ذات پر کام کے حوالے سے چند ایسے پوائنٹس ہیں جن پر ہمیشہ ترجیحاََ چیک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے تا کہ ان کے حوالے سے کہیں پر بھی اگر ذرا بھی جھول ہو تو اپنے عمل پر گرفت کر سکیں۔ ان پوائنٹس میں پہلا تو نیت در نیت... دوسرا انا اور تیسرا مایوسی... ہے۔مثال کے طور ہم نیت در نیت ایسے چیک کر سکتے ہیں کہ ہمارے گھر جو کام والی غریب عورتیں آتی ہیں۔ اگر اللہ کے کرم سے ان کے ساتھ ہم نے ہمیشہ بہترین سلوک روا رکھا ہو۔ ان کو کھانے پینے کو بھی دیتے ہیں اور معاشی مدد بھی کرتے ہیں تو یہاںاس معاملے میں اپنی نیت در نیت چیک کریں کہ ہم ان کے ساتھ یہ حسنِ سلوک کیوں روا رکھتے ہیں۔ کیا ہماری نیت اللہ کو خوش کرنے کی ہوتی ہے یا ہم لوگوں میں اپنی نیکی کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔کیونکہ ہماری نیت کچھ اور ہوتی ہے اور نیت در نیت کچھ اور ہو تی ہے ۔ہمارا ظاہر کچھ اور ہو تا ہے اور باطن کچھ اورہوتا ہے ۔ اگر اپنی نیت در نیت پکڑلیں تو اس کے بعد اسی پوائنٹ کو لے کر اس پر کام شروع کریں۔ اس معاملہ میں اپنی نیت کے حوالے سے درستگی کی کوشش یوں کریں کہ ہم اگر ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں یا ان کی مدد کریں تو صرف اس لیے کہ یہ اللہ کے بندے ہیں۔ باقی لوگ کیونکہ ان کے ساتھ زیادہ بہتر سلو ک روا نہیں رکھتے توہم اللہ کے راستے پر چل کر اندر اترنے والے احساس آشنائی کی وجہ سے ان لوگوں سے مختلف عمل کریں۔ عام طور پر لو گ ان کو قریب نہیں بٹھاتے اور ان غریب لوگوں کے ساتھ ویسا رویہ اختیار نہیں کر تے جیسے امیر لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔یہاں دوسرے لوگوں سے خود کو مختلف کرنے کے لیے صرف اس لیے ان لوگوں کے لیے اپنے آپ کو پیار کرنے والا بنانا شروع کر دیں کیونکہ ہم دوسرے لوگوں سے الگ اور منفرد طرح کی محبت اللہ سے کرکے اس کے قرب میں جانا چاہتے ہیں۔یہاں خود پر گہری نظر رکھ کے نفس پر کام کرنا ہوتا ہے تبھی وہاں اس پہلو سے ہمیں نفس کی غلامی سے آزادی نصیب ہوتی ہے ۔بعض اوقات ہم باریک سی چیز پر بھی پھنس جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم غلطی کریں تو اس کو فوراً تسلیم کرلیں تاکہ اصلاح کی طرف بڑھ سکیں کیونکہ بعض اوقات ہم غلطی کرنے کے بعد اس کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کو چھپانے کی کوشش میں مزید گند مار جاتے ہیں۔