جیش اسامہ کی روانگی
اس لشکر کی تشکیل رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے عہد مبارکہ میں ہی کردی تھی تاہم آپ کے وصال کے بعد ریاست الاسلامی کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات کے پیش نظر صحابہ کرام کی اکثریت اس لشکر کی فوری روانگی کے حقق میں نہیں تھی ۔ اس موقع پر آپ نے موقف اختیار کیا کہ اس لشکر کی تشکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بذات خودد فرمائی ہے اس لئے اس کی روانگی میں کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں۔ اس لشکر نے زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور فتوحاتت شام کا دروازہ کھول دیا۔

فتنہ منکرین زکوۃ
خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ نے سر اٹھایا وہ منکرین زکوۃ کا تھا۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ ان منکرین کے خلاف جہاد کیا جائےگا کیونکہ یہ غریبوں کو ان کا حق نہیں دیتے۔ آپ نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کی ضروریات یکساں ہیں اس لئے سب کو یکساں معاوضہ دیا جائے اور ان کی ضروریات بیت المال سے پوری کی جائیں۔

انسدادفتنہ ارتداد
ابوبکر صدیق کے دور کے شروع میں فتنہ ارتداد زوروں پر تھا لیکن صدیق اکبر کی مستقل مزاجی اور صبر سے اسلام پر خطرناک ترین دور بخیر و عافیت ان کی موجودگی میں ختم ہوا اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ آپ نے اس فتنہ کےے انسداد کی مہم پر حضرت خالد بن ولید کو مامور کیا جنہوں نے کئی مرتدین بشمول مدعی باطل طلحہ اور مسیلمہ کذاب جیسےے خطرناک عناصر کا مکمل خاتمہ کردیا۔

تسخیرعراق و شام
آپ نے مملکت اسلامیہ کے دونوں جانب موجود اس وقت کی بڑی طاقتوں کو للکارا ۔ ایک جانب شام پر تسخیر کی خاطر پہلے حضرت اسامہ بن زید کے لشکر کو شام روانہ کیا جس نے قیصر روم کی افواج کو شکست فاش دے کر شام کی فتوحات کا آغازز کیا۔ بعد ازاں حضرت ابوعبیدہ ا بن الجراح اور یزید بن ابوسفیان کی قیادت میں لشکر کشی جاری رہی یہاں تک کہ یہ جنگی لحاظظ سے اہم ترین صوبہ قیصرروم کے اقتدار سے نکل کر اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا۔
دوسری جانب حضرت خالد بن ولید اور حضرت مثنی بن حارثہ جیسے مایہ ناز جرنیلوں کے زیر قیادت فوجیں روانہ کرکے شاہ کسری کے اقتدار پر زبردست ضرب لگائی ۔

تدوین قرآن
عہد خلافت میں آپ کے زریں کارناموں میں ایک قرآن پاک کو یکجا کرکے ایک مصحف کی تشکیل کرنا ہے۔
اس کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ عربوں میں سٹوریج کی قوت کو نہایت اہمیت حاصل تھی۔ کسی بھی چیز کو سٹوریج کی بنیاد پر یاد رکھنا ، تحریر ی صورت میں یاد رکھنے پر فوقیت رکھتا تھا۔ اسی لئے صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد کو قرآن کریم کا بیشتر حصہ حفظ تھا۔ عہد صدیقی میں جنگ یمامہ ہوئی جس میں حفاظ کرام صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ آنے والے دور میں حفاظ کی کمی کے باعث قرآن کریم میں اختلاف پیدا نہ ہوجائے۔ آپ نے یہ رائے صدیق اکبر کے سامنے رکھی کہ *قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جائے۔ آپ نے اول تو انکار کیا مگر جب اکابر صحابہ نے اصرار فرمایا تو آپ (صدیق اکبر) نے اس کو قبول فرما لیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت کو اس قرآن پا ک کو ایک مجوعہ کی شکل میں مرتب کرنے کا حکم دیا جنہوں نے صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ اور متفرق اورا*ق کو یکجا کرکے یہ خدمت انجام دی۔ بعد ازاں حضرت عثمان رضي الله عنه کے دور خلافت میں اسی صحیفہ سے نقول کروا کر دیگر صوبہ جات میں بھجوائی گئیں۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے وقت صحابہ کرام کی تسکین کی خاطر کے لئے آپ کی استقامت اور خطبے کے ذریعے ان میں تسکین قلب پیدا کرنا اور امت میں انتشار کے خدشہ کے پیش نظر بار خلافت قبول فرمالینا، قرآن کریم کی تدوین مرتدین اور منکرین زکوۃ سے اعلان جہاد، حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں شام کی جانب لشکر روانہ کرنا اور اس عزم پر ثابت قدم رہنا ،مملکت شام کی جانب افواج کی روانگی اور انہیں کمک پہنچانا، خلافت اسلامی کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع واستحکام اور عامتہ المسلمین کی فلاح کے لئے اقدامات،اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرنا آپ کی دینی و مذہبی خدمات کے کارہائے نمایاں شمار ہوتے ہیں۔