حق کے رستے پر ہمیشہ کہتے ہیں یا کسی کے بن جاﺅ یا کسی کو اپنا بنا لو... ان دو میں سے ایک کام کرو۔ اور بن جانا زیادہ آسان ہے۔ بنا لینا مشکل ہے وہ دوسرا قدم ہے۔ آپ مالک ِواحدکے بن جاﺅ۔ جب بن جاﺅ گے تو وہ خود بخود تمہارا ہے۔ یہ دوسرا کام خودہی ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں بن جانا مشکل ہوتا ہے کہ کیسے کسی بِن دیکھے کے بن جائیں۔ ہم نے اپنا آپ دینا ہوتا ہے... اس کی مرضی پہ چھوڑنا ہوتا ہے... مٹی ہو جاناہوتا ہے... مٹی ہو گئے تو کچھ نہیں رہے۔یہی اپنی ذات کی نفی ہے۔ اپنی ”میں“ کو مارنا ہی ہماری ذات کو فنا کرتا ہے۔ یہی فنا فی اللہ ہے کیونکہ فنا فی اللہ میں حق کی راہ کے مسافر نے اپنی ذات کی نفی کرنی ہوتی ہے..... ”میں کج وی نئی“ ....یعنی ا پنی میں ختم کرنی ہوتی ہے جو کہ ہمارے اندر طرح طرح سے اٹھ کے آتی ہے کیونکہ یہ اندر گہرائی میں پڑی ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ کے مسافر کو اپنی ذات سے عاری ہو کر اپنی چاہتوں کی غلامی، نفس کی اطاعت ، خواہشوں کی پیروی چھوڑنی ہوگی۔ اپنی مرضیوں سے ہاتھ اٹھا نا ہی ذات کی نفی کروائے گا۔ اپنی انا کی مٹی پلید کرنا ہی ذات کو مکائے گا۔ جتنا بھی جھکتے جائیں گے خود کو زیر و کرنے کا عمل جاری رہے گا۔ اور خود کو زیرو کرنا ہی ذات کی نفی کرواتا ہے۔