حق کی شمع محاسبہ نفس محاسبہ جیسے حساب ہوتا ہے، حساب لیتے ہیں۔ دوسروں کا لیتے ہیں۔ ہم خود اپنا بھی حساب کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس پیسے ہوتے ہیں تو ہم انکا بھی حساب کر رہے ہوتے ہیں۔ لکھ کر حساب بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ گنتیاں بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ کیا ادھر لگایا۔ ادھر لگایا۔ یہ فضول لگا لیا۔ یہ صحیح لگا لیا۔ ہم اپنا حساب کرتے ہیں ایسے ہی محاسبے کو حساب سے سمجھ لیں۔جو اپنے نفس سے لینا ہے۔ یہ وہ حساب جو حساب کے دن سے پہلے اپنا کیا جائے۔ حساب کا ایک دن مقرر ہے۔ اب اس دن سے پہلے ہر لمحہ اپنے نفس کو خود اپنے سامنے حساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اسکو تنقیدی نظر سے دیکھنا اور اسکا جائزہ لینا یہ محاسبہ نفس ہوگا۔ ایسے سنا ہوا بھی ہو گا عام فہم لوگوں سے بھی کہ اس دن سے پہلے حساب اپنا خود لے لو کہ جس دن کہ حساب لیا جائے۔ کچھ اس طرح کی بات بہت لوگ کہتے ہیں کہ آج اپنا حساب لے لو کہ تاکہ کل کو حساب کے دن مشکل پیش نہ آئے۔ تو جو اپنا حساب آج لیتے رہتے ہیں انکے لیے حساب کا دن آسان ہو جاتا ہے۔ اب کیوں کہ محاسبہ نفس یہاں پر میں نے کہا ہے تو یہاں آپکو نفس کے بارے میں تھوڑا بتا دوں کہ نفس ہمارے اندر موجود ایک خودکار آلہ ہوتا ہے یا سسٹم ہوتا ہے جسکی وجہ سے ہمارے اندر خواہشات جنم لیتی ہیں۔ اب یہ خواہشات جو ہمارے اندر بیدار ہوتی ہیں یہ مثبت بھی ہو سکتی ہیں اور منفی بھی ہوتی ہیں۔ جو مثبت خواہشات ہیں وہ یہ کہ اللّه کے راستے پر، حق کی راہ پر آگے بڑھنے کے لیے ہمیں رغبت دلاتی ہیں شوق دلاتی ہیں ۔جذبہ بیدار کرتی ہیں۔ اور جو منفی خواہشات ہوتی ہیں انکا تعلق دنیا سے، اسکی لذتوں سے، ہماری نفسانی خواہشات سے، شیطان کے بچھائے گئے جالوں سے، یہ ان میں پھنسنا ہوتا ہے۔ یہ منفی خواہشات نفس کا وہ پہلو ہے جو ہمیں پھنساتا ہے۔اور یہ جو نفس کا پہلو ہمیں پھنساتا ہے یہ حق کی راہ پہ بڑھنے کے لیے پھنساتا ہے۔ نفس کی اقسام تین ہوتی ہیں۔ ایک کو نفس امارہ کہتے ہیں۔ ایک نفس لوامہ ایک نفس مطمئنہ ہوتا ہے۔ نفس عمارہ ہمیں برائی کی جانب رغبت دلاتا ہے۔ شوق دلاتا ہے۔ برائی کی طرف۔ نیگٹو سوچوں کی طرف دھکیلنے والا یہ نفس امارہ ہوتا ہے۔

لیکن جب کوئی بھی اللّه کے احکام ماننے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہاں پہ لڑتا ہے اور یقین کی طاقت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور نفس کے بچھائے گئے ان جالوں میں نہیں آتا اور یہاں پر بہتری کی طرف قدم بڑھاتا جا رہا ہوتا ہے وہ نفس لوامہ کہلاتا ہے۔ اور یہ جو نفس لوامہ ہوتا ہے یہ انسان کو اللّه کی قربت میں جانے کے لیے زیادہ کوشش پر اکساتا ہے۔ اسکا جذبہ بیدار کرتا ہے اسکو شوق دلا رہا ہوتا ہے۔ اندر اندر سے اور اگر انسان کوشش نہیں کرتا تو اسکو شرمندہ کر رہا ہوتا ہے۔ اور اس کو ملامت کر رہا ہوتا ہے اور اس کو احساس اندر دلا رہا ہوتا ہے اور اسکو احساس دلا رہا ہوتا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ ضائع کر رہے ہو زندگی، کیا کر رہے ہو؟ شرمندہ کراتا ہے، اسکو اکساتا ہے اس کے اندر کے جذبے کو بیدار کر رہا ہوتا ہے یہی اصل ہے اسی کی طرف بڑھو۔ اللّه کی طرف جاؤ۔ اسکی رضا اور خوشی پاؤ اور پھر جب یہ کرتے کرتے اسی پر انسان اپنے آپ کو مستحکم کر لیتا ہے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ عمل صالح کرتا ہے عبادات کے ذریعے، اور اپنے معاملات کے ذریعے،ہر طریقے سے اللّه کا قرب حاصل کرنے کے لیے، اسکی رضا اور خوشی حاصل کرنے کے لیے کوشش میں لگا رہتا ہے اور یہی اسکی زندگی کی عادت بن جاتی ہے تو پھر وہ نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔ کیوں کہ نفس مطمئنہ اللّه کی رضا پہ راضی رہتا ہے۔ نفس مطمئنہ وہ نفس ہے جسکی تسکین جو ہوتی ہے صرف اور صرف اللّه کا ذکر ہو۔ اسکی رضا اور خوشی کے لیے ہر سوچ، عمل اور ہر احساس کو بس لگا دیا جائے۔ اسی میں. تو وہ نفس مطمئنہ ہوتا ہے۔ تو اب جو محاسبہ نفس ہوا، وہ ہمیں اپنا حساب ہد لمحہ خود لیتے رہنا ہے کہ کہیں یہ نفس امارہ تو نہیں مجھے اکسا رہا کہ غلط کام اور برائیوں کی طرف راغب کر رہا ہے۔ فوراً اسکو پکڑنا ہے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہے اس چیز کا بھی اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ نفس لوامہ اگر ہمیں شرمندہ کر رہا ہے اس چیز پر کہ تم کیوں نہیں اللّه کی رضا اور قربت کی طلب میں سفر کر رہے؟ کیوں نہیں وہ عمل کر رہے؟ کیوں نہیں وہ احساس جگا رہے؟ اگر ہمارا نفس ہمارے اندر یہ احساس جگا رہا ہے اور ہمیں اکسا رہا ہے اس چیز پر تو پھر ہم نے وہاں پر بھی خود کو پکڑنا ہے اور فوراً سٹیپ لے جانا ہے اللّه کی رضا اور خوشی پانے کے لئے۔ یہ نفس لوامہ ہو گا۔ اب محاسبہ نفس میں ہمیں جب نفس کی ان تینوں قسموں کا پتا ہوگا تو ہمیں اچھی طرح سے اپنا محاسبہ کرنا آئے گا اور ھم اپنے نفس کا جو بھی برائی کا جال پھیلائے گا تو بھی پتا ہوگا اگر اور ہمیں وہ شرمندہ کر رہا ہے نفس لوامہ کی صورت میں۔ تو پھر ہم نے شرمندہ ھو کر جھک جانا ہے۔ اور پھر آگے اس کے اندر جو ہمارا جذبہ اور جنون بیدار ہو گا اس پر ہم نے آگے سٹیپ لے جانا ہے اللّه کی قربت میں۔ تو اب یہ ہو گیا محاسبہ نفس ۔ یعنی ہر لمحہ اپنا حساب خود لیتے رہنا ۔ کہ کیا خیال، سوچ، فکر، احساس میرے اندر اٹھا، اس چیز کا بھی آپ نے خود محاسبہ کرنا ہے۔ محاسبہ نفس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جیسے تلوار لے کے دربان کھڑا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اپنے ہر فکر، سوچ، احساس، عمل ہر چیز پر خود ایسے دربان بن کے کھڑے ہو جاؤ تلوار لے کر۔ کہ بھئ یہ کیا کر رہا ہوں۔ صحیح ہے؟ کروں؟ نہ کروں؟ یہ سوچ اور خیال اندر جائے؟ گزرے؟ نا گزرے؟ اور اگر گزرا ہے تو پھر کیا اسکو ابھی میں یہیی پر پھلنے پھولنے دوں؟ یا اس کو یہی پر میں نے ختم کر دینا ہے؟ اگر یہ خیال اسی طرح سے آگے بڑھتا رہا تو یہ تو مجھے برائی کی طرف راغب کر دیگا۔ یہ تو مجھے حق کی راہ سے بھٹکا دے گا۔ یہ محاسبہ نفس ہے۔ اللہ ہمیں اپنے نفس کی غلطیوں کا محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔