باطل الرٹ17
باطل اور استقامت


اس راہ پر آگے بڑھتے ہوئے ہم نے سب کچھ اپنے ہاتھ سے دیتے چلے جانا ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی پوری جان لگا کر اپنی ذات مار کر اپنا آپ پیش کرتے ہوئے حق کی راہ پر سامنے آتی آزمائشوںسے گذر رہے ہوں... صرف اک اس چاہ میں کہ ”میرے مالک... تُو دیکھے مسکرا کر“۔ ایسے میںباطل اندر یہ سوچ بیدار کر ے گا کہ تم لمحہ لمحہ لگا کر اتنا کچھ کر رہے ہو پر تمہیں بدلہ اتنا نہیں دیا جا رہا۔ یا ایسے بھی آئے گا کہ کسی کو کیا پتا کہ ہم کیسے کیسے اپنا آ پ لگا رہے ہیں۔ اور اتنی کوشش کے باوجود کچھ نہیں حاصل کر رہے۔ کیا فائدہ ایسی کوشش کا وغیرہ وغیرہ ۔اب وہ بیچارگی اور لا وارثی میں لا کر ہما را یقین بھی کمزور کرے گا اور استاد اور رہنما سے ہمارے رابطہ کو بھی منقطع کر نے کی کوشش کر ے گا۔ وہ ہمیں اس سوچ اور احساس کو بیدار کر کے تھکا دے گا کہ مجھے مل کیا رہا ہے ۔ یوں یقین کم ہو گا اور پاو رکی کمی کے ساتھ ہی ہم ڈاﺅن ہو تے جائیں گے تو جذبہ کم ہو گا اور سفر کی رفتار بھی کم ہو گی۔ اور اگر ہم ایسے ہی بیچارگی اور مظلومیت میں رہے تو سفر رک بھی سکتا ہے۔جبکہ اصل میں تو جب ہمیں اپنے سفر میں آگے بڑھتے ہوئے آزما یا جا رہا ہو تا ہے ۔تو کبھی دے کے.... تو کبھی وقتی طور پر کچھ نہ دے کے بھی یقین اور استقامت کو چیک کیا جا تا ہے کہ چاہ اصل میں منزل کی ہے یا بیچ کے مقامات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس سب کا مقصد ہمیں ذاتی چاہت سے آزاد کر کے اصل منزل پر استقامت سے کھڑے رہنے کا گُر سکھا نا ہو تا ہے۔
یہاں کسی ذراسی کوشش والے کو بھی محروم نہیں رکھا جا تا۔ عطا ہر وقت ہو تی ہے۔ اور ہمیں ہماری کوشش سے سوا عطا کیا جا تا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہی ہو تی اور وہ عطا کسی بھی اور صورت کی جا رہی ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم ایسا کر رہے ہوں گے اور خالص ہو کر صرف منزل کی چاہ میں بنا یہ سوچے کر رہے ہوں گے کہ مجھے اس کوشش کے بدلے کچھ ملا بھی ہے یا نہیں تو باطل کا یہ حملہ ضرور بہ ضرور ناکام ہو گا۔ سو محتاط رہیں۔
ایسے جب بھی باطل آ ئے اسے جواب منہ پر مارو کہ ہمیں کچھ ملے یا نہیں۔ ہم حق کی راہ پر نہ صرف استقامت سے کھڑے رہیں گے بلکہ آ گے بھی بڑھیں گے۔