حضرت ابو بکر شبلی ؒ کا علمی مقام اور حضرت جنید کی بارگاہ میں حاضری

حضرت ابو بکر شبلی ؒ نے متداول علوم بڑی تندہی سے سیکھے، فقہ مالکیہ میں تبحر حاصل کیا اور احادیث کی کتابت بھی کی۔ امام مالک ؒ کی مؤطا پوری کی پوری یاد تھی لیکن ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ ہی ان میں توحید اور خداشناسی بھی پیدا ہو چکی تھی اور انکشاف باطن کی جستجو بھی تھی لیکن خاندانی حالات کے سبب انھیں شاہی ملازمت میں داخل ہونا پڑا اور خاندانی کار نامو ں کے صلے میں نہاوند کے والی مقر ر ہوئے، ان کے اس دور کے حالات تفصیل سے نہیں ملتے، شاہی ملازمت کے دوران نہ معلو م کیسے کیسے تجربے خالص دنیوی زندگی سے متعلق ہوئے۔ ایک دن انھوں نے یہ طوق غلامی اتار پھینکا، گناہو ں سے توبہ کی اور تلاش حق میں نکل کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے خیر نسّاج کا پتہ بتایا جو بغداد ہی میں رہتے تھے۔ وہ وہاں پہنچے اور خیر نساج کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور معصیتوں سے توبہ کی۔ نسّاج بڑے صاحب معرفت بزرگ تھے، انھوں نے محسوس کیا کہ شبلیؒ کے ذوق وشوق، ان کی طبعیت کے جوش وخروش، ان کے عزم وہمت اور پھر ان کے علم وفضل کا تقاضا ہے کہ وہ حضرت جنیدؒ کی صحبت وخدمت میں رہیں، چنانچہ انھوں نے انھیں حضرت جنیدبغدادی ؒ کے پاس بھیجا۔
تذکرۃ الاولیاء میں روایت ملتی ہے کہ جب شبلی ؒ خیر نسّاج کے پیام کے ساتھ حضرت جنید بغدادی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سامنے ہوتے ہی عرض کیا
’’لوگوں نے آپ کے ساتھ گوہر مراد کاپتا دیا ہے۔ یو ں ہی عطا ہو گا یا قیمت سے؟‘‘
حضرت جنید بغدادی ؒ نے ان کی صورت دیکھ کر فرمایا
’’بچے! تم لے نہ سکو گے کیونکہ وہ بہت گراں ہے اور تمہارے پاس اتناسر مایہ نہیں۔ اگرمفت دے دوں تو تمہیں اس کی قدر نہ ہو گی، ہاں اگر جوانمردوں کی طرح اس دریا میں سر کے بل غوطہ لگاؤ گے اور صبر وانتظار سے جستجو کرو گے تو وہ گوہر مراد ہاتھ آجائے گا۔‘‘
چنانچہ حضرت جنید بغدادیؒ نے شروع ہی سے بڑی سخت محنت لی، انھیں نہاوند بھیجا، جہاں کے لوگوں پر انہوں نے حکومت کی تھی اور کہا کہ ایک ایک فرد سے پوچھ کر معلوم کریں کہ اگر انہوں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو وہ انھیں معاف کر تا ہے یانہیں، انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی، پھر حضرت جنیدؒ نے ان سے بازار میں کبریت بچوائی، دریوزہ گری کرائی اور اس طرح ان کے نفس کو مشیخت اور جاہ طلبی کے ہر شائبے سے پاک کیا۔ پھر تو ایسا ہو ا کی حضرت جنیدؒ کی تربیت نے انھیں کندن بنادیا اور عشق الہی میں وہ اس طرح زمزمہ پرواز ہوئے کہ ہمہ وقت اللہ کا نام لیتے اور اگر کسی اور کے منہ سے یہ نام سنتے تو اس کا منہ شکر سے بھر دیتے۔ حضرت جنید ؒ ان کی سر شاری وبے خودی کے باوجود انہیں بہت پسند کرتے تھے، اکثر فر ماتے۔
’’شبلی ہمیشہ سر شارہی رہتا ہے۔ اگر وہ کچھ ہوش میں رہنے لگے تو ایک ایسا امام ثابت ہو سکتا ہے جس سے ایک خلق کو فیض پہنچے، حضرت شبلیؒ کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف پکارتے پھرتے تھے کہ
’’شامت ہے اس کی جسے نہ پانی ڈبوتا ہے اور نہ آگ جلاتی ہے، نہ درندے پھاڑتے ہیں اور نہ پہاڑ ہلاک کرتے ہیں۔‘‘ پھر اندر کی آواز کہتی کہ ’’جو خدا کا مقبول ہو اسے کوئی دوسرا قتل نہیں کر سکتا۔‘‘ جب بہت بیتابی بڑھی تو لو گوں نے زنجیروں میں باندھ کے بٹھا دیا اور شفاخانے میں اٹھا لے گئے۔
کہتے ہیں کہ ایک دن شبلیؒ بازار میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ دیکھو وہ دیوانہ جاتا ہے۔ شبلیؒ نے یہ سن کر فرمایا، تم سمجھتے ہو کہ میں دیوانہ ہوں اور میں سمجھتاہوں کہ تم بہت ہو شیار ہو۔ خدا مجھے اور دیوانہ کرے اور تمہیں اور ہوشیار بنائے۔
حضرت جنید ؒ امام شبلی ؒ کے بارے میں اکثر یہ بھی فرماتے کہ’’لوگو! تم شبلیؒ کو اس نظر سے نہ دیکھا کرو جس طرح دوسروں کو دیکھتے ہو کیونکہ وہ ’’عین من عیون اللّٰہ‘‘ ہیں۔ حضرت جنید ؒ نے ایک موقع پر یہ بھی فر مایا تھاکہ ’’ہر قوم کا ایک تاج ہو تاہے اور ہم اہل تصوف کے تاج شبلیؒ ہیں۔

شریعت مطہرہ کی پاسداری
یہ عجیب بات ہے کہ ہمہ وقت کی سر شاری وارفتگی میں حضرت شبلیؒ کو شریعت مطہرہ اور شعائر اسلامی کا حد درجہ پاس تھا۔ رمضان کا مہینہ آتا تو طاعات الہی میں خوب سرگرم ہو جاتے اور فر مایا کر تے کہ ’’میرے رب نے اس مہینے کی تعظیم کی ہے، اس لیے سب سے پہلے مجھے اس کی تعظیم کرنی چاہیے۔‘‘
شبلی ؒ کے خادم خاص کا بیان ہے کی جب حضرت شبلیؒ پر موت کے آثار ظاہر ہو ئے، زبان بند ہو گئی اور پیشانی پر پسینے کے قظرے نمودار ہوئے تو مجھے اشارے سے بلایا اور وضو کرانے کے لیے فرمایا۔ چنانچہ میں نے وضو کرایا لیکن داڑھی میں خلال کرانا بھول گیا، انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور انگلی سے اپنی داڑھی میں خلال کرنے لگے۔ حضرت جعفر خلدیؒ جب یہ واقعہ بیان کرتے تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور کہتے، لوگو بتاؤ تو سہی! یہ کیسا باکمال شخص تھا کہ جس نے زندگی کی آخری سانس تک شریعت کے آداب میں سے ایک ادب بھی فوت نہیں ہونے دیا۔