خود ذات پر کام کرتے ہوئے یااگر کسی کو بھی ذات پر کام سکھائیں تو کبھی پہلی بار میں ہی کچھ بھی مسلط کر نے کی کوشش نہ کریں کہ ایسے نہ کرو یا ویسے نہ کرو ۔سب سے پہلے اپنے اندریا کسی کے بھی اندر احساس بیدار ہونا ضروری ہے۔ جب اس کے اندر اللہ کی صفات کے حوالے سے اللہ کو ماننے اور یقین کرنے کا احساس پیدا ہو جائے توپھر اس کو فرائض کی طرف لایا جائے۔ ہمارے پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ اسلام کی تبلیغ کرنے لگے تو انہوں نے بھی پہلی دفعہ سے ہی نماز کا حکم تو نہیں دیاتھا۔ ابتداءکے کم از کم 10سال صرف اور صرف اللہ کا پیغام دیتے رہے تھے ۔صرف اللہ کا احساس آشنائی دیا اور پھر نماز کا حکم آیا تھا ۔اولاََ صرف اللہ کے ایک ہونے اس کے سامنے جھکنے اور صرف اسی کو عبادت کے لائق سمجھنے کا احساس اندر اتارا گیا۔ سو ہم اب بھی جب کبھی کہیں کسی کو اسلام کی تعلیم دینے لگیں تو پہلے روز سے ہی اس پر نماز کو ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔ پہلے احساس پیدا کریں کہ وہ نماز ادا کر تے ہوئے کس کے سامنے پیش ہو تے ہیںپھر اس کے بعد نماز پڑھائیں کیونکہ ظاہر ہے کہ نماز ضروری ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔اللہ کے احساس آشنائی کی تربیت نہیں ہوتی اس لیے احساس نہیں ہو تاکہ نماز کس کے سامنے پیش ہونے کا اور بات کرنے کا وقت ہے ۔اس بات کی اہمیت کے احساس کی کمی کی وجہ سے نماز کی ادائیگی کا لطف و سرور بھی پیدا نہیں ہو تا۔ وہ محض ایک مشق بن جا تی ہے۔اس لیے پہلی دفعہ میں اللہ کا احساس، اس کی وحدانیت اور اس کے عبادت کے لائق ہونے کا احساس پیدا کریں تاکہ معلوم ہو کہ کس کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں لی جا سکتی ہے کہ اگر ہم کسی سکول کے پرنسپل کو جانتے نہ ہوں اور اسکے ساتھ بات کر رہے ہوں تو ہمارا انداز گفتگو بہت نارمل ہو گا ہم عام سے طریقے سے بات کریں گے ۔لیکن اگرہم جان لیں کہ وہ پرنسپل ہیں تو ہمارا گفتگو کا انداز فوراََ بدل جائے گا۔ کیونکہ جب تک ہمیں معلوم نہ ہو تو اس وقت تک ہم اس طرح سے متوجہ بھی نہیں ہو تے ۔ جیسے ہی پرنسپل کے عہدہ پر ہونے کے بارے میں جانتے ہیں ہماری توجہ بھی بڑ ھ جاتی ہے۔ ہمارے دل کی حالت، ہمارا رویہ اور انداز گفتگو بھی بدل جا تا ہے۔ یا ایک اور مثا ل لیں اگر ہم اپنے ہی گھر میں کام کر رہے ہوںاور باہر سے کوئی اجنبی آ جائے تو ہو سکتا ہے وہ اس بناءپر کہ... آپ کام کر رہے ہیں آپ کو گھر کا مالک نہ سمجھے ۔لیکن اگر وہ جان لے کہ آپ تو مالک ہیں تو اس کا رویہ اور بات کا انداز بدل جائے گا ۔ اللہ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے کسی بھی شخص کے اندر احساس آشنائی ہو نا لازم ہے۔ ہمیں آشنائی احساس دلاتی ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کے سامنے کیسے پیش ہونا ہے ۔کیسے اس کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کھڑے ہونا ہے۔ ہمارے دل کے احساس کیا ہوں۔ یہ ساری باتیں آشنائی سے ہی اندر اترتی ہیں اور یہ سب اچانک نہیں آتا ہے اس کو آشنائی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا تا ہے۔ اور جتنا احساس اور آشنائی کا لیول بتدریج بڑھتا جا رہا ہو تا ہے ۔اتنا ہی ہماری نماز میںبہتری کا لیول آتا جا رہا ہو تا ہے۔ تب ہمیں پتا چل رہا ہو تا ہے کہ ہمیں کس نے اپنے سامنے پیش ہونے کی اجازت دی ۔کس کے سامنے پیش ہو رہے ہیں اس لیے سب سے پہلے احساس اور آشنائی کا لیول بتدریج بڑھا تے ہیں اور یوں اس کے سامنے جھکنا سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔