اسرارِ عشق 121 سے 129


🔥121۔ محبت دل و جان... اندر باہر...تن من دھن... سب کچھ محبوب پر لٹا دینے... صرف اور صرف محبوب کو دیکھنے... اسی کی چوکھٹ پر سر جھکائے... دل تسلیم خم کر دینے کا نام ہے۔

🔥122۔ محبت میں محبوب سے ایسی اپنائیت ہو کہ اس کے صرف اپنا ہی ہونے کا یقین ہو۔ محبت میں شک کی گنجائش نہیں ہو تی۔

🔥123۔ کہا جاتا ہے کہ محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے۔ اور اگر یہ بات درست تسلیم کی جائے تو پھر محبت یکطرفہ ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ دوسری طرف سے ایسی گرم جوشی کا اظہار نہ ہو۔ ایسی صورت میں محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ محبت کرنے والا اپنی محبت کو بنا کسی ردعمل کے نبھاتا جائے۔

🔥124۔ محبت میں تو قعات نہیں ہوتیں۔ محبوب کی مانتے جانا ہوتا ہے۔ محبوب کی نظر سے ہر چیز کو دیکھنا... مزاج یار کو اپنا مزاج بنا لینا ...ہر خوشی اور ہر غم کو محبوب سے منسوب کر دینا ...یہی محبت ہے۔

🔥125۔ محبت میں شکوہ نہیں ہو تا۔ شکوہ محبت کے خالص پن کو ختم کر دیتا ہے۔ شکوہ محبت کی موت ہے۔

🔥126۔ محبت ایک بہت پیارا اوردل کومہکا دینے والا جذبہ ہے ۔محبت میں اپنے محبوب پر یقین کا مل بہت ضروری ہے اور یہی یقین محب کی طاقت بن جا تا ہے

🔥127۔ چرخا کیا ہے...؟
چرخا تو دراصل ماہیے کو دیکھنے کا ایک بہانا ہے۔ اس کے دیدار کو پانے کا... اس کی نظر میں رہنے کا ایک بہانہ ہے۔ دنیا کو پتا بھی نہ چلے اور اسی کی تلاش میں بیٹھے ہیں اور اس کی تلاش ہم سے کچھ بہترین کروا رہی ہے اور ہم چرخے پر کات رہے ہیں۔ تانا بانا بُناجا تا ہے۔ پونیاں کاتی جاتی ہیں۔ ہمیں یہ سب ہمارے ماہیے کی محبت کرواتی ہے ۔ اور ہم بہانے بہانے سے صرف اسی کو ہی ڈھونڈتے بھی رہتے ہیں۔ اور آنے جانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم بیٹھے کوئی کام کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے دل کی اور ہی صدا ہو تی ہے۔ اور آنکھیں کسی اور کو ہی تلاش کر تی ہیں۔ دراصل یہ بھی ماہیے کی ہم پر مہربانی ہوتی ہے کہ وہ ساتھ میں ہم سے بہترین کام بھی لے رہا ہوتا ہے۔

🔥128- عشق یہ ھے کہ۔۔۔
جسم جدا مگر دل ایک ہو جائیں۔

🔥129۔ دل جلوہ گاہ جاناں....!
اگر کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ دل جلوہ گاہ جاناں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ کوئی جاناں بھی ہوتا ہے۔ اور اس کے جلوے بھی کہیں ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت دل میں بستا ہے۔ جس کا کوئی جاناں نہیں وہ پتھر دل ہیں کیونکہ پھر اس کے دل نے تو کچھ جانا ہی نہیں۔


🔥130. عشق میں ہر عاشق مجبور ہوتا ہے جتنا عشق بڑھتا جائے گا اتنی ہی مجبوری بڑھتی جائے گی۔
عاشق اپنے عشق سے مجبور ہو تا ہے ۔ لیکن دنیا سمجھتی ہے کہ یہ بے و قوف ہے ۔۔۔پاگل ہے۔۔۔ اسے سمجھ نہیں یا شاید بےحس ہے۔
عاشق کے عشق سے مجبور ہونے کو دنیا والے اپنے اپنے زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
اور عاشق کے اردگرد کے لوگ عاشق کی مجبوری کو اپنی اپنی ذہنیت کے حساب سے استعمال بھی کرتے ہیں۔
وہ نہیں جانتے کہ عاشق کیوں مجبور ہے....
وہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس کو کس مجبوری نے زبان ہوتے ہوئے بھی ہمیں جواب دینے سے روک رکھا ہے ......
نہیں سمجھ سکتے....
کہ اس نے تو زبان کو صرف ذکر معشوق سے وابستہ کر دیا ہے.....
زبان بھی مجبور ہے کہ بندھ گئی ہے ذکر معشوق کے ساتھ....
کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ ....
دماغ ہوتے ہوئے بھی کیوں نہیں اس ظاہر کی دنیا کے فائدے نقصان سوچتا یہ مجبور عاشق ....
دنیا والے نہیں سمجھ سکتے کہ....
اس نے روک دیا سب... اور جلا دیا دل.... اور محو ہو گیا وہاں معشوق کو آباد کر کے.... دید معشوق میں....
اور ایک لمحے کی غفلت اس کا نقصان کر دے گی....
اس لئے عاشق مجبور ہے کہ کبھی ایک پل بھی کیسے غافل ہو... اس دل سے جہاں معشوق آباد ہے....
نہیں سمجھ سکتے کہ...
ہاتھ پاﺅں... بازواور ٹانگیں ہوتے ہوئے بھی عاشق کیوں مار کھاتا ہے....
نہیں سمجھ سکتے ....
کہ عاشق نے تو خود ہی اپنے یہ اعضا کاٹ دیئے ہیں ....
کہ اسے کہیں پڑے رہنا ہے معشوق کے قدموں میں کہ ....یہی عاشق کی معراج ہے....
اس معراج کو پانے کے لئے عاشق سب اعضا کے ہوتے ہوئے بھی استعمال نہیں کرتا ....
بس گرا دیتا ہے خود کو....
اور بنا دیتا ہے خود کو معشوق کے قدموں کی دھول....
اور کون سمجھے اس مجبوری کو کہ.... آنکھیں ہوتے ہوئے بھی وہ نہیں دیکھتا کچھ سوائے معشوق کے....
اور سماعتیں ہوتے ہوئے بھی وہ نہیں سن سکتا سوائے معشوق کے........
تو مجبور تو ہوا ...ناں ...پر دنیا کیسے سمجھے عاشقِ مجبور کی اس مجبوری کو........
دنیا عاشق کو ایسا مجبور سمجھتی ہے کہ.... جو بیچارا کچھ نہیں کر سکتا....
نہیں جانتے کہ .....
عاشق اگر زبان سے بول دے تو نہیں مٹائے جاتے وہ لفظ........
اور دیکھ لے اگر عاشق ایک تیز نگاہ سے تو چیر دے پہاڑوں کے سینے........
اور اگر ہلا دے اپنا ہاتھ تو پلٹ کر رکھ دے زمانے........
اور اگر نکلے اس کی ایک سرد آہ تو کر دے سورج کو ٹھنڈا........
اور جو نکلے صدا پھاڑ کر آسمان تو ہلا دے جا کر عرش........
اور اگر عاشق کے دل سے نکلے عشق کی ذرا سی آگ... تو جلا دے دوزخ کو اور کر دے اسے راکھ......
اور ............ اور ........اور۔۔۔
مگر سمجھتے ہیں یہ دنیا والے عاشق کو جیسا ...مجبور نہیں ہے وہ ایسا مجبور.... پر مجبورِ عشق........
کہ بندھ گیا وہ اپنے معشوق کے ساتھ.... اور نہیں ہونا چاہتا....وہ جدا ایک پل ایک لمحے کے لئے بھی ....
تو اس لئے اور قرب میں جاتا اور باندھ دیا جاتا ہے معشوق کے ساتھ....
اور زیادہ ہو جاتا ہے مجبور اور زیادہ.....
اور چلتا ہے عاشق کی مجبوری کا یہ چکر .....
مجبور سے انتہائی مجبور ہو جانے کی طرف ........
مجبور ہے عاشق بہت مجبور.....
ورنہ کب کا اس جسم کے پنجرے کو پھاڑ کر نکل جاتا .....آزاد ہو جاتا... پر مجبوری ہے........
نہیں ہر گز نہیں........
کہ جب تک نہ پائے گا اذنِ معشوق ...
تو نہ پھاڑ کے نکلے گا تب تک اس جسم کے پنجرے سے ........
اسی لیئے تو عاشق جس پہ مرتے ہیں....اس کے لئے ہی تو مر بھی نہیں سکتے......!
میں عشق تیرے میں ہی تو مجبور بہت ہوں۔۔۔
مجبوری بڑی ڈاھڈی ہے اس عشق کی پیارے۔۔۔
ورنہ مجھے اس دنیا سے مجبور نہ سمجھو۔۔۔
مجبوری حالات سے مجبور نہیں ہوں
معشوق۔۔۔!!! عاشق تیرے عشق کی مجبوری سے مجبور رہتا ہے
مجبوری مجھے اتنی تیری پیاری ہے پیارے۔۔۔
پر دنیا نے تو راہ گزرتی مجھے بس دھول کیا ہے
مجبور ہوں مجبور ہوں مجبور بہت ہوں
میں عشق تیرے ہی میں تو مجبور بہت ہوں
مجبور ہوں مجبور ہوں مجبور بہت ہوں