12
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اللہ کے لیئے عبادت کرنے پر تو زور دیتے ہیں مگر انہی عبادات میں اللہ کے احساس سے عاری ہو کے اللہ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہم عرب جاہلوں کی طرح ہو گئے ہیں ۔ وہ بھی جو کچھ کرتے تھے وہ کہتے کہ ہمارے باپ دادا ایسا ہی کرتے تھے اس لےے ہم بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ ہم بھی آج اسی طرح سے کرتے ہیں۔ وہ بتوں کی پوجا کرتے اور عبادت کا وہ طریقہ اس لےے اختیار کرتے کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو اس طریقے پر دیکھا تھا۔ہم بھی آج کل ایسے نماز، روزہ کے معمول کو اپنا لیتے ہیں۔ حج کرتے ہیں۔ جمعہ پڑھتے ہیں کیونکہ ہم بڑوں کو ایسا ہی کرتے دیکھتے ہیں لیکن ہم اس عبادت کی اصل روح سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ ہمارے اندر اس عبادت کے احساس بھی موجود نہیں ہوتے کہ ہم کس کے لےے یہ عبادت کر رہے ہیں۔ یہ عبادت کیا اہمیت رکھتی ہے یا اس کی فضیلت کیا ہے اس کا ہمیں قطعی اندازہ نہیں ہوتا۔

نماز ہم بچپن سے بچوں کو سکھاتے ہیں۔ لیکن ہم نے کبھی بچوں کے اندر اس کی اصل روح کو اتارنے کی کوشش نہیں کی۔ ظاہری آداب تو پھر بھی کہیں ہم نے دیکھے یاپڑھے ہوں تو ہم ان سے واقفیت حاصل کر لیتے ہیں اور ان پر کچھ عمل بھی ہو جاتا ہے مگر نماز یا کسی بھی اور عبادت کے باطنی آداب بھی ہوتے ہیں جو اس کی اصل روح کے ساتھ اس کو ادا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔ ان باطنی آداب کو نہ تو ہم بہترین طور پر جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کر پاتے ہیں۔ مثلاً ہم نہیں جانتے کہ نماز کے دوران ہاتھ باندھتے ہوئے باطنی کیفیت کیا ہو؟ سجدہ میں جا کے دل کو اللہ کے سامنے کیسے جھکانا چاہےے کہ باطنی طور پر بھی سجدہ اللہ کے سامنے ادا ہو جائے۔ ہم محض مشق کے طور پر نماز ادا کرتے ہیں اور اس کی اصل روح غائب ہوتی ہے۔ اسی لےے ہم اس عبادت سے اللہ کے وہ احساس نہیں پا سکتے جو نماز کی روح کو سمجھتے ہوئے ادا کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور کیونکہ ہم میں خود یہ احساس بیدار نہیں ہوئے ہوتے۔ اس لےے ہم ان احساسات کو آگے بھی اپنے بچوں میں منتقل نہیں کر پاتے۔ نماز ہو یا قرآن پاک کی تلاوت ہم اس کے حوالے سے بچوں کو تربیت دینے میں خیال بھی نہیں رکھتے کہ احساس تو ہر طرح کی عبادت کی بنیاد ہے۔ اگر احساس ہی موجود نہ ہو گا تو عبادت بے مغز ہو گی۔ ہم زیادہ توجہ اس خوشی کومنانے پر دیتے ہیں کہ بچوں نے نماز شروع کر دی۔ قرآن پاک مکمل کر لیا ۔اب اس پر سب کو مٹھائی بانٹ کر خوشی کا اظہار تو کر لیا جاتا ہے مگر کیاکبھی بچے کو بٹھا کر بھی پوچھتے یا بتاتے ہیں کہ اس عبادت میں دل کی حالت اور اللہ کے ساتھ دل کا رابطہ کیسے بنانا ہے یا یہ کہ اگر ایسا کرو گے تو یوں عبادت کا لطف دوبالا ہو گا۔ ہم شاید ایسا نہیں کر پاتے ۔ ہمیں خود وہ احساس دل میں اترے نہیں ہوتے تو بھلا ہم اپنے بچوں کو کیسے وہ احساس دے سکتے ہیں۔
ایسے ہی ہم اگر روزہ کی عبادت کو دیکھیں تو ہم روزہ کشائی کی تقریبات منا نے پر خوش ہو جاتے ہیں اور بچوں کی سوچ کو بھی وہیں تک محدود کر دیتے ہیں۔ ان کے لےے بھی روزہ کھانا پینے سے دن بھر پرہیز اور پھر روزہ کے اختتام پر خوب کھانا پینا ہوتا ہے۔ ہم خود بھی روزہ اس طرح سے ہی رکھتے ہیں اور رمضان کے اختتام پر عموماً ایسا ہوتا ہے کہ چاند رات کو جب کہ روزہ دار نے اپنی تمام ماہ صیام کی مزدوری یا اجرت لینی ہوتی ہے اس وقت ہم ھلا گلا کرنے میں اور بازاروں میں وقت ضائع کرنے میں مگن ہوتے ہیں۔ اور پھر عید آجاتی ہے۔ جس کے بارے میں ہم نہ خود سوچتے ہیں اور نہ ہی کبھی بچوں کو بتانا گوارا کرتے ہیں کہ عید الفطر یا عیدالاضحیٰ کیوں منائی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے کیا کہانی ہے ۔ ہمیں کیا احساسات رکھ کر عید کی یہ خوشیاں منانی چاہئیں۔ لہٰذا یہاں بھی صرف خوشی ہی رہ جاتی ہے۔ خوشی کے اصل احساسات ہمارے اندر نہیں اترتے۔ اگر ہم اپنے اندر اللہ کا احساس رکھتے ہوئے کسی بھی عبادت میں اللہ کے سامنے پیش ہوں تو یہ احساس اللہ کے ساتھ دل کے رابطے کو بہتر بناتا ہے اور اللہ کے ساتھ قربت کے تعلقات استوار کرنے میں مد د کرتا ہے ۔ یوں ہمارے اندر اللہ کایقین بھی مضبوط ہونے لگتاہے اور یہی یقین ایمان کہلاتا ہے۔