75
عشق اور آزمائش لازم و ملزوم ہیں۔ہم خود عشق کریں اور پھر اس کی آشنائی آگے بھی اگر بانٹنے لگیں تو آزمائشیں تو لازم ہیں ۔ عشق کا راستہ حق کا راستہ ہے اور اس میں آزمائش ضروری ہے کیونکہ حق کی نسبت حق والوں سے ہے۔ پیارے آقا ئے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ سے یہ چلتا ہوا انﷺ کی آلؑ تک آیا۔ اور جو کوئی ان سے عشق میں جائے گا ان کی نسبت سے آزمائش میں سے تو گذرے گا ۔کیونکہ سب دل پہ سے گزرنا ہوتا ہے چاہے کچھ ہی دیر کے لیے سہی۔ اور جھیلنے والے ہم کہاں... ہماری اوقات کہاں ہے جھیلنا ....ہم تو معمولی سردرد یا انگلی کا کٹنا بھی نہیں سہہ سکتے۔ہم جھیل نہیں سکتے ہم سے جھیلوایا جاتا ہے۔ سب کچھ دل پہ گزارا جاتا ہے۔ وہ تھوڑی سی تکلیف بھی اندر کی برداشت اور ایمان کی قوت کو بڑھانے کے لےے ہوتی ہے۔ اس وقت اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی برداشت بڑھانے سے ایمان کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ اور کیونکہ ہم نے آگے یہ صبر و برداشت اور حوصلہ لوگوں میںمنتقل کرنا ہوتا ہے ۔ اس لیے ہی کسی بھی عاشق کے اندر اس ایمان کو اس سب سے گزار کر بڑھایا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ سب اسی لیے پیش آتا ہے کہ ہماری نسبت ہمارے مہربان لجپالوں سے مضبوط ہو سکے۔ بس یہ ہو کہ اس طرح کی کسی بھی آزمائش میں سے گزرتے ہوئے ہمارا یہ یقین ہوکہ اللہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے او ر اس وقت بھی جو ہو رہا ہے وہ بہترین ہے۔
جب آپ یہ یقین رکھیں گے تو ہو گا وہی جو آپ نے اس کے ساتھ گمان رکھا ہو گا۔ ہمارا اللہ کے ساتھ توکل کا یہ لیول ہوکہ اگر اس وقت جان سے گزر جانا ،مر جانا بھی پڑے تو یقین ہو کہ اس میں بھی بہتری ہو گی۔ کیونکہ ہمیں صرف یقین پر ہی ملتا ہے اس لےے ہمیشہ عشق کی ہر آزمائش سے اللہ کے یقین اور ایمان پر کھڑے رہ کر گزریں۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہم آزاد محبت کریں ۔
ہم مختلف طرح کے خولوں میں اتنے جکڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ اگر پرت درپرت پیاز کی طرح پردے اتارتے جائیں تو ہماری چاہت درچاہت کھلتی جائے گی۔یہاں خود کو خالص کرتے جانا ہوتا ہے اور خالص ہوتے ہوئے اس رضا کے مقام کا احساس اپنے اندر اتارنے تک جانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے مولاحسینؑ امام عالی مقامؑ کہلائے۔ وہ اعلیٰ ترین مقام رضا کا ہے۔ راضی برضا ہو جانا یہ اعلیٰ ترین مقام ہے۔
اس پر پہنچنے سے پہلے اپنے پرت کھولتے جاﺅ۔ پرت در پرت ذات کو کھرچتے جاﺅ۔ خود کو خالص کرتے جاﺅ۔ چاہتوں سے آزاد ہوتے جاﺅ۔ چاہے آپ کو کوئی منصب یا مقام مل بھی جائے تو وہاں وہ منصب یا مقام چاہت نہ بن جائے۔ وہاں بھی چاہت صرف یہ رہے کہ میرا عمل معشوق کی رضا کا سبب بن جائے۔ صرف یہ ہی چاہت رہ جانے تک کہ تُوراضی ہو جا..... آپ اپنی چاہتوں کے پرت اتارتے جاﺅ۔ اور وہاں تک لے جاﺅ کہ اگر معشوق کے خاص کرم اور عطا سے عشق میں اعلیٰ مقام عطا ہوا ہے تو اس میں میرا کمال نہیں یہ اس کی مہربانی ہے۔ اب یہاں معشوق سے متعلقہ چاہتوں سے بھی ہاتھ اٹھا دو۔ چاہے وہ ....دید کی.... یاان کے پاس لوٹ جانے کی چاہت ہی کیوں نہ ہو ۔ایک ایک کر کے ہاتھ اٹھاﺅ۔ یہاں تک کہ مرنے کی چاہت بھی ختم ہو جائے۔ کیونکہ یہ عشق ہے اور یہاں اتنے مجبور ہوتے ہیں کہ جس پر مر مٹے اس کے لیے مر بھی نہیں سکتے ۔ہر لمحہ... ہر سوچ ...ہر بات... کا محور صرف معشوق کی رضا ہوتی ہے کہ وہ راضی ہیں یا نہیں۔ اس لیے کوئی بھی معشوق ہوں آپ کے... چاہے پاس بٹھائیں یادور... بات کریں یا نہ... آپ اپنی اس چاہت سے آزاد ہو کر اپنے احساس،سوچ، عمل کا محور صرف معشوق کی رضا کو رکھو کہ کس انتہا پہ جاﺅں کہ وہ راضی ہو جائیں۔ یہ ہی انتہائے عشق ہے اور یہ مقام صرف امام عالی مقام ؑ حضرت امام حسینؑ کا ہے۔