دور رسالت میں امامت
دور رسالت کے آخری ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز وں کی امامت کا حکم دیا۔ آپ نے مسجد نبوی میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر مصلائے رسول پر 17 نمازوں کی امامت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اقدام آپ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ ایک دفعہ نماز کے اوقات میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ سے باہر تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ پا کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز کی امامت کا کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امامت کرواتا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ پسند کرتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز کی امامت کرے۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعتماد کا اظہار تھا کہ آپ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں گے چنانچہ آپ پہلے خلیفہ مسلمین منتخب ہوئے۔

اول امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کا خطبہ اول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے آپ کو جانشین رسول مقرر کیا گیا۔ آپ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔ بار خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔
میں آپ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی۔ میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے۔ جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے۔ اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اس کو دلواؤں۔ اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے۔ میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں۔

(طبری۔ ابن ہشام)