سوال114: عشق میں آنے کے بعد جذبہ کم کیوں ہو جاتاہے؟
جواب: جب ہمیں عشق میں عاشق قبول کیاجاتا ہے تو اس وقت جذبہ اور عمل بہتر ہوتا ہے۔ ذات پر کام،تڑپ ، منزل پر نظر اس وقت کے تقاضے کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم ذر ا سا بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ سفر اچھاچل رہا ہے تو اسی وقت سستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے سفر کے آغاز ہونے پر یا اچھا چلنے پر اور زیادہ الرٹ ہوجانا ہوتا ہے۔ اپنی ذات کو کاٹنا اور خود پر گہری نظر رکھ کر عشق کے تقاضے نبھانے ہوتے ہیں۔
جتنا آگے بڑھتے ہیں ہر طرح کی مرضیاں اور چاہتیں ختم کرنی ہوتی ہےں۔ معشوق سے جڑی چاہتیں بھی معشوق کے تابع ہوتی ہیں۔ جیسے ہی ہم یہ سوچ لیں کہ اب تو ٹھیک کررہے ہیں تو اس وقت ہم تسلی میں آجاتے ہیں۔ اس وقت ہم کہیں نہ کہیں معشوق کو مِس کر جاتے ہیں۔ اپنے اندر گہرا غوطہ لگائیں تو بہت کچھ ڈھونڈ نے سے مل جاتا ہے۔ ذات پر کام پھر سے شروع کرنے سے سستی اور اطمینان ختم ہونے لگتا ہے اور سفر پھر تیزی سے شروع ہوجاتاہے۔ یار سے دوری ہمارے اندر عشق کی آگ کو بھانبھڑ کی صورت میں جلائے رکھتی ہے اور اسی میں ذات جلتی ہے۔
جتنا ذات جلے گی... مٹے گی.... اتنا ہی سفر تیزی سے چلے گا اورمعشوق کی قربت ملے گی۔ عشق کی چنگاری معشوق بھڑکاتاہے مگر اسے جلائے رکھنے کے لئے کوشش عاشق نے ہی کرنی ہوتی ہے۔ لہذا عشق میں مطمئن کبھی نہیں ہونا ہوتا کہ بہت اچھا کررہے ہیں۔ اطمینان عشق میں زہر کی طرح ہے۔عشق کی آگ معشوق تو جلاتے ہیں مگر عاشق اپنے عمل کی سستی اور ناخالص پن کی وجہ سے اس کو بجھالیتاہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے پانی پھینکنے سے لکڑیاں گیلی ہوجاتی ہیں اور آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ ایسے ہی جب کسی عاشق کی اپنی عشق کی آگ بجھ رہی ہوتو جہاں جس کی آگ جلتے دیکھے وہیں سے اپنی لکڑی کو سلگا لینا ہوتا ہے۔ اور اس آگ کو ہوا لگنے سے، بجھنے سے بچانا اور اسے اور بھڑکانا ہوتا ہے۔اور ذات کو مارنا،خود کو کاٹنا، مرضیوں اور خواہشات پر کام کرنامعشوق کے ساتھ جڑے رہنا او ر ہر معاملے کو معشوق کے زاویہ نظر سے دیکھنا ہی ہماری عشق کی آگ کو بھڑکائے رکھتا ہے۔عشق آتش ہے... ہر پہرجلاتی ہے... ایسی آگ ہے جو بجھائے نہیں بجھتی۔ عشق میں جب عاشق یہ اطمینان رکھنے لگتا ہے کہ وہ جب جیسا اور جو کر رہا ہے وہ ٹھیک ہے۔ تووہیں اس کے عشق کا سفر سست ہو جاتا ہے یا رک جاتا ہے۔ یہی اطمینان اسکے اندر کی آگ کو اور جذبے کو ٹھنڈا کر دیتا ہے ۔
عشق میں عاشق کو اگر معشو ق نے قبول کر لیا تو یہ معشوق کی اپنے عاشق پر عطا ہے ۔ اسے اپنے قرب میں لینے کا ایک اشارہ ہے۔ اب اس اشارہ کو سمجھ کر عاشق کتنا اپنے جذبہ اور شوق کی آگ کو تازہ دم رکھتے ہوئے معشوق کی رضا میں خود کوڈھالتا جاتاہے ،یہی رضا میں ڈھلنا اس کو معشوق کی قربت کے سفر میں آگے بڑھاتا ہے ۔ہم جب تک ذات کے محور کے گرد گھومتے ہیں عشق کے تقاضے نہیں نبھا پاتے۔ ذات کی نفی نہیں کرپاتے ۔ ہم اپنی مرضیوں کو توڑتے ہوئے بھی اپنی ذات کی غلامی کرتے ہیں جبکہ عشق میں عاشق کی تو کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ سب مرضیاں معشوق سے وابستہ ہوتی ہیں۔ لیکن مرضیوں پر چلتے ہوئے ذات کی پیروی کرتے ہوئے عاشق بھول جاتاہے کہ اسے ذات کی پیروی نہیں کرنی ۔ معشوق کی خوشی اور رضامیں راضی رہ کر معشوق کی اس پہلی نظر کا قیدی بن کر رہنا ہوتا ہے جو وہ اپنے عاشق پر ازل میں کرتا ہے۔
عشق تو نام ہی تڑپ کا ہے۔ اور جب عاشق عشق میں تڑپ کو سینے سے لگاتا ہے تو چین سے نہیں رہ پاتا۔ عاشق کو تو کچھ نہیں چاہیے ہوتا ...اسے تو بس قربت کی تڑپ ہوتی ہے... اور قربت کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے ۔عاشق نے اس قرب کو پانے کے لیے ہرلمحہ خود کو مارتے ہی جانا ہوتا ہے ۔کبھی خواہشوں کو مار کر ...کبھی درد میںڈوب کر... تو کبھی عشق کی آگ میں کود کر.... کبھی جھک کر .....کبھی باطل کا سامنا کر کے.... ہر لمحہ خود کو مکاتے جانا ہوتا ہے۔ تب ہی تو عشق آباد رہتا ہے۔
عشق کے سفر میں آنے کے لیئے منتحب ہو جاناایسے ہی ہے کہ معشوق کی نظر کرم سے اجازت مل گئی اور دل کا در کھل گیا۔عشق کی اجازت ملنا ...عاشق کومنزل کی طرف بلا یا جانا ہے۔ یہ سفر تو درد.. تڑپ... جذبہ اور آگ میں جلنے کا ہے۔ یہ آگ تو بھڑکائے رکھنی ہے اور ہر وہ شے خود سے کاٹ کے اس آگ میں ڈالتے جانا ہوتا ہے جو ذات میں شمار ہوتی ہے تاکہ یہ آگ بھڑکی رہے اور بجھنے نہ پائے۔ جب کبھی عاشق کولگے کہ یہ آگ کم ہورہی ہے تو عاشق سمجھ جائے کہ یہ آگ اور تڑپ.... اور کٹنا مٹنا.... اور اپنا آپ مارنا... اور تڑپ... اور جنون..... مانگتی ہے... اپنے جلنے کو....لہذا یہاں اپنی ذات پر کام کرکے عشق کی آگ کو جلانا اور بھڑکانا ہوتا ہے۔ معشوق کے قرب کے لیے اپنے آپ کو کاٹنا جنون کی آگ کو بھڑکاتا اور منزل کے قریب لے جاتا ہے۔