13
اللہ کا احساس ہمارے دل میں جا گزیں ہو تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہمارا اللہ ہم سے سترماﺅں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اس لےے وہ جو فیصلہ ہمارے لےے کرے اسی میں بہتری ہوتی ہے۔ مگرجب یقین نہ ہوتو ہم ہر معاملے میں ہمارے لےے صادر کئے گئے اس کے فیصلے میں نقائص ضرور نکالتے ہیں ۔خاص طور پر تب جب وہ ہماری مرضی کے مطابق نہ ہو۔ اگر دنیا کے معاملات کی ہی مثال لیں تو نہ ہی ہم اور نہ ہی کوئی اور یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کسی معاملے یا فیصلے میں خواہ مخواہ کوئی دخل اندازی کرے۔لیکن دنیا سے ہٹ کر اگر اللہ کے فیصلے کی بات کریں تو وہاں ہم کسی شخص کی موت پر بھی اعتراض کرنے سے نہیں باز آتے۔ اگر کوئی جوانی میں جہانِ فانی سے کوچ کر جائے تو یوں باتیں کرتے ہیںکہ بے وقت دنیا سے چلاگیا...یہ اس کی مرنے کی عمر تو نہ تھی۔ اور شکوے گلے کر نے سے بھی باز نہیں آتے کہ اس کی بجائے فلاں بوڑھا بیٹھا ہے اس کی جان کیوں نہ چلی گئی۔ یوں جیسے اللہ نے درست فیصلہ نہ فرمایا بلکہ اس سے (نعوذ بااللہ) غلطی ہو گئی یا اسے ایسا نہیں کرنا چاہےے تھا یہ اس نے غلط کر دیا۔ اور اس سب گلے شکوے میں ہم اللہ کے فیصلے کو رد بھی کرتے ہیں اور اسے درست بھی تسلیم نہیں کرتے۔ جبکہ اگر دیکھا جائے تو ہر فیصلہ ہی بہترین ہوتا ہے ۔ ہم کیا جانیں کہ اس جوان کی موت میں کیا حکمت ہو گی۔ ہمیں کیا خبر کہ کسی کا جوانی میں مرنا بھلا ہے یا بڑھاپے میں۔ ہم بے خبر اور جاہل ہونے کے باوجود گند مارنے سے نہیں چوکتے اور اپنا فیصلہ جا بجا سناتے رہتے ہیں کہ اگر ایسا ہونے کی بجائے ویسا ہو جاتا جس طرح ہم سوچ رہے تھے یا کہہ رہے ہیں تو زیادہ اچھا ہوتا۔ اس طرح کی کسی بھی بات کو کرنے سے پہلے غور کیجئے کہ کیا ہم اللہ سے زیادہ اپنا بھلاجان یا چاہ سکتے ہیں۔ ہر گز نہیں... وہ ہمارا سب سے بڑا خیر خواہ ہے بس ہمارا یہی یقین ہو۔ اور ایسی بات خود بھی نہ کریں اور دوسروں کو بھی کرتے دیکھیں تو یا تو انہیں سمجھائیں اور اگر وہ نہ سنیں تو ان کے لےے ہدایت کی دعا کریں تاکہ وہ بھی احساس آشنائی پا کر ایسی باتوں سے گریز کریں۔