11
المیہ یہ ہے کہ ہمارا لوگوں پر یقین اللہ پر یقین سے کہیں زیادہ ہو تا ہے۔ اللہ کے ساتھ اپنے معاملات میں ہم زیادہ مایوس ہوتے ہیں جب کہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں مایوسی کا تناسب کم ہو تا ہے۔ لوگوں کے حوالے سے اگر دیکھیں تو ایسا ہو تا ہے کہ ہمیں اگر کسی کے ساتھ کوئی کام پڑے تو یقین ہو تاہے کہ ہمارے بہترین دوست اس وقت ایک فون کال یا پیغام پر مدد کو آئیں گے اور اگر وہ مددنہ کر سکیں تو ہم خود تاویلیں پیش کر تے ہیں کہ بلا عذر اس نے مدد سے انکار نہیں کیا ہو گا۔ یہ تاویلیں دے کر ہم خود کو اور دوسروں کو بھی اپنے خیرخواہ پر یقین دے رہے ہو تے ہیں مگر صد افسوس.... کہ اللہ کے ساتھ ہمارا ایسا یقین نہیں ہے۔ اس کے سامنے مدد مانگنے کے لیے پیش ہونے سے پہلے ہی ہم مایوس بیٹھے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں کچھ ہو گا یا نہیں.... یعنی کچھ بھی پیش آنے سے پہلے ہی ہم اللہ سے مایوس ہو تے ہیں کیونکہ کچھ ہو جانے کے بعد تو ہم بالکل ڈاﺅن ہو جا تے ہیں، گر جا تے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ معاملات میں ہم پہلے سے مایوس نہیں ہو تے بلکہ اگر ان کے پاس جانے پر وہ مایوس کر دیں تو بھی توجیہات کے ذریعے خود کو تسلی دے کر ان پر یقین کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔

للہ اپنی صفات کے ذریعے ہی اپنے بندے پر اپنی حقیقت کے پردے عیاں کرتا ہے۔ مگرہم اللہ سے رابطہ اور دل کا تعلق استوار نہیں کرتے۔ اسی لےے اللہ کے احساس بھی دل میں نہیں اترتے۔ ہم اللہ کی صفات کے احساس کو پکڑ کر ہر لمحہ دل کا رابطہ بنانے کی کوشش کریں تو اللہ کے احساس سے بے بہرہ نہ رہیں