القابات و خطاب:۔

صدیق اور عتیق آپ کے خطاب ہیں جو آپ کو دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے۔ آپ کو دو موقعوں پر صدیق کا خطاب عطا ہوا۔ اول جب آپ نے نبوت کی بلا جھجک تصدیق کی اور دوسری بار جب آپ نے واقعہ معراج کی بلا تامل تصدیق کی ۔ اس روز سے آپ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا۔
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں
عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔
عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔
(مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347)
سیرت حلبیہ میں ہے کہ کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔
آپ رضی اللہ عنہ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں
عتیق
صدیق
عتیق پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپ کو اسی لقب سے ہی ملقب کیا گیا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اَنْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق ہوگیا۔
(صحيح ابن حبان، کتاب اخباره عن مناقب الصحابة، ج9، ص6)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا
مَنْ اَرَادَ اَنْ يَنْظُرَ الی عَتيقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ اَبی بَکْر
’’جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے‘‘۔
(المعجم الاوسط، من اسمه الهيثم، الرقم: 9384)
آپ رضی اللہ عنہ کے لقب ’’صدیق‘‘ کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشیہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
يَا اَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمَّاکَ الصِّدِّيْق
’’اے ابوبکر! بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا‘‘۔
(الاصابة فی تمييز الصحابة، حرف النون، 8: 332)
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہ کو بیان فرمایا، مشرکین دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے
هَلْ لَکَ اِلٰی صَاحِبِکَ يَزْعُمُ اَسْرٰی بِهِ اللَّيْلَةَ اِلَی بَيْتِ الْمَقْدَس؟
’’کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا
لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَق
’’اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں‘‘۔
انہوں نے کہا: ’’کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا
نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غَدْوَةٍ اَوْ رَوْحَة
’’جی ہاں! میں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے‘‘۔
(المستدرک علی الصحيحين، الرقم: 4515)
پس اس واقعہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ صدیق مشہور ہوگئے۔