب کرنا اور اس کی مدد سے پھر فیصلہ کرنا اور معاملہ نمٹانا توحید عملاََ قائم نہ کر سکیں۔

💥 ہنٹ 12: اللہ کے سوا نہیں ہے کوئی جزا دینے والا
زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو ، عقیدہ توحید کا تقاضا ہے کہ اللہ ہی اس معاملہ کا محور و مرکز ہو۔ جو جو بھی معاملہ اللہ کی خوشی کی خاطر، اللہ کی نظر میں ہونے کے احساس ، اسی کے یقین کی ڈور کو تھامے ہوئے انجام پائے تو سمجھو کہ اس معاملہ میں توحید قائم رہی۔ اب جب اس کی جزا کا معاملہ آئے گا تو اللہ ہی سے توقع ہو گی کہ اس کے سوا نہیں ہے کوئی جزا دینے والا۔ وہی واحد ہے جو جزا پر قدرت رکھنے والاہے۔ اللہ سے ہر عمل کی جزا کی امیدرکھنا توحید کو عملی طور پر قائم کرواتا ہے ۔
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاو گے، پھر ہر شخص کو جو کچھ عمل اس نے کیا ہے اس کی پوری پوری جزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔
(البقرة:۱۸۲)
بیشتر معاملات ہم دنیا کی ہی خاطر، اپنے ظاہری رشتوں کی خوشی کےلئے، انہی سے توقعات وابستہ کر کے نبھاتے ہیں تو تب باطل ہمیں احسا س نہیں ہونے دیتا کہ ہم اللہ کی ہی خاطر یہ عمل اللہ کی مدد سے نبھانے کی کوشش کریں۔ اس کی بجائے دنیا کی ہی فکر کھائے چلی جاتی ہے کہ جانے لوگ کیا کہیں گے، انھیں پسند آئے گا کہ نہیں۔
اس طرح باطل ہمیں اپنے معاملات میں توحید قائم نہیں کرنے دیتا۔کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اگر ہم اپنا ہر عمل جالصتا اللہ کیلئے کریں اور اسی س اسکی جزا مانگیں تو ہماری دنیا آخرت بہترین ہو جائے۔

💥۔ ہنٹ 13: اپنی صلا حیتیں ، اپنی خوبیاں ، اپنی قابلیت، اپنا فن و ہنر
توحید یہ بھی ہے کہ ہماری کوششوں کا محور بھی صرف اللہ ہی کی ذات ہو۔ ہم اپنی صلا حیتوں ، اپنی خوبیوں ، اپنی قابلیتوں، اپنے ہنر و فن کو اللہ کی راہ پر اسی کی مرضی کے مطابق لگانے کی کوشش کرنے میں بھی توحید قائم کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اسی کی عطا ہی سے ہمیں نصیب ہوتی ہیں۔ اب جب ہم ان کا بہترین استعمال اللہ کے حکم اور مرضی و منشاءکے مطابق کریں تو یہ ان خوبیوں اور صلا حیتوں کا شکر بھی ہوا ...اور عملاََ ا للہ کی توحید کا اقرار بھی ...کہ تو ہے واحد اس لائق کہ تیری خاطر ہی تیری عطا کی ہوئی خوبیوں اور صلا حیتوں کو تیرے راستے پر استعمال کیا جائے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا چھوڑ دیں بلکہ دنیا کے ہی ہر معاملہ کو اللہ کی خاطر اللہ کی مرضی کے مطابق نبھانا اسی معاملے کو اللہ کا معاملہ بنا دیتا ہے اور یوں توحید یہاں بھی قائم ہو جاتی ہے کہ اس معاملہ کا تعلق بھی اللہ سے جوڑ لیا۔
باطل ہماری تمام تر خوبیوں کوہمارا کمال ظاہر کرتا ہے۔ہم انہیں اپنی ملکیت سمجھتے ہیں کہ جیسے یہ ہمارا اپنا کمال ہو اور اس میں اللہ کا کرم شامل نہ ہو جس نے ہمیں ان سب سے نواز رکھا ہے۔
جہاں جہاں ، میں ،میرا، مجھے کی پکار اندر دہا ئی دے، وہیں ذات ہے۔ اور جہاں ذات اٹھی ، وہیں اللہ کی واحدانیت کا احساس نہ رہا بلکہ میں اٹھ کھڑی ہوئی اور جب میں کو مار کے جھک گئے تو پھر سے اللہ کی واحدانیت کا احساس بیدار ہو گیا کہ نہیں ہے کوئی تیرے سوا... تو کرم نہ کرے تو ایک انگلی بھی ہلانے کے قابل نہ رہوں۔
باطل ان سب احساسات اور ان پرعمل سے محروم رکھ کر ہمیں اللہ کی نظر میں سرخرو نہیں ہونے دیتا۔


💥 ہنٹ 14: عزت والا
(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اللہ سلطنت کے مالک! تو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔
(آل عمران:۶۲)
توحید تب بھی قائم کرنی ہوتی ہے جب جب ہمیں عزت و مرتبہ نصیب ہو۔تب ہم محسوس کریں کہ نہیں ہے کوئی تیرے سوا اس عزت و مرتبہ کے لائق ...اور تمام عزت و مرتبے تیرے ہی لیئے ہیں.... اور تیرے ہی دیے ہوئے ہیں۔ ہم اس عزت کے تاج کو اگر سر پر سجاکر تکبر میں مبتلا ہو ئے توسمجھیں کہ باطل کے وار کا شکار ہو گئے ہیں اور اس نے بھلا دیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عزت و تکریم کے لائق نہیں...
اگر ہم کہیں خود کو شان والا سمجھ بیٹھیں یا بڑائی اور بزرگی کے دعوے دار بن بیٹھیں تو یہ بھی باطل کا وار ہے۔ وہ نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں یہ احساس رہے کہ اللہ کے سوا کوئی بزرگ و برتر نہیں ہے اور صرف وہ ہی ہے جس کی شان سب سے اعلیٰ ہے۔ باطل یہ یاد نہیں رکھنے دیتا کہ اللہ کے سوا یہ کسی کی شان نہیں ہے کہ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔
باطل ہمیں خود اپنے آپ کو ہی اعلیٰ تصور کرنے پر مجبور کرتاہے۔اور یہ یقین دلاتا ہے کہ مجھ میں کچھ ایسا ہے کہ مجھے عزت و مرتبہ عطا ہوا۔ اسطرح ہمیں اپنی ذات کا پجاری بنا کر اللہ کی نظر میں نا پسندیدہ کرتا چلا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 15: تکبر
انا وہ واحد شے ہے جو اللہ کو سخت نا پسند ہے۔ وہ اس پر غضب میں آتا ہے۔ تکبر اور انا اتنی باریکی سے ہمارے اندر آ تی ہے کہ محسوس تک نہیں ہوتا۔اس کے اتنے خفیہ خانے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی۔ کہیں فخر کہیں اکڑ کہیں تکبریہ سبھی انا کے خفیہ خانے ہیں۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ ہم ہمیشہ خود کو عزت کے قابل سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں جا نتے کہ عزت تو اللہ کرواتا ہے سو جہاں بھی وہ عزت کروائے۔
اس معاملے میں ٹرائی اینگل سیٹ کرنے سے ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ عزت تو عزت والے نے کروائی ہے ورنہ ہم اس قابل کہاں کہ ہماری عزت ہو۔جب تک ہم خود کو عزت والے کے ساتھ لگائے رکھتے ہیں تو وہ عزت کرواتا ہے۔
ہم بھول جا تے ہیں کہ شاہوں کو گدا اور گداﺅں کو شاہ کر دینا اللہ کی قدرت ہے۔ لہذا جب بھی ہمیں عزت نہ دی جائے پہلی بات سوچو کہ ہم نے گند مارا ہے۔کوئی غلطی کی ہے ورنہ اللہ تو ہمیں پیار کرتا ہے وہ ہماری بے عزتی نہیں کرا سکتا۔ اگر ہم ڈھونڈ نے نکلیں تو ہمیں اپنا گند مل جائے گا۔
آپﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں۔صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں ضرور فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا ہر جاہل اکھڑ مزاج تکبر کرنے والا دوزخی ہے۔(صحیح مسلم)
تکبر صرف اللہ کی ذات کو ہی روا ہے۔ زندگی کے معاملات میں ہماری انا کا اٹھنا ہمارے اندر اللہ کے احساس کی کمی کی بنا پر موجود تکبر کی علامت ہے۔
باطل ہمیں اس تکبر کا شکار کر کے اللہ سے دور کرنا چا ہتا ہے۔

💥 ہنٹ 16: اللہ ہی مالک ہے
پس اللہ جو بادشاہِ حقیقی ہے بلند و برتر ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، بزرگی اور عزت والے عرش (اقتدار) کا (وہی) مالک ہے۔(المومنون:۶۱۱)
یہ زندگی اور اس کی ہر شے اللہ ہی کی ملکیت ہے۔، اس کائنات کا ہر خزانہ اسی کی ملک ہے۔ ہم اس زندگی کو اللہ کی دی ہوئی امانت کے طور پر سنبھال کر استعمال کی کوشش اس لیئے کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں جو امانت دی اس میں خیانت نہ ہوجائے۔اس کی حفاظت کےلئے ہم اسے ہر طرح کے ظاہری اور باطنی نقصان سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ کے احکام کے تابع رہ کر زندگی گزارتے ہیں تو یہ بھی توحید ہی کا اقرار اور عمل سے اظہار ہوا۔
اللہ کی واحدانیت کا اظہار یہاں یوں ہونا چاہئے کہ کوئی نہیں ہے مالک تیرے سوا...تو ہی مختار کل ہے۔ اور اس زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کو ہی مالک و مختار مان کر اسی کی مرضی کے تحت عمل کی کوشش کرنا توحید ہے۔
باطل کی زد میں آ کر ہم اللہ کو مالک سمجھنے کی بجائے خود کو مالک و مختار سمجھنے لگتے ہیں۔ کہ جب اللہ نے زندگی دی تو اب عیش کر لیں، اور اپنی مرضی سے اسے گزار لیں۔
باطل یہ چالاسلئے چلتا ہے تاکہ ہم دنیا کی زندگی کو ضائع کر کے آخرت میں خالی ہاتھ رہ جایئں۔

💥 ہنٹ 17: حاکم
حاکم کی بجائے، محکوم بن کے رہنے کا احساس بھی توحید قائم کرواتا ہے۔ ہم جب زندگی میں کسی پر حکومت کرتے ہیں تو اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بلا چوں چراں ہمارے ہر حکم کو مانے، اسی طرح ہم نے بھی ہر حال میں اللہ کے ہی حکم پر سر جھکا کراللہ کا محکوم بن کر رہنا ہے۔
باطل ہر وقت ہمیں اللہ کے حکم کی بجائے اپنے حکم کا غلام بنانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے۔ یہ نہیں چاہتا کہ ہم اللہ کے حکم پر چلنے کی کوشش میں زندگی گزاریں۔ کیعنکہ وہ جانتا ہے کہ یہی کوشش ہمارے حاکم واحد اللہ کی حاکمیت کا بول بالا کرتی ہے اور ہمیں اللہ کی نظر میں کامیاب کرتی ہے۔
باطل ہماری کامیابی نہیں چاہتا اسی لئے یہ چال چلتا ہے۔

💥 ہنٹ 18: وارث
اور اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا وارث ہے۔(آل عمران:۰۸۱)
اللہ نے جو کچھ ہمیں عطا کیا ہم اس کے مالک ہیں نہ وارث، اصل وارث تو صرف اللہ ہی ہے۔اسی لیئے بچوں کی تربیت میں خود کو ان کا وارث نہ سمجھیں۔ ہم ان کے وارث نہیں ہیں۔ ان کو اپنی ملکیت بھی نہ سمجھیں۔ ہم عام طور پر بچوں کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے ان کو ہر طرح سے ہر معاملے میں اپنا غصہ بھڑاس نکالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ ہم نے بچوں کو صرف ایک ذمہ داری سمجھنا ہے جس کے لئے کل ہم اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
باطل یہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ اللہ نے ان کو امانت کے طور پر ہمیں سونپا ہے اور اس امانت کا حساب بھی دینا ہو گا۔
اس طرح باطل ہمیں غافل دل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کر کے آخرت کو مشکل بناتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 19: بہترین کرنے والا
اللہ کی ایک شان یہ بھی ہے کہ وہ بہترین کرنے والا ہے۔ وہ جب اور جو کرتا ہے ، بہترین کے سوا نہیں کرتا۔
ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہمارا یقین ہو کہ اللہ! تیرے سوا کوئی بہترین کرنے والا نہیں ہے۔اور یہاں کچھ بھی بلاوجہ یا اچانک نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے اور وہی ہما رے لیئے بہترین ہوتا ہے. کیونکہ ...نہیں ہے کوئی اللہ کے سوا جو اپنے بندے کی بھلائی کر سکے ...!
جب ہمیں بظاہر زندگی میں کسی کمی بیشی یا نقصان کا سامنا ہو تو ہمیں مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے صرف اور صرف یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ بہتر ین کے سوا ہمارے ساتھ کبھی کچھ نہیں کرتا۔ اس کے ہر فیصلے میں ہمارے لیئے بھلائی ہی پوشیدہ ہو تی ہے۔
شیطان ورغلاتا ہے اور ہمارا یقین متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارے ساتھ بہت برا ہوا...ہمیں مظلوم بنا دیتا ہے۔ دوسروں کو اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار ٹھہرا دینے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں نظر اپنے عمل پر رکھتے ہوئے اللہ کی اسی شان کہ وہ بہترین کرنے والا ہے پر یقین کی مضبوطی توحید کا عملی مظاہرہ کراتی ہے۔
باطل ہمیں مایوس کر دیتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ہم اپنے ہر معاملے کی بنیاد توحید پر رکھ کر اللہ کی محبت و قرب حاصل کر سکیں۔

💥 ہنٹ 20: رزق عطا کرنے والا
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا: بھلائی عمر کو زیادہ کر دیتی ہے اور تقدیر کو سوائے دعا کے کوئی چیز نہیں لوٹاتی اور آدمی رزق سے اپنی اس خطا کی وجہ سے محروم کر دیا جاتا ہے جس کو وہ کر بیٹھتا ہے۔
(ابن ماجہ)
اللہ ہی ہمیں واحد رزق عطا کرنے والا ہے۔حالات کیسے بھی ہوں اللہ کی رزاقیت پر یقین قائم رہے ۔اللہ اگر کیڑے مکوڑوںاور چرند پرند تک ان کا رزق پہنچاتا ہے تو اپنے بندوں پر بھی رزق کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتا ہے۔ اللہ کے واحد رزاق ہونے پر یقین رکھتے ہوئے کوشش کرنا رزق حلال عطا کرتا ہے۔
ہمارے یقین کی کمزوری ،ہمارے ناقص عمل اور کوشش میں کمی ہی ہمارے لیئے رزق کے معاملات میں مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ اور یہ سب منفی باتیں باطل کی چال میں پھنس کر
ہی سرزد ہوتی ہیں۔
باطل یا تو ہمیں سارا یقین اپنے زور بازو پر رکھ کے اللہ کےاحساس سے غافل کر دیتا ہے۔ یا یہ غلط سوچ ہمارے دل میں پکی کر دیتا ہے کہ جب اللہ رازق ہے تو ہاتھ پے ہاتج دھرے بیٹھے رہیں۔ یہ دونوں غلط راستے ہیں۔ اسلام ہمیشہ درمیانی راہ پر چلنے کا حکم دیتا ہے اور اسی میں عافیت ہے۔ ہم نے اللہ کے رازق ہونے پے یقین رکھتے ہوئے اپنی طاقت کے مطابق مناسب کوشش کرنی ہے۔
باطل یہی درمیانی راہ چننے نہیں دیتا۔ تاکہ ہماری زندگی آسان اور کامیاب نہ ہو سکے۔

💥 ہنٹ 21: حکمت والا
بیشک یہی سچا بیان ہے، اور کوئی بھی اللہ کے سوا لائقِ عبادت نہیں، اور بیشک اللہ ہی تو بڑا غالب حکمت والا ہے۔(آل عمران:۲۶)
اللہ کا کوئی کام یا فیصلہ حکمت سے خا لی نہیں ہوتا۔ اللہ کی طرف سے ہر طرح کے معاملات میں اس کی کوئی نہ کوئی بہتری اور حکمت کے پوشیدہ ہونے پر یقین رکھتے ہوئے اللہ سے کبھی مایوس نہ ہونا بھی اصل توحید ہے۔
زندگی کے نشیب و فراز میں جب ہمیں زندگی میں کسی کمی بیشی یا نقصان کا سامنا ہوتا ہے تو اس وقت ہم اللہ کی عطا کردہ بے بہا نعمتوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہئں۔ تب ہم یہ بھی بھلا دیتے ہیں کہ دینا یا عطا کرنااللہ کی صفت ہے۔ وہ ہر وقت ہمیں کسی نہ کسی صورت کچھ نہ کچھ عطا کر رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمیں اس کی سمجھ نہ آئے کہ وہ عطا کس طرح سے ہو رہی ہے مگر یہ امر یقینی ہے کہ وہ ہر لمحہ ہمیں دے رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیں وہی سب کچھ ویسے ہی عطا کر رہا ہو جیسے ہمار ی مرضی یا چاہت ہوتی ہے۔ اللہ ہمارا بہترین چاہنے والا دوست اورمددگار ہے اور وہ ہمیں وہی سب عطا کرتا ہے جو ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے۔
باطل ذرا سی ہی مشکل آجانے پر ہی واویلا کرنے پر راغب کرتا ہے۔ ہم ہزاروں شکایتیں کرنے لگتے ہیں اور کسی خلاف منشا فیصلے کو اپنے لیئے مصیبت سمجھتے ہیں۔
باطل یہ چال چل کر ہمیں اللہ پر یقین نہیں رکھنے دیتا نہ اللہ کے فیصلوں پر سر جھکانے دیتا ہے۔اور اس طرح ہمیں اللہ سے دور کرتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 22: رحمت کرنے والا
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارے پرودگار نے مخلوق کی تخلیق سے پہلے اپنے آپ پر اپنے ہاتھ سے لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غصہ سے آگے ہے۔(ابن ماجہ)
شیطان خود بھی اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر جہنم کا حقدار بنا اور اب اللہ کے بندوں کو بھی مایوس کر کے توحید کے احساس کو دبانا چا ہتا ہے۔ اس کی یہ کوشش ناکام کرنے کا بہترین راز یہی ہے کہ دل سے اس بات کی تصدیق ہو کہ نہیں ہے کو ئی اللہ کے سوا، جس کی رحمت ہمیں دنیا و آخرت میں ہمیں اپنی آغوش میں سما سکے۔ جس جس لمحہ ہم نے اللہ کی رحمت پر یقین کامل رکھا اور مایوسی کے تھپیڑوں کو پچھاڑ ڈالا ہم اللہ کی توحید پر قائم رہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
اللہ نے رحمت کے سو (100) اجزا بنائے۔ پھر ان میں سے ننانوے حصوں کو اپنے پاس رکھا اور زمین میں صرف ایک حصہ نازل کیا پس اسی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرتی ہے یہاں تک کہ جانور اپنے بچہ سے اپنے پاوں کو ہٹا لیتا ہے اسے تکلیف پہنچنے کے خوف کی وجہ سے۔
(صحیح مسلم)
رحمتِ رب جہاں سے مایوس نہ ہونا اور یہ یقین کہ ...نہیں ہے کوئی تیرے سوا جس کی رحمت سب صفات پر بھاری ہے ...یہی توحید کا احساس دل میں راسخ ہونے پر دلیل ہے۔
باطل ہمیں مایوس کر کے خساروں میں دھنسا دینا چاہتا ہے۔

💥 ہنٹ 23: زندگی و موت کا خالق اللہ ہی ہے
زندگی خود اللہ کی واحدانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ... اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے جو زندگی تخلیق کر سکے... اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے جو موت دے سکے ...زندگی و موت کا خالق اللہ ہی ہے۔ جب جب ہم زندگی کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ تیرے سوا اس نعمت سے نوازنے والا کوئی نہیں ہے تو یہ بھی توحید کے احساس دل میں بیدار ہونے کی وجہ سے ہے۔ ہر سانس کو اپنے لیئے ایک نعمت سمجھنا اور اس نعمت کا حق ادا کرنے کی کوشش ہی اصل میں توحید ہے۔ جب مو ت کو یاد کریں تو دل اپنے مالک کی طرف لوٹ جانے کے احساس کو پا جائے اور ہم اس یقین کو تھام لیں کہ موت بر حق ہے تو یہ بھی توحید ہی قائم ہونا ہے۔
باطل ہمیں اپنی زندگی کا مالک خوس اپنی ہماری ذات کو سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس طرح ہماری زندگی اللہ کا شکر ادا کرمے کے بجائے اپنے نفس کی تسکین میں گزروا کر ہمیں تباہی کے اندھیروں میں گم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

💥 ہنٹ 24: نہیں ہے کوئی تیرے سوا جس کی طرف میں لوٹ کر جانے والا ہوں
(لوگو!) تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (یہ) اللہ کا سچا وعدہ ہے۔(یونس:۴)
جب جب اللہ کی واحدانیت کا احساس دل میں زندہ ہو گا اس کی طرف لوٹ جانے کی حقیقت پر ایمان بھی پختہ ہو گا۔ ہم موت کی یاد کو جھٹلانے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ جب جب موت یاد آئے گی اپنی زندگی کا جائزہ لیں گے۔ اپنے عمل کی جانچ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش میں لگ جائیں کہ نہیں ہے کوئی تیرے سوا جس کی طرف ہم لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ہماری یہ زندگی ختم ہو گی تو ہم اپنی اصل کی طرف ہی پلٹ جائیں گے جہاں سے آئے تھے۔ اپنے اصل اور حقیقی مالک کی طرف پلٹ جانے کے یقین کا نام ہی توحید ہے۔اور اسی یقین کی بنیاد پر اپنے عمل کو اللہ کی پسند کے مطابق ڈھالتے جانے کی پل پل کوشش عملی توحید قائم کرواتی ہے۔
باطل ہمیں نہ زندگی کو اللہ کی پسند کے مطابق گزارنے دیتا ہے اور موت کو یاد کرنا تو سِرے سے بھلائے رکھتا ہے بلکہ اگر کہیں یا د آ بھی جائے تو اس احساس کو بھی جھٹلاتا ہے کہ موت کو یاد کرنا تو نحوست کی بات ہے۔ زندگی جی لو جب موت آئے گی تو دیکھا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
باطل ہمیں زندگی اور موت دونوں حوالوں سے اپنا غلام بنائے رکھتا ہے۔ تا کہ اسکی غلامی میں چپ چاپ جی حضوری کرتے ہوئے نجات کی راہ کی جانب نہ چل سکیں۔


💥 ہنٹ 25: پیار کرنے والا
پس اللہ نے انہیں دنیا کا بھی انعام عطا فرمایا اور آخرت کے بھی عمدہ اجر سے نوازا، اور اللہ (ان) نیکو کاروں سے پیار کرتا ہے (جو صرف اسی کو چاہتے ہیں)
(آل عمران:۸۴۱)
توحید یہ بھی ہے کہ ہر اللہ کے بندے کو محسوس ہو کہ... اللہ ہی مجھے ہر ایک سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے۔و ہی ہے میرا واحد دوست جس سے میں اپنا غم و خوشی بیان کر سکوں۔
دل ہی دل میں اللہ سے اپنی محبت کا اظہار کرنا کہ کوئی نہیں ہے تیرے سوا جس سے محبت کروں ...جس سے دل کی بات کروں ...جس سے اپنا ہر راز کہوں ...جس کی دوستی اور محبت کی چاہ رکھوں... یہی ہر لمحہ دل ہی دل میں اللہ سے چپکے چپکے کلام کرتے رہنا اس یقین سے کہ تو سن رہا ہے...! تو واقفِ حال ہے...! اور کوئی نہیں ہے تیرے سوا میرا واقفِ حال...! یہی توحید ہے۔
اللہ کے پیار کا احساس ہی عملی طور پر توحید قائم کرواتا ہے کیونکہ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ زبان سے اللہ ہی کا ذکر ہو...ہمارے احساس ...ہماری سوچ ... ہماراعمل اللہ کا پسندیدہ ہواور وہ ہمیں اپنے قریب کرلے۔ پھر ہر بار عمل کے ارادہ و نیت کی بنیاد یہی ایک احساس ہو جاتا ہے کہ نہیں ہے کوئی تیرے سوا !....جس کی خوشی مجھے ہر ایک خوشی سے بڑھ کر عزیز ہے۔ہر لمحہ یہ ایک فکر کہ کیسے اللہ کو راضی کروں ...کیسے اللہ کو پسند آجاﺅں... اور ہر قدم اللہ کی راہ پر ہی اٹھانے کی کوشش کروں، وہ راہ جس کی منزل اللہ کی بنائی ہوئی جنتیں ہیں... باطل ہمیں دنیاوی زیب و زینت میں اس طرح الجھاتا ہے کہ ہمارے دل میں دور دور تک دنیا کی محبت ہی سما جاتی ہے۔
باطل کی یہ چال ہمیں اللہ کی محبت اور اسکے پیار کے احساس سے محروم رکھ کر ہمیں اسکا قرب پانے سے روکنے کیلئے ہی ہے۔

💥 ہنٹ 26: نہیں ہے کوئی تیرے سوا جو دل کے تخت پر تخت نشین ہو
"وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (حقیقی) بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، ہر نقص سے سالم (اور سلامتی دینے والا) ہے، امن و امان دینے والا (اور معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے والا) ہے، محافظ و نگہبان ہے، غلبہ و عزّت والا ہے، زبردست عظمت والا ہے، سلطنت و کبریائی والا ہے، اللہ ہر ا س چیز سے پاک ہے جسے وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
(الحشر:۳۲)
توحید کا تقاضا ہے کہ دل جو اللہ کا گھر ہے اسمیں اللہ ہی سمائے کیونکہ وہ ہی اصل بادشاہ ہے اور اس کی دل پر حکومت ہو تو توحید صحیح معنوں میں قائم ہوتی ہے۔
باطل دنیا اور اس کی خواہشات کی پوجا کرواتاہے۔ دنیا بھر کی چاہتیں دل میں بھرتا ہے اور اس کے کونے کونے میں دنیا ہی کی محبت بھرتا چلا جاتاہے۔ ہر طرف دنیا ہی راج کرتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم تو اللہ کو مالک اور شہنشاہ مانتے ہیں اور اسی کو دل میں بسائے ہوئے ہیں۔ اس بات کی تہہ میں جائیں تو اپنے دل کے تخت پر دنیا ہی کا راج نظر آئے گا۔ اللہ تو کہیں ترجیحات کی فہرست میں سب سے نیچے ہی ہوتا ہے۔ اللہ کے سوا یہ کسی کا مرتبہ نہیں کہ وہ اس دل کے گھر کو آباد کرے۔ جب ہم اپنی دل کی بستی کو اللہ ہی کی محبت سے آباد کر لیں تو تب دل اللہ ہی کا گھر بن جاتاہے۔ اللہ ہی کی یاد سے دل کے نگر کا آباد رہنا دل کو اللہ کی جاگیر بنا دیتا ہے ورنہ دنیا بسی رہے تو دل اللہ کا ٹھکانا نہیں بن پاتا۔
جب ذات کے بت کدے سے انا کے سارے بت ڈھاکر ، میں کو اپنی موت مار کر، اپنی خواہشات کو اللہ کی ہی رضا پر قربان کرتے ہیں اور دل صدا لگاتاہے کہ ...میرے اللہ! میں کج وی نئی ،سب تُو ہی تُو!...تب تو حید کا احساس دل میں راسخ ہوتا ہے اور ہمارے عمل، معمول اور معاملات سے اس کااظہار ہوتا ہے۔
باطل ہماری نظر میں دنیا کی رنگینیوں کو خوبصورت بنا کر ہمارے دل پر اپنی حکمرانی رکھنا چاہتا ہے۔ جیسے یہ خود اللہ کی رحمت اور اسکی رضاسے محروم ہوا ہمیں بھی اسی محرومی میں دیکھنا چاہتا ہے۔