ہم سب کو اللہ والوں کی صف میں آنے کا تو شوق ہے ۔ اورہم سب اعلیٰ روحانی ہستیوں کے قدموں میں بھی جگہ چاہتے ہیں۔ روحانی طور پران کے درباروں میں بھی حا ضرہونا چاہتے ہیں۔ اور دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ مگر عملاً کرنا کچھ نہیں چاہتے۔ محلوں کی دیواروں پر لگنے والی اینٹ پکی ہوتی ہے۔ وہاں وہی اینٹ لگے گی ناں جو کہ بھٹے میں پک کر پکی ہوگی اب ہم کہیں کہ ہم بھٹے میں پکنا تو نہیں چاہتے مگر محلوں کی دیواروں پر لگنا چاہتے ہیں تو وہ کیسے ممکن ہو گا۔ جو عام کچی سی اینٹیں ہوتی ہیں ان کو یا تو اٹھا کے باہر پھینکا جاتا ہے اوریا پھر ان کو باہر سڑک میں لگایا جاتا ہے۔ محلوں کی دیواروں میں تو ایسی اینٹوں کا کوئی بھی استعمال نہیں ہے ۔ ایک عام استعمال کا برتن بھی ہو جیسے کہ مٹی کا پیالہ یا پانی کا گھڑا اس کو بھی کسی بھٹی میں پکا کر بنایا جاتا ہے۔ تب وہ پکا ہوتا ہے ویسے تو نہیں ہوتا۔ نہ پکے تو تب تو وہ صرف کچا بھانڈا ہوتا ہے۔ آپ اس کو کسی بھٹی میں لگاﺅ تو تب وہ اس طرح سے تیار ہوتا ہے کہ اس کو استعمال کیا جا سکے۔ تم ارادہ تو کر لوکہو کہ ہم حاضر ہیں ہمیں تراشو ہمیں مختلف گلیوں سے گزارو ہمیں پکاکرو اپنا آپ کسی ہاتھ میں تو دو۔ مٹی کے ڈھیلے کی طرح جس کو پانی کے ساتھ گھول گھول کے نرم کرتے ہیں۔ اس میں پانی ڈال کر اسے گوندھتے ہیں۔ اور اسے خوبصورت ملائم سی مٹی بناتے ہیں ۔ پھر اسے چاک میں لگاتے ہیں۔ پھر خوبصورت ہاتھوں کی مہارت کے ساتھ اسے کسی خوبصورت شکل میں ڈھالتے ہیں۔لیکن مٹی اپنا آپ دے تب ہی اسے گوندھنا اورشکل دینا ممکن ہوتا ہے۔ یہ مٹی تو اپنا آپ مٹی کی قبر میں گھسنے نہیں دیتی۔ جب مٹی میں چلی جاتی ہے تب تڑپتی ہے۔ اگر یہ مٹی پہلے ہی اپنا آپ دے دیتی کہ لو مجھے گھڑ لو.مجھے توڑ و گھوندو .مجھے چاک پہ رکھومیرا گھڑا بناﺅ یاگلدان تمہاری مرضی ہے۔چاہے گھوندواور مرضی آئے تو آٹا گھوندھنے والی پرات بنا لو۔ مٹی اپنا آپ پیش کر دے کہ میں حا ضر ہوں.تو اب بنانے والے کی مرضی ہے کہ وہ کیسا خوبصورت بناتا ہے۔ اس کو اتنا خوبصورت گلدان بنا دے کہ جس میں آکر پھول لگیں۔ چاہے اس کا تاج بنائے یا اسی پہ ہیرے جواہرات سجائے۔ اس کے لیئے شرط یہ ہے کہ کوئی اپنا آپ بنانے والے کے ہاتھ میںدے مگر ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہاں ہماری اکڑ قائم رہتی ہے اور مرضی قائم رہتی ہے ۔ ہم کرتے وہی ہیں جو دل چاہے۔ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں خوبصورت بنا دو مگر خود کو حوالے کرنے کو تیار نہیں...مرضیاں چھوڑنے کو تیار نہیں ...اکڑ توڑنے کو تیار نہیں... انا چھوڑنے کو تیار نہیں تویہ کیسے ممکن ہوگا۔ لوگوں کا بس چلے تو قبر میں سے بھی نکل کے باہر آجائیں۔ تب بھی مٹی نہ ہوں۔ یہ مٹی نہیں ہونا چاہتے۔ مٹی تو رل جاتی ہے۔ انائیں رلنے نہیں دیتی ہیں۔ مٹی کورلنا پڑتا ہے۔ انسان کو اسی لیئے بے وقوف اور جاھل کہاگیا ہے کہ وہ یہ سمجھ نہیں پاتا کہ اگر اس نے خود کو مٹی کر لیا تو بچت کی راہ آسان ہو گئی۔ تم اپنی چاہتیں بالاتررکھتے ہوجبکہ بنانے والا کچھ اور چاہ رہا ہوتا ہے۔بنا نے والا توجو تم چاہتے ہو تمہیں اس سے بھی پیارا بنانا چاہتا ہے مگرتم سمجھ نہیں پاتے ۔جب کہ بنانے والا بہت مجبور ہوتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے اس کو خوبصورت گھڑا جا سکتا ہے۔ اس کے اندر وہ خاصیت ہے ۔ اگر اگلا اپنا آپ حوالے ہی نہ کرے پھر تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ جس نے خود کو دان کر دیا اپنا آپ پیش کردیا وہی گھڑا جا سکتا ہے۔