سوال4: عشق میں تڑپ اور طلب ایک ہی احساس ہے یا
ان دونوں میں کوئی فرق ہے؟اور اگر آپ کے خیال میں ایک بات نہیں تو اس میں کیا فرق ہے؟
جواب:
طلب چاہت کا نام ہے۔ کچھ پانے کی چاہت اور اس چاہت کے لیے کوشش، بھاگ دوڑ ...اس سب کی شدت تڑپ ہوئی۔ جتنی چاہت ہوگی اتنی تڑپ بڑھے گی ۔جتناچاہت کو بڑھائیں گے اتنی تڑپ بھی بڑھے گی۔ اس طرح تڑپ اور طلب ہیں تو الگ مگر ایک احساس کے بنا دوسرا ادھوراہے۔ طلب ہوگی تو تڑپ بھی ملے گی۔ طلب کی شدت میں کچھ بھی کر گزرنے کا احساس تڑپ میں آتا ہے۔یہ تڑپ ہے جو اندر کو بے قرار کرتی ہے ۔ طلب عاشق کی چاہت ہے۔ اور منزل کی طلب میں اندر بھڑکتا ہوا قرار نہ دینے والا احساس تڑپ ہے۔
طلب اندر کے ایک احساس کا نام ہے۔ اور جب وہ پیدا ہوتی ہے تو پھر اندر اسی طلب کی بنا پر تڑپ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ تڑپ اندر بھڑکی ہوئی آگ کا نام ہے۔ طلب لمحہ لمحہ خود بھی بھڑکتی ہے ۔ اور معشوق بھی عاشق کے اندر طلب جگاتا ہے۔ جب طلب جاگتی ہے تو تڑپ مزید بھڑک جاتی ہے۔ طلب اور تڑپ کا آپس میں تعلق ہے۔ طلب تڑپ سے مشروط ہے۔ اگر اندر تڑپ ہوگی تو اندر طلب بڑھتی جائے گی۔ اور طلب بڑھے گی تو تڑپ میں بھی اضافہ ہوگا۔
طلب اصل میں چاہ ہے... معشوق کی چاہ ...کہ ہر پل ہرجگہ ہر لمحہ ...اس کی چاہ کرو ...ہر نظر میں آنکھیں صرف اس ایک کو دیکھنا چاہیں ...ہر احساس میں دل بس ایک کو محسوس کرنا چاہے.... ہر آواز میں کان بس اس ایک کی آواز سننا چاہیں.... یہ ہوتی ہے طلب...... اور تڑپ ایک اند ر کا احساس ہے کہ آپ کو اندر چین نہیں....تڑپ اور طلب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
طلب عشق کی ابتدا ہے اور آہستہ آہستہ تڑپ ملتی جاتی ہے۔ اور یہ تڑپ معشوق سے قریب کرتی ہے۔عاشق کے دل میں معشوق کے عشق کا بھانبھڑ بھڑکتا ہے کہ معشوق کی قربت کو پالے۔ اسمیں فنا ہوجائے ۔ اس میں ایسے گم ہوجائے کہ میںنہ رہے بس تُوہی تُورہ جائے۔ عاشق کے لیئے پوری کائنات کا محور و مرکز بلکہ کل کائنات معشوق ہے۔ معشوق کی طلب کی انتہا کو چھونے کے لیے عاشق اپنے اندر کی تڑپ کو بڑھاتا ہے۔
اگر عاشق کی طلب معشوق کی قربت ہے تو تڑپ اس تک پہنچنے کے لیے بہترین ذریعہ ہے ۔معشوق سے وابستہ عاشق کے اندر اٹھنے والی چاہتیںاور معشوق کی قربت پانے کی طلب عاشق کے دل میںوہ سب کر گزرنے کی تڑپ جگائے رکھتی ہے جو اسے قربت کی جانب لے جائے۔ اپنے ایک کی چاہ میںطلب اور تڑپ اٹھتی ہے۔طلب ابتدا ءہے۔ طلب اصل میں چاہ ہے ...معشوق کی چاہ۔ عشق کی ابتداءطلب ہے۔ پہلا قدم ہی طلب اٹھواتی ہے۔ یار کی خوشی اور رضا کی طلب ....اس کی ایک نظر کی طلب ....اس کے قرب اور ساتھ کی طلب.... اور یہ طلب پھر وہ تڑپ پیدا کرتی ہے جو عاشق سے عمل کرواجاتی ہے۔ تڑپ میں عاشق طلب کو پانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ جتنی طلب بڑھتی ہے اتنی تڑپ لگتی ہے۔ جو عاشق کو بھگاتی ہے۔ عشق میںآگے بڑھنے کے لیئے ان دونوں کی شدت کا ہونا ضروری ہے۔
تڑپ اور طلب دو مختلف احساسات ہیں۔ معشوق کی نظر پانے کے بعد اندر تڑپ ایک طوفان کھڑا کردیتی ہے۔ طلب معشوق کو پانے کا احساس ہے۔ ان کی نظر کی طلب رہتی ہے۔ پیار کی طلب رہتی ہے۔ پھر طلب اپنا جلوہ تڑپ کی صورت میں دکھاتی ہے۔ طلب اور تڑپ الگ الگ احساس ہیں۔ طلب اگر چاہت کی محبت کی عشق کی ابتداءہے تو تڑپ اسکی انتہا ہے۔ عشق کی راہ پر چلنے کی آرزو طلب ہے۔ منزل پانے کی جستجو .... قربت کی ا نتہاتک پہنچ جانے کی تگ ودواور شدت اسکی تڑپ ہے۔