🔷 🔭حق اور باطل احساسات کا فرق اور پہچان🔭🔷


🕹1۔ باطل احساس راہیں بند دکھاتا ہے۔ ہر کھڑکی ، ہر دروازہ اور ہر سوراخ ہمیں بند نظر آتا ہے۔
حق احساس کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی کھڑکی یا دروازہ ایسا دکھاتا ہے جہاں سے روشنی اندر آ سکتی ہے۔ ایسی کھلی راہ دکھاتا ہے جس پرہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
🕹 ٍٍٍ2۔ باطل احساس بے یقینی بڑھا کے بے سہارا ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے۔ہم اندر سے وہ احساس محسوس نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس بن دیکھے مضبوط سہارے ہیں۔
حق احساس بن دیکھے سہاروںپر یقین کو مضبوط رکھتا ہے۔

🕹 3۔ باطل احساس ڈوبے ہوئے ہونے کا احساس ہے۔یہ ہمیں تھوڑا سا ڈوبنے پر بھی یہ محسوس کرواتا ہے جیسے کہ ہم مکمل طور پر ڈوب گئے ہیں اور اب دوبارہ ابھرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اور آہستہ آہستہ اسی کو بنیاد بنا کر اسی سوچ میں پھنساتا چلا جاتا ہے اور ہم سوچوں کے بھنور میں ڈوبتے چلے جا تے ہیںجبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ہم اسی سوچ کو پکڑ لیں اور کسی سے شئیر کر لیں تو ہم اس میں سے نکل سکتے ہیں۔
حق احساس ابھرے ہوئے ہونے کا احساس ہے یہ دوبارہ سے اٹھ کھڑے ہونے یا ابھرنے کا یقین مضبوط کرتاہے۔

🕹 4۔ باطل احساس کوشش کو روکنے والا احساس ہوتا ہے۔ جب ہم پھنسے ہوئے ہوتے ہیں تو اس میں سے نکلنے کی چاہت کے احساس کو مار دینے والا احساس باطل ہے۔
حق احساس پھنسے ہونے کے بعد وہاں سے نکلنے کی چاہت کو زندہ رکھتا ہے۔

🕹 5۔ حق کے سفر اور اس پر آگے بڑھانے والی ہر شے جیسے کہ ذات پر کام ، ورکنگ کی اہمیت کو کم کرتا ہوااحساس باطل احساس ہے۔
حق کے سفر کی اہمیت کو بڑھانے والا پاور دیتا ہوا ہر احساس اصل میں حق احساس ہے۔

🕹 6۔ رہبر و رہنما پر یقین کو کم کرنے والا ہر احساس جو چاہے سوال جواب ،کسی بد گمانی، کسی وسوسے، کسی ظاہری اچھے جذبے ،اپنی چاہت اور طلب کی ہی صورت میں ہو مگر وہ ہمیں بد گمانی میں مبتلا کر دے اور ان سے فاصلہ بڑھا دے تو یہ باطل احساس ہے۔
ہر وہ احساس جو رہبر و رہنما پر یقین کو بڑھا دے اور گمان کو مثبت رکھے وہ حق احساس ہے۔

🕹 7۔ باطل احساس ایک چبھن کا احساس ہے۔ جب باطل احساس پرحملہ کرتاہے تو اسکی پہچان یہ ہے کہ ہمیں مسلسل دل میں نوک کی طرح چبھتا ہوا ایک احساس ہوتا ہے جس کی وجہ ڈھونڈنے پر مل جاتی ہے۔ و ہ وجہ اگر کسی چیز یا شخص سے وابستہ ہے تو اس چیز یا شخص کے سامنے آنے پر وہ نوک بار بار چبھتی رہتی ہے۔ اس چبھن سے ہم اس باطل احساس کو پہچان سکتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں حق احساس نرمی کا احساس ہوتا ہے۔

🕹 8۔ باطل احساس ایک کڑھن کا احساس ہے۔یہ کڑھن کااحساس دل میں ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ یہ بھی ہم اس طرح سے پہچان سکتے ہیں کہ کسی بھی معاملے یا کسی بھی شخص کے حوالے سے دل کڑھتا ہو اور وہ شخص یا معاملہ سامنے آ جائے تو وہ کڑھن بڑھ جاتی ہے۔
دوسری طرف حق احساس کو ایسے پہچان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر دل میں لطیف سے احساس چل رہے ہوتے ہیں اور چاہے کوئی شخص سامنے آئے یا نہ آئے اور وہ چاہے جیسے بھی ایکشن یا ری ایکشن کا مظاہرہ کر رہا ہو اس کا عمل جیسا بھی ہو ہماری مثبت سوچ یاہمارے دل کے لطیف احساسات میں تبدیلی نہیں آتی۔

🕹 9۔ باطل احساس ایک بوجھ کا احساس ہوتا ہے جو دل پر پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس بوجھ کے احساس کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں باطل ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ چاہے ہماری انا، ہماری مرضی، ہماری پسند یا کسی بھی طرح ذات کا اٹھنا ہو ، اس کے نتیجے میں دل پر بوجھ بڑھتا ہے۔
حق احساس دل کے اندر ایک ہلکے پن، ایک سرور اورسکون کااحساس ہوتا ہے۔




🕹10۔ کبھی بھی کسی بھی صورتحال میںبے بسی کا احساس باطل احساس ہے۔
حق احساس خود پر کسی کا اختیار ہونے کا احساس ہے۔کسی کے بس میں ہونے کا احساس ہمیشہ یقین کو بڑھائے رکھتا ہے کہ ہم کسی کے اختیار میں ہیں۔اور یقین کی پختگی کہ مجھ پر میرے اللہ کا اختیار ہے،اس کا اظہارعمل سے بھی ہوتا ہے۔

🕹11۔ باطل احساس ایک خوف کا احساس ہوتا ہے۔اپنی منزل ، اپنی ورکنگ، قربت یاکسی بھی حوالے سے خوف کا مطلب ہے باطل نے یہاںبھی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
حق احساس نڈر ہونے کا احساس ہے جو ہر طرح کے حالات میں لجپالوں کے سہارے اور اس یقین پر قدم اٹھواتا چلا جاتا ہے کہ ہر قدم کے نیچے زمین ضرور عطا ہوگی۔

🕹12۔ باطل ہمیں تنہائی کا احساس دیتا ہے۔ جس وقت بھی ہم کہیں نہ کہیں پھنسے ہوتے ہیں تو اسکی ایک پہچان تنہائی کا احساس ہے۔ چاہے پھر ہم اپنوں کے ساتھ بیٹھے ہوں تو بھی ہمیںایک تنہائی کا سا احساس رہتا ہے کہ ہم اکیلے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف حق احساس ’ ساتھ‘ کا احساس ہے، جیسے بن دیکھے اللہ اور پیاری ہستیوں کے ساتھ اور پیار کااحساس حق احساس ہے۔

🕹13۔ احساس غفلت باطل احساس ہے۔ چاہے سفر کے حوالے سے ہویامشن ورکنگ کے حوالے سے ، ایساجو بھی احساس ہے وہ باطل ہے۔
احساس ذمہ داری حق احساس ہے، مشن سے جڑی ذمہ داری نبھانا، احساس ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے معاملات کو سیٹ کرنے کے پیچھے حق احساس ہے۔

🕹14۔ دل کی حالت اپ ڈاﺅ ن کرنے والا کوئی بھی احساس باطل احساس ہے جسے ہم اگنور کر دیتے ہیں اور پھر اسکی جڑ کو نہیں پکڑ پاتے ہیں اگر یہیں سے ہم پکڑ لیں کہ جس لمحے کسی سوچ یااحساس کی وجہ سے دل اپ ڈاﺅن ہوا وہ باطل ہے۔ کسی بھی پوائنٹ پر دل کی حالت زیرو پر رہنے یعنی اس میں ٹھہراﺅ ہونے کے پیچھے مرکز سے جڑا کوئی حق احساس ہوتاہے۔

🕹15۔ اپنے معشوق، رہبر اور رہنما یا کسی بھی ساتھی کے ساتھ ڈس کنکٹ ہونے کا احساس باطل احساس ہے۔
احساس، سوچ اور جذبات کا اپنے مرکز سے جڑے ہونے یا کنکشن کا احساس حق احساس ہے۔ ہم پیار اور محبت کے ایک بونڈ میں خود کو محسوس کرتے ہوئے دل سے جڑے ہوتے ہیں۔

🕹16۔ ادھورے پن کا جو بھی احساس ہوتا ہے ،چاہے وہ کسی بھی حوالے سے ہو، ہمارے سفر، ورکنگ ،معشوق کے حوالے سے یا کوئی بھی اور معاملہ جس کی بنا پر ہم ادھوراپن محسوس کرتے ہیںاور اس احساس میں کسی طرح کی پوزٹیوٹی نہ ہو تو وہ باطل احساس ہے۔
اس طرح کا ادھوراپن ہم اس وقت محسوس کرتے ہیں جب اندر سے ہم مرکز سے جڑے نہیں ہوتے۔اندر سے اپنے اصل کے ساتھ جڑے نہ ہونے پر کمی کا احساس اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک ادھوراپن محسوس ہوتا ہے۔ دل میں سکون نہیں ہوتا۔ یہ احساس نیگٹیو ہوتا ہے۔اس وقت ہم اس کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت ہم کسی نہ کسی طرح دنیا ،نفس یا ذات میں پھنسے ہوتے ہیں۔ہمیں پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ اندر کوئی ادھوراپن چل رہا ہے لیکن ہم اسے احساس سے پکڑتے نہیں ہیںکہ ادھوراپن جس بھی وجہ سے ہے اس کی جڑ کو پکڑیں۔
دوسری طرف ایک ادھورا پن وہ ہوتا ہے جس میں ہم کہتے ہیں...ادھورے ہیں آپ کے بنا... یہ ایک حق احساس ہے۔
ایسے میں ہم کہیں بھی ہوں، ظاہر میں پاس ہوں یا نہیں ہم خود کو مرکز سے جڑا محسوس کرتے ہیں، اپنے رہبر و رہنما ، معشوق اور لجپالو ںکے قدموں میں، ان کی نظر میں ہونے کے احساس اور یقین مضبوط ہوتے ہیں۔وہ ظاہر میں پاس بلائیں یا نہ بلائیں لیکن ہم ہر لمحہ بن دیکھے ساتھ کو دل سے محسوس کرتے ہیں تو ادھورے پن کے احساس میں کوئی نیگیٹوٹی نہیں ہوتی بلکہ انہی سے جڑ کر مکمل ہونے کی طلب اور یقین ہوتا ہے۔

🕹17۔ جب کہیں ہم پھنسے پڑے ہوتے ہیں تو وہاں خالی ہاتھ رہ جانے کا جو احساس ہوتا ہے وہ باطل احساس ہوتا ہے۔ ہمیں بےشمار پاور عطا کی گئی ہوتی ہے اور سب سے بڑا سورس آف پاور رہبر و رہنما کا ساتھ ہے۔ہم وہاں اس طاقت کو محسوس نہیں کر پا رہے ہوتے۔باطل ہم سے جوابی لڑائی کی طاقت چھین لیتا ہے۔
ہمارے اندر Fight Back Spirit یعنی باطل کے مدمقابل ڈٹ جانے کا جذبہ موجود ہونے کے پیچھے حق احساس ہوتا ہے۔

🕹18۔ بکھری بکھری سی کیفیت کا احساس باطل احساس ہوتا ہے۔یہ تب ہوتا ہے جب ہم مرکز کے گرد نہیں گھوم رہے ہوتے۔ اپنے احساس ،سوچ یا عمل کو مرکز سے ریلیٹ نہیں کرتے اور ٹرائی اینگل کو مس کر دیتے ہیں تواندربھی بکھرا پن ہوتا ہے اورظاہری معا ملات بھی بکھرے ہوتے ہیں۔باطل اندر کو الجھا دیتا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آنے دیتا۔
اندر کا مرکز سے جڑا ہوناہمارے الجھے احساسات ،بکھرے خیالات اورمنتشر سوچوں کو ایک نکتہ پر مرکوز کرتا ہے۔ یوں ایک دائرے میں یا محور کے گرد گھومتا سمٹا / سلجھا ہوا ہراحساس اور جذبہ جو مرکز سے جڑا ہو ، حق ہے۔

🕹19۔ باطل احساس بے سائبا ں رہ جانے کا احساس ہے۔یوں جیسے ہم تپتی دھوپ میں کھڑے ہوںاور ہمارے سر پر کوئی سایہ نہ ہو تو ہم تپش محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح کسی طرح کی تنگی یا مصائب میں ننگے سر ،بے سائباں ،بے سایہ ،تپش میں کھڑے ہونے کا احساس باطل احساس ہے۔
ہرطرح کے حالات میں اپنے لجپالوں کے مہربان سایہ میں ہونے کے یقین کی بنا پر دل میں اترا ہو اٹھنڈک کا احساس حق احساس ہوتا ہے۔
ہم کہتے ضرور ہیں کہ سائے میں ہیں،کملی میں ہیں لیکن جب جب احساس اور یقین مس ہوتا ہے تو تب اس سائے میں ملنے والی راحت اور ٹھنڈک کی حقیقت دل پر کھلتی ہے۔اور پھر دوبارہ اس سائے کی طرف بھاگتے ہیں اور ہر بھاگتے قدم کی طاقت کے پیچھے کوئی حق احساس ہوتا ہے۔

🕹20۔ کوئی بھی اَڑتا ہوا احساس، اَڑتی ہوئی سوچ باطل ہے۔جہاں ہم اَڑ گئے اس کے پیچھے ذات ہوتی ہے جس کا اظہار آگے جا کے عمل سے ہوتا ہے۔
کوئی اُڑتا ہوا احساس حق احساس ہے۔ کسی بھی حق کے راہی کے دل کواُڑتا ہوا احساس ذات کی قید سے آزادی کی وجہ سے اندر کی پرواز سے ملتاہے۔

🕹21۔ حق کی راہ پراپنی کوششوں کے لا حاصل رہ جانے کا احساس کہ جو جو کوشش کی وہ بے کار اور لاحاصل ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہے، اس لا حاصل رہ جانے کا احساس باطل احساس ہے۔
ہر کوشش کو بروئے کار لاتے ہوئے حاصل اور وصول سے بالا تر کر دینے والی سوچ اور احساس حق ہے۔

🕹22۔ حق کی راہ پر کسی بھی طرح کی ذاتی غرض کا احساس باطل احساس ہے۔
حق کی راہ پرآگے بڑھتے ہوئے بے غرض ہو کر اپنا آپ پیش کئے رکھنے کااحساس ،حق احساس ہے۔

🕹23۔ ہر تناو کا احساس باطل احساس ہے۔کسی بھی معاملے میں ہمارے اندر کے تن کے کھڑا ہو جانے کے پیچھے باطل احساس ہوتا ہے۔ ہر معاملے میں جھکاﺅ، یعنی جھک جانے کے پیچھے حق احساس ہے۔

🕹24۔ باطل احساس سوالوں میں الجھا ئے رکھتا ہے۔ اندر لمبی کہانی چلتی ہے جس کی جڑ میں بے بنیاد سوچیں ہوتی ہیںجنھیں کسی سے شئیر بھی نہیں کرتے۔ ایسے میں اندر ایک وحشت ناک سی خاموشی کی کییفیت ہوتی ہے۔ یہ وہ خاموشی ہوتی ہے جو اندر کو کاٹتی رہتی ہے۔حق احساسات کو کھا جانے والی ہوتی ہے۔اور باطل نے اندر کو جب جکڑا ہوا ہوتا ہے تو یہ تبھی محسوس ہوتی ہے۔نہ ہم باہر سے کسی کی بات سن سکتے ہیں اور نہ ہی اندر سے کوئی مثبت جواب دل محسوس کر پاتا ہے۔
حق احساس دل کو مرکز سے جوڑ کر دھڑکن کو محور کے گرد ر واں رکھتا ہے۔دل روانی میں چل رہا ہوتا ہے توساتھ کے احساس میں دل ہی دل میں اپنے پیاروں سے گفتگوبھی چلتی ہے۔ہم اپنے ہر سوال کا اندر سے جواب بھی محسوس کر پا رہے ہوتے ہیں۔اب بھی اندر خاموشی تو ہوتی ہے مگریہ بھلی لگتی ہے۔اندر کو کاٹتی نہیں حق والوں سے جوڑتی ہے۔



🕹25۔ مصیبت میں پڑے ہونے کا احساس باطل احساس ہے۔کسی قسم کی تنگی مشکل اور پریشانی میں مصیبت میں گھِر جانے کا احساس باطل احساس ہے۔ ہم اچھے بھلے ایک سفر میں چل رہے ہوتے ہیں اور ہم نے ہر معاملے کی نسبت اپنے پیاروں سے جوڑی ہوتی ہے جب یہ مس ہو جاتا ہے تو وہی معاملہ جسے ہم پہلے آزمائش سمجھتے ہیں وہی اب مسئلہ اور مصیبت بن جاتا ہے۔مصیبت کا احساس باطل کی طرف سے ابھارا گیا ہوتا ہے۔
جب نسبت جوڑ کے چلیں تو ہم اس نسبت سے ہر معاملے کو نہ صرف اپنی آزمائش سمجھ رہے ہوتے ہیں بلکہ وہاں سے درد بھی لے رہے ہوتے ہیں۔
آزمائش میں سے گزرنے کا احساس حق احساس ہے اور مصیبت میں پڑے ہونے کا احساس باطل احساس ہے۔

🕹26۔ کسی معاملے میں بار بار منفی سوچ اٹھنا اور اسی میں پھنسنا اور اس میں پھنسنے سے انکار بھی کرتے جانا ، اس کے پیچھے باطل ہوتا ہے۔ہم پھنستے ذات میں ہیں اور ایسی پھنسی ہوئی سوچ کے پیچھے بھی ذات ہی ہوتی ہے۔
حق پر مبنی سوچ آزاد سوچ ہوتی ہے کیونکہ وہ حق والوں سے جڑی ہوتی ہے اور اس کی کنڈی ذات میں نہیں اڑی ہوتی۔

🕹27۔ جس وقت بھی باطل کا حملہ ہوتا ہے تو ہماری زبان سے بہت سے جملے بار بار ادا ہونے لگ جاتے ہیں جس کی وجہ احساسات میں ہی ان جملوں کا چلنا ہوتا ہے لیکن ہم ان احساسات پر گرفت نہیں کر پاتے ہیں جیسے کہ اکثر ہم ایسے بولتے ہیں کہ:
پتا نہیں یہ ایسے کیوںہوا، پتا نہیں یہ ویسے کیوں ہوا ،پتا نہیں یہ ایسے ہونا چاہیے تھا، پتا نہیں یہ ایسے کرنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔
اس پتا نہیں پتا نہیں،کے پیچھے باطل احساس ہوتا ہے جب کہ ہمیں پتا ہے کیونکہ ہمیں حق کی آشنائی دی گئی ہے۔
اس کی مثال ایسے ہے کہ ہم کہیں کہ پتا نہیں کیوں میرے رہبر و رہنما نے میری تعریف سب کے سامنے یا میرے سامنے کبھی نہیں کی۔ اوروں کی تعریف کرتے ہیں مگر میری تعریف پتا نہیں کیوں نہیں کرتے۔ اب اس سوچ کو اگر نہ پکڑیں تو ا ندر پتا نہیں پتا نہیں کی جو گردان چل رہی ہوتی ہے اسی میں باطل پھنسا سکتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں بے یقینی پیدا ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو ہمیں حق کی آشنائی دی گئی ہے۔ ہم اس پتا نہیں کی گردان کی بجائے اگر حق کی آشنائی کی مدد سے اس پوائنٹ کی مثبت وجہ ڈھونڈیں تو وہ مل جائے گی اور اب ہم کہیں گے کہ ہمیں پتا ہے کہ رہبر و رہنما تعریف نہیں کرتے کیونکہ اگر تعریف ہو گئی تو ہم مطمئن ہو جائیں گے،نفس پھول جائے گا۔ میں یا انا آ سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں پتا تو ہوتا ہے۔’ پتا نہیں ‘ کا جو منفی احساس دل میں بیدار ہو اوریقین کو کمزور کرے وہ باطل احساس ہے۔ اور آشنائی حق کی بنا پر پتا ہونے کا احساس جویقین بڑھا جائے، وہ حق احساس ہے۔

🕹28۔ پھر اسی طرح سے ہم کہتے ہیں کہ اس اس طرح سے تو ٹھیک ہے ’لیکن‘.... اب جہاں سے یہ لیکن شروع ہوتا ہے اس میں اکثر باطل ہوتا ہے۔
جیسے کہ ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے ہمیں رہبر و رہنما پیار دیتے ہیں ہمیں قریب کرتے ہیں، ہم پر عطائیں ہیں لیکن... اگر یوں اور اس اس طرح سے ...ایسے ایسے ہوتو بہت اچھا ہے...وغیرہ
اس ..لیکن... کے بعد وہ سب ہوتا ہے جو ہماری توقع ہے یا جوہم چاہتے ہیں۔ لیکن کے بعد کی کہانی میں باطل ہوتا ہے جو توقعات کو بڑھا کے ڈیمانڈ میں بدل دیتا ہے اوراصل کی طلب کو ختم کر دیتا ہے۔ اپنی مرضی، اپنی توقعات کو ختم نہیں کرنے دیتا اور طلب کو اللہ کی مرضی تابع نہیں ہونے دیتا۔
یہاں حق احساس یہ ہوگا کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ اللہ والے پیار دیتے ہیں اور ہم تو اس پیار کے بھی قابل اور لائق بھی نہیں ہیں جووہ دیتے ہیں۔ ایسی کوئی مثبت سوچ ابھرے گی تو اس میں جو جواب ہو گا وہ ’لیکن‘ کو مٹا جائے گا۔



🕹29۔ اسی طرح سے سوچ میں’ اگر مگر ‘بہت چل رہا ہوتا ہے کہ میں بھی آگے بڑھ جاتی مجھے بھی یہ عطا ہو جاتا اگر ایسے ایسے ایسے ہو جاتا ...
اگر مجھ پر بھی یوں نظر کرم ہوتی اور فلاں چیز ایسے ہو جاتی...
اگر ویسے ہوتا...مگر کیونکہ ایسے نہیں ہوا تو ....وغیرہ وغیرہ
یہاں اگر مگر کے منفی احساس سوال کی صورت میں اٹھنے کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں باطل ہوتا ہے۔
اس اگر مگر کے آگے پیچھے باطل احساس کو اگر مگر سے ہی پکڑ لیں تو پھر ہمیں اپنی اوقات یاد رکھنے میں اور اپنی اوقات میں رہنے میں بہت مدد ملتی ہے کیونکہ وہ اوقات میں رہناا س اگر مگر کو مٹا کر ہمیں کوئی ایسامثبت پہلو دکھاتا ہے کہ اس اگر مگر کے آگے پیچھے کچھ نہیں ہے بلکہ اس اگر مگر کا احساس میں اٹھنا ہی اصل میں باطل ہے اور ہم نے اس اگر مگر کو یہیں سے ختم کرکے اپنی اوقات یاد رکھ کے آگے بڑھنا ہے۔

🕹30۔ اس طرح بھی ہوتا ہے کہ بظا ہر کوئی غلطی مان بھی لیں کہ ہاں یہ غلطی ہوئی مگر اندر تسلیم نہیں کرتا... کہ نہیںنہیں ایسے تو نہیں ہے ... ہم اندر ہی اندر سوال جواب کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہاں ہا ںٹھیک ہے ہم نے مانا کہ پھنسے ہیںلیکن اس ماننے میں ندامت کا احساس نہیں ہوتا۔
اب اس طرح غلطی کا واجبی سا اقرار کرکے ہم باطل کو اس کے گھر تک چھوڑ کر نہیں آتے یعنی اس کی جڑ نہیں نکالتے۔ ہم کہتے ہیں ہاں ٹھیک ہے مگر وہ کہنا بھی یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے کہا ہو، نہیں نہیں، ایسا تو کچھ نہیں ہے۔ اس’ ہاں ٹھیک ہے کہ پیچھے بھی نہیں نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے‘ ہی کی آواز آ رہی ہوتی ہے۔
اکثر ایسے باطل نے جو نیگیٹوٹی ہمارے اندر ڈالی ہوتی ہے اسی کی وجہ سے ہماری بات’ نہیں‘ سے شروع ہوتی ہے جیسا کہ ہم کہیں گے نہیں، نہیں میرا یہ مقصد نہیں تھا،اب اس کے پیچھے بھی باطل احساس ہوتا ہے اور اس نہیں نہیں کے پیچھے بھی باطل کے چھپے احساس کو پکڑا جا سکتا ہے۔

اور اگر حق احساس ہو گا تو ہم کہیں گے کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی اور ہاں میں پریشان ہوں اور مجھے یہاں سے نکالو۔

🕹ٓٓٓ31۔ اندر ایک ہائے کا احساس باطل احساس ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگرسفر میں آگے بڑھنے اور عطاﺅں کے حوالے سے دیکھیں توجب کسی کا سفر آگے بڑھایا جا رہا ہو تو ایک دفعہ تو اندر اوپر نیچے ہوتا ہے کہ ہائے ہمارانام نہیں آیا، ہائے ہم آگے نہیں بڑھے، ہائے فلاں آگے بڑھ گیا، ہائے فلاں سے پیچھے رہ گئے، اس طرح اندر ایک ہائے کا احساس اٹھنے سے بھی باطل کی پہچان ہو سکتی ہے۔
یہاں حق احساس اندر ہو تو ہم کہتے ہیں کہ شکر ہے کہ ہمیں جس طرح نوازا جا رہا ہے وہ ہماری اوقات سے بڑھ کر ہے۔

🕹32۔ ’کاش ‘کا احساس بھی ایک کہیں اندر چل رہا ہوتا ہے جس کے پیچھے کبھی باطل ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ لفظ بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر زبان پر آتا ہے لیکن پھر بھی سوچ میں یہ ایسے ہوتا ہے کہ کاش ایسے ہو...کاش ویسے ہو. ..کاش وہ پاس بلا لیں ...کاش واپسی کا سفر ہو اورہمیں بھی ساتھ ہی لے جائیں...کاش مجھے دیدار عطا ہو وغیرہ۔ بظاہر یہ طلب ہی ہوتی ہے لیکن کہیں نہ کہیں اس سوچ کو اگر ہم پکڑ لیں تو بھی باطل کا وار پکڑا جا سکتا ہے کیونکہ یہ اسی میں پھنسا کر ڈاﺅن سے ڈاﺅن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور حق کی راہ پر جاری رہنے والی کوشش میں خلل ڈالتا ہے۔
حق احسا س ہر لمحہ کے ساتھ کے احساس کو مضبوط کرتے ہوئے آنے والے ملن کے وقتوں کی چاہ کو ہماری پاور بنا کر ہمیں اپنا ہر لمحہ پسندیدہ انداز میں گزارنے اور امت کا درد لے کر مشن ورکنگ کو جنون سے کرنے میں مدد کرتاہے۔

🕹33۔ باطل احساس دل میں گھٹن پیدا کرتا ہے اور حق کھِلا سا احساس دیتا ہے۔


🕹34۔ باطل احساس پریشانیاں اور اندیشے بڑھاتا ہے۔ حق احساس یقین کی مضبوطی عطا کرتا ہے۔

🕹35۔ باطل احساس راہ فرارد کھاتا ہے کہ سب چھوڑ دو ، پیچھے ہٹ جاﺅ۔یہ مدد مانگنے سے روکتا ہے۔
حق احساس کوشش کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے ہے کہ کوشش تو کرو اور آگے بڑھ کر رہنمائی لویعنی ہاتھ پاﺅں مارنے کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔

🕹36۔ باطل احساس رہبرو رہنما سے گیپ دلوا رہا ہوتا ہے مثلایوں بدگمان کرتا ہے کہ وہاں شیئر نہ کرو ڈانٹ پڑے گی کہ ابھی تک انہی پوائنٹس میں پھنس رہے ہیں وغیرہ
حق احساس رہبر و رہنما کے اور قریب لے جا رہا ہوتا ہے کہ ہم نے انہی کی رہنمائی میں ان کے ساتھ حق کی راہ پر بڑھنا ہے۔ یہ گیپ کو ختم کر کے اور قریب کر رہا ہوتا ہے۔

🕹37۔ باطل احساس اندر کو ڈھیٹ کر کے غلطی ماننے نہیں دیتا۔ حق احساس اپنی غلطی کو منوانے کی طرف لے کے آتا ہے۔

🕹38۔ باطل احسا س کسی شے کو ناممکن دکھاتا ہے کہ بس اس وقت دل کی جو حالت اور عمل کا جو لیول ہے اس میں بہتری ناممکن ہے۔اس لیئے سوچتے رہو ،ایک ہی جگہ بیٹھے رہو، آگے نہ بڑھو۔
حق احساس ہمیشہ ہر شے کو ممکن دکھاتا ہے اور کوئی نہ کوئی سٹیپ اٹھواتا ہے کہ یوں اللہ اور اللہ والوں کو پکارو اور مدد سے قدم آگے بڑھا ﺅ۔

🕹39۔ پھنسی ہوئی اٹکی ہوئی نظر کے پیچھے باطل ہوتا ہے۔ یہ محدود ہوتی ہے۔اس میں کھلا پن نہیں ہوتا۔ گھٹن تنگی ہوتی ہے اور ہم کوئی مثبت پہلو نہیں دیکھ پاتے۔
مرکز و محور اور منزل پر جمی ہوئی نظرکے پیچھے جو بھی احساس ہو وہ حق پہ مبنی ہوتا ہے۔

🕹40۔ باطل احساس ساتھیوں کے ساتھ فاصلے بڑھاتا اور ان کے لئے دل میں ایک تنگی کا احساس لاتا ہے۔
حق احساس کسی کے لئیے بھی دل میں وسعت بڑھاتا ہے۔

🕹41۔ باطل احساس شکوک و شبہات پر مبنی احساس ہوتا ہے۔ حق احساس یقین پر مبنی ہر احساس کو کہتے ہیں۔

🕹42۔ باطل احساس اللہ اور اللہ والوں سے شکوہ کرواتا ہے۔ حق احساس شکر ادا کرواتا ہے۔

🕹43۔ باطل احساس منفی سوال اٹھاتا ہے۔ حق احساس خود مثبت جو اب ہوتا ہے۔




🕹44۔ باطل احساس ہر جگہ خود کو منواتا ہے۔ حق احساس ہر جگہ اللہ اور اللہ والوں کی منواتاہے۔

🕹45۔ باطل احساس بن دیکھے پہ سوال اٹھواتا اور حق احساس بن دیکھے کو منواتا ہے۔

🕹46۔ باطل احساس رات کی تاریکیوں کی طرح ہوتا ہے دلوں میں ظلمت بڑھاتا ہے۔ حق احساس دن
کی روشنی کی طرح ہوتا ہے دلوں کو روشن رکھتا ہے۔

🕹47۔ باطل احساس ایمان کو کمزور کرتا ہے۔ حق احساس ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔

🕹48۔ باطل احساس ذات کاپردہ ڈال کر راستے روکتا ہے اور حق احساس ذات کا پردہ اٹھاکر راستے کھولتا ہے۔

🕹49۔ باطل احساس منزل سے فاصلے بڑھاتا ہے۔ حق احساس منزل سے قریب تر لے کے جاتا ہے۔
🕹50۔ باطل احساس ظاہر کی تبدیلی لاکر اندر کا فرق نہیں لاتا اور منافق بناتا ہے۔ حق احساس اندر اور باہر دونوں کو بد ل دیتا ہے اور سچا بناتا ہے۔

🕹51۔ باطل احساس خود کو پیش کرنے سے ڈراتا ہے اور حق احساس خود کو پیش کرکے خود کو خود سے کٹواتاہے۔

🕹52۔ باطل احساس عزت کی فکر ڈلواتا ہے۔ حق احساس عزت کو خود چوک میں پیش کرکے خود اترواتا ہے۔

🕹53۔ باطل احساس ایسا ہی ہے جیسا جوہڑ کا رکا ہوا میلا گندا پانی اور حق احساس کی مثال بہتے ہوئے شفاف پانی سی ہے۔

🕹54۔ باطل احساس بجھی ہوئی قندیلوں کی مانند ہے اور حق احساس جلتے ہوئے چراغ کی مانند ہے جو ہر سمت روشنی کرتا ہے۔

🕹55۔ باطل احساس اپنی فکر میں پھنسا دیتا ہے اور حق احساس امت کی فکر کرواتا ہے۔

🕹56۔ باطل احساس اپنے دکھ درد کو اہم کرواتا ہے اور ان کو بڑھا کر دکھاتا ہے۔ حق احساس حق والوں کے درد کو اہم بناتا ہے اور اس کا مرہم بننے کی کوشش کرواتا ہے۔

🕹57۔ باطل احساس امتی سے نفرت کرواتا ہے اس کی برائی کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے۔ حق احساس امتی سے پیار بڑھاتا ہے، اس کی برائی سے نفرت کرواتاہے۔

🕹58۔ باطل احساس اپنے کئے پر مطمئن کر کے پیروی سے روکتا ہے کہ جو کررہے ہیں وہی کافی ہے۔ حق احساس پیروی کا جذبہ بڑھاتا ہے اور کبھی مطمئن ہونے نہیں دیتا۔

🕹59۔ بے چینی بے سکونی کا منفی احساس باطل ہے۔ سکون کا احساس ، حق احساس ہے۔

🕹60۔ بے چارگی کا احساس باطل احساس ہے۔ ہر حال میں چارہ گری پر یقین کا احساس حق احساس ہے۔
🗡”باطل سے جنگ جاری رہے گی“🗡