محبت اور عشق
٭ محبت ایک لطیف جذبے کا نام ہے۔ یہ انہی سے جلد ی کی جاسکتی ہے جن کے اندر لطافت کو جذب کرنے کی صلاحیت ہو تی ہے۔

﴿

٭ محبت کیا ہے؟

روح کا آفاقی تعلق جو ازل سے ہے اور وقت مقررہ پر اپنے محبوب سے جڑ جاتا ہے۔ دل کا رشتہ جس میں محبوب کو دل کی آنکھ سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ اور دل سے اس کی آنکھ کے اشارے کو سمجھ کر اس پر عمل کیا جا تا ہے۔

﴿

٭ محبت کو اگر حقیقی محبت کے حوالے سے دیکھا تو اللہ پہلے خودہم سے محبت کر تا ہے۔ جو وہ ازل سے کر تا آ رہا ہے۔ لیکن ہم اسے اب محبت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ ہم اللہ سے محبت کا دعویٰ تو کر تے ہیں لیکن ہمارا کوئی بھی عمل اللہ سے محبت کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ ہم موت سے ڈرتے ہیں تو ہمارا یہ خوف اور ڈر ہماری اس کمزور محبت کی طرف اشارہ کر تا ہے کہ ہم اپنے محبوب کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں۔ موت سے ڈر ہماری اصل اوقات کو سامنے لے آ تا ہے۔ کہ ہماری اللہ سے محبت صرف زبانی کلامی ہی ہے یا ہم اللہ سے محبت اپنی غرض سے ہی کر تے ہیں۔ جیسے ہی ہماری غرض پوری ہو تی ہے ۔ ہم اللہ کی محبت کا لبادہ اتار کر پھر سے دنیا کی رنگینیوں میں الجھ جا تے ہیں۔

﴿

٭ محبت کا تقاضا ہے محبوب پر مکمل یقین اعتبار اور بھروسا... اس کی ہر بات کو مان لینا... اس کی ہر ادا کا دل کو بھا جانا... بس پیار ہی پیار کرنا... اور بدلے میں کسی قسم کی توقع نہ رکھنا ...بے لوث اور خالص ہو کر... میں نئی تُو... ہو تے جانا ہی محبت ہے۔

﴿

٭ محبت وہ تعلق ہے جو ہر رشتے ناطے سے بڑھ کر خوش رنگ، خوبصورت اور اہم ترین ہے۔ اور محبوب تمام ترجیحات میں اولین ترین ترجیح ہو تا ہے۔ زندگی کی ہر صبح وشام محبوب کے نام ہو تی ہے۔ دن کا چین راتوں کا قرار محبوب سے ہو تا ہے کہ محبت میں محبوب ہی دل و جان کا مطلوب و مقصود جو ٹھہرتا ہے۔

﴿

٭ محب کے لیئے محبوب دنیا میں سب سے جدا ہوتا ہے اور اس کے جدا گانہ انداز کا اظہار محب کے ہر ہر عمل سے ہوتا ہے۔

﴿

٭ محبت میں نہیں فرق جینے اور مرنے کا ...کہ محبوب کو دیکھ کر جینا اور بنا دیکھے
مر نا ہے۔

﴿

٭ محبت ایک بے لوث جذبہ ہے جس میں محب کا ہر حال میں اپنے محبوب کی پسند و نا پسند کا خیال رکھنا اور محبوب کو راضی رکھنا ہی مقصد ہو تا ہے۔

﴿

٭ محبت کا تقاضہ ہے کہ محبوب کے رنگ میں رنگ جاﺅ۔ اس کی چاہت پر کسی اور چاہت کو غالب نہ آنے دو۔ اس کے رنگ پر کوئی اور رنگ حاوی نہ ہو پائے۔ جسم جدا مگر دل ایک ہو جائیں۔ جو تیری خوشی وہ میر ی خوشی ہو جائے۔ ہر لمحہ اس کی یاد... اس کا احساس... اس کی تڑپ... اس کی چاہ ہو۔

﴿

٭ محبت دل کو رہبر کامل ما ن لینے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا تقاضا
کر تی ہے۔

﴿

٭ محبت محبوب کو اپنا لینے اور خود محبوب کا ہو جانے کی طلب کے علاوہ ہر طلب کے ختم ہو جانے کا نام ہے۔

﴿

٭ محبت دل وجان... اندر باہر...تن من دھن... سب کچھ محبوب پر لٹا دینے... صرف اور صرف محبوب کو دیکھنے... اسی کی چوکھٹ پر سر جھکائے... دل تسلیم خم کر دینے کا نام ہے۔

﴿

٭ محبت میں محبوب سے ایسی اپنائیت ہو کہ اس کے صرف اپنا ہی ہونے کا یقین ہو۔ محبت میں شک کی گنجائش نہیں ہو تی۔

﴿

٭ کہا جاتا ہے کہ محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جا تی ہے۔ اور اگر یہ بات درست تسلیم کی جائے تو پھر محبت یکطرفہ ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ دوسری طرف سے ایسی گرم جوشی کا اظہار نہ ہو۔ ایسی صورت میں محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ محبت کرنے والا اپنی محبت کو بنا کسی ردعمل کے نبھاتا جائے۔



﴿

٭ محبت میں تو قعات نہیں ہو تی ہیں۔ محبوب کی مانتے جانا ہوتا ہے۔ محبوب کی نظر سے ہر چیز کو دیکھنا... مزاج یار کو اپنا مزاج بنا لینا ...ہر خوشی اور ہر غم کو محبوب سے منسوب کر دینا ...یہی محبت ہے۔

﴿

٭ محبت میں شکوہ نہیں ہو تا۔ شکوہ محبت کے خالص پن کو ختم کر دیتا ہے۔ شکوہ محبت کی موت ہے۔

﴿

اگر محبت کرنے والے کے دل میں یہ چاہت ہے کہ میرا محبوب مجھ سے ایسا سلوک کر ے جیسے میری تمنا ہے۔ اور میری محبت کے جواب میں محبت دے۔ تو یہ محبت نہیں سودا ہے ۔جبکہ محبت نہ سودا ہے اور نہ ہی کاروبار کہ اس میں بدلے یا صلہ کی توقع رکھی جائے۔

﴿

٭ محبت ایک بہت پیارا اوردل کومہکا دینے والا جذبہ ہے ۔محبت میں اپنے محبوب پر یقین کا مل بہت ضروری ہے اور یہی یقین محب کی طاقت بن جا تا ہے۔

﴿

٭ عشق کسی کو پانے کی چاہ میں کسی کا ہو جانے کا نام ہے۔

﴿

٭ عشق بس ادا ہے جو معشوق کو بھا جائے۔

﴿

٭ عشق وہ ہے جو دم دم میں ہو...عشق ہے ہی وہ جودم دم میں بس جائے ۔ عشق بس عشق ہے اور مجھے تو عشق سے بھی عشق ہے۔

﴿

٭ عشق نام ہے جھک جانے... مان لینے... ہاتھ اٹھاتے جانے... اور حق ناحق سے بالا تر ہو کے... سب برداشت کرتے جانے کا۔جو ایسے کرتا گیا اور جب تک کرتا گیا... تو اس کا عشق چلتا گیا اور بڑھتا گیا ۔اب ہر ایک کی اپنی مرضی اور شوق ...کہ وہ کتنا عشق بڑھانا اور چلانا چاہے اتنا ہی وہ یہ سب کرتا جائے گا۔

﴿

٭ عشق کا رنگ جدا ...روپ بھی جدا ...طرز بھی جدا ...ادا بھی جدا ہے۔ بس عشق کا تقاضا ہے کہ مان لینا ...جھک جانا ...ہاتھ اٹھا لینا... حق نا حق ...بناءشکوے شکایت.. یہی ہے عشق کا تقاضا۔

﴿

٭ عاشق و ہ ہو تا ہے جو اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے۔ بن مول بک جانے والا... بلکہ بن مول بک جانے کو... خوش نصیبی سمجھنے والا عاشق کہلاتا ہے۔

﴿

٭ عاشق کی کوئی شریعت نہیں ہو تی ، اس کے پاس صرف عشق ہو تا ہے۔

﴿

٭ معشوق دور نہیں ہوتا، عاشق بیچ میں پردے گرا لیتا ہے۔ معشوق جتنی قربت تک لاتا ہے وہیں رہتا ہے۔ جب بھی پردہ اٹھاﺅ گے وہیں ملے گا۔

﴿

٭ ہمارا خزانہ یا سرمایہ روح ہے وہیں سے پاور لینی ہوتی ہے ۔ جسم بھلا کیا دے سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے پاور لینے کے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔

﴿

٭ عشق احترام سکھاتا ہے اور احترام تجسس سے روکتا ہے۔

﴿

٭ ہجر کے لمحے شخصیت اور کردار کی تراش خراش کے لمحے ہو تے ہیں۔

﴿

٭ محبت دل کے احساس کا نام ہے جس کا اظہار اداﺅں سے ہو تا ہے۔ اور ایسا سمجھیں کہ محبت ادا ﺅں میں ہی چھپی ہو تی ہے اور اصل میںادا ہی محبت کا اظہار ہے ۔

﴿

٭ کسی قسم کے معاملات ، ماحول ، لوگوں کے رویے اور حالات میں، کسی بھی ایکشن پر ہمارا ری ایکشن ہمارے اندر کے ٹھہراﺅ، مضبوطی اور سکون کے لیول کو ظاہرکر تا ہے۔

﴿

٭ پیارے آقا ئے دوجہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے فرمان کے مطابق دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ اور میرے خیال میں تو دنیا عاشق کے لیے کال کو ٹھڑی بمع قید بامشقت ہے۔

﴿

٭ دردِ دل کی دوا صرف دلدار ہے ۔

﴿

٭ باطل سے منزل کی جستجو اور منزل پانے کا شوق لڑواتا ہے۔ جتنا لڑ تے جاﺅ گے اتنا ہی عشق بڑ ھتا جائے گا اور اتنا ہی عاشق اعلیٰ شمار ہو تا ہے۔

﴿

٭ عاشق جتنا بے بس اور مجبور ہو تا جا تا ہے اتنا ہی معشوق کے قریب ہو تا جا تا ہے۔

﴿

٭ عاشق اور باقی لوگوں میں ایک فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ دنیا میں اپنی زندگی کو بے قیمت کر کے گزار دیتے ہیں جبکہ عاشق زندگی میں دنیا کو بے قیمت سمجھ کے گزار دیتے ہیں۔

﴿

٭ عاشق خود کو پل پل اتنا مارتا ہے کہ پھر موت بھی اس سے بھاگ جا تی ہے۔ عاشق کا بھیڑ ہی یہی ہے کہ وہ مر بھی نہیں سکتا ۔عاشق کی جان نہیں چھٹتی۔ اس نے ہر لمحے کے ہر پل میںمر تے ہی رہنا ہو تا ہے ۔

﴿

٭ معشوق کے درد کا احساس ہی درد دیتا ہے۔ معشوق کی آنکھ کے آنسو کا تصور ہی عاشق کے دل میںدرد بن کر اترتا ہے۔

﴿

٭ عاشق کو ہر لمحہ اپنے مرکز سے جڑے رہنا چاہےے۔

﴿

٭ معشوق کو .... اور معشوق کی ....مان لینا ایمان ہے۔ اور ایمان ہی تو یقین کو پختہ سے پختہ کرتا جاتا ہے۔

﴿

٭ عاشق ہمیشہ معشوق کے احساس کو اپنے لمحہ موجود میں اپنے ساتھ رکھے۔

﴿

٭ معشوق منتخب کرتا ہے کہ اس کا عاشق کون ہو گا ۔ عاشق خود سے اپنے معشوق کا انتخاب نہیں کرسکتا۔

﴿

٭ دل ہی دل میں معشوق کو پیار پیارسے پکارتے رہنا بھی سرور اور لطف دوبالا کر دیتا ہے۔

﴿

٭ دل ہی دل میں معشوق سے باتیں کرتے رہنا

اور خیال رکھنا کہ صرف اپنی ہی نہ سناتے رہو بلکہ دل سے معشوق کا جواب بھی محسو س کرو۔

﴿

٭ عشق ظالم ہے مگر عاشق مظلوم نہیں ۔

﴿

٭ ہجر میں جذبہ اور طلب بڑھتی جاتی ہے۔

﴿

٭ معشوق سے دور رہ جانے کا احساس اندر کی تڑپ کو بڑھاتا ہے۔

﴿

٭ معشوق پر نظر رکھتے ہوئے جب پھر خود کو دیکھیں تو اپنے اور معشوق کے بیچ کے فاصلہ کا احساس تڑپا دیتا ہے۔

﴿

٭ اپنے معشوق کے مقام کی بلندی کا احساس عاشق کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔

﴿

٭ معشوق کے لبوں کی مسکراہٹ بن جانے کی خواہش ہر لمحہ تڑپ بڑھاتی رہتی ہے۔

﴿

٭ منزل پر پہنچ کر قرب کا تصور بھی عا شق کاآرام اور سکون چھین لیتا ہے اور عاشق تڑپ تڑپ کرآگے بڑھنے کو بے چین ہو جاتا ہے۔

﴿

٭ ہم بظاہر اپنے حق سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں مگر اندر کہیںنہ کہیں اپنے حق یا ملکیت کا احساس باقی ہوتا ہے۔ جہاں جتنا اپنے حق کا احساس آیا اس کا مطلب ہے کہ وہاں آپ موجود ہیں اور وہاں معشوق نہیں ہیں۔

﴿

٭ ہر عاشق انجان ہی رہا تو عشق چلا.... جب جان جانے کا احساس ہوا.... عشق رک گیا۔

﴿

٭ اصل میں تو ہر عاشق کو صرف اپنے معشوق پر ہی نظر رکھنی چاہےے۔ دوسرے ہمارا .... یا ہم دوسروں کے عشق و عاشقی کو سمجھ نہیں سکتے جب تک ہمارا عشق میں فنا مکمل نہ ہو۔

﴿

٭ عشق میں معشوق پر یقین کے ساتھ عمل خود کرنا پڑتا ہے ورنہ نتیجہ نہیں ملتا۔

معشوق کی پاور اور ذات پر کام... ان دو پروں پر سوار ہو کے عشق کا سفر کرنا ہوتا ہے۔ ایک بھی پر کمزور ہوا تو پرواز کے لےے توازن قائم نہیں رہ پائے گا۔

﴿

٭ عشق تو ہے ہی درد.....مگر ہم اس درد کو کیسے استعمال کرتے ہیں یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے ۔لیکن ہم کیوں کہ کم ظرف ہیں ہمیں اسی مطابق ہی تھوڑا تھوڑا درد سہنا پڑتا ہے۔

﴿

٭ اگرادا نہیں تو عاشق کیسا... عشق کا دوسرا نام ادا ہی ہے۔ اور.. ادا ..... اس میں آئے گی جس میں سختی نہ ہو۔کسی بات پر اڑ جانا نہ ہو۔ عاشق کے اندر ہر رنگ ہو،ہر وقت کا رونا دھونا یا ہائے ہائے مچانا بھی عاشق کو مناسب نہیں۔ معشوق کی نظر کے ساتھ نظر اٹھے اور عاشق کی نظر کو.. انداز کوبدلے ۔

﴿

٭ ایک عاشق کےلئے جینا موت ہے۔ اور وہ جیتے جیتے مر مک جاتا ہے۔ اور مرے ہوئے کو نہ بندے مارتے ہیں اور نہ اللہ ۔وہ خود ہرلمحہ جیتے جی مرتا رہتا ہے ۔ اس کا جینا اس کی موت اور اس کی موت اس کی حیات ہوتی ہے۔

﴿

٭ ابھی تو رہِ عشق کی چاہ بیدار ہوئی ہے ناں

جب قدم پڑتا ہے تو لگ پتا جاتا ہے.

﴿

٭ عاشق کو اگر خود کو کھولنا آجائے ........ چاہے کھلنے والے پوائنٹ اچھے ہوں یا برے ....... تو اپنے اندر سے جہاںتک کھولے گا وہاں تک عشق اتر جائے گا۔

﴿

٭ ہم ذات پر کام کرکے عاشق نہیں بنتے ۔عشق ہمیں ذات پر کام کرواتا ہے۔ جو قدم ذات پر نہیں پڑاوہ سفر میں آگے نہیں بڑھا۔

﴿

٭ اپنی زندگی کے روز مرہ معمولات اور معاملات میں جتنا معشوق کے سانچے میں ڈھلتے جاﺅ گے اتنا ہی عاشق بنتے جاﺅ گے۔

﴿

٭ عاشق کہتا ہے کہ معشوق مار دے... اسے کاٹ دے..مگر اس کی بجائے عاشق خود کو خود سولی چڑھائے۔ خود ہی اپنے ہاتھوں کھال اتارے۔ کیونکہ عشق میںخود کو خود مارنا... کاٹنا ہوتا ہے۔ خود کو خود قید کےے رکھنا ہوتا ہے۔ جس کے عشق کے قیدی ہوتے ہیں اسی کے ہاتھ لگام دے کر اسی کو پکڑے رکھنا یہی عشق ہے۔ لیکن سب سے مشکل کام کسی ایک کے ہاتھ وہ لگام دے دینا ہے۔

﴿

٭ باہر کی دنیا کے جتنے معاملات ہوتے ہیں۔ ان کو معشوق کے زاویہ¿ نظر سے دیکھتے ہوئے جتنا نبھانے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی معشوق کا رنگ آتا جاتا ہے۔

﴿

٭ عاشق کے اندر سب سے زیادہ حق ہوتا ہے۔ چاہے کوئی کیسا ہی زیادہ زاہد ...سالک یا عابدہو۔

﴿

٭ عاشق کو یقین ہو کہ ہر لمحہ معشوق کی نظر میں ہے۔ وہاں سے دیکھا جا رہا ہے ۔ یہ احساس بہت ضروری ہے۔

﴿

﴿

اور.... اور...اور کی چاہت بھی اندر کی تڑپ کو بڑھاتی ہے۔ کیونکہ عشق کی تو انتہا نہیں ہے ۔اور ...اور آتا جاتا ہے۔ اور عاشق اور... آگے بڑھ کر پہلے سے زیادہ اور... اور ....اور کرنے لگ جاتا ہے۔

﴿

٭ سفر عشق میں دردملے تو اسے سنبھالنا بھی تڑپ بڑھاتا ہے ۔ اگر اسے غصے یا چڑ یا ناراضگی وغیرہ میں ضائع کر دیا تو اندر سکون آجائے گا۔

﴿

٭ عاشق ہمیشہ سے بے بس ہے۔ جتنا عشق بڑھے گا اتنی مجبوری اور بے بسی بڑھے گی۔ عاشق اپنا آپ لٹا دینے والا ہوتا ہے۔ اس کے لےے اس کا معشوق ہی کل کائنات ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ سب ختم ہو جاتا ہے۔

﴿

٭ عاشق مرنے سے پہلے مر جاتا ہے۔ اور اس سے مراد اپنے اندر کی خواہشات کو مار دینا... اپنی چاہتیں اپنی خواہشیں... اپنی مرضیا ں معشوق کے تابع کر کے ...اپنی رضا اور خوشی کی بجائے... اس کی رضا کو پانا شروع کر دیناہے۔ اپنی چاہت کو... اپنی مرضیوں کو... معشوق کے لیے ...اپنی مرضی سے اس کی چاہت کےلئے مار دیناہی مرنے سے پہلے مر جانا ہے۔

﴿

٭ ایک عاشق کے طور پرہمیشہ پروانہ بنے رہنے کی آرزو کر تے رہو جو ہر لمحہ شمع پر جل مرنے کو تیار ہو تا ہے ۔

﴿

٭ معشوق کبھی مرضی چلنے نہیں دیتا۔مرضی چلانا معشوق کا کام ہے ۔

﴿

٭ عشق ہمیشہ سے حاصل کی خواہش سے لا حاصل کی سمت بڑ ھتے رہنے کے سفر کا نام ہے۔

﴿

٭ جب عاشق اپنی حقیقت تلاشنے نکلتا ہے تو تب ہی معشوق تک پہنچتا ہے ۔

﴿

٭ عشق کبھی بھی مر تا نہیں۔زندگی کا سفر ختم ہو کے بندہ مر جا تا ہے پر اس کا عشق چلتا رہتا ہے اور یہ ہمیشہ چلے گا۔

﴿

٭ عشق درد ہے ۔اور عاشق کے لیئے مزہ درد عشق کے سوا کسی اور چیز سے وابستہ نہیں ہوتا۔

﴿

٭ معشوق ایک لمحے کی پیار کی نظر دے کے ابدی دکھ لگا دیتا ہے اور عاشق مٹی ہو جاتا ہے تو وہ بانہوں کے بجائے.... قدموں میں دم نکلے کہتا ہے۔

﴿