اقوال

حضرت شبلی علیہ الرحمہ نے ایک مرتبہ فرمایا
پرہیز گاری تین طرح کی ہے
زبان سے
ارکان (اعضاء جورح) سے اور
دل سے۔
زبان کی پر ہیزگاری یہ ہے کہ جس امر سے کچھ تعلق نہ ہو اس میں انسان خاموش رہے۔ ارکان کی پر ہیزگاری یہ ہے کہ شبہات چھوڑ دیے جائیں اور جن چیزوں سے شک پیداہوتاہے انھیں چھوڑ کر اس چیز کی طرف رجوع کیاجائے جس میں شک وشبہ نہ ہو اور دل کی پرہیز گاری یہ ہے کہ ذلیل وحقیر ارادوں اور برے خیالات سے پیچھاچھڑا لیاجائے۔
ایک موقع پر شبلیؒ نے فرمایا
’’صوفی اس وقت صوفی ہوتاہے جب ساری خلقت کو اپنی عیال خیال کرے، یعنی اپنے آپ کو سب کا کفیل اور بوجھ اٹھانے والاسمجھے۔ صوفیہ نے شبلیؒ کی اس بات کو آب زر سے لکھنے کے لائق سمجھا ہے کہ ’’عارف کو کسی سے علاقہ نہیں، محب کو کوئی شکایت نہیں، خوفزدہ کو کبھی قرار نہیں اور اللہ عزوجل سے کسی کو مفر نہیں۔َ
حضرت شبلیؒ کے یہ اقوال تصوف کی بنیادی باتیں ہیں:
آزادی دل کی آزادی ہے اور بس۔
محب اگر خاموش ہوا اور عارف نہ خاموش ہوا تو ہلاک ہوا۔
شکم منعم کی طرف دیکھنے کا نام ہے نہ کہ نعمت کی طرف دیکھنے کا۔
دل، دنیا اور آخرت دونوں سے بہتر ہے کیونکہ دنیامحنت کا گھر ہے اور آخرت نعمت کا گھر ہے اور دل معرفت کاگھر ہے۔
ہزار سال کی عبادت میں ایک وقت کی غفلت رسوائی ہے۔
عبادت کی زبان علم ہے اور اشارات کی زبان معرفت ہے۔