41
عشق میں بس عشق ہوتا ہے ۔جو ہر قید و بند سے آزاد ہوتا ہے۔ جو یار کہے وہ ہی قاعدہ .....جو یار کرے وہ ہی قانون ہے ۔ عشق میں عاشق یار کا قیدی ہوتا ہے۔ عاشق بس پروانہ وار اسکے ہی گرد گھومتا ہے۔ یار ہی عاشق کا دین ایمان، قبلہ کعبہ ہوتا ہے۔ عاشق ازل سے اپنے معشوق کی پہلی نظر کا قیدی ہوتا ہے۔ اور عشق ہر اس شے کی پابندی سے آزاد ہے جو عاشق کو معشوق کی قربت پانے میں رکاوٹ بنے۔ عشق پہ کوئی قاعدہ قانون لاگو نہیں ہوتا ۔بس عاشق ہر دم معشوق کے قدموں میں حاضر رہے۔عشق میں سب قانون سب قاعدے یار کی حدوں میں قید ہوتے ہیں۔ معشوق جو حد بندی کردے وہی عاشق کے لیے قانون ہے۔ جتنا عاشق خواہش سے، ذات سے آزاد ہوتا جاتا ہے اتنا ہی معشوق کی قید میں گرفتار ہوتا جاتا ہے۔ عاشق عشق کرنے کے لیے ازل سے آزاد ہے... مگر وہ ہوتا.... اپنے ایک کی قید میں ہے۔ عشق میں کوئی قاعدے قانون نہیں چلتے۔ عاشق اپنے معشوق کے بنائے ہوئے قاعدہ و قانون پر عمل کرتا ہے اوردل کی سلطنت کی حفاظت کرتا ہے جہاں اس کا معشوق ازل سے تحت نشین ہوتا ہے۔