76
عشق میں ہر عاشق مجبور ہوتا ہے جتنا عشق بڑھتا جائے گا اتنی ہی مجبوری بڑھتی جائے گی۔
عاشق اپنے عشق سے مجبور ہو تا ہے ۔لیکن دنیا سمجھتی ہے کہ یہ بے و قوف ہے ۔پاگل ہے۔ اسے سمجھ نہیں یا شاید بے حس ہے۔
عاشق کے عشق سے مجبور ہونے کو دنیا والے اپنے اپنے زاویہ نظرسے دیکھتے ہیں۔
اور عاشق کے ارد گرد کے لوگ عاشق کی مجبوری کو اپنی اپنی ذہنیت کے حساب سے استعمال بھی کرتے ہیں۔
وہ نہیں جانتے کہ عاشق کیوں مجبور ہے....
وہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس کو کس مجبوری نے زبان ہوتے ہوئے بھی ہمیں جواب دینے سے روک رکھا ہے
نہیں سمجھ سکتے....
کہ اس نے تو زبان کو صرف ذکر معشوق سے وابستہ کر دیا ہے.....
زبان بھی مجبور ہے کہ بندھ گئی ہے ذکر معشوق کے ساتھ....
کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ ....
دماغ ہوتے ہوئے بھی کیوں نہیں اس ظاہر کی دنیا کے فائدے نقصان سوچتا یہ مجبور عاشق ....
دنیا والے نہیں سمجھ سکتے کہ....
اس نے روک دیا سب... اور جلا دیا دل....
اور محو ہو گیا وہاں معشوق کو آباد کرکے.... دید معشوق میں....
اور ایک لمحے کی غفلت اس کا نقصان کر دے گی....
اس لیے عاشق مجبور ہے کہ کبھی ایک پل بھی کیسے غافل ہو...
اس دل سے جہاں معشوق آباد ہے....
نہیں سمجھ سکتے کہ...
ہاتھ پاﺅں... بازواور ٹانگیں ہوتے ہوئے بھی عاشق کیوں مار کھاتا ہے....
نہیں سمجھ سکتے ....
کہ عاشق نے تو خود ہی اپنے یہ اعضا کاٹ دیئے ہیں ....
کہ اسے کہیں پڑے رہنا ہے معشوق کے قدموں میں کہ ....
یہی عاشق کی معراج ہے....
اس معراج کو پانے کے لیے عاشق سب اعضا کے ہوتے ہوئے بھی استعمال نہیں کرتا ....
بس گرا دیتا ہے خود کو....
اور بنا دیتا ہے خود کو معشوق کے قدموں کی دھول....
اور کون سمجھے اس مجبوری کو کہ.... آنکھیں ہوتے ہوئے بھی وہ نہیں دیکھتا کچھ سوائے معشوق کے....
اور سماعتیں ہوتے ہوئے بھی وہ نہیں سن سکتا سوائے معشوق کے........
تو مجبور تو ہوا ...ناں ...پر دنیا کیسے سمجھے عاشقِ مجبور کی اس مجبوری کو........
دنیا عاشق کو ایسا مجبور سمجھتی ہے کہ.... جو بیچارا کچھ نہیں کر سکتا....
نہیں جانتے کہ .....
عاشق اگر زبان سے بول دے تو نہیں مٹائے جاتے وہ لفظ........
اور دیکھ لے اگر عاشق ایک تیز نگاہ سے
تو چیر دے پہاڑوں کے سینے........
اور اگر ہلا دے اپنا ہاتھ تو پلٹ کر رکھ دے زمانے........
اور اگر نکلے اس کی ایک سرد آہ تو کردے سورج کو ٹھنڈا........
اور جو نکلے صدا پھاڑ کر آسمان تو ہلا دے جا کر عرش........
اور اگر عاشق کے دل سے نکلے عشق کی ذرا سی آگ...
. .تو جلا دے دوزخ کو اور کر دے اسے راکھ......
......اور ............ اور ........
مگر سمجھتے ہیں یہ دنیا والے عاشق کو جیسا ...مجبور نہیں ہے وہ ایسا مجبور....
پر مجبورِ عشق........
کہ بندھ گیا وہ اپنے معشوق کے ساتھ.... اور نہیں ہونا چاہتا....وہ جدا ایک پل ایک لمحے کے لیے بھی ....
تو اس لیے اور قرب میں جاتا اور باندھ دیا جاتا ہے معشوق کے ساتھ....
اور زیادہ ہو جاتا ہے مجبور اور زیادہ.....
اور چلتا ہے عاشق کی مجبوری کا یہ چکر .....
مجبور سے انتہائی مجبور ہو جانے کی طرف ........
مجبور ہے عاشق بہت مجبور.....
ورنہ کب کا اس جسم کے پنجرے کو پھاڑ کر نکل جاتا .....آزاد ہو جاتا...
پر مجبوری ہے........
نہیں ہر گز نہیں........
کہ جب تک نہ پائے گا اذنِ معشوق ......
تو نہ پھاڑ کے نکلے گا تب تک اس جسم کے پنجرے سے ........
اسی لیئے تو عاشق جس پہ مرتے ہیں....
اس کے لیے ہی تو مر بھی نہیں سکتے......

میں عشق تیرے میں ہی تو مجبور بہت ہوں
مجبوری بڑی ڈاھڈی ہے اس عشق کی پیارے
ورنہ مجھے اس دنیا سے مجبور نہ سمجھو
مجبوری حالات سے مجبور نہیں ہوں
معشوق! تیرے عشق کی مجبوری سے مجبور رہتا ہے
مجبوری مجھے اتنی تیری پیاری ہے پیارے
پر دنیا نے تو راہ گزرتی مجھے بس دھول کیا ہے
مجبور ہوں مجبور ہوں مجبور بہت ہوں
میں عشق تیرے ہی میں تو مجبور بہت ہوں
مجبور ہوں مجبور ہوں مجبور بہت ہوں