🏉4- نتیجے پر اپنی فیلنگز یا احساسات(Before / After)

💡1۔ پہلے باطل کو شکست دینے اورانتقام لینے کااحساس نہیں ہوتا تو اس کے نتیجے کو سمجھنے اور اس پر اپنے احساس کا بھی ایسے پتا نہیں ہوتا۔
اب باطل سے جنگ کرتے ہوئے جب جب اس کو ہرا دیتے ہیں تو اند ر کربلا والوں کا انتقام لینے اور حق کی جیت میں اپنا کردار ادا کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ خوشی ہوتی ہے کہ ہر حق کا راہی اس کو موت کے گھاٹ اتا ر رہاہے۔
💡2۔ پہلے پتا نہیں ہوتاکہ دشمن کتنا طاقتور ہے اسی لیئے جیت کامزہ بھی نہیں آتا۔ اپنے لیول پر ہی کمزور سی کوشش جاری ہوتی ہے۔
باطل کی شنا خت کے بعد جب پتا چلتا ہے کہ یہ تو اتنا مردود ہے، اتنے رنگ بدل کر آتا ہے اور پھنسا لیتا ہے تو اب خود کو اور ساتھیوں کو بھی اس کے خلاف لڑنے کی تگ و دو جاری رکھنے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
💡3۔ پہلے باطل کے خلاف لڑتے ہوئے سٹیپ لینے میں یقین کی کمی رہتی ہے۔اپنی طرف سے لڑنے کے بعد بھی کنفیوژن سی رہتی ہے کہ ٹھیک کیا یا نہیں۔ ایسے ہی کرنا تھا کیا۔۔۔؟؟ اندر خوشی محسوس نہیں ہوتی۔
اب باطل کی پہچان ملنے پر اس کو منہ توڑ جواب دے کر ایسے لگتا ہے کہ اپنے پیاروں کا، اس سے کچھ بدلہ لیا ہو۔
💡4۔ پہلے کسی نا کسی حد تک اپنے عمل پربھی پریشانی بنتی ہے کہ پتا نہیںجس حد تک اپنا آپ پیش کرنا چاہئے تھااتنا کر پائے ہیں یا نہیں۔
اب اپنی بہترین کوشش کے بعد دل سیٹ رہتا ہے کہ جس حد تک اب ممکن تھا ہم نے اپنے دائرہ کار میں ہی رہ کر کوشش تو کی ہے اور مزید اچھا کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔
💡5۔ پہلے اگر کہیں باطل خیر سے آ کر حملہ کر کے نقصان بھی کر جائے تو نقصان کا احسا س نہیں ہوتا تھا۔
اس آگاہی کے بعد سے نتائج کی اہمیت سب سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ باطل کی شناخت ہو گئی ہے کہ وہ کیسا گندا دشمن ہے۔اور اس سے انتقام لینے کی کیا اہمیت ہے۔
💡6۔ پہلے باطل کو مارنا یا اس سے جیتنا اتنا جوش و جذبہ نہیں پیدا کرتا تھا۔ یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ اس سے جیت حق کی راہ پر کتنی بڑی بات ہے۔اس بات کا اندازہ زیادہ نہیں ہوتا تو نتیجے میں اندر اس سے انتقام کا جذبہ نہیں بڑھتا تھا۔
اب یہ فکر رہتی ہے کہ کیا مشن ورکنگ میں حصہ ڈالنا امامِ عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کو پسند آیاہوگا۔۔؟؟؟
یہ احساس مزید پاور دے کے کام کرواتا ہے۔
کیا کسی امتی کا بھلا ہوا یا اگر باطل کا حملہ کامیاب ہو گیا ہو تو اگلی دفعہ کےلئے ڈبل پاور سے اس کے خلاف نبرد آزما ہوجانے کا عزم بیدار ہوتا ہے۔ احساس اور یقین بڑھتا ہے کہ اسی دشمنی کو نبھانے سے آگے بھی سفر میں کامیابی حاصل ہو گی۔ باطل ہمیں پست کرنا چاہے گا تو ہمارے پاس اس کو شکست دینے کے ہتھیار موجود ہوں گے۔حق والوں کی پناہ میں ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔