71
عشق کی گلی میں جو داخل ہوتا ہے تو پیچھے کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس گلی میں آکے عشق سے انکاری ہوتا ہے تو وہ عشق کے ایمان سے بھی جاتا ہے۔ پر عاشق گلی میں آ کے سمجھو کہ جتنا آگے سے آگے قدم بڑھائے گا اس کا حال قدم بہ قدم قربانی والے جانور والا ہی ہو گا۔
عشق کی گلی میں آیا تو آتے ہی گلے میں رسی کا پھندا پڑ گیا اور ایک کِلے سے بندھ گیا۔ عشق میں آگے بڑھا تو گلے میں چھری پھیر کر تڑپنے کے لےے چھوڑ دیا۔ پھر اور قدم بڑھایا تو الٹا لٹکا دیا جائے گا۔ اب وہ دنیاوالوں کی نظر میں الٹا اور دنیا والے اس کی نظر میں الٹے۔ پھر بھی باز نہ آئے تو پکڑ کے اس کی کھال اتار دی جاتی ہے۔اب وہ عاشق ننگا ہو گیا سب کی نظر میں۔ نہ وہ ننگا تھا نہ ہی ہونا چاہتا تھا ۔ پر اتار دی گئی اس کے جسم کو ڈھکنے والی ظاہر کی چادر بھی۔پھر بھی عشق کی گلی میں اور آگے قدم بڑھایا تو سب نے مل کر ٹوٹے ٹوٹے کر دےے۔ بڑے بڑے ٹکڑے ہوئے اور پھر اس کے بعد سب نے آرام سے بیٹھ کر اپنے اپنے ہاتھوں میں چھریاں پکڑیں اور سکون سے بوٹی بوٹی کر دی اس کی... جیسی اور جس شکل کی جس نے چاہی۔
اب عاشق نے پھر بھی قدم نہ روکے تو ہر ایک نے اپنی مرضی سے اس کے ساتھ جو چاہا کیا۔ کسی نے کس طرح کسی نے کس طرح... اپنے اپنے ذوق اور پسند کے مطابق.... کسی نے کڑ اہی میں صرف نمک لگاکے تلا...تو کسی نے تیز مرچ مصالحے لگا کے خوب چٹخارے لےے... اور کسی نے مصالحے لگا کے سیخوں پر چڑھایا اور انگاروں کی دھیمی آنچ پہ خوب پکایا اتنا کہ اس کے جلنے کی خوشبو دور دور تک پھیلے گی۔ اور سب نے خوب مزے لے کے اپنے اندر کی بھوک کو تسکین دینے کی کوشش کی... اور ہڈیوں سے بوٹیاں نوچ کر کھائیں... اور پھر ہڈیاں بھی کتوں کے آگے ڈال دیں... اور کسی نے توبوٹیوں کو قیمے والی مشین میں ڈال کے خوب تیز اپنا پورا زور لگا کے گھمایا کہ اس کی بوٹی بوٹی بھی تار تار ہو جائے۔ اور اس میں سے خون کا قطرہ قطرہ نچڑ نچڑ کے الگ ہوتا رہے۔
یہ عمل عشق کی گلی میں آگے سے آگے بڑھنے والے کے ساتھ ایسے ہی چلتا رہتا ہے کہ اس دوران اس کے اندر باہر، ایک ایک عضو کو الگ الگ سے بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ اس کے دل ، گردے، تلی، کلیجہ وغیرہ کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں کر کے مختلف طرح سے کھایا جاتا ہے۔ اس کا سر گردن سے جدا کر کے تو اس کے ٹوٹے نکلتے ہی ہیں حد یہ ہے کہ اس کا مغز نکال کے بھی بھون دیتے ہیں۔ اور اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کے پائے تک نہیں چھوڑتے۔ اور یہ سب اس عشق کی گلی میں داخل ہونے والے عاشق کے ساتھ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک وہ کسی بھی جگہ پر عشق سے ہاتھ نہ اٹھائے۔ یا پھر سانس کی ڈوری ٹوٹ نہ جائے اور اس کی روح کو اس جسم کے پنجرے سے آزادی نہ مل جائے۔