جب اللہ کی محبت کے احسا س میں اللہ سے دوستی اور قربت کا سفر آگے بڑھتاجاتا ہے تو بندہ اس محبت کے احساس کے زیرِ اثر اللہ کی رضا اور خوشی پانے کی خاطر اپنی خواہشیں، مرضیاں، چھوڑ کر اپنی ذات کو مٹانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اور یوں اپنی ذات سے آزاد ہوتے جانا اسے فنا فی اللہ کے سفر کی طرف گامزن کرنے لگتا ہے۔ فنا کا سفر”..لَا..“کاسفر ہے یعنی نفی کا سفر، اس میں اپنی ذات کی نفی کرتے جانا ہوتا ہے۔ اپنی ہر طرح کی چھوٹی بڑی مرضیوں سے ، ہر معاملے میں اپنی پسند و ناپسند سے اور خواہشوں سے ہاتھ اٹھاتے جانا ہی ذات کی نفی کرواتا ہے۔
فنا کے مسافر کی مثال غسال کے ہاتھ میں میت کی سی ہوتی ہے۔اگر ہم فنا کے سفر میں اپنے معمولات اور معاملات میں یہ احساس رکھیں تو چاہتوں اور مرضیوں سے ہاتھ اٹھانے میں مدد ملتی ہے۔ جیسے غسال کے ہاتھ میں مردے کی کوئی مرضی پسند یا چاہت نہیں ہوتی ۔ اسے جو کوئی جیسے چاہے نہلائے دھلائے، صابن خوشبو لگائے یا نہ لگائے، آرام سے غسل دے یا اٹھا پٹخ کرے۔ مردہ چوں چراںنہیںکر سکتا۔ ایسے ہی فنا کے مسافر کی بھی مثال ہے کہ وہ اپنی ہر چھوٹی بڑی خواہش یامرضی سے بھی ہاتھ اٹھاتا جائے گا تو ہی اس کی ذات کی نفی ہوتی جائے گی ۔اور یہی لا کا سفر ہے جس میں اپنی ذات کی نفی کرکے’ میں کج وی نئی‘ ہوناہوتاہے۔
اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے کھانا پینا، سوناجاگنا، وغیرہ یا معاملات اور ضروریات زندگی کو چھوڑ دینا ہے بلکہ ہم نے کسی بھی چاہت کو شدت بننے سے روکنا ہوتاہے۔وقت اور حالات کے مطابق دیئے گئے ہر معاملہ میں دل کو اللہ کے یقین پر کھڑا رکھتے ہوئے اللہ کی رضا میں راضی رہنا ہوتا ہے۔ذات مختلف روپ میں ہمیں اپنے چکر میں الجھا کر اپنے اصل یعنی اپنی منزل سے دور کردیتی ہے۔کبھی اپنی مرضیوں اور چاہتوں کے ذریعے یہ اللہ اور بندے کے درمیان دیوار کھڑا کردیتی ہے تو کہیں انا اور تکبرکی شکل میں ہمیں اپنے کچھ ہونے کا احساس بیدار کر کے ہمیں اللہ سے دور کرتی ہے۔ جب کہ فنا کا سفر کچھ ہونے کے احساس سے ’میں کج وی نئی ‘کے احساس کی سمت کے سفر کانام ہے۔یہ سفر جذبے جنون اور شوق سے ہی ہوتا ہے۔ہمارے اندر ذات کی کئی دیواریںکھڑی ہوتی ہیں ان دیواروں کی پہچان کرکے ان کو گرانا ضروری ہوتا ہے اور یہ اپنے شوق ، طلب اور جنون سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔کیونکہ منزل پانے کی تڑپ اور چاہت سے ہی ہم ان دیواروں کو گرا کر اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہر دیوار کے گرنے پر اندر توڑ پھوڑ کا عمل جاری رہتا ہے جوکہ ہمارے اندر کے جمود کو توڑتا ہے اندر کی توڑ پھوڑ ہمارے سفر کے جاری رہنے کی علامت ہے۔
فنافی اللہ کا سفر اللہ سے قربت کی طلب میں اپنا آپ مٹاتے جاناہے۔ اللہ کی محبت اور قربت پانے کی خاطر دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی چاہتوں اور مرضیوںسے ہاتھ اٹھاتے جانا یعنی دنیا میں رہتے ہوئے دل میں دنیا نہ ہونا اللہ کی راہ کے مسافر کو فنا فی اللہ کا سفر طے کروانے کا باعث بنتا ہے ۔ جس قدر ہم اپنی حقیقت سے آشنا ہوتے جائیں گے اسی قدر ہمارا دل دنیاکی ان عارضی چیزوں سے آزاد ہوتا جائے گا۔جتنا ہم اپنے آپ کو جھکاتے جاتے ہیں اتنا ہی اللہ کا احساس ہمارے اندر بھرتا جاتا ہے اور ہم ہر قدم اللہ کی خوشی اور قربت کے لیئے بڑھاتے جاتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو جھکاتے جانا ہی ذات کو فنا کرنا ہے۔فنافی اللہ کے مسافر کو حقیقت آشنا ہونے کی تڑپ اللہ کی راہ پر آگے بڑھنے کے لیئے بے قرار کئے رکھتی ہے ۔ اسی تلاش میں وہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اوریہ سفر تا دم آخر جاری رہتا ہے۔