فنا کا مسافرجب اپنی ذات کی فنا کے سفر میں ایک خاص لیول پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے اندر کی تڑپ اس کو بقا باللہ کے سفر کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور کردیتی ہے اور اس طرح آخر تک حق کا راہی مسلسل ذات کو فنا کرتے ہوئے اپنے اندر کی حقیقت کو دوام بخشتا جا رھا ہوتا ہے۔
جیسے کہ فنا... لا َ...کا سفر ہے ۔تو ایسے ہی بقا... اِلاَ... کا سفر ہے۔ اسی لیئے بقا کے مسافر کا سفر ..... تُو ہی تُو .....کا سفر ہوتا ہے۔اسے ہر لمحہ ہر معاملے میں سامنے بھی اور ہر پردے کے پیچھے تو ہی تو کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔
یہی بقا ہے....توُ ہی تُو۔
فنا میں ہم نے اللہ کے لیئے ذات سے ھاتھ اٹھاتے جانا ہوتا ہے اور بقا کے سفر میں ہر معاملے میں ہر لمحہ ہر احساس کو اللہ سے وابستہ کرنا ہوتا ہے۔دل کی ہر دھڑکن کا ...تُو ہی تُو... کی لَے پر دھڑکنا... کل جہاں کا تُو میں سمٹنا...اورتُو کا کل جہاں میں پھیلنا... اندر باہر بس...تُو ہی تُو... کا ہونا بقا کا سفر ہے۔

فنا کا مسافر ہر شے میں میں کج وی نئی کا احسا س اندر اتارتا ہے تویہاں تک آ کر اس کھوج میں ایسے لگ جاتا ہے کہ اسکو آتی جاتی سانس میں بھی... تُو ہی تُو... نظر آنے لگتاہے۔اسے بے جان چیزیں بھی کسی نہ کسی طرح تُو کا پتہ دلانے لگتی ہیں۔اس پر راز کھلنے لگتا ہے کہ جب میںکج وی نئی ...تو کوئی ہے... جو سب کچھ ہے اور وہی حقیقت ہے باقی سب کھیل تماشا ہے۔اس حقیقت کو جان کراس کے پیچھے جانابقا کا سفر ہے۔ جس کو طے کرتے جانا ہی مسافر کو کائنات کے ایک بہت بڑے راز تک پہنچادیتا ہے کہ ہر جا....تُو ہی تُو ہے ....سب .فانی.... صرف تُو باقی....
تُو ہی تُو
.....